Home » پوھوزانت » سرائیکی وسیب میں اُردو کی لسانی تشکیل ۔۔۔ اجمل مہار

سرائیکی وسیب میں اُردو کی لسانی تشکیل ۔۔۔ اجمل مہار

سرائیکی وسیب ابتدا میں قدرتی دولت سے مالامال سر زمین رہی ہے ۔ میٹھے پانی کا یہ خطہ جہاں انسان اپنی زندگی کی ضرورتوں کے مطابق قدرتی نعمتوں سے بھر پور فائدہ اُتھاتا آرہا ہے ۔زمانہ قدیم سے یہ علاقہ مختلف گروہوں اور اقوام کا پسندیدہ مسکن اور مختلف حملہ آوروں کی لوٹ مار کا برابر حصہ بنتا ہے ۔ بیرونی گروہوں کی اِس خطے میں آمد سے یہاں کے قدیم باشندوں پر شہنشاہی تسلط ‘ جبر و استحصال اور سماجی اور معاشی زیادتی کا باعث بنی رہی ہے ۔ اِس کے ساتھ ساتھ اِس علاقے میں سماجی ، ثقافتی اور لسانی اختلاط کا عمل بھی جاری رہا ۔ اِس لسانی اختلاط کی وجہ سے یہاں کی قدیم تہذیب اور خطے میں بولی جانے والی قدیم زبان پر جو اثرات پڑنے شروع ہوئے اُن میں لسانی تشکیل اور تغیر کا عمل بھی ہوا ہے ۔ سرائیکی وسیب میں بسنے والی قدیم نسل کی منڈاری زبان تھی ۔
منڈا قبائل کے بعد دراوڑ اِس خطے کی قدیم قوم ہے ۔ منڈا اور دراوڑ اِس خطے میں اکٹھے ہونے کے بعد دو تہذیبوں کا لسانی اشتراک کا عمل شروع ہوا۔ آریا وہ جنگجو قبائل تھے جنہوں نے وادی سندھ کی عروج یافتہ تہذیب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا لیکن قدیم تہذیب کی زبانوں کو آریا یکسر ختم نہ کر سکے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر رقمطراز ہیں ۔
’’ہم بڑے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ وہ قدیم زبان ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے باشندوں کی زبان تھی جس سے کہ آنے والا آریائی قبائل کو دو چار ہونا پڑا اور اِن کی آمیزش سے کئی بولیوں نے جنم لیا اور موجودہ زبانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ یہاں یہ امر بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ سنسکرت نے یہاں کی مقامی زبانوں کو محض متا ثر کیا ہے لیکن اِس نیست و نا بود زبان نے کسی نئی بولی کی طرح نہیں ڈالی ۔ ہاں یہ ہے کہ یہاں کی زبانوں کے زیر اثر خود ضرور ختم ہو گئی ۔‘‘
سرائیکی وسیب میں آریاؤں کی آمد سے قبل قدیم تہذیب جسے انڈس سویلائزیشن یا وادی سندھ کی تہذیب کا نام دیا جاتا تھا ۔ اِس تہذیب میں جو زبان رائج تھی وہ اُردو ، پنجابی ، ملتانی ، بہاولپوری وغیرہ سرائیکی وسیب میں ہی بولی جانے والی زبانوں کی قدیم شکلیں تھیں ۔ اِس کی تائید ڈاکٹر محمد باقر اِس طرح کرتے ہیں :
’’یہ زبان سات دریاؤں کی سرزمین کی پیداوار تھی ۔ جس پر آریاؤں نے شروع شروع میں قبضہ کیا تھا ، یعنی یہ آریاؤں کی زبان سے بھی قدیم تر ہے ۔ اِ سکی موجودہ مختلف شکلیں ، اُردو ۔ پنجابی ، ملتانی ، بہاولپوری ، خیر پوری ہیں ۔‘‘
منڈا اور دراوڑ کے بعد سرائیکی وسیب میں آنے والے ایک بڑا گروہ آریا قبائل تھے جو چار ہزار سال قبل مسیح وارد ہوئے ۔ آریاؤں نے یہاں کی تہذیب و تمدن کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا اور یہاں کے قدیم باشندوں پر اپنا تسلط قائم کر کے حکمرانی کرنے لگے ۔ آریا اِن قدیم لوگوں کو ’ داسو ‘ کہتے تھے اور اِ ن کی زبان کو ملیچھ بولتے تھے ۔
’’ ارضِ پاکستان کے قدیم دراوڑ ۔۔۔ اگر انہیں دراوڑ کہنا ضروری ہے ۔۔۔ تو اِن کا کوئی قریبی تعلق جنوبی پنجاب کے موجودہ دراوڑوں سے نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وادی سندھ کی قدیم زبان جسے بعض ماہرین نے پروٹو دراوڑی کہا اور میں نے پروٹو سرائیکی، اُسکا موجودہ دراوڑی زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ موجودہ دراوڑی اور پروٹو سرائیکی (ملیچھ) زبانوں کا ایک دوسرے سے رشتہ کم از کم 3000 ق م میں ٹوٹ چکا تھا ۔ اب اِس کے بعد موجودہ دراوڑی زبان جو سندھ تاس سے دور جا کر موجودہ حالت کو پہنچی اور سرائیکی جو اسی سرزمین پر موجودہ حالت کو پہنچی ۔ اِن میں سے سرائیکی کا قدیم حالت کے قریب تر ہونا زیادہ ممکن ہے ۔ ‘‘
ملتان میں ایک نئی زبان کی لسانی تشکیل کا عمل صدیوں پر محیط ہے جس وقت آریا قبائل وادی سندھ میں داخل ہوئے اُنہوں نے مقامی آبادی اور اُن کی زبان کو دبا کر اپنی زبان مسلط کرنے کی کوشش کی ۔ یوں ایک نئی زبان کی تشکیل سامنے آئی اِس کے بعد شمال سے ابھیرا قوم اِس خطے میں وارد ہو ئی اُنہوں نے چھٹی صدی عیسوی میں اپنی زبان اپ بھر نش کو اِس خطے میں رائج کیا ۔ ڈاکٹر روبینہ ترین لکھتی ہیں :
’’اپ بھر نش نے پرا کرت ، سنسکرت اور دیگر دیسی زبانوں کے مختلف الفاظ کو اپنے دامن میں سمولیا اور یوں وسیع اور مقبول ہوتی چلی گئیں۔ مختلف علاقوں میں اِس کے مختلف نام پڑنے لگے مثلاََ پشاجی اپ بھرنش ، شورسینی اپ بھرنش ، ماگدھی اپ بھر نش ، مہاشڑا اپ بھرنش ۔اپ بھرنش کے اثرات جگہ جگہ پھیلے ہو ئے تھے ، پنجاب اور سندھ کا علاقہ بھی اِس کے اثرات سے خالی نہ تھا ۔۔۔ شورسینی اپ بھر نش کا اثر سندھ اور ملتان کے علاقہ تک پھیلا ہو اتھا ۔ ‘‘
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
’’محمد بن قاسم نے 712ء میں سندھ اور ملتان فتح کیا تو یہاں ایک ایسی کھچڑی زبان بولی جاتی تھی جو یہاں پشاچی اثرات بھی رکھتی اور شورسینی اثرات بھی ۔ ‘‘
ابو ظفر ندوی کا خیال ہے کہ :
’’ سند ھ اور ملتان کی اصلی زبان جس میں وہاں کے عوام بات کرتے تھے وہ متعدد تھیں ۔ بھا ٹیا (بھیرہ ) سے لے کر سندھ کے بالائی حصے تک تو اُرد نا گری کا رواج یعنی نصف نا گری کیونکہ ہر مختلف زبانوں سے مل کر پچ میل زبان بن گئی تھی ۔ اِس زبان میں یہ لوگ خط و کتابت کرتے تھے اور کتابیں بھی لکھی جاتی تھیں ۔ سند ھ کے ساحلی علاقوں میں ملکاری زبان کا زیادہ رواج تھا ۔۔۔ لیکن منصورہ اور برہمن آباد میں ایک اور زبان تھی جس کو سین اَب (سندھی ) کہتے ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر مہر عبدالحق کا مو قف ہے کہ وادی سندھ میں بولی جانے والی اپ بھر نش اِس علاقے میں بولی جانے والی آخری زبان تھی جس کے بعد ملتانی اپنی اصل شکل میں سامنے آئی :
’’وراچڈہ اپ بھر نش وہ آخری زبان تھی جس کے بعد اِس علاقے میں سندھی اور ملتانی بولی جانے لگی ۔‘‘
شبیر حسن اختر کے مطابق وادی سندھ بشمول خطہ ملتان ہزاروں برسوں سے مختلف تہذیبوں کے ارتقاء کا نقطہ آغاز اور ارتقاکا مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں مختلف زبانوں کا مو لد بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ اُردو اِس خطے میں پیدا ہوئی اور پھر دکن اور دہلی جا کر پروان چڑھی ۔
ملتان ہزاروں برس سے وادی سندھ کی آغوش میں واقع ایک ایسے وسع وعریض خطے کا مرکز و محور چلا آرہا ہے جسے یہاں کے تہذیبی ارتقاء کا نقطہ آغاز کہا جا سکتا ہے اور آج کی مختلف زبانوں کا مولد اور معدن بھی ۔۔۔ اُردو زبان کی تکون اور پیدائش دریائے سندھ کے طاس میں ہوئی اور کس طرح یہ زبان دوسری سماجی پیداوار (Social Product) کی طرف سفر کرتے ہوئے گنگا جمنا کے دوآبے اور سطح مرتفع دکن جا کر جوان ہوئی اور وہیں درجہ بد رجہ ترقی کرتے ہوئے نقطہ کمال تک پہنچی ۔‘‘
سرائیکی وسیب میں اُردو کی لسانی تشکیل کا عمل وادی سندھ میں عربوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا بلکہ جس وقت انھوں نے سندھ اور ملتان کو فتح کیا اُس دور میں علما اور صوفیا اور عرب اور ایران سے چل کر وادی سند ھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے انہوں نے دینی درسگاہیں اور علمی مکتب تعمیر کرائے ۔ دین اور فقہی مسائل سے متعلق کتب اور رسائل تحریر کیے ۔ اُن کا برتاؤ مقامی لوگوں کے ساتھ نہایت قریبی تھا وہ اُن سے اُن کی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے اُن سے گھل مل جاتے اور اُن کو اخوت و مساوات اور بھائی چارے کا درس دیتے ۔ اِن علماء نے تبلیغ کے لیے جو ابلاغی ذریعہ اپنایا وہ مقامی اور عربی زبانوں کا لسانی اشتراک تھا ۔ جس کی بدولت سرائیکی وسیب میں ایک نئی زبان تشکیل کے عمل سے گزر رہے تھی ۔ اِس سلسلے میں ڈاکٹر روبینہ ترین لکھتی ہیں :
’’صوفیا کی ہندوستان آمد سے پہلے عرب نہ صرف اپنی تہذیب و معاشرت اور زبان و ادب کے اثرات مقامی باشندوں پر مرتب کر رہے تھے بلکہ سیاحوں اور مورخین کے بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود مسلمان بھی ہندو رسم و رواج اور زبان سے متاثر ہو رہے تھے اِس طرح نہ صرف مخلوط زبان کی بنیاد پڑ رہی تھی بلکہ ایک مشترکہ تہذیب بھی وجود میں آرہی تھی ۔‘‘
ملتان کی ہر دور میں اپنی الگ پہچان رہی ہے ابتداء ہی سے ملتان مملکت سندھ کا دارلحکومت رہا ہے ۔ سلطنت کا مرکز ہونے کی وجہ سے معاشرتی ، معاشی ، اقتصادی ، انتظامی اور عسکری امور میں جو دفتری خط و کتابت ہوتی تھی اُس کے لیے صوبہ ملتان اور اُس کے مضافات میں ملتانی جبکہ سندھ میں ملتانی اور سندھی زبان استعمال ہوتی تھی ۔ جس وقت یہاں عربوں کی حکومت قائم ہوئی اس وقت دفتری زبان عربی اور فارسی کے طور پر سامنے آئی ۔ اِس طرح صوبہ ملتان میں عربی ، فارسی ، ہندی ، ملتانی اور یہاں کی قدیم دیسی زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان کی تشکیل کا عمل رد نہیں کیا جا سکتا ۔
وادی سندھ میں صوفیاء کرام اور اہل سادات کے ذریعے سے زبان کی تشکیل و ترویج کا عمل شروع ہوا وہ اُمر اء اور حکمرانوں سے نہ ہو سکا ۔ ملتان اور اُوچ اولیا اور صوفیاء کے گڑھ تھے یہاں پر بہت سے علمی ادبی ادارے قائم ہوئے جہاں پر مقامی اور عربی فارسی اشتراک سے مذہبی اور اخلاقی تعلیم دی جاتی تھی جس سے مختلف زبانوں کا لسانی اشتراک سامنے آیا جو ایک نئی زبان اُردو کی تشکیل کا عمل تھا۔
عین الحق فرید کو ٹی لکھتے ہیں :
’’ملتان کے لوگوں نے پہلی صدی ہجری میں مقامی (ملتانی سرائیکی ) زبان میں ابتدائی حسینی منقبت تخلیق کی ۔ ‘‘
علامہ عتیق فکری لکھتے ہیں :
’’عباسی دورِ حکومت میں جب علویوں کا خروج ہوا تو ان سادات کے لیے خراسان سندھ و ملتان ایک لحاظ سے دارالامان تھا ۔۔۔ علویوں نے ملتان پر حکومت کی جن میں کچھ اسماعیلی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اُن کی زبان ہندوی (ملتانی) تھی ۔‘‘
وادی سندھ میں اسماعیلیوں کا پہلا مرکز اُوچ ملتان اور منصورہ تھا۔ وادی سندھ کی آٹھ ریاستوں میں اسماعیلیوں کا سب سے زیادہ زور ملتان میں تھا ۔ ملتانی آبادی کی اکثریت اسماعیلی شیعہ کی تھی ۔
سید نور الدین کے گنان ایسی ملی جلی زبان میں ہیں جو نہ مکمل سندھی ہے نہ گجراتی اور نہ ہی مکمل ملتانی ۔ سید نورالدین کے یہ گنان ملتان ، سندھ ، گجرات ، اُوچ ، کاٹھیا واڑ کسی ایک جگہ بھی نہیں بولی جانے والی زبان سے متعلق ہیں یہ گنان اُردو زبان کے اس تدریجی ارتقاء کا آئینہ دار ہیں جو آٹھویں صدی عیسوی سے گیارہویں عیسوی تک برابر جاری رہا۔
حضرت شاہ سبز واری ملتانی ،ملتان تشریف لائے آپ نے اسماعیلی کے نظریات کی ترویج اور تبلیغ کے لیے گنان کہے ۔ پیر شمس الدین کے اِن گنان میں عربی ۔ فارسی، ہندی ۔ برج اورسرائیکی (ملتانی ) زبان کے الفاظ صاف پہچانے جا سکتے ہیں ۔
یہ ملتان میں اُردو کی ابتدائی لسانی تشکیل کے واضح حوالے ہیں ۔ ڈاکٹر روبینہ ترین شاہ شمس سبزواری کی کتاب میں لکھتی ہیں :
’’شاہ شمس سبزواری کے گنان پر مشتمل چاروں جلدوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سوال پیدا ہواتا ہے کہ اُردو کے مراکز کا ذکر کرتے ہوئے ماہرین لسانیات جن علاقوں کا ذکر کرتے ہیں اُن میں سندھ ، ملتان اوراُ وچ کا علاقہ بھی شامل ہے ۔ ‘‘

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *