Home » شیرانی رلی » اک قدم اور ۔۔۔۔۔ احمد شہر یار

اک قدم اور ۔۔۔۔۔ احمد شہر یار

ہوا کی لہر اڑتی ہے
تو میں حسرت سے اس کو دیکھتا ہوں
پرندوں
بادبانوں
ریگ ِ صحرا
اور دریا کی طرح
محسوس کرنا اور اس کے ساتھ بہنا
چاہتا ہوں
مگر ایسانہیں کرتا!

ہمارے صحن میں
خوشبو مسلسل
سوچتی اور پھول پتوں پر
قدم رکھتی ٹہلتی ہے
تو میں بھی اس کی
ہمراہی کی خواہش میں
ارادے باندھتا اور توڑتا رہتا ہوں
اور پھر ہار جاتا ہوں

میں اپنے گھر کی کھڑکی سے
فلک سے زینہ زینہ
دھوپ اترتے دیکھتا ہوں
اور اس کے ساتھ
رقص ِ گرد ہوتا دیکھتا ہوں
مگر اِس رقص میں شامل نہیں ہوتا

ہوا کی لہر ہو
خوشبو ہو
نتھری دھوپ ہو
یا رقصِ گردِ ہیچ مایہ ہو
مری خواہش ہے جب بارِ دگر
مجھ کو بنایا اور مٹی سے اٹھایا جارہا ہو
کہ میں ایسا اپاہج ہوں
جسے اب تک تحرک میں کبھی ڈھلنا نہیں آیا
مجھے چلنا نہیں آیا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *