Home » پوھوزانت » محمد بیگ بیگل ۔۔۔ جی آرشاری

محمد بیگ بیگل ۔۔۔ جی آرشاری

محمد بیگ بیگل زبان و ادب کا وہ نام ہے جس نے بلوچی ادب میں طنز و مزاح کے صنف کو متعارف کر کے خاموش ہونٹوں پر مسکراہٹ کی جھلک اور اپنے فنی مہارت سے لفظ و بیان میں ایک قسم کی چاشنی پیدا کی ہے ۔ محمد بیگ بیگل انتہائی با ہمت پر عزم اور ملنسار انسان ہے۔ وہ 86سال کی عمر میں بھی بلوچی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کیلئے محو جدوجہد ہے اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اگر مجھے زندگی کا ایک اور موقع عطاء کرے تو میں پھر وہی کام کرونگا جو میں ہمیشہ سے کرتا چلا آ رہا ہوں۔ ان کی تصانیف میں زنڈیں د پار، جو کر ، برزخ ،اور شکل و ماجین بلوچی ادب میں کافی پزیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ وہ نہ صرف طنز و مزاح لکھتے ہیں بلکہ وہ اچھے مترجم ، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ میجر ای موکلر کی مرتب کردہ کتاب ’’ بلوچی گرائمر ‘‘ کو ترجمہ کر نے کے ساتھ اپنے افسانے اور کہانیوں کو انگریزی ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مقبول ڈراموں میں ’’ ڈاکٹر، بانکلینک ،آپریشن ‘‘ وغیرہ بھی ان کی ادبی کاوشوں میں شامل ہیں ۔ بیگ صاحب سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بلوچی زبان کے نامور مزاحمتی شاعر میر گل خان نصیر کی یادمیں منعقد ادبی کانفرنس میں شرکت کیلئے آ ئے تھے اس موقع پر ان کے ہمراہ بلوچی زبان کے نامور غزل گو ظفر علی ظفر اور علی عیسیٰ بھی بلوچی اکیڈمی میں قیام پذیر تھے۔ بلوچی زبان و ادب کے حوالے سے گفتگو کے دوران ان کامخصوص انداز اور ٹھہراؤ والی خوبصورت آ واز میری یادوں میں روز اول کی طرح آج بھی تازہ اور محبوب ہے۔ بیگل انتہائی ذہین اور نرم گفتار انسان ہے اندر سے ٹوٹے ہوئے موم بتی کی مانند اپنے وجود کی بقاء سے لڑتے ٹمٹا تے غم کے اندھیروں کو روشنی میں بدل رہے ہیں ۔محمد بیگ بیگل کو ہم نے دیکھا کم، اور پڑھا بہت ہے۔ اسے پڑھتے وقت کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں کچھ پڑھ رہا ہوں ۔ان کی نگارشات میں فنی مہارت اور لفظ و بیان کی گرفت اس قدر مضبوط و توانا ہے کہ قارئین خود کو ان کے خیالات و تصورات کا ایک کردار سمجھ کر خاموشی کو مسکراہٹ میں بدل دیتا ہے ۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’برزخ‘‘ میں اپنے ہم عصر شعرا ء ادباء کا ذکر اپنے خوبصورت مزاحیہ انداز میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ واقعات و حالات کے ساتھ ہی ان سے متعلق دلچسپ اور کم مصروف باتوں کو بڑے خوشگوار انداز میں قلم بند کیا گیا ہے جس سے ان شخصیات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی ادبی کاوشوں اور کو ششوں کے حوالے سے بہت متنوع ٹیلنٹ اور کارناموں کے حامل انتہائی دلچسپ لوگ تھے ۔ اپنی فنی مہارت، انس و محبت اور تہذیب و شائستگی کے ساتھ انھوں نے تعمیری انداز فکر سے ان شخصیات کے روشن پہلوؤں کو ہی زیادہ اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے اور ذاتی کمزوریوں کے ذکر سے کسی حد تک اجتناب کیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ مزاحیہ اور پُر لطف واقعات کا ذکر اپنی جملہ سازی میں لفظ و بیان کے پیرا ہن میں پوشیدہ کر کے بیان کیا ہے مگر وہاں پر بھی حد ادب کا لحاظ ملحوظ رکھا ہے ۔وہ اپنی نگار شات میں کبھی تنقید بھی کرتے ہیں مگر ان کی تنقید تعمیری انداز فکر اور اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے مزاحیہ اسلوب کا لبادہ اور ذکر کے پہلے ہنساتے ہوئے پھر احساس فہم و اصلاح کی طرف زور دیتے ہیں۔ ان کی تنقید کا پہلو تخلیقی قوت کو بڑھانے اور نکھارنے سنوارنے کیلئے شعراء ادبا کی عزت افزائی اور دلجوئی اشد ضروری ہے۔ بالخصوص قوم کی عدم پزیرائی اور تعاون کے باعث اکثر انسان کی تخلیقی صلاحیتیں آ ہستہ آ ہستہ مردہ ہونے لگتی ہیں۔ اب ضرورت اس مر کی ہے کہ اس دلچسپ مزاحیہ صنف سے نسل نو کو متعارف کرنے اوراسے مزید وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کیلئے مزاحیہ انداز میں تنقیدی شعور کو اجاگر کرنا انتہائی ناگزیر عمل ہے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *