ذرا دیکھو تو زندان کی دیوار پر
لہلہاتے ہیں پھول
قید میں تم نے کاٹے یہاں بیس سال
ان کا ایک اک برس
ان کا ایک اک نفس
جذب ہوتا رہا اس کی دیوار میں
لو، بہاروں نے ان کو کیا ہے قبول
دیکھ لو آج زنداںکی دیوار پر
کھلکھلاتے ہیں پھول
کامرانی نے بڑھ کر تمہیں چھو لیا
اور سحر نے سنا ئی خوشی کی خبر
ہم کہ رہتے ہیں طول شب ِتار میں
کوئی روزن نہیں جس کی دیوار میں
اک خوشی کی خبر تم نے دی ہے ہمیں
سان سوچی ، یونہی مسکراو سدا
دل جو ازبس غم و درد سے چور ہیں
یہ تمہاری محبت سے معمور ہیں
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...