Home » پوھوزانت » چھٹی سنگت کانفرنس ۔۔۔ رپورٹ: شبیر رخشانی

چھٹی سنگت کانفرنس ۔۔۔ رپورٹ: شبیر رخشانی

چھٹی سنگت کانفرنس کی مناسبت سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے تقریبات کا انعقاد بلوچی اکیڈمی میں منعقدکیا۔ مرد و خواتین کی بڑی تعداد نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ اور سب سے اہم بات نوجوانوں کی کثیر تعداد اس پروگرام کا حصہ بنی۔پروگرام کا آغاز فرخندہ اسلم نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام کے پہلے حصے میں جیند جمالدینی کو صدارت کے لیے بلایا گیا تو اس موقع پر اس نے پہلے سنگت اکیڈمی کا خاکہ شرکا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز ترقی پسند ادبی تحریک کی تسلسل تنظیم ہے۔ اس ادارے نے معاشرے میں ترقی پسند سوچ کے فروغ، ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اور فکر و آبیاری میں مصروف اپنا کردار نبھانے کی کوشش کی ہے۔ اس لٹ خانے کا تسلسل کئی مراحل سے گزرتا ہوا سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ اور اسی پلیٹ فارم پر شاہ محمد مری کی سرپرستی میں پہلے نوکیں دور کا اجرا کیا گیا اور اب یہ ماہنامہ سنگت کی شکل میں موجود ہے۔ اور اسی تنظیم کے پلیٹ فارم پر ایک ادبی پروگرام پوہ و زانت ادیبوں کو ہفتے ماہوار اکٹھا کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہے۔دو سالہ سیکرٹری رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ نومبر 2013کو کابینہ نے حلف اٹھا لیا تھا۔ جس کے تحت اب تک 18نشستیں منعقد کی گئی ہیں۔ جنرل باڈ ی اور کابینہ کے دو دو بار اجلاس بھی منعقد کیے گئے ہیں۔دوستوں کی مشاورت سے 2014کو گل خان نصیر کے صد سالہ جشن ولادت کے طور پرمنایا گیا۔ اور اب تک کی ہونے والی نشستوں میں گل خان نصیر پر 12سے زائد مضامین بھی پڑھے گئے۔ سنگت اکیڈمی اپنے بچھڑے ساتھیوں کو بھی نہیں بھولی۔ نادر قمبرانڑیں، خدائیداد خان، سلطان نعیم قیصرانڑیں؛ عبدالصمد امیری اور دیگر کو پروگراموں میں یاد رکھنے کے لیے ان پر مضامین بھی پڑھے گئے۔اسی سال سال سنگت نے ہم خیال تنظیموں کے ساتھ دوستی کے معاہدے کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے آماچ ادبی دیوان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور بلوچستان ادبی فورم میں شرکت کی۔
نو منتخب کابینہ سنگت اکیڈمی سے جئیند خان جمالدینی نے حلف اٹھایا ۔حلف اٹھانے والوں میں سیکرٹری جنرل عابد میر،ڈپٹی سیکرٹری ساجد بزدار، فنانس سیکرٹری سرور آغا، آغا گل، خیر جان بلوچ، نورین لہڑی، افضل مراد، کلا خان، ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو، ڈاکٹر منیر رئیسانی، پروفیسر جاوید اختر، آزات جمالدینی جونیئر، فرخندہ جمالدینی شامل تھے۔ جنہوں حلف اٹھاتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ بلوچستان میں شعبہ ادب کے بقاکی جنگ لڑیں گے۔جس کے بعد عابد میر نے جیند خان جمالدینی کی جگہ صدارت کی نشست سنبھالی۔
سعید احمد کرد نے اپنا مقالہ ’’ سنگت تراجم کے سلسلے کی کتابوں پر تبصرہ ‘‘ پیش کیا۔ انہوں نے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے ترجمہ شدہ کتابوں پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ادارے کی جانب سے اب تک7کتابیں اردو ، بلوچی، اور براہوئی زبان میں شائع کی جا چکی ہیں۔جس میں جینی مارکس کے خطوط، گندم کی روٹی، دز ءْ کچک، آزادی، جہاں جسکیں دہ روش، کرنلا کس کاگد نبشتہ نہ کنت، بزغرنامسٹر شامل ہیں۔
وحید زہیر کا مقالہ ’’ سماج مخالف رویہ ‘‘ شرکا سے داد وصول کیے نہ رہ سکا۔ مقالے نے ناظرین کو اپنی سحر میں جکڑ کر رکھ دیا تھا ۔ناظرین اس کے ختم نہ ہونے کی دعائیں کر رہے تھے۔ معاشرتی بے حسی، تہذیب مخالف رویے انسانی اقدار کو اپنی نثر نگاری کی ۔بندھن میں باندھے رہے۔ ’’ ایک وقت تھا کہ بشر درختوں سے نکل اپنے جسم کو ڈھانپنے کے لیے لباس کا انتخاب کر چکا تھا اب اسی لباس میں انسان کا دم گھٹ رہا ہے اور اب وہ بے لباس ہونے جا رہا ہے ‘‘۔
پروفیسر ساجد بزدار نے اپنا مقالہ ’’ عہد حاضر۔۔ ادب و سماج‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ ’’ مقصدیت کے بغیر ادب کچھ نہیں ہوتا اور مستقبل کے خطرات کو محسوس کرکے ادیبوں کا خاموش رہنا کیا جرم نہیں؟‘‘
نورین لہڑی نے اپنا مقابلہ ’’ گلوبلائزیشن میں براہوی زبان کا مستقبل‘‘ پیش کیا۔ جس میں انہوں نے یونیسکو کی اس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں بیشتر زبانیں عنقریب خطہ زمین سے مٹ جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ زبان کی بقا قوموں کی بقا میں ہے۔ اس کے حوالے سے جدو جہد کرنا کی ضرورت ہے۔
پروگرام کا دوسرا حصہ شعری دیوان دانیال طریر کے نام پر رکھا گیاجس میں شعرا نے اپنا کلام سنایا، شاعری کے اس حصے میں جہاں غریب شاہ انجم، آزات جمالدینی جونیئر، عبداللہ بلال، خیام ثنا، خالد میر، عجب خان سائل، ڈاکٹر اعظم بلوچ، افضل مراد، لیاقت صغیر، بارکوال میاں خیل، محمود ایاز، صائمہ خان، عبدالحمید، اورشاہ بیگ شیدا نے اپنا کلام سنایا تو وہیں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو اور ڈاکٹر منیر رئیسانی بھی اس مقابلے میں کہیں پیچھے نہ رہے اور وقتاً فوقتاً خوبصورت شاعری سے شرکا کو محظوظ کرتے رہے۔
اس موقع پر عابد میر نے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ذمہ داری ہی ذمہ دار بناتی ہے اور جو ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے کوشش رہے گی اس کا بوجھ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اس نے کہا کہ تنظیم میں خواتین کی شمولیت اسے مزید توانائی بخشے گی اور ادب کا شعبہ مزیدپھلے پھولے گا۔
پروگرام کے اختتام پر قراردادیں بھی منظور کی گئیں:
1۔سنگت اکیڈمی ایک بار پھر اس بات پر زور دیتی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، اس کا کوئی بھی غیر سیاسی و عسکری حل ممکن نہیں ۔نیز بلوچستان کے ساحل و وسائل کے مستقبل کا فیصلہ بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں لے کر ہی کیا جائے۔
2۔بلوچستان میں فنونِ لطیفہ ، خصوصاً آرٹ اور موسیقی کی ترقی و ترویج کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔
3۔سماج میں خواتین کی حالتِ زار کی بہتری کے لیے ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے، نیز اہلِ قلم بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔
4۔تعلیم، نصابِ تعلیم اور سکولوں کی حالتِ زار کو فوری طور پربہتر بنایا جائے۔
5۔بلوچستان کے ماہی گیروں، کسانوں، مزدروں، ٹریڈ یونین سے وابستہ ملازمین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔
6۔ بلوچستان میں سیاسی عمل کو قبائلیت، سرداریت اور جاگیرداریت کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے اہلِ دانش اپنا کردار کریں۔

پروگرام منتظمین نے مطالعے کے شوقین کو پیاسا رہنے نہ دیا۔ اس پیاس کو بجھانے کے لیے نصف قیمت پر کتابوں کے سٹال بھی پروگرام کا حصہ بنے۔ جہاں مطالعے کے شوقین نے نہ صرف کتابوں کی خریداری سے اپنے آپ کو پیچھے نہ رکھا بلکہ اس کاوشوں کو سراہا بھی ۔پروگرام ہر صورت میں جامع تصور کیاگیا جس نے ادب دوست نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں اپنا اہم کردار نبھایا ہے۔ پروگرام میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی موجودگی ہی پروگرام کو خوبصورتی بخشنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے۔ عبدالستار پردلی کی کتاب جسے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ’’گندم کی روٹی‘‘ کا نام دے کر ترجمہ کیا ہے بک اسٹال پر توجہ کا مرکز بنی رہی۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *