رقص کرتی ہے تیری زلفوں کی مستی چار سو
اور اس دل کو تری چاہت ہے تیری آرزو
جب سے دیکھا ہے تجھے دل کی عجب حالت ہوئی
سامنے گر تو نہ ہو دیوار و در سے گفتگو
کیا عجب ہے بے بسی وہ پاس کیوں آتا نہیں
سامنے صورت ہو اس کی اور باتیں روبرو
میری ساری چاہتوں کا کاش وہ رکھ لے بھرم
سامنے آ جائے کہہ دے میں تری ہوں میرا تو
کتنے ہی چہرے کہ جن پرسے نظر ہٹتی نہیں
ہاں مگر دنیا میں کب ہے تجھ سا کوئی خوبرو
ہار بیٹھا ہے یہ خاور ؔ دل اسی بیباک پر
جس کو ساری عمر ڈھونڈا ہر گھڑی کی جستجو