Home » پوھوزانت » غو ث بخش صابر ۔۔۔ آغا گل

غو ث بخش صابر ۔۔۔ آغا گل

غو ث بخش صابرسے میرا تعلق سیو ی کے نواحی گا ؤ ں کچھ ولہا ری سے جا ملتا ہے۔ جو کہ مر غزا نیو ں کا گا ؤ ں ہے۔ یو ں تو ہمارے انکل میر خو شدل خا ن مر غزانی اپنے گا ؤ ں مر غزائی میں رہا کرتے مگر سیوی کی سما جی ثقا فتی زندگی کا روح رواں تھے ۔ کچھ و لہا ری میں عطا محمد ولہا ری رہا کر تے ۔ یہا ں ایک پرائمر ی سکو ل میرے والد بلوچستا ن کے معروف ما ہر تعلیم محمد اکبر خا ن نے قا ئم کیا تھا ۔ کچھ ولہا ری ہما را آنا جا نا رہتا ۔
غوث بخش صا بر اسی گا ؤ ں میں 1935 ء میں پیدا ہوا۔ یہ وہی سا ل ہے جبکہ کو ئٹہ میں ایک تبا ہ کن زلزلہ آیا تھا ۔ اس کے والد سفر خا ن بطور مزا ع کھیتو ں میں کا کرتے ۔ گزر بسر ہو رہی تھی۔مگربھا ئیوں سے اختلا ف کے سبب کچھ ولہا ری کو خیر آباد کہنا پڑا۔ ان دنو ں مچھ میں کا ن کنی زوروں پر تھی ۔ مچھ کا بڑا ریلو ے سٹیشن جہا ں انجن شیڈ بھی تھا وہ بھی ملازمت کے مواقع فر اہم کیا کرتا ۔ہندو مسلم سکھ مل کے کا م کیا کرتے۔ مچھ میں بھی ایک پرائمری سکول تھا ، مگر سفر خا ن کیلئے اپنے چا روں بٹیو ں کوسکول میں داخل کرنا ممکن نہ تھا۔ حالانکہ ان دنو ں انگریزی پرائمری سکول میں پڑھنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی اور مالی معاونت کے طور پر دوروپیہ مہنیہ و ظیفہ دیا کرتے تھے ۔ مچھ کے نواحی گا ؤ ں گشتری میں ایک کچے مکا ن میں کرائے پہ گھر لیا ۔ یہ گا ؤ ں مچھ سے کو ئی پانچ کلو میٹر کے فا صلے پہ تھا۔غوث بخش کو پہلی ملازمت ’’کتا ب قلی ‘‘ کی ملی جو طلبا ء مچھ سکول جاتے، غوث بخش ان کی کتا بیں بستے اٹھا کر عقب میں چلتا ۔ جہا ں بچے سستانے بیٹھتے غوث بخش جھٹ کتا بیں کھو ل کر پڑھنے لگتا۔بعض اوقا ت درسی کتا بیں مستعا ر بھی لے جایا کرتا۔ بلو چستا ن میں یو ں تو اخبا روں کا داخلہ ممنوع تھا ۔مگر اسے کو ئی اخبا ر کہیں پڑا ملتا تو جھٹ سے اٹھا کر پڑ ھنے لگتا۔ یا تہ کر کے گھر لے آتا ۔ غو ث بخش کی جیبیں پرانے اخبا رات ا ورچھپی ہو ئی چیزوں سے بھر ی رہتیں ۔ سیا ق و سبا ق سے مبر ا کٹی پٹی تحریریں بھی وہ شوق سے پڑھتا۔ مانگے تا نگے کی ایک آدھ کتا ب اس کی جیب میں ہی رہا کرتی ۔ جب ذراگر دن جھکائی دیکھ لی۔اسے جنون کی حد تک کتا بو ں سے محبت تھی، اور قا ئم رہی ۔ مچھ میں آغا غلام مرتضے ایک عا لم فا ضل انسا ن تھے ۔ قلات کے شا ہی خاندان احمدزئی سے تعلق تھا ۔ با ئیں بازو کے ترقی پسند ادیب تھے ۔ غوث بخش نے وہا ں زانوئے تلمذ تہ کیا ۔ یوں اسے ایک۸ دانشور کی رہنما ئی بھی ملی اور کتا بو ں تک رسا ئی بھی ہوئی ۔ وہ پر ائیو یٹ طو ر پر پڑھتا رہا ۔ دن میں مزدوری کرتا ۔ سفیدی بھی کرتا۔ غرضیکہ اسے جس نو عیت کی مزدوری ملتی قبول کر لیا کرتا ۔ اس نے کا ن کن کے طور پر بھی کا م کیا ۔ جو کہ نہا یت ہی مشکل اور جا ن لیوا مشقت ہے۔آجکل تو گو لی ہی ماردی جا تی ہے مگر اس دور میں جو کوئی حقوق کی بات کرتا Civil Amenity کا طلبگا۸ ر دکھا ئی دیتا اسے قید کر لیا جا تا۔ شہری حقوق طلب کر نے کو آج ہی کی طرح بغا وت قرار دیا جا تا تھا۔ لہذا اس دور کے اکثر صاحب شعور جیلوں میں محصو ر رکھے جا ئے۔ محمد حسین عنقا کا تعلق بھی مچھ ہی سے تھا ۔ انہیں بھی اکثر قید و بند کی صعو بتیں برداشت کرنا پڑیں ۔اگر چہ 1929 ء میں مچھ جیل قا ئم ہو چکی تھی ۔مگر بلوچستا ن کے اسیر وں کو مزید ذہنی و جسمانی اذیت پہنچا نے کیلئے ،دور دراز کی جیلو ں میں منتقل کر دیا جا تا۔تا کہ انہیں کوئی واقف کا ر یا ہم زبا ن نہ مل پائے۔ 1951ء میں محمد حسن عنقا نے ہر ی پور ہزارہ ، کی جیل سے ایک نظم خفیہ طور پر اپنے بھتیجے کو بھجوائی ۔ جس میں قید و بند کے مصائب کا ذکر تھا اور حب الوطنی کا درس بھی تھا ۔ غوث بخش صابر نے ’’جی نئی قلم ‘‘ لکھی جس میں کہا کہ یہی مصائب و تکا لیف تو شخصیت کو نکھارتی ہیں۔ انسا ن کو سخت کو ش اور مضبوط بناتی ہیں۔عنقا ء نے بھی اس نظم کو پسند کیا اور سراہا ۔دنیا ئے ادب میں صابر کی یہ اولین پہچان تھی ۔ راتو ں رات وہ مقبول ہوا ۔ وہ ما ہنامہ ’’بلوچی‘‘ میں چھپنے لگا۔ یہ رسا لہ ممتا ز ادیب و دانشور آزات جما لدینی کر اچی سے شا ئع کرتے تھے۔ملتا ن کے رسا لے بلوچی دنیا میں بھی باقاعدگی سے لکھنے لگا اور سا تھ ہی سا تھ گل محمد ایروی کے رسا لے تعمیر وطن میں بھی مستقل لکھا ری کی پہچان پیداکی ۔تعمیر وطن مستنگ سے شا ئع ہو تا تھا ۔ ان رسا لو ں کا سکو پ کم تھا ۔ ان کا شمار صفِ اول کے رسالو ں میں نہیں ہوتا تھا۔ لہذا صا بر نے ایک منظوم ڈرامہ گل زمین دیم پانی ( سرزمین وطن کا محافظ)لکھا ۔ جس میں پا کستانی وطنیت کو ابھا را گیا تھا۔ قومی یک جہتی پر زور دیا گیا تھا ۔ چونکہ حکومت کی منشا ء بھی یہی تھی کہ بلوچستان کے ادیب ملکی استحکام کی با ت کریں، مسا ئل کی نشاندہی نہ کریں۔صا بر کیلئے ترقی کی راہیں کھل گئیں ۔ حکومت نے ہا تھوں ہا تھ لیا اور مچھ سے نکل کر وہ کا لو نیل سٹی کو ئٹہ چلا آیا۔ اسے ریڈیو پا کستا ن کوئٹہ میں سکرپٹ رئیڑ تعینات کیا گیا۔ریڈیو پاکستا ن ان دنو ں معتبر اور مستحکم ادارہ تھا۔ریڈ یو پا کستا ن ایک خا ص نہج پہ چل رہا تھا ۔ دن بھر پر و پیگنڈا جا ری رہتا مگر تفر یح کا بھی خا صہ خیا ل رکھا جا تا ۔ ڈرامے ، مشا عر ے ، طلبا ء کے پروگر ا م بھی پیشں کئے جا تے ۔ تراب گو ٖالیا ری ( ڈاکٹر فا روق احمد کے بھائی ) سید غلا م شا ہ ( عا بد رضوی کے والد ) شعیب حز یں ۔ ارشد امر وھو ی۔ آغا صا دق قا بل اجمیر ی اور دیگر شعراء و تخلیق کا رو ں کو ریڈ یو میں ہی تلا ش کیا جا سکتا تھا ۔ صا برکی Grooming یہیں پہ ہو ئی ۔ زبا ن اردو کو بھی روز مر ہ اور محا ورے کے مطا بق بر تنے لگا ۔ جس کے با عث اس نے بے تکا ن مختلف موضو عا ت پہ لکھا ۔ ازاں بعد عا بد رضوی، بشیر بلو چ ۔ اختر ند یم ۔ ڈاکٹر خدا ئید اد خا ن ۔ حید ر حسر ت اور دیگر نا مو ر ادیبو ں کی رفا قت میں کا م کر نے کے مو ا قع ملے۔ ریڈیو پا کستا ن کو ئٹہ گو یا بلو چستا ن کا ایتھنز تھا ۔ پہلے تو وہ کا نو ں کا منشی رہا پھر گو یاریڈیو کا منشی یا با بو بن گیا ۔وہ فر ما ئشی کا م کرنے پہ مجبور ہو ا ۔ آرڈر پر ادب تخلیق کر تا ۔ لا ہو ر اور بعد میں اسلا م آبا د سے جو موضو عا ت میلانا ت یا ر جحا نا ت ملتے۔ ان کی بجا آوری میں لگا رہتا ۔ اگر بڑا معا وضہ دیا جا تا تو وہ اپنے خلا ف بھی ایک مقا لہ لکھ دیتا ۔
ٹیلی و یژن کے آنے سے ریڈیو کی اہمیت گھٹنے لگی ۔سا تھ ہی ساتھ ایک خا ص اند ا ز کا پر و پیگنڈا اور جھو ٹی خبر وں کے با عث عوام میں نا پسند کیا جا ئے گا۔ ریڈیو کا عو ام کے مسا ئل ان کی زند گیو ں سے تعلق نہ تھا ۔ وہ تو بس بے نمبر ی بس کی ما نند اپنی ہی دھن میں مست رہتا ۔ اسے یہ علم بھی ہو پا تا کہ ٓاس پا س دنیا بدل گئی ہے۔ پسند و نا پسند میں تبد یلی آئی ہے۔ چو نکہ یہ یک سر کا ری ادارہ تھا اس کی پا لیسی نہ بدلی گئی ۔ پو سٹ کے افسر ضیا ء جا لند ھر ی کو جنر ل ضیا ء جا لند ھر ی نے ریڈیو کا افسر ا علیٰ لگا یا ۔ تو اونٹ کی کمر پہ آخر تنکا ثا بت ہو ا ۔ افسران صا بر سے اپنی پسند کا کا م کر وا تے۔ مگر معا وضہ معمو لی سا ملتا کیو نکہ اس نے میر ے آبا ئی مکا ن کے قریب بلو چی اسٹر یٹ پہ دیا ل با غ کے سا منے جو مکا ن لیا تھا۔ زندگی بھر اسی میں رہا ۔ماہا نہ بجلی اور گیس کا بل بھر نا اس کا سنجیدہ مسئلہ رہا ۔ اپنے گھر سے ریڈیو پیدل آتا جا تا رہا ۔ چا ہے فر وری کی یخ بستہ ہو ا ئیں ہو ں یا کہ جو ن کی چلچلاتی دھو پ ۔ بو نددا باند ی ہو یا کہ بر ف کے گا لے۔ پا بند ی اوقا ت میں وہ نیوٹن کی ما نند تھا ۔ اسے دفتر جاتے دیکھ کر گھڑ ی ٹھیک کی جا سکتی تھی ۔ دبلا پتلا طو یل قا مت مکر انیو ں جیسی آنکھیں اور ان آنکھو ں میں جھل جھا ؤجیسی تپش اور آواران جیسی ویرانی ۔ شلوار قمیص میں ملبو س ،بغل میں کتا بیں و اسکٹ کی جیبو ں میں نو ٹو ں کی بجا ئے مسودات بہت سے پن با ہر والی جیب میں البتہ سردیو ں میں ایک کو ٹ کا اضا فہ ہو جا تا ۔ اسے بغیر واسکٹ میں نے با ہر گھو متے نہیں دیکھا ۔ اسکی بیٹھک دولتمندوں کے دلو ں کی ما نند بہت ہی چھو ٹی سی تھی ۔ایک چا ر پا ئی جس کے سر ہا نے کا رخ بحیر ہ عرب کی جا نب رہتا ۔ ایک پرانی دری اور بے شما ر کتا بیں ۔ پہلی نظر میں تو وہ کمر ی ( کمر ے کی تا نیث) پرا نی کتا بو ں کی دکا ن لگتی جیسے آرچر روڈ والی گا ندھی کی دکا ن جو طلبا ء سے پرانی کتا بیں چو نی میں خر ید کر اٹھنی میں فر وخت کر دیا کر تا ۔ محمد خا ن مر ی بھی جو ڈپٹی کمشنر تھا اکیلا ہی اس کی بیٹھک میں جا تا تا کہ تنگی دا ما ں کا احسا س نہ ہو ۔ اپنے اسٹا ف یا سا تھی لو گ با ہر ہی چھو ڑ دیا کر تا ۔ اسے صا بر کے علم اور علمیت سے غر ض تھا۔ علمی مو شگا فیا ں اور سلیما نی چا ئے کا دور چلتا۔ اس کی کتا بیں غالباً اسیٌ (80) کے قریب ہیں ۔ معقو ل معا وضہ دے کر کا م کر وانے والے یہ شرط بھی عا ئد کر تے کہ را ز افشا ء نہ ہو گا ۔ دینا ئے ادب میں کو ئی نئی با ت نہیں ہے۔ با د شا ہ ظفر کے با رے میں بھی مشہو ر ہے کہ استا د ذو ق کا کلا م قبو ل کر لیا کر تا ،اپنے نا م کا ٹھپہ لگا کر پیش کرتا اور داد پا تا ۔ لکھنو کے را جا اور بیگما ت بھی کلا م خر ید تی رہیں ۔ وہ اپنا کلا م فروخت کر کے زند گی کی گا ڑی چلاتے ہیں۔ یہ کا روبا ر اب بھی جا ری ہیں۔ ویسے یہ کو ئی نیا کا رو با ر بھی نہیں ہے۔ قد یم یو نا ن کا شا عر ہو مرجسے لو گ اندھا قرار دیتے ہیں محبت کے دیو تا کیو پڈ کی طر ح کہ ہو مر س ( نا بینا پن) سے ہو مر کا لفظ بنا ہے۔ وہ اپنا کلا م ایک لو ہا ر کے ہا تھ فر وخت کیا کر تا۔ کیو نکہ لو ہا ر نے اس کے طعا م و قیا م کی ذمہ داری لے رکھی تھی ۔ لو ہا ر چا ہے ایتھنز کے ہو ں یا لا ہو ر کے آ ج بھی کلا م خرید رہے ہیں۔
پہلو بہ پہلو صا بر نے لیکچر ارو ں کے مقا لے لکھنے کا کا م شرو ع کیا جنہیں پنجا ب یو نیو رسٹی بخو شی قبو ل کر لیا کر تی اور لیکچر اروں کو ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگر ی مل جا یا کرتیں۔ ان کے نا م کا ڈنکہ بجنے لگتا ۔دھا ک بیٹھ جا تی ، ان کا فر ما یا ہو ا مستند قر ار دیا جا تا ۔بلو چستا ن یو نیو رسٹی قا ئم ہو نے سے صا بر کا کا م بڑ ھ گیا ۔ مقا لے لکھنے کے علا وہ وہ آپ بیتاں اور کتا بیں بھی اجر ت پہ لکھنے لگا ۔ اس کے پہلو میں بلو چی شا عر یا سین بسمل جو تے گا نٹھے کا کام کر تا۔ مجھے یہ دونو ں کا م ایک سے لگتے۔مجھے 1992ء میں روز نا مہ مشر ق نے اد یبوں کے انڑویو ز لینے کو کہا۔ یہ کا م جلد ہی چھو ڑ نا پڑ ا ۔کیو نکہ اد یب و شا عر سخت خفا ہو ئے۔ صا بر تو لڑنے کیلئے گھر پہ ہی چلا آیا ۔ میر ی معذرت کے با وجو د کئی روز خفا رہا ۔ کیو نکہ بعض خو اتین و حضر ا ت نے گلہ کیا کہ صا برنے انٹرویو میں کیو ں بتلا یا کہ وہ مقا لے لکھتا رہا ہے اور یہ بھی تسلی کی کہ ان کا نام تو نہیں لیا ۔ کوئٹہ کے محا ورے میں اسکا کا روبار خر اب کیا ۔ وہ کھرا انسا ن تھا ۔ میر ی معا فی تلا فی سے چند ہی روز میں نا رمل ہوگیا ۔ میں نے بھی مشرق سے معذرت چا ہی ۔ صا بر کے انداز میں ڈاکٹر کو ثر فصیح اقبا ل امد اد نظا می اور پروفیسر عر فا ن احمد بیگ نے بھی لکھا ۔صا بر سے میں نے بھی بارہا مدد لی ۔ بلوچی شا عروں کا تذکرہ لکھنے کے لیے ایک سوالنا مہ ا سے دیا ۔ شا عر بھی ایسے مو ڈی کہ ایک شا عر کے در پہ وہ آٹھ با ر گیا ۔ مگر اس نے سوالنا مہ نہ بھر ا ۔ تین ماہ وہ میر ے لیے کا کر تا رہا ۔مگر با ت نہ بنی ۔ جس کے با عث کتا ب لکھنے کا ارادہ ملتو ی کر نا پڑا ۔
صا بر ہما رے سا تھ رائیٹر ز گلڈ میں بھی رہا ۔ ڈاکٹر کو ثر ۔ نو ر محمد پر وانہ ۔ حید ر حسر ت ،چشتی شملو ی ۔ آ غا محمد کا سی ۔ استا د بو لا نو ی و دیگر ادیب و شا عر شریک ہو تے۔ ایسے اجلا سوں میں صا بر خو ب بو لتا ۔ اور ادب کی تر ویج و تر قی کیلئے مشورے بھی دیا کرتا ۔ صا بر کی ادبی زندگی کو ئٹہ پسنجر کی سی تھی ۔شا م میں یہ گا ڑی سکھر سے چلتی ۔ اند ھیر وں میں سفر کر تی صبح دم کو ئٹہ پہنچ جا تی ۔ کہاں کہاں سے گز رتی مسا فر نہ جا ن پا تے ۔ صا بر بھی خا مو شی سے گز رگیا ۔ اس علمی شخصیت کی خبر چھو ٹے سے کا لم میں لگی ۔ نہ تعزیتی بیا نا ت نہ ہی جلسے نہ ہی کو ئی خصو صی گو شہ شا ئع ہو ا ۔ کا میا ب ادیب کہلا نے کیلئے صا حب ثر وت بھی ہو نا ضروری ہے ۔ہا نی و شہ مر ید ایک رو ما نی د استا ن ہے ۔ جسے اردو میں منتقل کیا ۔ ایک اور روما نی داستا ن شیر ین و دوسیتں کو بھی اردو خو ا ں طبقہ تک پہنچا یا ۔ بلو چی لو ک داستا نو ں کے ما خذ کا منظوم اردو تر جمہ کیا ۔ رحم علی مر ی کے کلا م کا اردو تر جمہ کیا ۔ تحقیقی مقا لے بھی لکھے۔ ’’بلو چی ادب کے پچا س سا ل ‘‘ ۔ بلو چی ادب و زبا ن کی تا ریخ ،بلو چی ضر ب ا لا مثا ل ۔ بلو چی لو گ گیتو ں کا انتخا ب چکی پر بند ۔ قدیم بلو چی شعرا ء کا انتخا ب ۔اس نے اقبا ل ،احمد ند یم قا سمی ، امر تا پریتم ثا قبہ رحیم الدین ۔ فیدر یکو ما پو ر کے علا وہ میر ے متعد اافسا نو ں مجمو عہ آ کا ش سا گر کا بلو چی تر جمہ آ زما ن سوز سا وڑ کے نا م سے کیا ۔ صابر کو ہا تھو ں ہاتھ لیا گیا۔تمغے انعا ما ت بھی ملتے رہے۔صد ر پا کستا ن سے بھی ملنے کیلئے اسے منتخب کیا گیا۔ وہ ادبی محفلو ں اور جلسوں میں عزت پا تا رہا ۔ علم دوست حضر ا ت اُسے سر آنکھو ں پہ بٹھا یا کر تے ۔اسکی علم دوستی نے سما ج میں اسے ایک نما یا ں مقا م دیا ۔ غوث بخش صا بر دنیا ئے ادب میں امر ہو چکا ہے۔
وہ ایک شریف الطبع انسا ن تھا ۔زند گی بھر کی رفا قت رہی ۔ ایک با ر جو میرا دفتر ریڈ یو کے قریب ہو ا تو وہ صبح میر ے پا س چلا آتا ۔ میں اسے جیپ میں سا تھ لے جا یا کرتا۔ غا لباًچا ر بر س یہ سلسلہ جا ری رہا ۔ ہما را مو ضو ع ادب و تا ریخ بھی رہتے۔وہ رات دن کا م کیا کر تا ۔ لو گو ں کیلئے کتا بیں لکھتا ۔ تر اجم کر تا ۔ ایم فل اور ڈاکٹر یٹ کے مقا لے لکھتا رہتا ۔ مگر خو د کسی ملا ح کی ما نند دریا ء کے دو پا ٹو ں کے بیچ میں ہی رہا ۔ بعض اوقا ت رفقا کے بر تا ؤ سے اس کا دل ٹو ٹ جا تا ۔ مگر وہ نہ تو خفا ہو تا نہ ہی قطع تعلقا ت کر تا ۔چند روز بعد اسکا ٹو ٹا ہو ا دل خو د بخو د جڑ جا یا کر تا۔ اسکا حا فظہ غضب کا تھا ۔ مگر دوستو ں کی تیر ا ندازی وہ جلد ہی بھلا دیا کر تا۔
اس نے مقتدرہ قو می زبا ن ۔ رائیڑ ز گلڈ ۔ ادبیا ت کیلئے بھی تو اتر سے کتا بیں لکھیں۔ وہ اپنی ذات میں یو نیورسٹی تھا۔
اپریل 2015ء کو وہ سب کو چھو ڑ کر چلا کیا ۔ جب انسا ن پیدا ہو تا ہے۔تو ا س کا کو ئی نا م نہیں ہو تا ۔ پہچا ن کا ایک نا م والدین دیتے ہیں۔مگر اسے زند گی میں ایک چہرہ ایک نا م کما نا ہو تا ہے۔ غو ث بخش صا بر دنیا ئے ادب کا ایک بڑا نام ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *