Home » پوھوزانت » سورج کا شہر ، گوادر ۔۔۔ شاہ محمد مری

سورج کا شہر ، گوادر ۔۔۔ شاہ محمد مری

گوادر کے بارے میںسال2000 کو لکھی گئی ہماری کتاب اب پرانی ہوچکی ہے۔ اُس میں موجود اعداد و شمار اب یا تو بالکل معدوم ہوگئے، یا بہت بدل گئے ہیں۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اُس وقت ابھی بلوچستان جنگ کا حالیہ طویل اور شدید دور شروع نہیں ہوا تھا۔
اب 2015 ہے۔یعنی گوادر کے میرے گذشتہ سفر کو پندرہ برس بیت چکے ہیں۔اکیسویں صدی کے تیزی سے تبدیلیاں لاتے زمانے میں پندرہ سال کا عرصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔پچھلے زمانوں کاایک شمسی سال ،آج سمجھو گھڑی کے برابرہوتا ہے۔ اِن پندرہ سالوں میں ہمارے خطے میں کتنے مشرف آصف بنے اور کتنے آصف نوازوں میں ڈھل گئے۔
بلوچستان میں بھی پیادے بدلتے رہے ۔ پیادہ باپ پیادہ بیٹے کو اپنی دستارسونپتا گیا،اور پیادہ بیٹا پیادہ پوتے کو اپنی جگہ دیتا رہا ( بلوچستان کیقباد والا معاشرہ ہی ہے۔ یہاں موچی کا بیٹا نائی ، اور کاشتکار کا بیٹا کلرک اور ہیڈ کلرک بن سکتا ہے مگر وزیر و مشیر ہمیشہ سردار کا بیٹا ہی بن سکتا ہے یا پھر وہ جس کا بتسمہ آبپارہ میںہوچکاہو۔….پشت درپشت!)۔……..
یہ پیادے یہاں سے وہاں تک دستار کی جھولی بناتے جاتے رہے اور وہاں سے وزیر و گزیر بنتے رہے۔ اور زورآوروں کی بنائی ہوئی اِس فرزندی کو نہ ماننے والے قد آوروں کو کوتاہ قدبنانے کا کام ایک مستقل اور معتبر کام کے بطور چلتا رہا ۔ یا ،سر مٹی میں یا ،قدر مٹی مےں۔ دوسرا کوئی آپشن پینسٹھ برسوں کی طرح اِن پندرہ برسوں میں بھی نہیںرہا ۔…….. باقی جوماوشما بچے ہوئے ہیں،وہ کسی طور دراز گردن نہ رہے۔
پندرہ برس قبل والا گوادر بس ایک خفتہ سادوردراز واقعہ ساحلی قصبہ تھا۔ خاموش، انسانی مداخلت نہ ہونے کے برابر ۔ ہماری قومی تاریخ میں گوادر کبھی اہم نہ رہا۔ سومیانی، کراچی، کلات ، کاہان اور پھر کوئٹہ ہی دنیا سے تلخ یا شیریں لین دین کرتے رہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان کا کوئی بھی جغرافیائی مقام کسی بھی وقت اچانک اہم بن سکتا ہے۔اور ما قبل سرمایہ داری عہد میں”اہم“ کا مطلب یا توجنگ کا سبب بنتا ہوتا ہے،یا اُس کامیدان۔نصیر خان نوری کے شفیلی (بانسری)بجانے والے چرواہوں کا جغرافیہ ہی اُن کی جواں مرگی کا لوح ِمحفوظ ہے…….. ہر پہاڑ، وادی اور ندی نالہ یہ والی قابلیت رکھتا ہے۔ اور اب کے یہ باری تھی: گوادرکی……..
گوادر توکسی بھی جگہ سے زیادہ ” واژہ وار“ ( مالک خور) ثابت ہواہے۔ کھاتا جاتا ہے،کھاتا چلاجاتا ہے ۔ہمل سے لے کر آخری حاملہ کے حمل تک۔ ایک حقیرسا سمندری گھاٹ ہمیں کیا فائدہ دے پاتا۔ یہ تو ایک” سرخور“ ڈائن چلا آیا ہے۔ اُس گھاٹ کا حسن، جوانی اور نوعروسی رعنائی، درآمدی اوباشوں کے لےے زبردست کشش رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی اوباش سرمہ سیٹیاں اورسیٹھ بنے اس کے آس پاس منڈلا نے لگے۔ بے بس بے وسیلہ بوڑھے مالک کے مرشدوںفقیروں تدبیروں حجتوں کوکوئی کامرانی نصیب نہ ہوئی۔ اُن کے سب کچھ کو آہنی مشینیں اپنے پیروں تلے کچلتی بڑھتی جاتی ہےں۔
ہاں ،البتہ چوکڑیاں بھرتے لیلوں کو مشینوں، ان کے دھوئیں اور منجنیقیت کی کیا پرواہ؟ ۔ سو مچلتے رہے شمع پر، اوراُسی کی حدت میں بھسم ہوتے رہے۔ گھاٹ یکایک ایک مرگھٹ بن گیا۔اب صورت یہ ہے کہ نہ مالک کو اُسے نگلنے دیا جاتا ہے، نہ ہی ہم اُسے خوشی سے الٹی کرسکتے ہیں۔
اور یہ جو طوائف الملوکی آپ کو نظر آتی ہے ناں خطے میں، اور یہ جو ملک الطوائفی آپ کو نظر آتی ہے ناںپاکستان میں، اس کا ایک بہت بڑا ذمہ دار گوادرہی ہے۔
پندرہ برس میں کیا کیا تبدیلیاں آگئیں وہاں، ہم پڑھتے سنتے رہے یا ٹی وی پہ دیکھتے رہے۔ جانے کا اتفاق نہ ہوا، یا جرات نہ ہوئی۔ سوا نیزے کے سورج والے حشر میں ہر شخص اپنے گناہوں میں گردن گرد ن ڈوبا ہوتا ہے۔بہت بڑا ( یا بہت بڑالفاظ) ہی اِس دوزخی آگ سے اوپر اٹھ کر بین الاقوامیت کی بات کر اور لکھ سکتاہے !
ابھی وہاں ایک نیم سرکاری ادارے کی جانب سے( این جی اوز) ”کتاب میلہ “کا فیصلہ ہوا تو بڑے دانشوروں کے ساتھ ساتھ میرا نام بھی نتھی تھا۔ اور انہی بڑے دانشوروں کا پلو پکڑے مجھے بھی جہاز سے آنے کی دعوت ملی ۔…….. اور میں نے ہاں کر دی۔ مجھے دو بارہ گوادر کو دیکھنے کا شوق جوتھا کہ دیکھ لوں کس بات پہ ہم تباہ ہورہے ہےں، کیا نئی تبدیلیاں آگئیں؟۔
کچھ عرصے سے میری مسافرتیں بہت محدود ہوچکی تھیں۔ لہٰذا ہر وقت دوستوںکو کہنے لگا تھا کہ مجھے کہیں بھیجو۔ یا چلو مل کر کہیں کا سفر کرتے ہیں۔ مثلاًمیںبہت عرصے سے ایران دیکھنا چاہتا تھا اس لےے کہ وہاں بلوچستان کے علاوہ بھی گلستان بوستان جیسی بے شمار تقدسات موجود ہیں۔ میں نے دوستوں کے ساتھ یہاں وہاں نکلنے کے بے شمار پروگرام بنائے مگر کسی ایک طرف بھی جانے کا ارادہ عملی نہ ہوسکا۔ اب تو ایسا ہونے لگا کہ ماما عبداللہ جان کے ہاں منعقدہ ہفت روزہ ” بلوچستان سنڈے پارٹی“ کی محفلوں میں ہم سفر نہ کرنے کا الزام لگا کر ایک دوسرے کا مذاق اڑانے لگے۔
اب جب اپنے،گوادر جانے کی باتیں ہونے لگیں تو بھی یقین نہ تھا کہ یہ عملی ہوسکے گا…….. مگر جب جئیند خان جمالدینی کی طرف سے حامی بھرنے ،اور اُسے سڑک کے راستے عملی جامہ پہنانے کی یقین دہانی ہوگئی تو میں جہازی ہمسفروں سے دامن بچا کراُس کی کارموٹر کی اگلی نشست پہ جابیٹھا۔میرے زمینی سفر کو ترجیح دینے کے لےے آپ اس حقیقت پر ضرور غور کریں کہ آکسیجن کی مقدار فضا کی بہ نسبت توزمین پر زیادہ ہوتی ہے ۔اور یہ بھی دیکھیں کہ فضا کا اپنا منظر توکوئی ہوتا ہی نہیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ انسان زمین پر ہوتے ہیں، جہاز میں تو صرف بالائی طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، انسان کہاں؟۔اور پھر ، جب تک آپ زمین کو خوب لتاڑ نہ لیں وہ آپ کی شناسائی کا اقرار نہیں کرتی۔
چنانچہ ہم جہاز کا ٹکٹ ایک طرف پھینکنے اور ساتھیوں کے ساتھ سڑک سے جانے کے اپنے فیصلے پر مطمئن تھے۔
بارش بلوچستان کی لائف لائن ہوتی ہے۔ اور یہ لائف لائن کچھ عرصے سے بری طرح کٹ چکی تھی۔مگر، اُدھر ہم گوادر جانے کے لےے تیار ہوئے اور اُسی روز رات کو کوئٹہ نے ہمیں مہمانی دینے کا فیصلہ کرلیا۔چرند پرند اور زراعت کے لےے بارش والی لائف لائن بحال ہوئی۔ پوری رات زبردست بارش اور برف باری ہوتی رہی۔اگلی صبح برستی برف میں جو دیکھا تو کوئٹہ وادی کی مکمل اور مہارت کے ساتھ سفیدی ہوچکی تھی۔ زمین اور سڑکیں کسی جھاڑی ، اینٹ، روڑے کے دھبہ اور داغ سے پاک ، صرف اور صرف برف کی سفید پوشی میں تھے۔ سیر تفریح، قہقہے ، مسرور آوازیں،برف کو گولے بنا کر دوستوں پہ برفباشی کرنے، اورمحبوب دوستوں عزیزوں کے ساتھ فوٹو گرافی کرنے کی روایتی سرگرمیوں کے بیچ ہم نے وادی کو خدا حافظ کہا اور پانچ یورپی ممالک جتنے جغرافیائی فاصلے سے پرے واقع، نیلے شفاف پانیوں والے گوادر کی جانب روانہ ہوئے۔
یوں تو برف باری میں وقت کا ہر پہر سہانا لگتا ہے ، مگر اُس کی صبح تو حواس پر قبضہ کرلیتی ہے۔ نشہ طاری کر ڈالنے والے متنوع مناظر عقل و روح کو دل کی سپردگی میں دےے رکھتے ہیں۔ چنانچہ عقل کو جمال کے ہاں رہن رکھ کر،میرے ایک ہم سفر نے میرے ایک ہم سفر نے مکمل طور پر دل کی حکمرانی کی حالت میں صبح سویرے بہت سارے دوستوں کو یہ ایس ایم ایس ٹیکسٹ کیا : ”گڈ مارننگ، وادی میں برفباری ہورہی ہے۔ تین دن کے لےے گوادر جارہا ہوں ایک ادبی سیمینار کے لےے“۔ کتنے مختلف جواب آئے۔ اُن جوابات سے کسی کی شخصیت کے بارے میںفتویٰ تو نہیں دیا سکتا ، لیکن ایک اندازہ سا ہوسکتا ہے۔ایک جواب تھا:گریٹ ، تصاویر لیتے جاﺅ، سردیوں والی خوراک کھاﺅ، اپنا خیال رکھو“۔ ……..اچھا تھا ناں!۔
ایک اور دیکھیں:” ماشاءاللہ ، سفر محفوظ رہے۔ وقت کا شکر ادا کرو کہ اس نے آپ کو تازہ دم ہونے کا موقع دیا ہے“۔
ایک نے یوں کہا ”مجھے برفباری سے محبت ہے۔ مجھے گوادر سے محبت ہے، خیر سے جاﺅ ، سفر بہ خیر……..ٹی وی کوئٹہ میں برفباری دکھارہا ہے۔ او ووہ …….. میں وہیں ہوں …….. مجھے یقین ہے تم میں اب تک جینے کی بہت سی کشش باقی ہے۔ اچھے دوست کی ڈرائیونگ کی مدد لو۔ تم پہلے ایسے جان لیوا سفر کرچکے ہو…….. مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔ جھیل کنارے، سفید لباس میں…….. کچھ یادیں زندگی سے نکل جائیں تو آدمی جھنجھناتا پیتل رہ جائے( 1 Cor 13 Wa St Paul) ۔
مگراُس کے ایک خاتون دوست کی طرف سے اُسے بھیجے گئے اس خشک ترین مردانہ جواب کو بھی پڑھ لیں: ” سفر بہ خیر، سارے اہلِ قلم کو سلام “۔ایسے جوابات برفباری کے منظر نامے کی ساری جمالیات کوخاکستر،سارے ذائقے کو غارت کردیتے ہیں ۔میں نے دیکھا کہ اُس نے موبائل جیب میں پھینک دی۔
…….. اور اب آگے بلوچستان تھا ۔بادلوں کی پناہ میں آئی وادیاں، بارش سے دُھلی پہاڑیاں…….. رج رج کے نظارے لو۔ ( جن لوگوں نے آخرت ، (یاپھر لاہور) میں اپنی جنت بنانے کو یہاں جہنم جاری کررکھا ہے اُن کا کریہہ تذکرہ اِس حسین صبح کیا چھیڑنا!)۔
سنگت اکیڈمی کاہمارا وفد، تنظیم کے سربراہ جئیند خان جمالدینی کی سربراہی میں وادیوںکے کنفیڈریشن بلوچستان میں سے رواں دواں تھا۔سرگرم ، پُرجوش، محنتی اور دُھن کا پکا جئیند خان سنگت اکیڈمی کا سیکرٹری جنرل ہے ( جو کہ تنظیم کا اعلیٰ ترین عہدہ ہوتا ہے )۔ میچور اور ذمہ دار لیڈر شپ کے تحت کام کرنے میں ہمیں بڑا لطف آتا ہے ۔ اس سفر میں جہاز ( کار موٹر)بھی اُسی کاتھا، کپتا ن (ڈرائیور) اور راہبر بھی وہی تھا ، اور ہم سواری(سپاہی) بھی اُسی کے ۔
خاران کا ہمارا دوست اور وہاں کی سنگت اکیڈمی کا سربراہ ضیا شفیع ساتھ تھا ۔ یہ بہت دلچسپ نوجوان ہے، ہم جس بھی بڑے شہر سے گزرتے وہ بتاتا جاتاکہ وہ تووہاں کی جیل میں سیاست کے جرم میں جیل کاٹ چکا ہوتا ہے:” یہاں میں تین ماہ تک رہا۔ اِدھر میں نے سات ماہ جیل کاٹی……..“۔ وہ بی ایس او (آزاد) میں رہ چکا تھا۔بظاہر تو شرمیلا شرمیلا نظر آتا ہے مگرگپ شپ میں کھل جائے تو پھر شرمیلا پن آٹو میٹک طور پر بھاڑ میں چلاجاتا ہے ۔
ادب کا متحرک و محنتی سفیر، پروفیسر عابد میر ویسے ہی ہمارے ساتھ تھا ،حادثاتاً۔ اُسے تو گوادر ہی ہونا چاہےے تھا کہ وہی تو اصل میں گوادر میلے کے منتظمین کا کھڑپیچ تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ وہاں مہمان نہ تھا، بلکہ وہاںہمارا میزبان تھا۔ وہ سارا راستہ اپنے موبائل کے ذریعے گوادر کو ہدایات دیتا رہا۔اور، وہی دوسرے شہروں سے رواں دواں وفود کی رہنمائی کرتارہا۔ یعنی ساروں کے بیچ coordination کررہا تھا۔ اس طرح” گوادر میلہ“ گویا” سنگت میلہ“ تھا۔ ہم مطمئن تھے۔
کوئٹہ کی برفباری کوبصارت والے بصیروں کے لےے چھوڑ کرہم وطن کی وسعتوں میں کھوئے ( پھیلے ) چلے جارہے تھے۔مستنگ و منگوچر تو ہمارے دیکھے بھالے علاقے ہیں۔ مگر زمستانی بادلوں میں یہ علاقہ کتنا خوبصو رت بن جاتا ہے، وہ ہم نے آج پہلی بار دیکھ لی۔ اب پتہ چلا کہ سنت سادھو، عاشق و فلاسفر تنہاسفر کیوں کرتے ہیں، بھیڑ سے کتراتے کیوں ہیں۔یہاں ہم خیال و ہم نفسیات احباب کے بیچ ہم جب چاہتے تنہا ہوجاتے اور جب چاہتے مردِ محفل بن جاتے۔ گاڑی سے باہر کِھلی کِھلی فطرت ہم سے ہم فکر بننے، ہم سخن بننے، ہم سفر بننے، ہم رقص بننے کو مچل مچل جاتی تھی۔بلوچستان دنیا کی خوبصورت لینڈ سکیپ کی سرزمین ہے۔ بادل اُس کا لازمی حصہ ہیں۔
بلوچستان کے ہر پہاڑ کا ہر پتھر ایک تاریخ ، ایک افسانہ ، ایک ناول کا سمجھو لکھا مسودہ ہے ۔ مگراس شاہراہ پرچلتے چلتے آپ بلوچ تاریخ اور جغرافیہ میں سے بالخصوصQALAT کو TALAQ نہیں دے سکتے۔ کہ قلات میں ہماری قوم کی عظمت کی فلک بوس سربلندی سے لے کر تذلیل کی دوسری انتہا تک کے فیصلے دفن ہیں۔ یہ وادی بادشاہوں ، سربراہوں اور سفیروں کے تحفوں اور اُن کی میزبانی کے مزے بھی لیتی رہی ،اور حملہ آوروں کے گھوڑوں کو مزاہمت کے توبرے بھی کھلاتی رہی ۔ یہاں وطن کی آزادی کی بحالی کے متبرک فیصلے بھی ہوتے رہے اور داخلی فیوڈل حاکمیت کی سیاہ کاریاں طویل کرنے کی سازشیں بھی پکتی رہیں۔
یہاں ”مِیری“ نام کے اُس قلعے کے آثار موجود ہیں جو بلوچوں کی ریاست و سلطنت کا چار سو برس تک مرکز رہاتھا۔ اور جسے زلزلے ، اور بارشوں نے تباہ کردیا ہے ۔ یہیں قلات میں سادہ اور مردم نا شناس ” خان“ احمد یار خان کی وہ مسجد بھی موجود ہے جس کا مینارہ حکومت پاکستان کی توپوں سے زخمی ہوگیا تھا اور جسے خان نے جوں کاتوں رکھنے کی فرمائش کی تھی ۔ اسی توپ ماری کے نتیجے میں بلوچستان کوگلے سے پکڑ کر ایک کڑی میں ڈال دیا گیاتھا۔ اس کی نصف ہزار برس کی آزاد حیثیت ختم کرکے اُسے ایک بالکل ہی نوزائیدہ ملک کی ون یونٹی میں بھرتی کردیا گیا تھا ۔
یہیں اِسی قلات میں سکھر جیل میں پھانسی چڑھائے گئے اُن بلوچوں کے روضے ہیں جو اِس ” ضم ناکی“ کے خلاف لڑے تھے ۔ اور یہیں پر بلوچستان کے ،خانوں بادشاہوں کے مزار ہیں جو اس دارالخلافہ کی تاریخی اہمیت بڑھاتے ہیں۔
اسی قلات میں ، بالخصوص اُس بادشاہ کا مبارک روضہ بھی ہے جو انگریز کے خلاف دست بدست جنگ کرتے ہوئے شہید ہوچکا تھا۔ اس کا متبرک نام تھا:خان محراب خان (لعل شہید)۔ غالباً اِس پورے خطے میں بلوچوں کے اس حکمران کے علاوہ کوئی اور حکمران انگریز سے دست بہ دست جنگ کرتے ہوئے نہ مارا گیا ہو …….. بلوچستان انوکھی تاریخ بناتا رہا ہے !!۔
ہم جب سُوراب سے گزرے توہم نے اِس عجب نام پر غور ”فرمایا“، بحث کی۔یہ پتہ نہیں ” سُہر آف“(سرخ پانی) ہے، یا” سور آف“( نمکین پانی)۔ اور اگر یہ ” سور آف “ ہے تو پھر اس کے س پر پیش کس طرح پڑا ہوگا اور یہ عوام الناس میں کیسے قبولیت پا چکا ہوگا ، اس لےے کہ اس کا مطلب تو کچھ نہیں نکلتا۔
ہم نے خضدار کراس کیا، مگر چائے کا کپ پی کر۔ایک بدترین خانہ جنگی کے مرکز میں زیادہ دیر ٹھہرا بھی تو نہیں جاسکتا۔بے گناہوں کا خون جہاں بہا ہو وہاں کی پاک ہیبت آپ کو خود میں ڈوبنے نہیں دیتی، آپ اچھال کھا کر وہاں سے نکل جاتے ہیں۔ ریاست کے مسلح کردہ جتھوں نے بلوچستان کو ”تُوتکستان “ بنا ڈالا ہے۔
بلوچستان کی کسی بھی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آ پ تعجب میں پڑیں گے کہ ہمارا یہ وطن کتنا بڑا ہے۔ ہر سفر تقدس بھرا سفر کہ بلوچستان اپنا وقار جگہ جگہ جتاتا جاتا ہے۔تئی پندہاں سیذ جناثاں ۔ ( مرشد تجھ پہ سفر کریں شالا)اور اس میں رنگ و نور کی کیا کیا انواع موجود ہیں۔ بلوچستان تیری تقدس تیرے جغرافیہ میں بھی ہے۔
ہم مین سڑک چھوڑبیلہ شہر چلے گئے۔ اِسے ”بیلہ “لکھا جاتا ہے ۔سوچا یہ کیسا نام ہے۔ کیا یہ”بیلا“نہیں ہوسکتی تھی؟۔مگر” بیلا“ کیوں ہو۔ بلوچ قدیم شہرکا نام نئی زبان اردو میں کیوں ہوں؟……..ہمیں یہاں بیلہ میںاپنی ایک قومی بدنصیبی کا منبع دیکھنا تھا، اپنی بربادی کا ایک سبب دیکھنا تھا،سنڈیمن کی قبر دیکھنی تھی۔ہم اپنی عبرت کے ایک سب سے بڑے سبب کو دیکھنا چاہتے تھے، لہٰذاہم شہر کی پان سے سرخ دیواروں سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے سنڈیمن کی قبر تک پہنچے۔ یہ ،سمجھو دو فٹ بال گراﺅنڈوں جتنا خالی رقبہ ہے۔ اوراس کے دوسرے سرے پر ایک پر شکوہ مگر بہت ہی سادہ مقبرے میںسنڈیمن دفن ہے ۔ قبر کے اوپر سنگ مر مر کی تہہ چڑھی ہوئی ہے ۔ پھر کھلے محرابوں پہ مشتمل زرد رنگ کامستطیل کمرہ بنا ہوا ہے۔ اُس کے بعد ایک چاردیواری ہے جس پہ عام بکریوں والے باڑھ جیسا دروازہ لگا ہے، کنڈی کے ساتھ ۔ تالا والا کچھ بھی نہیں ہے۔
قبر پر کالے رنگ کے سنگ مر مرپر اُس سے متعلق انگریزی میں تعارفی تحریر ہے ۔ مگر اس قدر مبہم و مدہم کہ اچھی طرح پڑھی نہیں جاسکتی ۔ہم زرد رنگ کے گنبد نما پرشکوہ مقبرے میں سیاہی مائل سنگِ مر مر کی تحریر کو دیر تک پڑھتے رہنے کی جستجو کو ترک کرکے اُس کے عہد کو یاد کرتے رہے۔
ہم اُس کا تعارف یہاں نہیں کر پائیں گے۔ کہیں اور ہم نے اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ بس یہاں تو وہی کچھ کہنا کافی ہوگا جو کہ ہمارے وفد کے لیڈر جئیند خان جمالدینی نے اُس کی قبر پر اچانک انگلی لہراتے فی البدیہہ طور پر کہا تھا ، انگریزی میں بھی، اور اردو میں بھی ( پتہ نہیں اُس بلوچ دشمن کی قبر پر اُس نے بلوچی میں تقریر کیوں نہ کی ؟ )۔ ” یہ ہے اُس شخص کی قبر جس نے بلوچوں کو تباہ و برباد کرنے کی پالیسی بنائی تھی “۔
ہم سات سمندر پار کے اِس دشمن کی قبر کومتانت ،رنجیدگی و سنجیدگی و سنگینی سے دیکھ کر دماغ میں آئے سینکڑوں فلموں کو جھٹک کر چل دےے۔مجھے بوڑھا کریموجت یاد آیا۔ اُس نے اِس سِن مِن ( سنڈیمن) کو سرداروں سواروں کی معیت میں مری علاقے سے گزرتے دیکھا تھا۔
یہ شکر ہے کہ بیلہ والے لوگ جیکب آبادکے لوگ نہیں ہیں۔ ورنہ وہ بھی سنڈیمن کی قبر پرستی کرتے جس طرح کہ خان گڑھ ( جیکب آباد ) والے، جیکب کی قبر کو ولی کی قبرگردان کر اس پہ جمعراتوں کو چراغ جلاتے ہیں۔
رات کا کھانا ہمیں دالبندین کے ایک ملازم پیشہ سابقہ ( اور اب تک قائم دائم ہونے کا دعویٰ کرنے والے) کامریڈ بلوچ نے کھلایا۔وہ پرانا سیاسی ورکر ہے ، سیاست کی برکت سے سوویت یونین میں علم حاصل کیا ہواہے۔ مگر اب شہری سیاست سے کٹا ہوا ، اورمایوس تلخی سے بھرا ہوا ہے۔ ساری زندگی موجودہ وزیراعلیٰ کی نیشنل پارٹی اوراس سے قبل انہی کی طلباءتنظیم بی ایس اوسے وابستہ رہا۔ایسی پر کٹی پاک روحیں آپ کو بلوچستان بھر میں نظر آئیں گی۔ ہمارے صوبے میں تقریر و جلسہ والی سیاست بلاشبہ نیشنل پارٹی ہی کی ہے، اور اب حکومت بھی اُسی کی ہے۔ اُس پارٹی کی دوسری طرف بائیںجانب بلوچ سیاست میں آزادی طلب جنگی محاذسجا ہوا ہے۔ ہمارا میزبان ،محبوبہ کی طرف سے بے وفائی کے شکار نوجوان کی طرح تیز بولتا ہے، ہونٹوں کی اضافی کھینچ تان میں ، ہاتھوں کی ضروری اور غیر ضروری جنبش میں…….. اور تلخ پانی کے زیر اثر بھی۔ سیاسی تلخی میں بجھی ہوئی گفتگو ،جو بلوچستان میں کوئی نادر منظر نہیں ہے۔ بے بسی کا بھی اظہار کہ جونیر لوگ کروڑ پتی ہوگئے ہیں۔ ساری امید آزادی پسندوں کے ساتھ رکھتے ہوئے بھی وہاں نہ جاسکنے کی حسرت دو آتشہ۔بلوچ کس کس کمپلیکس کا شکار بنا دیا گیا ہے !!
اگلی صبح، اوتھل کی صبح۔ سرد، اور برفباری سے لدے کوئٹہ سے آیامسافر۔مگر،یہاں توجنوری کے وسط میںبھی نہ کمرے میں ہیٹر ہے، نہ پانی گرم کرنے کی حاجت ہے، نہ کوٹ سویٹر پہننے کی ضرورت۔ موسموں کے ضدین کا اجتماع ہے میرا دیس۔
یہ، بھوتا نڑیوں اور جاموں کی باہمی سیاسی چپقلش میں واضح طور پر جیتا ہوا جام کا اوتھل ہے۔ سب لوگ اُسی کی مرتب کردہ فضا کی مطابقت میں جیتے ہیں۔ اُس کے ابرو کے اشاروں پہ سارا سیاسی معاشی انتظامی ٹریفک چل رہا ہے۔ نباتات، حشرات اور حیوانات میں سے جو کوئی بھی، اُس متکبر و معتبر ماتھے پہ شکن کے اسباب بنتے ہوں وہ ضلع باہر۔ چپڑاسی سے ڈپٹی کمشنر تک آپ جام پیئیں یا نہیں، مگر آپ کا جامی ہونا ضروری ہے ….
سڑک کے لےے کوئی بھی جلوس نہیں نکالتا، یہاں سکول کالج قائم کرنے کے مطالبے نہیں ہوتے، یہاں آغازِ حقوقِ بلوچستان بغیر کچھ نظر آئے انجام تک پہنچتے ہیں۔ بلوچستان کے حقوق کا آغاز بھی سردار کی جیب میں ہوجاتاہے اور انجام بھی۔ ہر پانچ سال بعد سردار کی زمینیں وسیع ہوجاتی ہیں، اُس کے پاس مہیب گاڑیوں کا فلیٹ بڑھتا جاتا ہے، کراچی اسلام آباد ، دبئی اور لندن میں اُس کی جائیدادمیں اضافہ ہوتا جاتا ہے …….. عام آدمی خدا کا مال ہوتا ہے جےے جارہا ہے خدا کے سہارے ۔
…. تو ؟۔ تو، اوتھل غیر سیاسی نہیں، حتماً کا ملاً سیاسی خطہ ہے۔یہ بقیہ بلوچستان ہی کی طرح سرداری نظام کے خلاف چوں تک نہ کرسکنے والا سیاسی ضلع ہے ۔ کیاخضدار غیر سیاسی ہے ؟ نہیں ۔کیا مستنگ غیر سیاسی ہے ؟ نہیں ۔ بلوچستان بھرپورسیاسی ،صوبہ ہے ۔ یہ سرکاری اورسرداری نظام کا سوفیصد سیاسی صوبہ ہے۔ہاں، اِن دو مظاہر سے باہر کی سیاست جرم ہے، دونوں مل کر ماریں گے، سرکار بھی سردار بھی۔ میڈیا بھی اِن کا۔ عدالت، طریقت، شریعت سب اِن دو قوتوں کی۔ایک گرنے لگتی ہے تو دوسری سہارا دیتی ہے، اِسے دیمک کھاتی ہے تو دوسری اس کا شہتیر بن جاتی ہے۔ اختیار ( اقتدار) اسی سردار سرکار کی جوڑی کے پاس ہی رہتا ہے۔ اور اُسے اپنے پاس رکھنے کے اُن کے پاس ہزاروں گُر موجود ہیں۔……..دم چھو، پیسہ پلاٹ، دھونس دھمکی، ترغیب تحریک، ڈنڈا کو نڈا، شعرادب ، چوری چکاری، خانہ جنگی، مقدمات و پیشیاں،فتوے غداریاں، حتیٰ کہ قتل و غارت سب ذرائع موجود ہیں۔ لہٰذا،اقتدار ان دوقوتوں سے باہر نہیں جاتی۔بلوچستان میں جام گردی کو نہ جمہوریت کچھ کہتی ہے نہ ہی مارشل لا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا جب تک کہ ……..
ہم پان کی یلغار ، صنعتوں ، زرعی فارموں سے بھرے مگر طبقاتی سیاست کی مکمل غیر موجودگی میں صبح سویرے بلوچستان کے اس رنگ سے نکل کھڑے ہوئے۔
سسی پنوں کے مقبرے کی زیارت ہماری قسمت میں نہ تھی اس لےے کہ وہ راستے سے دور پڑتا تھا۔ ہم نے مکران کے راستے پہ جانا تھا اور وہ پاک مزار دوسری طرف واقع تھا۔
ہم کراچی والے راستے چار پانچ میل چلنے کے بعد مغرب کی طرف دائیں ہاتھ کو ایک ہائی وے کی طرف مڑے : کوسٹل ہائی وے ۔ اس موڑ والی جگہ کو زیر و پوائنٹ کہتے ہیں۔ انسان بھی زورآور ہے، جہاں چاہے ہندسہ اور عدد لکھ دیتا ہے۔ پاگل ؟۔ بھلا کوئی جگہ زیرو پوائنٹ بھی ہوسکتی ہے۔کائنات ریاضی کی طرح حسین توہوتی ہے مگر ہندسے توبہت ہی relativeہوتے ہیں۔ ہم نے ہی انہیں ایجاد کیا اور ہم ہی ان کا اطلاق و استعمال کرتے ہیں۔……..زیروپوائنٹ!!، ہو نہہ۔
گوادر اس نام نہاد زیرو پوائنٹ سے 530 کلومیٹر پر ہے۔ یہ جگہ لاری بھی کہلاتی ہے ( کراچی میں جو لیاری ہے، یہ وہ لیاری نہیں بلکہ لاری ہے۔ یہ دونوں یا پھر ایک ہی قدیم لفظ کس زبان کی ہے اور اس کے کیا مطلب ہیں، معلوم نہیں)۔
بلوچستان کا یہ جنوبی ساحلی علاقہ وسطی ایشیا کے بجائے اب مشرق وسطی کاایک خود سر، بیابان، اورالجھا ہوا بچہ لگتا ہے ۔یہاں اب گورا گیری ، یا گندمی رنگت کی بجائے سیاہ فامیت بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں زمین کے ساتھ ساتھ پانی ( سمندر) بھی روزی رسانی میں حصہ ڈالتا جاتا ہے۔ یہاںزمین پہ ٹریفک اور روانی کے ساتھ ساتھ پانی پہ بھی انسانی کنٹرول کے ثبوت ملتے جاتے ہیں۔ یہاں فطرت کی دو ( پہاڑ اورزمین) نہیں تین مظاہر موجود ہیں۔ پہاڑ، میدان اور سمندر۔
ہم یہاں رکے کہ کراچی سے سعدیہ بلوچ، ڈان اخبار کی سحربلوچ اور فہیم صدیقی کی ”رینٹ اے کار “نے یہاں آن ملنا تھا۔ ایک کڑک چائے پینے کی کوشش کی، مگر حسرت ہی رہی۔ زیرو ہم سے بائیں طرف جوتھا۔…….. انسان ساری زندگی زیرو کو اپنے پیروں پہ کھڑے اپنے اِس وَن کے ہندسے کے دائیں طرف گھسیٹ لانے کو پسینہ بہاتا رہتا ہے۔ مگرزیرو، بدبخت تھرکتے پارے کی طرح دائیں بائیں مچلتا رہتا ہے اور ساتھ میں اپنے طلب گار کو بھی تگنی کا ناچ نچاتا جاتا ہے۔یہ مستقلاً دائیں جانب قیام نہیں کرتا۔ زیرو، سب سے بڑا رقاص !!۔
کراچی والے وہ لوگ آگئے۔سلام دعا اور ہم روانہ ۔ اب کے مغرب کی طرف ۔ چل سو چل ۔ وسعتیں بلوچستان میں سمٹنے کے تصور سے ناآشنا ہیں ۔گز، کلیر، کہیر، گیشتر ،اور پیرکے جانے پہچانے درخت اور جھاڑیاں۔ ان میں کچھ گدھے، کچھ اونٹ، اور کہیں کہیں انسان نظر آئے۔سپاہی بھی۔ہم نے اپنے سامنے حدِ نظر تک لیٹے ہوئے ایک طویل پہاڑ کا جنوبی سرا پکڑنا تھا اور وہاں سے مڑ کرپھر اُس کی دوسری طرف اُسی کے ساتھ ساتھ سمندر اور اُس کے بیچ سفر کرنا تھا۔
یہاںہم ایک بحث میں پڑ گئے۔……..سڑک ، سہولت اور ٹکنالوجی جسمانی اور ذہنی آسودگی تو دیتی ہےں۔ مگر کیا یہ ذہن کو بھی آزاد کرتی ہےں؟ ۔ کیا ٹکنالوجی اُسی مناسبت سے ذہنی روشن فکری بھی دیتی ہے؟۔جیند خان سڑک و ٹکنالوجی کی نعمتیں گنواتا رہا۔ ہم بھی اتفاق کرتے رہے۔ اور اُس جزوی ذہنی نجات کی بھی تائید کرتے رہے جو یہ عطا کرتی ہیں۔ ہر سائنسی، علمی، تجرباتی نئی دریافت، روایت رواج اور عقیدہ کو زخم لگاتی ہے ۔ یہ مل کر چیختے چلاتے ہیں، غراتے ہیں، حملہ کرتے ہیں مگر پھر بالآخر مجبور ہوکر دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں…….. پھر جب لوٹتے ہیں تو اس نئی ایجاد کو مان لیتے ہیں۔ دُ م کھڑی کرکے بتاتے ہیں کہ یہ ایجاد تو ہماری فلاں شاعری،ضرب المثل اورفرمان کے طفیل ہی ہوئی ہے۔ اِس کی خبر تو صدیوں قبل ہمارے اکابرین نے دے رکھی تھی۔
مگر جس طرح صدیوں سے موجود علم نے ایران کا کچھ نہ بگاڑا اور وہاں نصف صدی سے بدترین ملاّئی نظام قائم ہے ، جس طرح ٹکنالوجی نے امریکہ کا کچھ نہ بگاڑا جس کا صدر اب بھی ہنو مان کی مورتی جیب میں رکھے بد ترین سامراجیت میں غلطاں ہے،تو اُس مظہر کو کیا کہےے گا؟۔ پس ثابت ہوا کہ انسانوں کی خرد افروزی ،اور روشن فکری کے لےے علم، سڑک اور ٹکنالوجی ہی نہیں، کچھ اور عناصر اور مظاہر کا ہونا بھی ضروری ہے۔
بحث، بحث اور بحث۔ نتیجہ؟ ۔ ہم نے نتیجہ اخذ کرنے کے لےے یہ بحث چھیڑی ہی نہ تھی۔…….. جی ہاں،بلوچستان کے دور دراز کے سفروں کے مسافر ایسا بھی کرتے ہیں!!( اور لاہور اور کراچی کے سیاسی ورکر اوردانشور ساری زندگی یہی کرتے رہتے ہیں، پتہ نہیں کیوں؟)۔
یہ آیا کُنڈ ملیر۔ میرا سمندر یہیں سے میرا یار بنا۔ ہماری اس دوستی نے گوادر تک ہمارا ساتھ دینا تھا، منزلِ مقصود تک ۔ پانچ سو کلومیٹر تک ساحل ہی ساحل کا سفر!!۔ ایک بالکل ہی نیا رنگ، نئے پیداواری رشتے، نئی طرزِ حیات ۔ یار یہ بلوچستان کیا عجوبہ جگہ ہے !! آنکھوں پہ زور لگا کر تاحدِ نظر،نظر یںدوڑائیں، ایک ہی منظر میں سمندر کے شیڈز فرق فرق نظر آتے ہیں۔ یہاں پانی سبز ہے،اُسی سے ذرا سا آگے دیکھیں ، ارے یہ اگلا شیڈتو بھوراہے ،اُسی سے متصل پھر نیلا، پھر سیاہ نیلا۔ جیسے کسی ماہر مصور کی پینٹنگ ہو۔ ہم خوش قسمت تھے کہ آگے ہماری منزل کے آخری پڑاﺅ گوادر تک ہم نے سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرنا تھا۔
سمندر کاکنارہ، آبادی، اور ایک پیر کی موجودگی سمجھ میں آتی ہے۔ اس لےے کہ بلوچ پیر رکھتا ہے، اپنے مال مویشی کی حفاظت کے لےے، اپنی جان و آبرو کی حفاظت کے لےے ( وہ سردار بھی تقریباً اسی لےے رکھتا ہے …….. اور شاید ایک کتابھی) ۔ مگرمیں حیران اس بات پہ ہوا کہ اِس پیر کا نام اسمعیل شاہ غازی تھا ۔ اورکراچی والے ہمارے پیرکا نام عبداللہ شاہ غازی تھا۔ اب پتہ نہیں یہ لوگ ” غازی“ کیوں تھے؟۔عبداللہ تو کراچی کے بلوچوں کو( دوسروں کو بھی ) سمندری طوفانوں آفتوں سے بچاتا ہے۔ ابھی پچھلی بار سمندری طوفان کے موقع پر ٹی وی پہ سندھ کا اکیسویں صدی کا وزیراعلیٰ کہہ رہا تھا کہ، ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عبداللہ شاہ غازی وہاں ساحل پہ کھڑا ( پڑا) ہماری حفاظت کرے گا۔مگر، یہاں چلتے سفر میں ہمیں موقع ہی نہ ملا کہ کُند ملیر کے اسمعیل شاہ غازی کا استعمال معلوم کرسکیں۔ کوئی بڑا شہر تو یہاں ہے نہیں کہ وہ اُسے سمندری طوفانوں سے بچائے۔ کسی سے ضرور معلوم کرکے بتاﺅں گا۔
جاری ہے……..

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *