Home » شیرانی رلی » الحاج نجمی

الحاج نجمی

بے کسی اور بے بسی کا وہ زمانہ یاد ہے
دے کے لوری بھوکے بچوں کو سلانا یاد ہے
اک پھٹی بنیان تھی اور اک پجامہ پیراہن
ہمکو اپنی مفلسی کا وہ زمانہ یاد ہے
دشمنوں کے طنزیہ وہ قہقہے بھی یاد ہیں
دوستوں کا زیرِ لب وہ مسکرانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں وہ پانی لانے کے لیے
مجھ کو میلوں دور تک وہ آنا جانایاد ہے
یاد ہے اب تک مجھے روٹی پکانے کے لیے
لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلانا یاد ہے
سردیوں کی بارشوں میں کانپتے بچے میرے
اُن کو گیلے بستروں میں ہی لِٹا نا یاد ہے
ٹین کی چھت پر اُتر کر رقص کرتی بارشیں
آندھیوں کا کھڑکیوں سے گھر میں آنا یاد ہے
گھر جسے میں نے کہا اُس کے کرائے کے لیے
گھر کے مالک کا مجھے باتیں سنانا یاد ہے
اب خدا کا شکر ہے کہ نجمی اپنے گھر میں ہوں
اب بھی مجھ کو اپنا گزرا وہ زمانہ یاد ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *