اپنی مجبور محبت کی خمیدہ بانہیں
گھر کے ویرانے کی گردن میں حمائل کرکے
درد کو دل میں دبائے ہوئے سونا چاہا
ذہن کو تھپکیاں دے دے کے سُلانا چاہا
لاکھ کوشش کی مگر رات گئے تک مجھ کو
کسی کروٹ بھی مرے کرب نے سُونے نہ دیا
ہجر کی رات سے دیرینہ تعلق تھا مرا
اِس تعلق نے کسی اور کا ہونے نہ دیا
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...