Home » شونگال » پشاور چُک چین

پشاور چُک چین

پشاور سکول میں دو سو بچوں کو جلتی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈھونڈڈھونڈ کر بنچوں کے نیچے سے ، پردوں کے پیچھے سے ،یہ سہمے دُبکے نونہال ہانک ہانک کر جمع کےے گئے اور آتش و بارود کی بھینٹ چڑھائے گئے۔اُن کی پاک ریشمیں گردنوں کو ناپاک چاقوﺅں سے ذبح کیا گیا۔ وہ ننھے فرشتے۔ جو ہر گناہ سے پاک تھے۔ انہوں نے متحیر آنکھوں اور متجسس ذہنوں کے ساتھ ابھی دیکھا ہی کیا تھا۔ شبنم جیسے نازک روح و جسم لےے نوخیز آدم زادوں کا قتلِ عام آسمانوں تک کو تھرّا گیا۔ان بے جان پھولوں کی لاشوں سے پوری کائنات ہل گئی کہ وہ اپنی حسین ترین تخلیق کے بھی حسین ترین حصے کو گولیوں میں بھنتا دیکھ رہا تھا۔ …. لولاک کی امیدوں کو مارنے کے بعد قاتل اُن کی نگہباں اور ماں مواقف استانیوں کو اُن کے سامنے ایک ایک کرکے زندہ جلاتے رہے ۔اورآسمانوںکی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔
یہ بچے سیاست، ادب ، صحافت کسی بھی چیز سے واقف نہ تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں بچے پہلی دفعہ مارے گئے۔ یہ سفاکیت تو کب سے جاری ساری ہے۔ ہمارے سماج کی تاریخ کاہر مرحلہ اِن مسلے ہوئے پھولوں سے گندھا ہوا ہے۔حالانکہ ہماری بھاری اور اشرف المخلوقاتی روایتوں رواجوں میں بچوں کا قتال ممنوع ہے۔ پندرھویں صدی میں جب دودا گور گیژ کے خاندان کے سارے بالغ مردوں کو تہہ تیغ کیا گیا تو یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ کم سن بچہ بڑا ہوکر بالاچ بنے گا، اُسے نہیں مارا گیا تھا۔ ہم کتنی مثالیں لائیں۔ جو لوگ چار جماعتیں پڑھ کر اور آوارگی میں دو چار شہر دیکھ کر ہماری روایات سے متعلق ہر بات کو ” پسماندہ پسماندہ“ کہنے کے مرض میں مبتلا ہیں وہ سمجھ لیں کہ انسانی اشراف اقدار سینکڑوں سالوں کی جنگوں، فتحوں، شکستوں مہاجرتوں اور غلامیوں کے جانکاہ پراسیس کے بعد وضع ہوئی ہیں۔
طعنے دینے کا وقت نہیں ہے، نہ ہی زخموں کی نمائش کی گھڑی ہے۔…….. مگر بس یاد دلانے کا موقع ہے ۔جنرلوں پروفیسروں اینکروں جرنلسٹوں جاسوسوں چاپلوسوں چار لبازوں جعلسازوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے اصل میں تم نے مارے ہیں، یہ قاتل تو تمہاری نظریاتی اولاد تھے جنہیں ماں سے چھین کر تمہارے ٹریننگ کیمپوں نے گود لیا ہوا تھا۔ تم نے جس مائنڈ سیٹ کے ہاتھوں سوویت یونین کو ماضی بنا دیاتھا، اسی مائنڈ سیٹ نے ہمارا اپنا مستقبل ادھیڑ کر رکھ دیا ۔
پشاور کے بچوں کا قتل انسانیت کا نوحہ ہے۔ یہ عجب قیامت ہے کہ وہائٹ ہاﺅس ، ڈاﺅننگ سٹریٹ ، کابل و تہران و دہلی واسلام آباد کی پالیسی ساز بلڈنگوں میں بچہ کُش پالیسیاں بنانے والوں کی منشا اور منصوبہ کے عین مطابق ہم عوام ہی نمائندے منتخب کرتے ہیں اور پھر اُن کی کارستانیوں پہ خود ہی سینہ کوبی کرتے ہیں۔ مگر اگلی بار پھر میدان میں موجود انہی طفل کُشوں میں سے سب سے بڑے سنگدل کو حاکم بنا لیتے ہیں۔کوئی تیسری چوائس کوئی تیسرا آپشن موجود ہی نہیں…….. یوںانسانیت کو ایک ابلیسی دائرے میں گھومتے رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس دائرے کو توڑنے کی اشد ضرورت ہے۔سرمایہ داری کے سیاسی نظام کے دائرے کو توڑنے کی ضرورت ہے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...