Home » شونگال » سوبھوگیانچندانی

سوبھوگیانچندانی

پشاور قیامت سے صرف آٹھ دن قبل(آٹھ دسمبر کو) اِس خطے میں فیوڈل ازم کو توڑنے کی مہم میں زندگی لگانے والا ایک سرکردہ شخص فوت ہوگیا۔ امن ، برداشت اور رواداری کی مجسم مثال، سوبھوگیان چندانی انتقال کرگیا۔کتنی دلخراش اور اندوہناک خبر تھی وہ ،زندگی سے پیار کرنے والوں کے لےے!!۔
سوبھو نے زندگی سے یاری لگارکھی تھی۔ بہت انسان دوست 94 سال تھے اُس کی زندگی کے۔ بہت تخلیقی، کارآمد اور جہاں دوست استثنائی زندگی رہی اُس کی۔اس نے انگریز کی غلامی دیکھی، اُس کے خلاف لڑا۔ آزادی دیکھی، اُس کی برقراری کے لےے لڑا۔اُس آزادی کو آئی ایم ایف کے پاس رہن ہوتے دیکھاتواُسے واگزار کروانے کے لےے لڑا۔ اُس نے سوویت یونین نامی سوشلزم دیکھا،اپنے وطن میں اُس جیسا انقلاب لانے کو لڑا۔ اس نے اِسی سوویت یونین کو اپنے آپ سے روٹھتے ٹوٹتے دیکھا اور پھر اُس ٹوٹ پھوٹ کو سوشلزم کی موت قرار دینے کے امریکی فتووں کے خلاف لڑا۔ اس نے پوسٹ سوویت پاکستان کو انارکی اور بربریت میں نہلاتے دیکھا۔اور امن و شانتی کی بحالی کے لےے لڑا….
” مردہ پرستی“ کی دُہائیاں دینے والو سنو! سوبھو کے دوسرے دوستوں ہی کی طرح اُس کے ساتھ بھی ایسا قطعاً نہ ہوا۔ زندگی بھر اُس کی تکریم کی گئی ، اس کی بات سننے والا وسیع حلقہ ہمیشہ موجود رہا جہاںوہ ہمہ وقت اہم ترین مقرر کے بطور موجود رہتا۔ اُس کی تحریریں اخبارات اور رسائل میں محترم جگہ پاتی رہیں۔اُس کی مہین زندگی میں ہی اُس کی شامیں منائی جاتی تھیں ۔ اُس کو پوچھنے لیڈر ،و زیر ،عاشق اور شاعراُس کے گھر جاتے تھے۔ اس سے ملنے وفود جاتے تھے، آکر ملاقات کا حال لکھتے تھے ۔اُس ”پر“ اور اُس ”کی “کتابیں چھپتی رہیں۔
بلوچستان تو بالخصوص اُس کا گھررہا۔ اُس کے تحریکی رفقا تھے یہاں۔ جس وقت متشدد بھٹو نے کال کوٹھڑیوں کے مہیب دروازے اور بدنما ہتھکڑیاںاُس پہ تان لی تھیں تو یہ بلوچستان ہی کا بچہ تھا جس نے اُسے کوئٹہ رکھا، ریاستی مہمان کے بطور۔ اورا ُسی بزنجو کی جھڑکیوں نصیحتوں اور دلیلوں سے پتھردِل پگھلا تھا اور سوبھو کے وارنٹ واپس ہوئے تھے۔ڈاکٹر خدائیداد ، سائیں کمال خان ، انجم قزلباش اور ماما عبداللہ جان نام کے اُس کے چاربہترین دوست، اور درجنوں جونیرساتھی یہیںبلوچستان میں موجود تھے۔ اُس پر اولین کتاب یہیں (دیوان بچل مل شہید کے وطن)، بلوچستان میں ہی لکھی گئی۔ اور وہ یہیں ہمارے دلوں میں رہا۔سوبھوگیانچندانی کو سب سے بڑا ادبی اعزاز دلانے میں بلوچستان ہی انوار و افتخار کے ساتھ رہا۔ اُس کی سالگرہیں ، اُس کی بیماریاں، اُس کے سیاسی ادبی دورے ، اوراُس کی تقاریر بلوچستان ہی نشر کرتا رہا…….. بلوچستان سوبھو کا پبلک ریلشنگ آفس رہا۔
وفا کے ساتھ ایک ہی سلو ک ہوسکتا ہے، وفا۔اُسے یقین تھا کہ اُس کے قافلے کے ساتھی اُسے کبھی نہ بھلائیں گے۔ ہم محض ماہتاک ”سنگت “کا یہ ایڈیشن ہی اُس محنتی اور بہادر سیاسی انسان کے نام کرکے وفا نہیں کررہے بلکہ ہم تو اس وفا کو جاری رکھیں گے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح سوبھو نے اپنے سندھ وطن سے وفا رکھی، جس طرح اُس نے اپنے نظرےے سے جاری رکھی، جس طرح اُس نے محنت کرنے والے کم قدر انسانوں سے وفا جاری رکھی۔ جس طرح اُس نے زندگی کے ساتھ وفا رکھی۔
….بالکل اُسی طرح کی وفا جو شریف آدمی دوسرے شریف آدمی سے کرتا ہے، جس طرح ہم نے اُس کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *