Home » پوھوزانت » سورج کا شہر، گوادر ۔۔۔ شاہ محمد مری

سورج کا شہر، گوادر ۔۔۔ شاہ محمد مری

عبدالباسط شیخی کا تعلق ( پیدائش23ستمبر1981، چاہ بہار)مغربی بلوچستان یعنی ایران کے چاہ بہار شہر سے ہے۔ ایک صحت مندجوان، ہو بہو مکران کا بلوچ۔ قد مناسب، جسم متوازن، بلوچ رنگت ۔ مزاج میں متین و سنجیدہ، با حجاب و منکسر ۔ کوئی گھمنڈ کبر نہیں، کوئی شو،شانہیں۔ سادہ ،صاف اورستھرے من کا مالک نوجوان۔اصول ضابطے کا آدمی۔ ایک عظیم آرٹسٹ کے خُوبو کا انسان ۔ بہت ہی شیرین فطرت ۔
شیخی اُس کا ذیلی قبیلہ ہے جبکہ بڑے قبیلے کا نام ملازئی ہے۔ ملازئی شاید ایران کے بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ اسی طرح خان زئی بھی وہاں کااچھا خاصا بڑا قبیلہ ہے۔ ’’ بدپا‘‘ بھی بڑے قبائل میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ سردار زئی، حمل زئی نام کے قبائل قابل ذکر ہیں۔
باسط خود چاہ بہار کا نہیں، پیشین کا ہے۔ چاہ بہار کے باشندوں کو ’’ امانی‘‘ کہتے ہیں۔ جو ماہی گیر( مید ) ہیں۔
وہاں گوادر میں ملا تو جیسے ایک ارمان پورا ہوگیا ہو۔ میں اس بڑے آرٹسٹ کے کام سے خوب واقف تھا ۔آرٹ تو انسانی روح کو جمالیات عطا کرتا ہے ۔ ایک نرمگی عطا کرتا ہے قلب ورویوں کو۔ یہ تہذیبی سطح کو بلند کرتا ہے۔ باسط نے اپنے اندر موجود ٹیلنٹ پر ہی بھروسہ نہ کیا بلکہ خوب محنت کرکے اُسے اجلا، ستھرااور مزید تخلیقی بنادیا۔
آج ملا تو جیسے برسوں کا شناسا دوبارہ دیدار کرارہا ہو۔ ہم نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ اُس نے بتایا کہ چاہ بہار میں کوئی ادارہ وغیرہ تو نہ تھا جہاں سے وہ باقاعدہ آرٹ سیکھتا، لیکن چونکہ اسے بچپن میں ہی آرٹ اچھا لگتا تھا تو اس کے والد عبدالغنی نے اس کی خوب حوصلہ افزائی کی ( وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے)۔ والد خود بھی آرٹسٹ تھا مگر وہ پروفیشنل آرٹسٹ نہ تھابس شوقیہ ڈرائنگ اور پینٹنگ کرتا تھا۔
ہم نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔اُس خاموش طبع نے کم، میں نے زیادہ۔ اور جب میں نے اُس کے اپنے بارے میں بہت پوچھ گچھ کی تو اس نے بالآخرگویا سیشن ختم کرانے کی خواہش میں پوچھا، ’’آپ تاج بریسیگ کو جانتے ہیں؟‘‘۔ میں نے کہا ہاں، میرا محترم دوست ہے وہ‘‘ ۔ تو بولا ’’ وہ میرا چاچا ہے ‘‘۔اور میں ڈاکٹر تاج بریسیگ اور اُس کی باوقار بیگم کی باتیں کرنے لگا جو اپنی گراں قدر بیگم کے ساتھ یہاں بلوچستان یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پروفیسری کرنے آیا تھا ۔مگر سویڈن کا رہائشی تاج ،کوئٹہ کے رویوں کی کرختگی کی دیر تک تاب نہ لاسکا اور واپس یورپ چلا گیا۔بلاشبہ بلوچستان دنیا بھر کے بلوچوں کا سرچشمہ اِنسپیریشن ہے۔مگر، شاید ابھی تک یورپی بلوچوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
دو بچوں کا باپ باسط حدوحساب سے زیادہ بڑاآرٹسٹ ہے ۔اس کی اب تک سات نمائشیں گروپ میں، اور پانچ سو لو نمائشیں ہوچکی ہیں۔
باسط کے شہر چاہ بہار کے دو اور بڑے آرٹسٹ ہیں: اِن میں سے ایک تو محترمہ سیما سردار زئی ہے جوبلوچ عوام کی خواہشوں کی ترجمان اوربین الاقوامی سطح کی آرٹسٹ ہے۔ سماجی معاملات بالخصوص عورتوں کے بارے میں پینٹ کرتی ہے۔حسن یادگار زادہ تو رنگوں کا بادشاہ ہے۔ جدید تقاضوں سے آشنا، اپنے وطن کی حقیقتوں سے باخبر۔یہ تینوں ہم بلوچوں کا’’ نرم چہرہ‘‘ ہیں۔ ہمارے سفیرہیں۔
باسط جان کا مشن ہے کہ وہ بلوچ شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور آرٹسٹو ں کو دنیا کے سامنے متعارف کرائے۔
باسط نے ماما عبداللہ جان جمالدینی ، عطا شاد ،مبارک قاضی ،کمالان، جواں سال اور بے شماربلوچ آرٹسٹوں اور علم و ادب سے وابستہ لوگوں کی بہت ہی خوبصورت پینٹنگز بنائی ہیں۔ اس کی بے شمار پینٹنگز کومیں سنگت کا ٹائٹل بناتا رہا ہوں۔
انٹرنیٹ اور ای میل کی آفاقی مہربانیوں کی بدولت اُس سے میری سلام دعا تھی ۔ مگر یہاں تو آج اس کی پینٹنگز کی نمائش رکھی گئی تھی ۔ لہٰذا وہ موجود تھا۔ میں اس سے بغلگیر ہوکر کتنا خوش ہوا تھا۔ مگر یہ خوشی اُس وقت اعتماد و فخر و اطمینان اور گہری دوستی میں ڈھل گئی جب اُس کا افتتاح کرنے کو مجھے منتخب کیا گیا۔ مجھے پتہ ہے اُسے بھی بہت خوشی ہوئی تھی۔
یہ نمائش باسط جان کے ساتھ ساتھ گوادر کی دو عورت آرٹسٹوں کے فن کی بھی تھی۔ ہم اُن تینوں کے آرٹ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے۔پورا شہر اور گردونواح امڈ آیا تھا یہ نمائش دیکھنے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ ساری نمائش باسط کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دیکھی۔
اُس نمائش کے فوراً بعدسیمینار شروع ہوا ۔یہ سیمینار بلوچی زبان کا ایک ابھرتا نوجوان، پروفیسر، اے آر داد (عبدالرزاق داد)کنڈکٹ کررہا تھا ۔علم کا پیاسا، کتاب کا دلدادہ اور تخیل و تفکر کا دھنی اے آرداد۔ وہی اِس علمی سمینار کا منتظم تھا۔بس، اِسی سے اس سیمینار کی علمیت اور اعلیٰ معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اے بلوچستان، تمہیں بلوچستان کا واسطہ ہمیں بڑی تعداد میں اے آرداد جیسے لوگ بخشتے رہنا!
مقررین نے بنیاد پرستی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مدلل اور قائل کنندہ تقریریں کیں۔ مطالعہ کی عادت اپنانے اور بحث مباحثہ کرنے کی اہمیت واضح کی اور بلوچی کلاسیک اور فوک سے دلچسپی پیدا کرنے تلقین کی ۔ بلوچستان میں موجود فیوڈل سرداری نظام اور مرکزی حکومتی اداروں کی ملی بھگت کو موجودوقائم عوام دشمن، استحصالی اور گھٹن کے ماحول کا ذمہ دار قرار دیا۔ ذکری اور شیعہ بلوچوں کے قتل کو ریاستی پالیسی کے تسلسل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچ مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی طریقے سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے انتہا پسند جتھوں کے قیام اور فرقہ واریت کے نام سے انسانوں کا قتل کوئی کام نہ دے سکیں گے۔ سرکار اور سردار بلوچ مسئلے کا سبب ہیں۔
اس سیمینار میں کے بی فراق اور عبدالباسط شیخی ادب اور آرٹ پر پرمغز بولے ۔ میں نے بھی اپنی ’’ گنوخ سُدھا‘‘ باتیں کیں۔
اسی دوران سکولی بچوں کے درمیان مضمون نویسی کا مقابلہ بھی کرایا گیا، اور مصوری کا بھی۔ اس کے علاوہ پسنی کے آرٹسٹوں نے ساحل پر ریت کے فن پاروں ( سینڈ آرٹ) کی خوبصورت نمائش منعقد کی۔
گوادر جب بھی جائیں وقت کی کمی کا احساس ہوتا جاتا ہے ۔ہمیں پندرہ سال پرانا گوادر، سمندر،اور جیٹی دیکھنا تھا۔ ایک کار موٹر ، دو کار موٹریں، تین ۔۔۔۔۔۔ ہم بھیڑوں والے ریوڑ کی طرح ایک ایک کرکے سب جیٹی پہنچے۔ ارے یہ تو وہی دیکھا بھالا علاقہ تھا۔ البتہ اب اُس کی وہ اہمیت نہ رہی تھی ۔ جیٹی آج دو شادیوں والے خاوند کی پہلی بوڑھی بیوی نظر آرہی تھی۔ لائن میں گھونٹیوں سے بندھی کشتیاں ، نیلا م ہال میں بکتی ہوئی مچھلیاں ، محنت کش میدو ماہی گیر۔ ۔۔۔۔۔۔مگردیواروں پہ چینیوں کا نہ کوئی بکواس فقرہ تھانہ یہاں کوئی سپاہ و چوکیدارموجود تھا۔۔لہٰذا ہم ذہنی اور بدنی دونوں اعتبار سے کھلے ڈلے عام سے انسان تھے۔
بھوک لگی ہوئی تھی اور سعدیہ بلوچ نے نہ صرف مچھلی خریدنے کی فرمائش کی بلکہ اس کو خودپکانے کا انتظام کرنے کا حکم بھی دیا۔ ایسی صورت میں ہمارے حسن مولانغ، یعنی جیند خانِ المست نے جبلی سرعت کے ساتھ اپنا بٹوہ نکالا۔ مجھے لگا کہ اگر کچھ اور کی فرمائش بھی ہوئی تو آج نوشکی کے قریب اُس کے آبائی علاقہ یعنی بٹو میں اُس کے خاندان کی زمین کا تیسرا حصہ ، گوادریوں کے ہاں رہن ہوجائے گا۔ ’’جی ، جی ‘‘میرے ا س حبیب کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ اتنے جی تو اگلی کو اُس کی مکہ ماں نے بھی نہ دی تھیں!!۔
ہم مچھلی سے لدے پھندے جیند خان کی ڈرائیوری اور بجارو گلزارو رفیق و عابدو ثاقب وضیاکے ساتھ ،چاکری گھڑ سواروں کی تیزی تندی میں وسعت یافتہ گوادر کی گلیاں چومتے بجار کے بن فیملی گھر پہنچے ۔ ہم تو بیٹھے پنکھے کے نیچے، اور باقی احباب سعدیہ کی ہیڈ ماسٹری میں باورچی خانے میں ۔آج (بھوک)؟ کے ہاتھوں ہملِ جیند کے سارے بچے، باورچی بن چکے تھے۔ بڑھ بڑھ کے برتن مانجھ رہے تھے ، پیاز کے ساتھ آنکھیں دھور ہے تھے، منمنارہے تھے، گنگنا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بلوچی ادب میں کردارنگار گورکی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔
ہم نے برنج میں ماہی ، یا ماہی میں برنج والی ڈش پہ ہاتھ صاف کیے۔ ہمیں فیوڈل ازم کے غلیظ جوہڑ میں پرورش یافتہ پیاسے اور محرومیت زدہ نوجوان دلوں کے احترام میں آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ نیچے کرنے میں عافیت اورسکون محسوس ہورہا تھا۔
ہم نے خوب کھایا اور تھال خالی کردیے۔ہم کسی بھی طرح بیورغ نہ تھے اور ہمارے ساتھ کوئی شاہی مالِ غنیمت نہ تھا۔ لہٰذا ہم نے اگلے کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی خاطر نہ غالی کے نیچے کھانا پھینک کر تھال خالی کیے، اورنہ دریچوں سے باہراچھال کر میزبان کو پیٹ بھر کر کھا چکنے کا یقین دلایا۔اس لیے کہ ہم گراں ناز لے اڑے تھے اور نہ یہ گھرگوۂرام لاشاری کا عطا کردہ اوطاق تھا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *