Home » پوھوزانت » سماج مخالف رویے ۔۔۔ وحید زہیر

سماج مخالف رویے ۔۔۔ وحید زہیر

جب آپ کا فکر و وجدان آپ کی دسترس میں ہو ۔ زندگی اور موت کی سچائی نس نس میں ہو۔ احترام آدمیت ہر کس و ناکس میں ہو۔ امن کا آدرش ہماری نفس میں ہو ۔ ظلم و احتساب قفس میں ہو ۔ یہی تہذیب کی تنظیم ہے تعلیم و تفہیم ہے بصورت دیگر علم جہالت پر حاوی ہوگا ۔ بے ہنر باہنر کے مساوی ہو گا ۔ طاقت ور کی رونمائی ہو گی ۔ ہر طرف مایوسی چھائی ہو گی ۔سچ پر جھوٹ کی گواہی ہو گی ۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تو ہمارے معاشرے کو سماج مخالف رویوں کا سامنا ہے جس کا خلاصہء ثانی میں تذکرہ کیا گیا ہے کیونکہ ہر سو روح سے خالی تنظیم کاری جاری ہے جس کی وجہ سے بے حسی اور مردم آزاری ہے ۔ ہر عمل میں بے توقیری اور ناہمواری ہے ۔ جبھی تو سب کا رونا بوجہ بے اختیاری ہے ۔ کنویں کے مینڈکوں کے ٹرانے سے ا ن کے کسی مصیبت میں گرفتار ہو نے یا خوش رہنے کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے شہر میں فائرنگ اور چائنا بموں کے پھٹنے سے پتہ نہیں چلتا کہ کہیں کوئی شادی ہے یا قتل و غارت گری ہو رہی ہے ۔ ہمارے ہاں استاد کا طالب علموں کو نقل کی ترغیب دینا یا مدد فراہم کرنا ۔ وکلاء کا مدعی کے ساتھ فزیکل لڑائی میں شریک ہونا۔ یا مجرموں کی پشت پناہی کرنا میڈیا پر سنز کا بریکنگ نیوز کیلئے بڑے حادثات کی خواہش رکھنا ۔ تعمیر ی رپورٹنگ سے گریز کرنا سیاستدانوں کا بدعنوانی کے ذریعے سیاست کی آبیاری کرنا بغیر دولت و امارات کے آج کے رہنماؤں کو خود کو سیاست کا اہل نہ سمجھنا۔ کاروباری سبقت لے جانے کیلئے تاجروں کا مصنوعی مہنگائی کا سہارا لینا ۔ یہ اور ایسے بے شمار تہذیب مخالف رویوں سے ہمارے کچرہ دان ری سائیکلنگ کے اہم سورس بن چکے ہیں ۔ غریب بچے کوؤں کی طرح ان کچرہ دانوں کو اپنا مسکن بنا چکے ہیں ۔جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے پرندے باؤلے ہو کر روز ہماری قومی ایئر لائن کے جہازوں سے ٹکراتے ہیں ۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان پرندوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے ۔ یا بھوک نے انہیں سر ٹکرانے پر مجبور کردیا ہے۔اسی طرح تفریح کے ذرائع نہ ہو نے کی وجہ سے لوگ تھڑوں پر گدھوں کی طرح بیٹھ کر نہ صرف وقت گزاری کر تے ہیں بلکہ خرابی کے راستے بھی تراشتے ہیں ہمارے ووٹر ووٹ کی پرچی پر جوا کھیلتے ہیں۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جوا کھلانے کا ٹاٹ روز سجتا ہے ۔ جنگل کے انسان نے اپنا ستر چھپانے کیلئے پہلے پہل پتوں کا سہارا لیا ۔ پھر انَ سلے کپڑوں تک رسائی حاصل کی جس کے بعد ترقی یا فتہ شکل میں سلائی کڑھائی پر دسترس حاصل کی لیکن اب لباس میں اس کا دم گھٹ رہا ہے اس لئے وہ دوبارہ بے لباس ہو نے جارہا ہے ۔جہاں رائفل شوٹنگ کے مقابلوں میں ہزاروں لوگ شریک ہوں وہاں ایک ادبی تقریب میں بھلا کیوں سو لوگ شریک ہوں گے۔ کیونکہ اسلحہ چلانا ہر شخص کی مجبوری بن گئی ہے یہاں تک کہ تخریب کاری کے واقعات روکنے کی بجائے حکومتِ وقت نے مسیحاؤْں اور اساتذہ کو اسلحہ رکھنے کی خود ہی ترغیب دے رکھی ہے اور تو اور خواتین اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کا اہتمام بھی کیاگیاہے۔ تہذیب مخالف رویوں میں اضافے کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پہلے کتوں اور مرغوںں کی لڑائی میں لوگ دل چسپی رکھتے تھے اب گھر بیٹھے لوگ ٹاک شوز میں دانشوروں۔علماء اورسیاستدانوں کی لڑائی کا تماشہ دیکھتے ہیں ۔بیچارہ اداکار۔ ڈائریکٹر دوستوں اور رشتہ داروں کو میسج پر اطلاع دیتے ہیں کہ ان کا ڈرامہ فلاں چینل پر دکھایا جارہاہے ضرور دیکھنا اس کے باوجودکوئی خوشگوار رسپانس نہیں ملتا اور بعد میں بہانا تلاشتے ہوئے مصروفیت کو آڑے آنے کی وجہ بتائی جاتی ہے حالانکہ اس کے وہی دوست۔ رشتہ دار اگر ٹیسٹ میچ ہو تو پورا دن اور اگر ٹی ٹونٹی ہو تو کئی گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہے گا۔یہی رویہ رائٹروں کے ساتھ ہو تا ہے کتاب مفت بھی دی جائے پڑھی نہیں جاتی ۔ بیچارہ مصنف ہر تقریب میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے درجن بھر کتابوں کا بار بار تذکرہ کرکے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر تا ہے ۔ ایسے اقوام کسی بھگڈر میں کچلے نہیں جائیں گے توبھلا کیسے مریں گے۔ یورین بیگ لٹکا کر بھیک نہیں مانگیں تو پھر کیا کریں گے ۔بھانڈ بن کر جگت بازی نہیں کریں گے تو ان کا کھتا رسس کیسے ہو گا ۔ زندگی گزارنے کے نظریہ سے ناواقف نہیں ہوں گے تو خودکشی کا مزہ کیسے آئے گا ۔ خدا نے جان کر ایک فرشتہ کو شیطان بنایا تاکہ انسان کو فرشہ بننے میں دقت نہ ہو ۔ اس علامت کو ہم نے اپنا کر سارے الزام شیطان پر تھونپ دیئے۔ یا پھر شیطان کا سارا معاملہ خدا پر چھوڑ کر خود کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیا ۔ہم نے اپنے سٹفن ہانگز کی خو ب حوصلہ شکنی کی ۔ نہ جانے کتنے مارکس اور لینن مار چھوڑے اور تو اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیمات سے بھی رو گردانی کی اور توا ور موجودہ دور کے صوفیاء کی حوصلہ شکنی میں بھی پیش پیش ہیں ۔ ان معاشروں میں ایسا ہی ہو گاجہاں پیٹ کا معاملہ ناف سے اوپر رہے گا ۔جبھی تو ہماری آنکھ کی بھوک نہیں مٹ رہی ۔ ہماری بینائی پر خوراک کی چربی چڑ ھ چکی ہے ۔ جس آدم کو معمولی غلطی پر جنت سے نکالا گیا تھا اسے بھلا اتنی خرابیوں کے ساتھ دوبارہ کیسے قبول کیا جائے گا۔ یہ جنت او ر دوزخ دراصل ادب وآداب کا معاملہ ہے ۔ وہ خالی روح جن میں ایسا کوئی معاملہ بستا ہی نہیں جس سے روشنی پھوٹتی ہو۔ اسے تہذیب سے کیا لینا دینا ۔ تہذیب کے پروردہ یورپ کے ایک ادیب کا کہنا ہے “اگر ہمارے مقبوضات ۔سلطنت ایک طرف رکھ دیئے جائیں اورشیکسپئر کا لٹریچر دوسری طرف اورہم سے کہا جائے کہ ان سے ایک چیز پسند کرلو تو ہم بلا تامل کہہ دیں گے کہ ہماری ساری سلطنت و حکومت لے جاؤ لیکن شیکسپئراور اسکے لٹریچر کو ہمارے لئے چھوڑ دو کہ ہمارے لئے اسی میں بقائے حیات ہے”(نگارستان ۔ نیاز فتح پوری صحفہ 19)۔جبکہ ہمارے ہاں ادب اور ادیب کو روزاول سے مسند نشینوں کیلئے خطرہ سمجھا جارہاہے ۔ ادب کو برائے ادب کا نام دے کر اس کی اہمیت کو دبایا جاتا رہا ہے عوامی ادباء و شعراء کو غدار ء وطن قرار دے کر اقتدار کی طوالت کیلئے آب حیات حاصل کرنے کی مکاری جاری ہے جبھی دروغ گوئی سودمند ثابت ہوتارہاہے ۔ جس کے بعد سود کا کاروبار تو زوروں پر ہو گا ۔ذراملاحظہ ہو اندازاً 20کروڑ کی آبادی میں دس کروڑ کو خوبصور ت میسجنگ۔ فیس بک پر دنیا کے کمالات اور باقاعدہ ایک دوسرے سے رابطوں کی سہولت حاصل ہے جبکہ 19کروڑ کی آبادی کو بیک وقت تین سو چینلوں پر نشریات سے چوبیس گھنٹوں میں اوسطً پانچ گھنٹے ضرور واسطہ پڑتا ہوگا۔ اس کے باوجود بےْ حسی ۔ لاپروائی۔ ضد۔ انا ۔ تشدد ۔غیر ذمہ داری لاتعلقی جیسی بیماریوں میں اضافہ حیرت کاباعث ہے ۔۔۔۔ ویسے لفظ حیرت مجھے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم ترقی کے پائیدان پر مصنوعی ٹانگ لیکر تیز تیز چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حقیقی سائنسی ارتقاء سے جڑت میں غیر سنجیدگی کی سزا ہے ۔ہمارے بادشاہوں نے باغیوں سے جان چھڑانے کیلئے انہیں فطرت سے بغاوت کے کام پر لگادیا ہے جس کے بعد سماج مخالف رویوں نے علم کے غبار سے نہ صرف ہوا نکالی ہے بلکہ اس میں چور پنکچر بھی رکھ دیا ہے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *