Home » قصہ » کوشش سی ۔۔۔ طاہرہ اقبال

کوشش سی ۔۔۔ طاہرہ اقبال

اس عشق کی نوعیت فرق تھی۔ یہ عشق دو مخالف جنس کے حسن و محبت کا بے اختیار اظہار نہ تھا ، بلکہ دو اہلیتوں اور ذہانتوں کے ٹکراﺅ کا فطری ردِّ عمل تھا۔ ایسا ٹکراﺅ جو دشمن بنا دیتا ہے یا پھر دوست ۔ جوں جوں یونیورسٹی میں اِس عشق کے چرچے پھیل رہے تھے، اس کی توجیہات بھی بڑھتی جارہی تھیں۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ میں دونوں کی یکساں ذہانت، ڈرامہ سوسائٹی میں دونوں کی مساوی افتادِ طبع، ہر عمل ، ہر ہنر مندی، ہر مباحثہ میں دونوں حریف، کشش ثقل سا کھنچاﺅ ، ذہانت کا ذہانت سے ، ہنر کا ہنر سے ، صلاحیت کا صلاحیت سے او ر شخصیت کا شخصیت سے، جسے جدت ِ طبع رکھنے والوں نے فطری عشق کا نام دیا تو کسی نے نظریاتی عشق کہا ۔ کچھ نے فلسفیانہ عشق بتایا۔ تو کسی نے تجرباتی عشق، گویا یہ عشق بھی ایک تحقیق طلب متن ہوگیا، جس پر محققانہ بحثیں چھڑ گئیں۔ نظریہ¿ عشق کی ایک نئی کیمسٹری مرتب پائی، جس کے عناصرِ ترکیبی نازو ادا تعریف و ستائش، حسد و رشک، ہجر و وصال ، جنون و بے قراری سے تبدیل ہوکر میلانِ طبع، ذہنی ہم آہنگی، مساوی لیاقت، اعتماد اور یقین بن گئے کہ عقیدہ¿ عشق ایسا فطری اور نا گزیر ہوگیا کہ میر ہوتے تو اپنے نظریہ¿ عشق میں تھوڑی ترمیم کرلیتے۔
سخت دانا تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
ماہم رنگ اُڑی جین پر لمبا بے ڈھنگا کرتا پہنے لائبریری، ڈرامیٹک سوسائٹی، میوزک گروپ میں اپنی ذات، صورت ، احتیاجات سب گم کردیتی اور معاذ اپنے پیانو کے تاروں میں کوئی اَن سُنی ، اَن چھوئی دُھن میں خود کو سمو دیتا جس کے آہنگ کی سرشاری میں ما ہم اپنی مہارتوں کو پخت کرتی تھی۔ کچھ کر دکھانے کی مطلوبہ توانائی وہ ایک دوسرے کے والہانہ جذبوں کی حدت سے کشید کرتے تھے کہ اگر کبھی معاذ گھر چلا جاتا تو ماہم کی تمام تر توانائیاں کسی سرد خانے میں فریز ہوجاتیں اور دھوپ نکلنے کے انتظار میں بادلوں میں چھپے سورج کو کھوجتی رہتی اور اگر کبھی ماہم چھٹی گزارنے کہیں چلی جاتی تو پیانوکے تاروں میں اُلجھے سُر گُنجھل ہوجاتے۔
جس روز ماہم ٹی ، وی پروڈیوسر کی گاڑی میں بیٹھ کر ریکارڈنگ کے لےے گئی۔ ساری یونیورسٹی دم سا دھے منتظر تھی کہ آج اس غیر روائتی عشق کو کوئی روائتی سا دھچکا لگے گا اور جب پروڈیوسر کی گاڑی ماہم کو واپس چھوڑ کر گئی۔ تو سب سے پہلے معاذ نے ہی اُس کا گھیراﺅ کیا۔
” لائنیں تو نہیں بھول گئی تھی۔ پرفارمنس تو ٹھیک رہی نا“۔
سارے منتظر دماغ مطلوبہ منظر نہ دیکھ سکنے پر اس عشق کی نیچر کو پھر سے ڈسکس کرنے لگے۔
جس روز معاذ کے گروپ میں یونیورسٹی کی سب سے خوب صورت لڑکی مونا شامل ہوئی، تو پھر روایتی عشق کی کوئی چنگاری دیکھنے کو سبھی منتظر تھے، لیکن جب ماہم نے سُر کی اس سنگت کی جی کھول کر تعریف کی تو مونا ھِکنے کی بجائے مُرجھاتی چلی گئی۔ ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا معاذ جب پیانو کے سُر چھیڑتا تو مختلف ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیاں برکھا بہار کی گھٹا بن اُمڈتی چلی آتیں، لیکن جونہی ماہم کا جھونکا قریب سے گُزر جاتا تو سب یوں چھٹ جاتیں، جیسے پانی گھرے بادلوں کو ہَوا کا تیز جھولا کرچی کرچی کر ڈالے اور برسے بنا ہی مطلع صاف ہوجائے۔
جس رو ز ماہم کا پہلا ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہوا، ہوسٹل کے سبھی لڑکے لڑکیاں ٹی۔ وی روم میں موجود تھے اور رومانوی جذباتی سین پر معاذ کے چہرے پر کچھ ٹٹولتے تھے، پر اُس کے چہرے پر تو کسی نقاد جیسی سنجیدگی اور غیر جانبداری مسلط تھی۔ وہ تو ماہم کی اداکاری کے معیار کو جانچ رہا تھا اور اس نے کہا تھا۔
” ایک سا کام ایک سی بات سبھی کرتے ہیں لیکن کبھی وہی کام، ویسی ہی بات دوسروں سے اس قدر مختلف اور نمایاں کوئی کیونکر کرجاتا ہے۔ یہی فن کا معجزہ ہے اور یہی معجزاتی تاثیر جو معمولات کو غیر مرئی عمل سے گزار کر لافانی بنا دیتی ہے“۔ شاید اسی معجزہ، کشش کو عشق کا نام دیا گیا ہے۔ اسی معجزے کی تاثیر تھی کہ تمام لڑکے لڑکیوں نے دونوںکا ایک دوسرے پر حق ایسے ہی تسلیم کرلیا تھا جیسے کسی مفتوح جرنیل نے اپنا نشان ِ امتیاز اپنے ہم منصب کو پیش کرتے ہوئے کھلے عام پسپائی کا اعلان کیا ہو، فتح کے اس پھریرے کو لہراتے ہوئے سبھی دیکھتے اور دست برداری کی اس دستاویز پر دو چار آہیں بھر دستخط کرتے اور اس غیر روایتی عشق کی کیمسٹری پھر سے ڈسکس کرنے لگتے۔
اُس وقت اس غیر روایتی عشق نے بڑا روایتی موڑ لیا، جب دونوں نے اپنے اپنے خاندان کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے کورٹ میرج کرلی۔ تب اس عشق کی روایت گھروں، محلوں، اخباروں اور مسجدوں سے جُڑنے لگی۔
ایک فرقے کی لڑکی کا کسی دوسرے فرقے کے لڑکے سے نکاح ، کس نے جائز قرار دیا۔ مذہب نے علماءنے ، معاشرے نے، خاندان نے ، کسی نے بھی تو نہیں ۔ اس نکاح کا ٹوٹنا مذہب کی سا لمیت سے مشڑوط تھا۔ سنگ ساری کا فتویٰ جاری ہوگیا ، وہ لڑنے لگے۔ خاندان سے، معاشرے سے ، علماءسے ، انہوں نے ہر ایک کو بتایا ۔ اُن کی شادی کسی مذہب، کسی عقیدے کے تحفظ کے لےے نہ تھی۔ کسی خاص مسلک کی حامل نسل پروان چڑھانے کے لےے بھی نہ تھی۔ کسی روائتی عشق کی پیداوار بھی نہ تھی۔ یہ تو دو ذہانتوں کے ٹکراﺅ کا منطقی نتیجہ تھی، جس کی فطری کشش کی کُنڈی میں کوئی مذہب، عقیدہ، رسم و روایت کبھی بھی نہ اٹکتا تھا۔ یہ ماورائے زمین حادثہ انسانی مجبوریوں اورکمزوریوں سے اتنا لا تعلق کیوں ہوا کرتا ہے ۔ اُنہوں نے منت کی اُنہیں اکٹھا رہنے دیا جائے۔ ایک دوسر ے کے لےے نہیں ۔ ایک دوسرے کی صلاحیتوں کی تکمیل کے لےے ادھوری قابلیتیں ،نا مکمل ہنر مندیاں، ذہن اور جسم کا دیمک ہوجایا کرتی ہےں۔ اُنہیں ضائع ہونے سے بچایا لیا جانا چاہےے لیکن معجزہ¿ فن کی نمود کے لےے باہمی لیاقتوں سے کشید کی جانے والی توانائی اس بے کار لڑائی میں ضائع ہونے لگی۔ ان ذہانتوں اور اہلیتوں کو بچانے کے لےے، خود کو محفوظ کرلینا ضروری تھا۔ دونوں نے بڑے ہی غیر روایتی انداز میں الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا، معاذ اپنی کزن کے دولہے کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے عقیدے کا محافظ بن گیا، اورماہم نے اسی پروڈیوسر ( جس کے ڈرامے کی وہ ہیروئن تھی) کے بچے کی ماں بن کر مسلمان نسل کو تحفظ دے دیا۔یہ محبت کی کہانی بڑی سہولت کے ساتھ اپنے روایتی انجام کو پہنچ گئی تھی۔ اب اسے فائل کور لگا کر ریکارڈ روم میں ڈال کر بھول جانا چاہےے تھا۔ ایسے ہی جیسے تاریخ بہت سے خونی اوراق کوکتابوں کی موٹی جلدوںمیں گھونٹ دیا کرتی ہے۔ انسانوں کا مزاج بھی عجب ہے، بھولنے پر آئیں تو ہلاکت خیز زلزلے یا دداشتوں میں دراڑ تک نہ چھوڑیں، محفوظ کرنے پر آئیں تو دراڑ کے بال کو بھی سنبھال رکھیں۔ معاذ کی بیوی ربیعہ کی یادداشتوں کو ماہم کی ضربوں نے چکنا چور کردیا تھا۔ وہ قربت کے انتہائی لمحوں میں بھی تڑپ کر الگ ہوجاتی۔
” میں نے خود سُنا ، خود، تمہارے تالو کی لرزش میں” ماہم ماہم“ کی پکار تھی۔ اسی طرح جیسے تمہارے پیانو کے تاروں میں سُر نہیں ماہم ماہم کارِ دھم ہوتا ہے“۔
اُس نے پیانو بجانا چھوڑ دیا ۔ تو ربیعہ کو یہ آواز اُس کی دھڑکنوں کی بے ترتیبی میں سُنائی دینے لگی، تو کیا اب وہ دھڑکن بھی بند کر ڈالے۔ اُس کے وجود کی سنسناہٹوں ، اُس کے لمس کی ٹھنڈک میں دوران گفتگو اُس کی خاموشی میں اور خاموشی کی گفتگو میں، ماہم ماہم کا شور مچارہتا۔ وہ کانوں میں اُنگلیاں دبا کر چیخ اُٹھتی۔
” معا ذتم ایک ساز کی مانند ہو ، جس کے ہر ہر تار میں ایک ہی سُر بولتا ہے اور یہی سُر میری چڑہے۔ اس کی تکرار میرا بھیجا چیر گئی ہے ، تم نے پیانو بجانا چھوڑ دیا کہ اس کے سُروں کے آہنگ چھپے راز اُگل دیتے تھے۔ یہ نت نئے قیمتی تحائف اور پالتو بلی سا تمہارا والہانہ انداز ہی تو گواہ ہے کہ ان پردوں کے پیچھے کچھ اور چھپا ہے۔ نہیں رہ سکتی، نہیں رہ سکتی میں ایک تقسیم شدہ انسان کے ساتھ“۔
وہ دھڑام سے درازہ بند کرکے خود کو قید کرلیتی گھنٹوں …….. دنوں …….. وہ آفس سے لوٹتا تو وہ روٹھی ہوئی ملتی ۔ وہ اُسے پیار کرتا تو وہ مزید روٹھ جاتی کہ وہ اُسے فریب دلانے کو یہ ڈرامہ رچا رہا ہے کہ وہ باہر کسی اور سے مل کر نہیں آیا۔ اگر وہ الگ ہوکر بیٹھ جاتا تو وہ سامنے پڑی ہر چیز اُلٹ دیتی کہ وہ باہر کسی اور سے مِل کر آرہا ہے ۔ اسی لےے تو اُسے اُس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اُسے یقین دلاتے دلاتے تھک جاتا ۔ پروہ بے یقینی کے کرب میں کبھی نہ تھکتی۔ معاذ نے اُس کے لےے ایک گیت بنایا، جس کے ہر ہر حرف میں ربیعہ کو پرویا۔ پروہ ناراض ہوگئی کہ جس آہنگ پر یہ گیت بج رہا ہے۔ اُس میں ماہم کا سُر پرویا ہے۔ وہی سُر جو اُس کی سماعتوں کا عذاب ہے۔
جس روز اُس نے اپنا کمرہ الگ کیا۔ اُس روز شوبز کی خبروں میں سر فہرست ماہم کی طلاق کی خبر تھی۔ فریقین نے ایک دوسر ے پربہت سے الزامات لگائے تھے لیکن ربیعہ کو اس کی ایک ہی وجہ معلوم ہوئی تھی ۔ وہ اپنے شوہر کا نام بار بار بھول جاتی ہوگی اور معاذ معاذ کا سُر اُس کے بدن کے ساز میں سے بکھرتا ہوگا، وہ معاذ معاذ کے رِدھم پر بجتی ہوگی۔ وہ جس کے ساتھ رہتی ہے۔ اُس میں سے کسی اور کو کھوجتی ہوگی۔ تبھی تو یہ معلوم ہوگیا۔ شادی اور طلاق، پھر شادی اور پھر طلاق، کبھی کسی اداکار سے، کبھی ہدایت کار ، کبھی کوئی سیات دان، یہ سہ ماہی اور شش ماہی، شادیاں اپنے پیچھے کئی نفسیاتی توجیہات چھوڑ جاتیں۔ وہ مختلف مردوں میںمعاذ کا لمس ڈھونڈتی ہے ۔ وجود پہلے لمس کے رد عمل کا عادی ہوجا تا ہے۔ پہلے لمس کی تلاش لمسیات کی فطری خواہش تک جاری رہتی ہے ۔ لمسیات کی فطرت زیرِ بحث آتی۔ وجود کے عمل اور ردِ عمل کا پورا نظام پہلے لمس کی برقیات کا اسیر ہوجاتا ہے ، جیسے ماں کا لمس ، لمسیات کا تعارفیہ اور پھر عمر بھر اُسی ذائقہ کی بھوک بڑھتی ہی رہتی ہے جیسے پہلے محبوب کا پہلا لمس اور پھر روم روم اُسی پہلی دستک پر اولین ردِ عمل کا عادی ہوجاتاہے۔ بعد کے سب لمسیات تو پہلے لمس کی تلاش کی نا کام کڑیاں ہیں۔ ہر ناکامی نئی تلاش کا رائیگاں سفر ہے۔
وہ معاذ کے لمس کی تلاش میں ہے۔ پر معاذ نے تو ربیعہ میں سے ماہم کو ڈھونڈنے کی کبھی کوشش نہ کی تھی۔ پر وہ ہمیشہ معاذ میں سے دستِ پناہ کے ساتھ ماہم کو چُن چُن کے باہر نکالتی رہی۔ وہ اُسے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتا کہ جو کچھ اُس نے باہر نکالا ہے۔ وہ محض اُس کے اپنے وجود کا حبس ہے۔ ماہم کی متعفن لاش نہیں ہے اور جب وہ یقین کرنے کے قریب ہوتی۔ تو ماہم ایک اور طلاق لے لیتی اور پھر معاذ کی بساندیں مارتی لاش ماہم کے کندھوں پر دھری نظر آتی، لوگ کہتے۔ وہ پہلے محبوب کی تلاش میں کھونٹ کھونٹ چھان رہی ہے۔ اُس کا عدم اطمینان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جس میں بستی ہے اُس سا ڈھونڈنے کے لےے ماری ماری پھرتی ہے اور جس سرائے میں ٹھہرتی ہے اُس میں پہلے پڑاﺅ کے نشان ڈھونڈتی رہتی ہے۔ یہ تو خود ربیعہ بھی جانتی تھی کہ معاذ کی سانسوں میں کس کے پتھر وجود کا کافور جما ہے، جب وہ نیند میں بُڑ بُڑاتا ہے ۔ تو محض ایک ہی لفظ کی سمجھ آتی ہے۔ ” ماہم “ اُس کی کروٹ کروٹ میں کس کی یاد کی تھکن چور ہے۔ اُس کے خوابوں کے سلسلے میں کس کے آنچل کی لہلہاہٹ ہے۔ کس کے تصور میں وہ اکیلے میں مسکرادیتا ہے اور محفل میں اُداس ہوجاتا ہے اور جب وہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے تو دراصل اُس کے ساتھ نہیں ہوتا ، اُس نے جو گیت بنایا ہے جس کے حرف حرف میں ربیعہ کو پرویا ہے ۔ پر جس آہنگ پر یہ گیت بج رہا ہے۔ اُس میں ماہم کا سُر گندھا ہے۔ اُس نے معاذ کے ساتھ اُس نئے سٹیشن پر جانے سے انکار کردیا۔ جہاں اُس کی ٹرانسفر ہوئی تھی کہ سفر کے لےے سیٹ کا خالی ہونا ضروری ہے۔ بھرے ڈبے کے پائیدان پر سفر کرنا اُس کو گوارا نہ تھا۔
معاذ وجود کے ہر ہر خانے ،شلف ، سیف کھول کھول دکھاتا رہا۔ سب خالی ہے۔ تمہارے انتظار میں سب دریچے کھلے ہیں۔ پروہ اِن منہ پھٹ طاقچوں کو اُس گھر کی مانند قرار دیتی جس کا سارا سامان لوٹا جاچکا ہو، اور وہاں اب لٹنے کے لےے کچھ باقی نہ بچا ۔ خانماں برباد شخص کی بے حسی اور قناعت اُسے اس بھنڈار میں کچھ بھی محفوظ کرنے سے روکتی تھی ، جس کا ہر در، ہرکُنڈا ، ہر تالا اُکھاڑ دیا گیا تھا۔ ماہم کی نئی شادی پر اُس کے ایک سابق شوہر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
”نا گن جسے پہلی بار ڈنگتی ہے۔ اس کے لہو کا ست اُس کے وجود کا حصہ ہوجاتا ہے۔ وہ اُس کی تلاش میں گھومتی ہے۔ بہت سوں کو ڈستی ہے ، لیکن پہلے ڈنگ کی لذت میں سرگرداں رہتی ہے۔ بالآخراُسے برس بعد برس ڈھونڈ نکالتی ہے۔ ڈسنے کے لےے“۔
اگرچہ ماہم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان بے ہودہ الزامات کی سختی سے تردید کی تھی لیکن جب کسی اخباری نمائندے نے اُس سے پوچھ لیا تھا۔
” کیا آپ اپنے پہلے عشق میں رہنے کی کوشش میں محبت کے تجربات کےے جارہی ہیں؟“۔
یہ تو بس اک کوشش سی تھی پہلے پیار میں رہنے کی
سچ پوچھو و ہم لوگوں میں کس نے عشق دوبارہ کیا
تو اُس وقت اپنی تمامتر ذہانتوں اور تحمل مزاجی کے باوجود اُسے جواب دینا نہ آیا اور وہ متعلقہ اخباری نمائندے پر برس پڑی اور اُس کے برسنے کے انداز نے پھر بھولی ہوئی کہانی دوبارہ یا ددلادی اور ایک بار پھر معاذ اور ماہم کی عشقیہ کہانی شہ سُرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنی۔ معاذ اُن دِنوں بیرونی دورے پر تھا، جب وہ واپس آیا تو گھر خالی تھا اور اخبارات بھرے ہوئے تھے، ربیعہ روٹھ کر جا چکی تھی۔ معاذ تحائف سے لدا پھدا اُس کے دروازے پر دستکیں دینے لگا، دستکوں کی باز گشت میں درخاموش تھے اور تحائف بولتے تھے،اللہ جانے اُس نے طلاق کے بعد کا عرصہ کہاں گزارا ہو۔ ان ایکٹر سوں کے لےے تو امریکہ گھر آنگن سا ہی ہے نا۔ بھرے ہوئے پیالے کو بھرنے کا فائدہ ، چھلک ہی تو جانا ہے اسے ، معاذ اپنی لاتعلقی کا یقین دلانے کو قسمتیں کھاتا، خط لکھتا، فون کرتارہا، ربیعہ انتظار کرتی لیکن جونہی کال موصول ہوتی۔ معاذ کے گلے میں ماہم کا سُر بجتا سنائی دیتا اور فون رکھ دیتی، معاذ بند دروازے پر پھر دستکیں دیتا، جن میں ماہم کی پوروں کی دھڑکن کا آہنگ شامل ہوتا۔ وہ دستکیں بجاتا رہا …….. “ بجا تا رہا ……..“۔ بے ثمر دستکوں سے آواز اُبھری ” آج کا اخبار پڑھ لو، اس کے بعد اس دروازے پر کبھی دستک نہ دینا، یہ اُس کے لےے اب کبھی نہ کھلے گا، جس کے وجود کی شراکت داری کسی اور سے مشروط ہے “۔
اُس وز جب خامو ش دستکوں کی سنسناہٹوں میں لپٹا وہ واپس پلٹا، تو اس غیر روایتی عشق کی روایت کی سولی سے لٹک گیا، اخبار نے سرخی جمائی تھی۔
” تلاش ابھی نا تمام ہے“۔
معروف اداکارہ کی ایک گُم نام کیمرہ مین سے نئی شادی۔
گویا ماہم ابھی زندہ تھی ۔ نا تمام تلاش زندگی کے فریب پر دھڑکتی رہتی ہے۔ تمام ہوچکی تلاش زندگی کو آسودگی کے سرد ہاتھوں میں منجمد کردیتی ہے۔
تمام ہوچکی تلاش کا انجماد نس نس میں اُترنے لگا تھا۔ کوئی بوجھل ہاتھ دل کو پکڑے دھڑکنیں تیز کرتا کبھی بند کرتا کبھی کھولتا، ربیعہ قریب ہوتی تو اس بے ترتیبی میں بھی ماہم ماہم کا رد ھم سُن لیتی ، نسوں میں ، رگوں میں ، وجود میں اضافی کچرا بھرا تھا۔ اس کی صفائی ہوتے رہنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ رکاﺅ اور اٹکاﺅ زندگی کی نس بندی کردیتا ہے۔ ماہم زندہ ہے کہ وہ بندنسوں رگوں میں تازہ بہ تازہ لہو کی گردش سے بھل کی تہہ جمنے نہیں دیتی، وجود کی نہر کی مسلسل صفائی آبِ زندگی کی روانی کا باعث ہے۔ متعفن موری سی زندگی جا رکتی تھی۔ چھلکے ، جالے ، خالی لفافے، ٹوٹے اورکرچیاں۔ سب کچھ بساند چھوڑتی گار میں تبدیل ہوگئے تھے۔ بے روانی رکاوٹ ، جھٹکے کھاتا ہوابہاﺅ ۔ کبھی منوں ٹنوں رکاﺅ کو زور دار پریشر سے کھائی میںدھکیلتا تو کبھی بساند زدہ موریوں کو بلاک کرتا، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا ڈرائیور یہ دھک دھک سننے کا عادی تھا۔ پر آج بے ترتیبی حد سے زیادہ تھی ، جیسے وجود کا گٹار بجتے بجتے بے ردھم ہوگیا ہو، جیسے دل کی سارنگی کا کوئی تار ٹوٹ جائے۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکی اور موبائل پر دفتر اطلاع کی ، صاحب کو دِل کا دورہ پڑا ہے، جو جان لیوا …….. اُس کے ہاتھوںمیں وہ اخبار بھنچا تھا، جس میں ماہم کی نئی شادی کی خبر ضمنی سرخی کے طور پر چھپی تھی۔” تلاش ابھی نا تمام ہے“۔
اس جملے کے آہنگ پر دل کی بے ترتیب دھڑکنیں آسودگی کے سکوت میں اُترتی چلی گئیں، جیسے کسی تاریک سُرنگ کی خاموشی، پیانو کے تاروں کی آسودگی جیسے کسی غیر روایتی عشق کی روایتی موت……..

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *