Home » قصہ » قتل ۔۔۔ جِندرگورمکھی سے ترجمہ :حنیف باوا

قتل ۔۔۔ جِندرگورمکھی سے ترجمہ :حنیف باوا

اُس رات میں کمرے میں تنہا تھا۔ باپُو کی موجودگی میرے لےے نہ ہونے کے برابر تھی۔ ویسے بھی باپُو کو اپنی کوئی ہوش نہ تھی ۔ بازو یا ٹانگ جس جگہ میں رکھ دی گئی تھی وہیں پر ٹکی رہی تھی۔ مردہ سی ۔ دوپہر سے بار بار ایسے لگ رہا تھا کہ وہ آج شام مشکل سے گزارے گا ۔ جب وہ بڑے اوکھے اور لمبے سانس لیتا تو اُس کا پیٹ حد سے زیادہ پُھول جاتا۔ گلے سے کھرڑ کھرڑ کی آواز آتی تو بی بی سرہانے کی جانب پڑی ہوئی گڑوی سے چمچ بھر بھر کر اُس کے منہ میں پانی ڈالتی۔ دیر تک پانی مُنہ میں ہی رہتا۔ جب وہ ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے سانس لیتا تب کہیں جا کر وہ پانی اُس کے اندر اترتا ۔ بی بی سے وہاں زیادہ دیر تک نہیں بیٹھا جاتا تھا۔ وہ چکر لگا کر آتی، اُس کا چہرہ دیکھتی۔ پاجامہ دُرست کرتی۔ اور پھر سوچوں میں گُم و اہگرو واہگرو کا وِرد کرتے ہوئے باہر نکل جاتی اور بلاتاخیر اُس کے اندر ایک لرزا سا طاری ہوجاتا۔ شاید اس لےے کہ باپُو کا انت اب قریب ہے۔ اب اس کے تندرست ہونے کے امکانات دُھند میں گم شدہ کسی وجود کی طرح تھی اور ڈاکٹر جگدیش نے جواب دینے کے انداز میں کہا تھا کہ اب بزرگ کی سیوا میں آپ سب کی بھلائی ہے ۔ پھر بی بی نے باپُو کے کمرے میں اگر بتی کو بُھجنے نہیں دیا تھا۔ سٹیریو پر صبح صادق سے دِن کے دس بجے تک بار بار جپ جی صاحب کی کیسٹ اور شام کو اندھیرا چھا جانے کے بعد رات گئے تک ریہہ راس کا پاٹھ چلتا رہتا۔ اس سمے کے دوران بی بی کی آنکھیں بند ہوتیں۔ چُپ چاپ چلتی پھرتی رہتی اور باپُو کے کندھوں کو پکڑ کر جھنجھوڑتی ہوئی کہتی” تو آواز کی پیروی کرتے ہوئے پاٹھ کرتا چلا جا ۔ شاید اگلے جنم میں تیرا کچھ بھلا ہواجائے“۔
بی بی کے بار بار ایسا کہنے پر اکثراوقات مجھے ہنسی آجاتی ۔ ایسے وقت میں مجھے خود پر قابُو پانا بڑامشکل لگتا ۔ میں اپنا سرگھٹنوں تک جُھکا لیتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بی بی مجھے دیکھ کر کہہ دے تیرا باپُو مرنے کے قریب ہے اور تجھے ہنسی سوجھ رہی ہے۔ ویسے بی بی کا یہ عمل مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا ۔
صرف اب ہی کیوں۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب ہی سے مجھے یہ عجیب سا لگتا آرہا ہے۔ پھر کالج پہنچا۔ وہاں تو اس سب کچھ کے معنی کچھ اور ہی سمجھ میں آنے لگے تھے۔باپُو اپنی مرضی کا مالک تھا۔ جو اس کے جی میں آتا وہی کچھ کرتا ۔ چاہے اس میں نفع ہو یا نقصان چاہے گھر تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے یا بک جائے ۔ اس سے اسے کوئی سروکار نہ رہتا۔ متعدد بار اُس نے اپنی ضد پر قائم رہنا ہوتا تھا۔ اُس نے اس وقت تک اپنی اس عادت کو قائم رکھا جب تک کہ اس میں طاقت رہی۔ طاقت کو بھی چھوڑیں وہ تو اپنے ہوش و حواس کے ختم ہونے تک اپنی ہی منواتا رہا ۔ یعنی اپنے آخری وقت سے تین روز پہلے تک۔
جب میں پیشاب کے لےے اُٹھا تو باپُو کا دایاں بازو چارپائی سے نیچے لٹک رہا تھا میں نے اُسے چارپائی پر لٹادیا ۔ جب میرا دھیان باپُو کے چہرے پر مرکوز ہوا تو دیکھا کہ اس کی آنکھیں بند تھیں اور اُن کے کو نوں پہ آنسوﺅں کے قطرے چسپاں تھے ۔ ناک کے دائیں جانب میل کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی ۔داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔ میں نے فوراً اس کے جھریوں بھرے چہرے سے اپنا دھیان ہٹالیا۔ دراصل میں اس کی جانب دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لےے نہیں کہ اُس کا آخری وقت قریب آگیا تھا اوراُس کے رخساروں کے نیچے والی ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں ۔ یا مجھے اس کے چہرے سے خوف آتا تھا۔یا اس سے بدبو آرہی تھی لیکن وہاں تو بدبو جیسی کوئی بات نہیں تھی۔بی بی تو ہر روز گرم پانی سے اس کا چہرہ صاف کرتی تھی ۔ اور آئے دن اُس کے کپڑے تبدیل کےے جاتے تھے ۔ چادر اور دری سمیت…….. وہ باہر والی کھڑکی کھولتی اور شام آنے پر اسے بند کردیتی۔ کانتا اور میرے لےے اُس نے کوئی کام نہیں چھوڑا تھا۔
معلوم نہیں کتنے سال بیت گئے۔ شاید میری نوکری سے پہلے ۔ ہوسکتا ہے اُس وقت سے جب کالج میں میرا پہلا سال تھا۔ ہاں یاد آیا کالج کا پہلا سال ہی تھا ایڈمیشن فیس اور دیگر اخراجات سرون بھانی نے برداشت کےے تھے۔ آئندہ سال کی فیس جمع کروانا تھی۔ باپُو اپنی بیٹھک میں بیٹھا گیت کے مزے لے رہا تھا۔اپنے ہی موڈ میں۔ اس وقت وہ گھر کے ہر فرد کی تکمیل کرتا۔ بی بی کے علاوہ ۔ بی بی تو اُس کے کمرے میں داخل ہونے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی تھی۔ کھانا پہنچانا ہوتا تو کانتا جاتی۔ چائے کا پوچھنا ہوتا تو میں جاتا۔ پتا نہیں باپُو سے اتنی نفرت کیوں تھی۔ اکثر اوقات دِل نے چاہا کہ اس سے پوچھوں لیکن باپ اور بیٹے کے درمیان کھڑی دیوار کو مجھ سے عبور نہیں کیا گیا۔ پھُوپھی کے ہاں جانا ہوتا یا کہیں افسوس کے لےے پہنچنا ہوتا تو باپُو کانتا کے ہاتھ سندیسہ بھیج دیتا۔ ”اپنی ماں سے کہنا کہ صبح جلدی جاناہے۔ کہیں ادھر ادھر نہ پھرتے رہنا وقت پر واپس بھی آنا ہے۔ روانہ ہوتے وقت حکم لگا دیتا ۔ میں چلتا ہوں“۔
باپُو اڈے پر پہنچا ہوتا اور بی بی ابھی گھر سے نکل رہی ہوتی۔ واپس لوٹتے وقت وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہوتے ،ساتھ مل کر نہ چلتے۔ ہم چاروں بہن بھائی چُھپ چُھپ کر ہنستے۔
گیت کے اختتام تک مجھے خاموش رہنا پڑا تھا۔ باپُو نے آنکھیں بند رکھی ہوئی تھیں۔ ایسے جیسے کوئی سادھو بھگتی میںمگن ہوتا ہے۔ دیوار کے ساتھ لگے تکئے سے پُشت کی جانب سے ٹیک لگا رکھی تھی ۔ سر پر صافہ لپیٹا ہوا تھا۔ بازﺅں سے گھٹنوں کوجکڑ رکھا تھا۔ کندھوں پر لوئی کی بُکل ماری ہوئی تھی۔
باپُوجی…….. میں نے ایک بیس روپے فیس ادا کرنی ہے۔
اُس نے آنکھیں کھولیں، دمکتی ہوئی۔ آج اُس کی آنکھیں بِن پےے ہی سُرخ تھیں ۔ شاید اس سے پہلے بھی ایسی ہی ہوتی ہونگی۔ اس کے بارے میںمجھے کوئی زیادہ گیان نہیں تھا کیونکہ مجھ سے اُس کی اَور کبھی آنکھ اُٹھا کر دیکھا ہی نہیں گیا تھا۔
” اپنی بی بی سے لے لینا “اس نے پھر آنکھیں موند لیں اور وہ اگلے گیت کے سنگیت کے ساتھ اسکے لفظ بھی گنگنانے لگا تھا۔
میرے پاس سوائے کمرا چھوڑنے کے اور کوئی چارا نہیں رہا تھا۔ مکیش کے گیتوں کے دوران وہ کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتا تھا۔ اگر میں اُس کے سامنے کچھ کہتا تو اُس نے مجھے کمرے سے دفع ہونے کے لےے کہہ دینا تھا۔
دروازے کے پاس آکر میں نے اُس کی طرف دیکھا تو اُس کا چہرہ مجھے کسی صوفی جیسا، کسی پہنچے ہوئے درویش جیسا لگا تھا ، شانت اور گھمبیر ۔
بی بی نے بھی اس کی بات کو سن لیا تھا ۔ مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا کر کہنے لگی۔
خبردار اگر آئندہ اس سے کوئی دھیلا بھی مانگا …………جتنا عرصہ تک تم تعلیم حاصل کرتے رہو گے اس کے تمام اخراجات میں برداشت کروں گی …….. سمجھے۔ باقی سلامت رہے بیٹا سرون۔ اب تو خیر سے وہ پروفیسر ہوگیا ہے…….. یہ کمائی اس کے …….. اس نے پھر چرخے کی ہتھڑی کو زور سے گھمایا۔اُس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ مجھے معلو م تھا کہ وہ کس کی بات کرنے جارہی تھی ۔ میں پانچ منٹ تک وہیں ساکت کھڑا رہا کہ آگے کچھ بولے گی۔ اُس کا ۔ جسے وہ بنتی ماشکن کے رو بُرو اپنی سوتن کہا کرتی ہے۔…….. سارے بھیت کھولنے لگ جائے گی۔ لیکن نہ تو اُس نے سر اُوپر اُٹھایا تھا اور نہ ہی مُنہ میں کچھ بڑبڑائی تھی۔
سکول جاتے ہوئے باپُو کا کارخانہ راستے میں پڑتا تھا۔ اُن دنوں وہ سیپی کا کام کرتا تھا۔ ایک روز چُھٹی کے بعد میں ” میرے پتا جی “ پر مضمون کو یاد کرتے ہوئے گھر آرہا تھا ۔کئی جملے یاد آجاتے اور کئی بھول جاتے۔ اسی طرح بھولتے یاد کرتے ہوئے پتا جی کا کارخانہ آگیا۔ اسنے بھٹی تپائی ہوئی تھی ۔ کرم سنگھ پنکھا گیڑرہا تھا ۔ میں وہا ں زیادہ دیر تک نہیں رُکا اس لےے کہ مجھے باپُو نے پنکھا گیڑنے پر معمور کردینا تھا۔ گھر تک میرے مضمون میں بہت کچھ شامل ہوتا گیا …….. میرے بابو جی بہت محنتی ہیں۔ وہ صبح سویرے ہی بھٹی تپا لیتے ہیں۔ گھر تو وہ اندھیرا چھا جانے پر ہی آتے ہیں۔ کھانا گھر سے ہی جاتا ہے۔ چائے پانی تو کار خانے سے ہی چلتا رہتا ہے۔ …….. کئی سطروں کا مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ میرا مضمون کا موضوع نیا تھا ۔ باقی لڑکوں سے منفرد بھی ۔ میں خوش تھا۔ مجھے باپُو پر فخر تھا ۔ اس کے محنت کش ہونے پر۔
میں بیرونی دروازے کے پاس آیا تو بی بی کی باتوں میں کچھ مایوسی کی رمق سنائی دی ماسی کرتا رو اُسے سمجھا رہی تھی۔ لو بہن ۔ تمہیں کس بات کی فکر ہے ۔ ایک ہی بیٹی کانتا ہے۔وہ بھی چولاں میں بیاہی جائے گی۔ جیتے رہیں اُس کے مامے۔ تو زیادہ فکر مت کیا کر۔ آدمی کی ذات بس ایسی ہی ہوتی ہے ……..” جتنی کسی کی ڈھکی چھُپی رہ جائے اُسی کو غنیمت جانیں“ آج رات بھی بی بی اور باپُو کے درمیان جھگڑا ہورہا تھا ۔ جو آدھی رات تک چلتا رہا۔ ایک بولتا تو دوسرا خاموش ہوجاتا۔ لیکن بات پھر پھرا کر وہیں پر آجاتی جہاں سے شروع ہوتی تھی ہم چاروں بہن بھائی دالان میں بیٹھے سُنتے رہے تھے۔
”بتا تجھے کونسی چیز نہیں ملتی“؟ ۔ باپُو چیخ پڑا تھا۔
تیری چیزوں کو میں نے چاٹنا ہے۔
مجھ سے یہ نہیں ہونے لگا۔
” پھر سویا بھی کریں وہیں پر جا کر …….. بی بی کلپتی ہوئی دالان میں آگئی۔
” بعد ازاں بی بی باپُو کی بیٹھک میں کبھی نہیں گئی۔
اب باپُو کے لےے گھر کے معنی اس کی بیٹھک تک محدود ہوکر رہ گئے تھے۔گھڑی پر گیارہ بج چکے تھے۔
میری نظریں کمرے میں موجود چیزوں کا معائنہ کررہی تھیں۔ جس قدر اس کمرے میں صفائی تھی ۔ باقی گھر میں شاید ہی کہیں اتنی ہو۔ ہر شے اپنی جگہ پر قرینے اور سلیقے سے رکھی گئی تھی۔ باپُو صفائی پسند تھے۔ یہ بیٹھک اس نے اپنے لےے بنوائی تھی۔ جس میں دیوان تھا۔ صوفہ نما پانچ کرسیاں رکھتی ہوئی تھیں۔ ایک کونے میں لکڑی کی بنی ہوئی چھوٹی سی انگےٹھی تھی جس پرسٹیریو پڑا ہوا تھا اور نیچے کیسٹیں تھیں۔ کمرے کے باہر چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ کسی فرد کے لےے بھی جوتے سمیت اندر آنا سخت منع تھا۔ ایک روز اُس کا گہرا دوست موہنا اپنے نئے کُھسے کے ساتھ اندر آگیا ۔ شاید وہ اپنے نئے جُوتے باپُو کو دکھانا چاہتا تھا۔ لیکن باپُو نے کچھ نہ کہا ۔ چپکے سے کھونڈی اٹھائی اور ایک ایک کرکے دونوں کُھسے باہر پھینک دےے۔ پھر کہنے لگا۔ لو بھئی موہن میاں۔ اگر بچ گئے تو تیرے ۔ اگر کوئی لے اُڑا تو سمجھ لینا کہ اُس کی لاٹری نکل آئی۔ یہ بات تمام گاﺅں میں پھیل گئی۔باپُو کے ایک اور اصول کے ساتھ میل کھائی ہوئی۔
دُپٹے کی ڈیوڑھی بُکل مار کے بی بی آئی اور بُجھی ہوتی اگر بتی کو دیکھ کر میری طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ۔ پُتر دوسری لگانے میں کونسی قباحت تھی۔ پھر اُس نے دوسری اگر بتی سُلگا دی اور پھر نصف رضائی اپنی طرف کھینچ کر گھٹنوں تک لے گئی۔
میں نے بی بی کی طرف دیکھا اُس وقت اُس نے باپُو پر نظریں جمائی ہوئی تھیں۔ اُس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ رونا چاہ رہی تھی لیکن میرے سامنے رو نہیں سکتی تھی اس لےے کہ اگر وہ رو پڑتی تو میں نے فوراً کہہ دینا تھا ۔ بی بی تُو کس کے لےے رو رہی ہے ؟ اُس کے لےے جس نے تمہیں کبھی اپنے پاﺅں کی جُوتی بھی سمجھا تھا۔
کانتا بھی چاہتی تھی کہ وہ روئے اور بلک بلک کر روئے ۔ اس سے اس کے اندر کی تمام گِرہیں شروع ہوجائیں گی یا پھر بُلند آواز ہنسے اتنی بلند آواز سے کہ سارا گاﺅں اُسے دیکھے۔ اس سے بھی اُس کا بوجھ ہلکا ہوسکتا تھا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ بار بار یہ بات مجھے کچو کے لگا رہی تھی۔
”وجے تمہیں نیند تو نہیں آرہی؟“۔ بی بی نے مجھے خاموش دیکھ کر پُوچھا ۔
” اُو ۔ ہوں……..“۔
” اب چائے بنا کر لاﺅں “؟۔
”آپ کاپینے کو دل چاہتا ہے ؟“۔
” میرا دِل آپ سے جُدا تو نہیں“۔
” تو پھر میں بنا لاﺅں ؟“۔
تو کیاں ٹکریں مارتا پھرے گا۔ لگتا ہے کانتا بھی سو گئی ہے۔ کل رات وہ سوئی نہیں تھی۔ اُس کا بیٹا ذرا شرارتی سا ہے۔
وہ اُٹھی اور جاتے جاتے دروازے سے پھر لَوٹ آئی۔ باپُو کی رضائی کو درست کیا تو اسے ناک کے پاس مَیل کی ایک تہہ نظر آگئی ۔ پاس پڑے ہوئے صافے سے نرم ہاتھوں اس کو صاف کیا۔ پھر داڑھی کے بکھرے بالوں کو ٹھیک کرنے لگی۔
” بی بی میں چائے بنا کر لاتا ہوں“۔ میں نے اسے اپنے اٹھنے کا ذرا بھی احساس نہیں ہونے دیا۔
چائے کے پکنے تک نہ جانے میں اُول جلول سوچتا رہا تھا۔ مجھے ایک بات کھٹکتی رہی تھی کہ اب جب باپُو کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تو پھر بی بی نے سرون کو خط کیوں نہیں لکھا۔ اور نہ کسی کے ہاتھ سندیسہ بھیجا تھا ۔ سرون بھاجی گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے اور کلدیپ بھاجی پنجاب روڈ ویز میں آڈیٹر تھے۔ دونوں اپروچ والے تھے ۔ سرون بھاجی کے پاس تو اپنی گاڑی بھی تھی اور وہ باپُو کو شہر لے جا کر ہسپتا ل میں کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھا سکتے تھے ۔ پھر کوئی صلاح مشورہ بھی تو کرنا پڑسکتا ہے۔ تینوں اکٹھے ہوتے توکسی ایک پر بوجھ نہ پڑتا اورپیٹھ پیچھے کوئی کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ کرتا۔ ہر ایک اپنے فرائض کو نبھاتا۔ گاﺅ ں والے بھی انہیں سراہتے ۔ اور ان پر فخر کرتے ۔ بی بی کو بھی چنتا نہ ہوتی۔ کائنات بھی وقت پر اپنے گھر جانے والی ہوتی۔ جب سے باپُو نے چارپائی سنبھالی تھی ۔ کائنات ہی اس کے پاس موجود رہی تھی۔ یہ اس لےے بھی ممکن ہوا تھا کہ وہ ہم سے زیادہ قریب رہتی تھی۔ بی بی نے پڑوس سے کسی لڑکے کو بھیج کر منگوالیا ہوگا۔ میرا یہاں آنا تو اس وجہ سے ہوا تھا کہ میری بیٹی کو مکئی کی روٹی بہت پسند تھی ۔ وہ بھی میتھے ملی روئی۔ اچھی مکئی تو صرف جَسے کے ہاں سے ہی مل سکتی تھی۔ اور پھر جسا جب بھی مجھے ملتا گاﺅں آنے کی تاکید ضرور کرتا۔ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی تھی اور اتوار کی شام کو پورا لے کر آنا تھا۔ اگر میں نہ آتا تو مجھے باپُو کی بیماری کا کیسے پتا چلتا تھا۔
گذشتہ شام کو ہی بی بی کو نظر آنے لگا کہ باپُو کاانت اب نزدیک ہے ۔ اُس نے مجھے سمجھانے کے انداز میں کہا تھا۔” کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ یہ جیسا بھی تھا یہ کسی بھی شخص کے انتقال پر پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔ اگر کوئی میت نہلانے کا حوصلہ نہ رکھتا تو یہ سامنے آجاتا۔ مجھے معلوم ہے اپنے گاﺅں کے دُنئیے برہمن کے بارے میں ۔ وہی جو سیپی کرتا تھا۔ لنگڑا دنیا۔ وہ اپنی کوٹھڑی میں ہی مردہ پایا گیا تھا۔ دو روز بعد پتہ چلا ۔ ڈر کا مارا کوئی بھی اُس کے نزدیک نہیں گیا۔ اِس مائی کے لعل نے دروازے کو قبضوں سمیت دھکا دے کر اُکھاڑپھینکا۔ اندر سے بدبو کے بھپکے نکلنے لگے۔ باہر تو ہما شُما کی بھیڑ لگی ہوئی تھی لیکن نزدیک جانے کی کسی بھڑوے کی ہمت نہ ہوئی ۔ یہ باہر آیا اور پاس کھڑے لوگوں سے کہنے لگا۔ ” آپ ایندھن منگواﺅ ۔ باقی میں جانوں میرا کام جانے۔ اگر کوئی سیڑھی کو ہاتھ لگانے سے گھبراتا ہے تو میں اسے تنہا ہی اُٹھا کر لے جاﺅں گا……..
لیکن مجھ سے باپُو کی تعریف سنی نہ گئی۔ میں نے تو ہمیشہ یہی چاہا تھا کہ میرے سامنے کوئی باپُو کی برائی کرے۔ ان کی کمزوریوں کی کہانیاں سُنائے۔ وہ بھی بڑھا چڑھا کر۔ پرسوں جب میں اڈے پر اترا تو لمبڑوں کا پیارا ملا۔ اُس نے پوچھا۔” تائے کا کیا حال ہے ؟“۔
میں تو آٹھ ماہ کے بعد گاﺅں آیا ہوں ۔ گاﺅں والوں کو پتا ہوگا ۔ مجھے کیا معلوم ۔ میں نے غصے سے کہا۔ ” لو بھئی پیوتیرا ۔ کہنا ہے گاﺅں والوں کو معلوم ہوگا“…….. اُس نے طنزاً کہا جس پر میں نے اپنے قدم تیز کردےے۔ مجھے معلوم تھا کہ پیارے کے والد موہنے اور باپُو کا کھانا پینا ایک رہا ہے۔ ان سے بابو کی تعریف کے بنا اور کسی بات کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔باپُو مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ مجھے گاﺅں کو خیر باد کہے ہوئے دس برس ہونے کو تھے۔ باپُو ایک بار میرے گھر نہیں آیا تھا۔ میرے ایک ہی بیٹے کی ” چھٹی…….. پر بھی نہیں۔ ہاں بی بی ضرور آئی تھی۔ میں اکھنڈپا ٹھ کی تقریب کا مٹھائی کا ڈبہ اور کارڈ لے کر آیا۔ باپُو بیٹھک میں تھا۔ میں کارڈ پر لکھے ہوئے کو بی بی کو زور زور سے پڑھ کر سنا رہا تاکہ میری آواز باپُوکے کانوں تک پہنچ سکے۔ لیکن تھوڑا بہت سننے کے بعد اُس نے سیڑیو کی آواز کو بلند کردیا تھا ۔ سنے جانے والے الفاظ تھے۔” سردار ملکیت سنگھ کی جانب سے اپنے پوتے کی …….. میں سب کچھ سمجھ گیا تھا۔ میں تو کارڈپر باپُوکا نام نہیں دینا چاہتا تھا لیکن نیلم نے میری ایک نہ سنی۔ کہتی رہی کارڈ بڑے کی طرف سے ہی ہو۔شائد اس سے باپو مان جائیں لیکن باپُو بھی اپنے اصولوں کا پکا تھا۔ بی بی چائے بنا کر لے آئی تھی۔اور میں نے باپُو کے پاس جائے کے لےے اپنا دِل سخت کرلیا تھا۔ لیکن پچھلے پاﺅں واپس آتے ہوئے باپُو نے کھٹاک سے دروازہ بند کیا اور بیرونی دروازے سے باہر نکل گیا۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ اب وہ اپنے کارخانے ہی جائے گا۔ ایسے موقعوں پر اُس کی آخری منزل اُس کی حویلی میں تعمیر شدہ یہ کارخانہ ہی ہوتا۔ جہاں سے اسے کام سے کبھی فرصت نصیب نہیں ہوتی تھی۔ بی بی خاموش رہنے کے علاوہ اور کوئی چارا نہ تھا۔ مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ اگر میں کارخانے جاکر اُس سے نہ ملا تو بی بی کی خاموشی طُول پکڑ جائے گی۔ اس سمے مجھے باپُو سے زیادہ غصہ نیلم پر آرہا تھا۔ کہ خوامخواہ مجھے بھیج دیا۔ جب ساتھ چلنے کو کہا تو وہ بولی ۔” تجھے میری حالت کا تو علم ہے ۔ بھلا میں کیسے سفر کر سکتی ہوں۔ آنا میری مجبوری بن گیا تھا۔ اب یہی مجبوری مجھے کارخانے لے گئی تھی۔ باپُو بستر پر ٹیک لگانے کے لےے پلائی کو ناپ رہا تھا۔میرے نزدیک آنے پر کہنے لگا ۔” کارڈ انگیٹھی پر رکھ دے۔ اور اپنی رن کے پاس چلا جا“۔ باپُو کے ان سخت بولوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ باپُو کے غصے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔کارخانے سے گھر تک کا سفر مجھے سَو کوس سے بھی زیادہ لگنے لگا تھا۔ پتہ نہیں کیوں جب باپُو غصے میں بولتا تو اُس وقت مجھے بیٹھک میں موجود سونے کو کہے ہوئے الفاظ یاد آنے لگتے ۔” خواتین سمجھتی ہیں کہ جب بیٹے ہم قد ہوجائیں تو اُن تو سرداری اُن کی ہونی چاہےے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ جب بھی بیٹا بولے گا تو ماں کے حق میں ہی بولے گا۔ پھر تو بیٹے شریک ہوگئے نا۔ میں ایسے شریکوں کو …….. پر بھی نہیں لکھتا ……..“۔ وہ کہتا “۔
……..
دونوں ہاتھوںمیں گلاس تھامے ہوئے میں برآمدے میں آیا توبی بی باپُو پر جُھکی ہوئی تھی۔ اُس کے ہاتھ باپُو کی گردن کے قریب تھے۔ میں رفتہ رفتہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ مجھے بی بی گھبراتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ بار بار اپنی بکل ٹھیک کررہی تھی اور اُسے پھیلا بھی رہی تھی کہ وہ جو کچھ کر رہی تھی کسی دوسرے کو نظر نہ آئے لیکن اُس نے ایک بار بھی دروازے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
بی بی کی انگلیاں ابھی تک باپُو کی گردن پر ہی تھیں۔ میرے اندر سے ایک سوچ اُبھری کہ اب وہ باپُو کا گلا دبادے گی ۔ تمام عمر باپُو کی ایک نہ سنی تھی۔ بس اپنی ہی منوائی تھی ۔ شاید بی بی کا غصہ اب باہر آنا شروع ہوگیا تھا یا پھر وہ اپنا بدلہ لینا چاہ رہی تھی۔ بھلا اس سے اچھا موقع اورکیا ہوسکتا ہے۔ میں اس سوچ میں مبتلا رہا تھا کہ بی بی بس جینے کے لےے ہی جی رہی تھی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بی بی کی انگلیوں کی پوریں نظر آئیں تو مجھے خوشی ہوئی۔ انتہا کی خوشی ۔میں تو خود یہ چاہتا تھا کہ باپُومر جائے۔ بلکہ اُسے تو آج سے پندرہ برس پہلے دنیا چھوڑ جانا چاہےے تھا ۔ پھر یہ زندہ کیوں رہا تھا۔
اب بی بی کا ہاتھ باپُوکے ناک کے پاس تھا۔ شائد وہ باپُو کا گلانہ دبا سکی ہو۔ وہ اُس کی سانس بند کرکے مار دینا چاہ رہی ہو۔ یہ طریقہ بھی ٹھیک ہوسکتا ہے۔ ایک ہاتھ منہ پر رکھ دیا جائے اور دوسرے سے اس کی ناک بند کردی جائے۔ اس طرح پانچ منٹ میں اُس کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
ہاتھوں میں پکڑے ہوئے گلاس کو میں نے ایک طرف رکھ دیا۔ میرے من میں آیا کہ میں اس کام میں بی بی کی مدد کروں۔ اس کی کمزور انگلیوں میں اب پہلے جیسی سکت نہیں رہی تھی ۔کانتا دالان میں گہری نیند کے مزے لے رہی تھی۔ میرے سِوا اُس کی مدد کون کرسکتا تھا ؟ دوسرے ہی لمحے مجھے ایک اور خیال آیا کہ میرے جانے سے کہیں وہ اپنا پلان ہی نہ بدل دے ۔آن واحد میں بی بی کا جسم بُری طرح لرزنے لگاجیسے کسی کو ٹھنڈے پانی کے ٹب میں غوطہ دے کر باہر کھڑا کیا گیا ہو۔ مجھے لگا کہ باپُو اب پورا ہوگیا تھا اور……..آگے کا مجھے کچھ پتہ نہ چلا کیوں کہ بی بی کے مُنہ سے نکلی ہوئی ۔ وے لوکو…….. میں اُجڑ گئی…….. وے میں لُٹی گئی……..“ نے میرا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔
باپُو کے مردہ جسم کو چارپائی سے نیچے رکھتے ہوئے میری نظریں اُس کی گردن پر مرکوز ہوگئیں۔ لیکن وہاں مجھے ایسا کچھ بھی نظر نہ آیا جس سے میں یہ فیصلہ کرتا کہ باپُو کی موت قدرتی تھی یا اُسے بی بی ……..

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *