Home » پوھوزانت » بخارا کے مدرسے ۔۔۔ صدر الدین عینی

بخارا کے مدرسے ۔۔۔ صدر الدین عینی

بخارا کے مدرسوں میں پڑھائی کا سال میزان کے مہینے ( بائیس ستمبر) میں شروع ہوتا تھا اور ھمل ( بائیس مارچ) تک چھ ماہ چلتا تھا۔۔۔۔۔۔
میں1890 میں بارہ سال کا تھا جب میں اپنے بڑے بھائی محی الدین کے ساتھ بخارا آیا جہاں ہم دونوں کو تعلیم حاصل کرنا تھی۔
ہمارے ضلع گدووان کا عبدالسلام اس ٹیچر کا اسسٹنٹ تھا جس سے میرے بھائی نے سبق پڑھنا تھا ۔ اس نے ہمارے لیے میر عرب مدرسہ میں ایک حجرہ تلاش کیا اور ہم نے اپنا بوری بستر وہیں لگائے۔
بخارا کے مدرسوں کی عمارتیں وسطی ایشیا کے دوسرے مدرسوں کی طرح عموماً ایک یا دو منزلہ ہوتی تھیں۔ بخارا سمر قند تاشقند اور دوسرے شہروں کے سارے مدرسے اسی طرح کے تھے ۔ ان عمارتوں کے گردچاردیواریاں پکی اینٹوں سے بنی تھیں۔ گنبد اور خوبصورت محراب جا بجا بنی ہوتی تھیں ۔ مسجدوں کی بھی پتھر کی بنی بڑی بڑی گمبدیں تھیں اور ان سب کو خوبصورت رنگین چمکدار ٹائلیں لگی ہوتی تھیں۔ کسی مدرسہ میں صرف بہترین آرکیٹکیٹ اور صناع ہی لگایا جاتا تھا اس لیے کہ ان عظیم الشان عمارتوں کو کھڑا کرنے کا مطلب معماروں اور حکمرانوں کی ابدی مشہوری ہوتی تھی جو اس کام کے لیے پیشہ فراہم کرتے تھے۔
سٹوڈنٹس کو اٹر زیادہ تر تاریک و تنگ چھوٹے حجروں پر مشتمل ہوتے تھے جہاں دو لڑکوں کے لیے بھی بہ مشکل جگہ ہوتی تھی۔ انسان، ہوا، اور روشنی گزرنے کا صرف ایک ہی دروازہ ہوتا تھا۔ محض چند کمروں میں کھڑکی ہوتی تھی یا دیوار میں سوراخ ہوتا تھا۔طالب انہی چھوٹے کمروں کے دروازوں کے اندر کی طرف اپنا کھانا تیار کرتے تھے۔کپڑے خود دھوتے تھے اور لکڑی اور کوئلہ یہیں ذخیرہ کرتے تھے ۔ اور دھواں بھی دروازے سے نکلتا تھا اس لیے کہ معماروں کو عموماً انگیٹھی بنانا بھول جاتا تھا۔
تین چار صدیاں قبل تعمیر کردہ یہ عظیم الشان مدرسے ابھی بھی آنکھوں کو حیرت بخشتے ہیں۔ یہ جاگیرداری نظام کا مکمل اظہار تھے، باہر کی طرف سے خوبصورت، شاہانہ ، عظیم اور اندر اندھیر، بھاری پن، بدبو اور ناقابل برداشت حد تک ٹیڑھے پیڑھے یہ مدرسے ان حکمرانوں نے بنا کر راہ خدا میں وقف کردیے جو یا تو علم دوست ہوتے تھے اور یا پھر شہرت پرست ۔ یہ لوگ زرعی زمین ،سرائے، دکان اور حمام جیسی آمدن دینے والی غیر منقولہ چیزان مدرسوں کے لیے وقف کرتے تھے اور اس کی آمدنی کو مدرسے کی تعمیر پر خرچ کرتے تھے اور بعد میں طالبوں، امام، مدرس اور ان دوسرے لوگوں کے اوپر معین انداز میں خرچ کرتے تھے جو مدرسے میں کام کرنے پر ماہوار ہوا کرتے تھے۔
بعض مدرسوں میں خصوصی کتب خانہ بھی ہوتا تھا۔ مدرسوں کے بانی یہ کتابیں خرید کر وہاں رکھ دیا کرتے تھے اور کتب خانہ دار کو مدرسہ کی وقف آمدنی میں سے تنخواہ ملتی تھی۔
مدرسہ کے وقف نامہ اور آمدن دینے والی جگہوں پر عربی زبان میں دینی حجت کے ساتھ مندرجہ ذیل عبارتیں لکھی ہوتیں۔
’’فروخت نہ ہوگا‘ خرید نہ ہوگا ، کسی کو بخشش میں نہیں دیا جا سکے گا ، کسی کے نام پر وصیت نہ ہوسکے گی۔ جو کوئی بھی ان باتوں کی خلاف ورزی کرے تواس پر خدا کی لعنت، پیغمبر خدا کی لعنت اور تمام فرشتوں کی لعنت ہو‘‘۔
ان تاکیدوں اور دینی خوف زدگی میں امیربخارا نے جو اپنی دینداری کی شہرت کی وجہ سے خود پر ’’ شریف ‘‘ کا نام باندھ رکھا تھا ،مدرسے چلتے تھے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *