Home » پوھوزانت » بلوچستان کا مسئلہ اور اردو افسانہ ۔۔۔۔ طاہر اقبال

بلوچستان کا مسئلہ اور اردو افسانہ ۔۔۔۔ طاہر اقبال

ABSTRACT:
“The Afsanas written in Blochistan attached with the Local land / Native grounds, these were acquisition of all the social & political intellect of the era / area i.e. from the day of resistance against British & up to date unjustics with them, with refence to technically & stylistic patran these are related with narrative & symbolic lot of translation of English Fiction were made, the writer of Area were influenced / impressed by the technique of English style.
Local problems were strongly presented in modern ways in the Afsanas.”

بلوچ قوم کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سامی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسٹس میر خدا بخش بجرانی مری کی انگریزی تصنیف”Search Lights on Baluches and Baluchistan” کا اُردو ترجمہ پروفیسر سعیداحمدرفیق نے کیا جس کی معاونت خودمصنف نے کی اس کتاب کا ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے:

”زمانہ ماقبل تاریخ سے موجودہ دور تک انسانی نسلیں آپس میں خلط ملط ہوتی رہی ہیں اس واسطے وثوق سے یہ کہنا کہ بلوچ، سامی، جامی یا آرین میں سے کسی نسلِ انسانی سے تعلق رکھتے ہیں اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بلوچی زبان اور تاریخ میں مستند کتب اور تاریخی مواد کی قلت کی بنا پر یہ کام اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔“(۱)

جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان، ایران، پاکستان اور افغانستان تین مُلکوںمیں پھیلا ہوا ہے۔ ایران میں واقع علاقہ ایرانی بلوچستان کے نام سے موسوم ہے۔ اس کا صدر مقام زاہدان ہے۔ پاکستانی، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ معدنی دولت سے مالامال علاقہ ہے۔ یہ علاقہ وسیع سمندری ساحل، فلک بوس پہاڑوں، باغوں، جنگلوں، قدرتی گیس پٹرولیم جیسے وسائل سے ثروت مند ہے۔

آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے لیکن یہاں کے باشندے جسمانی طور پر مضبوط، نڈر اور دلیر ہیں۔ روایتی طور پر یہ خانہ بدوش قوم ہیں۔

پاکستان کے قیام اور تعمیر وترقی میں بلوچوں کا حصہ کسی بھی علاقے سے کم نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی طور کم محبت ِوطن ہیں لیکن پچھلی تقریباً دودہائی سے عالمی سازشوں، غیرملکی ریشہ دوانیوں، ملکی ایجنسیوں اور حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشیوں، ذاتی مفادات اور سیاسی و معاشی فائدوں کے لیے بلوچستان کے حالات خراب کیے گئے۔ وہاں بدامنی اور عدمِ تحفظ کا مسئلہ پیدا کیا گیا۔ نسلی، مذہبی اور لسانی نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا اور مختلف گروہوں کوآپس میں لڑایا گیا۔ بلوچستان کے وسائل کا ناجائز استعمال کیا گیا اور بلوچوں کو اُن کے حقوق اور وسائل سے محروم کیا گیا۔ اُن کے جائز مطالبات کو غداری اور مُلک دُشمنی کا نام دیا گیا۔ اُن کے راہنماﺅں کا قتل، عام نوجوانوں کے اغوا، تشدد اور پھر مسخ شدہ لاشیں وہاں کا معمول بن گیا۔ نتیجتاً بیرونی طاقتوں کو یہاں مداخلت کرنے اور محروم افراد کی محرومیوں سے فائدہ اُٹھا کر اُنھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے مواقع دستیاب کیے گئے۔ محرومیوں کی نفرت نے صوبائی خودمختاری کے مطالبہ کو مکمل آزادی کی مانگ میں بدل دیا، اب سکیورٹی فورسز اور ناراض بلوچ گروہوں میں ایک ایسی لڑائی جاری ہے جس نے عوام کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہے۔

قبائلی نظام، عورتوں کی حق تلفی، پسماندگی، تعلیم کی کمی، فرسودہ روایات ہی یہاں کیا کم تھے کہ آئے روز ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اغوا اور صوبے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ خصوصاً غیربلوچ افراد جو کئی نسلوں سے یہاں بس رہے تھے۔ وہ جانیں بچا کر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔

ہمارا موضوع یہ ہے کہ آج کے ان حالات میں اُردو افسانہ بلوچستان کے ان مسائل کو کس طرح پیش کر رہا ہے اور کس حد تک سیاسی شعور کا اظہار اس حوالے سے اُردو افسانہ نگاروں کے ہاں موجود ہے۔

اُردو کے معروف اور مستند افسانہ نگاروں کے ہاں تقریباً اس مضمون پر خاموشی ہی ملتی ہے۔ اِکا دُکا افسانے کے سوا بلوچستان کی سرزمین اوراُس کے مسائل، اُردو افسانہ نگاروں کے ہاں نظر نہیں آتے البتہ خود اس زمین سے تعلق رکھنے والے کئی افسانہ نگار اپنی زمین کا نوحہ ضرور لکھ رہے ہیں۔شاہ محمد مری لکھتے ہیں:

”ہمارا پورا تحریری ادب سنسروں کے حوالے ہو گیا۔ مارشل لاءکا سنسر، روایت کا سنسر، مُلا کا سنسر، سردار کا سنسر۔۔۔ نحیف افسانہ سکرات میں چلا گیا اور پھر آج کا دور ایک مکمل انارکی کا دور۔۔۔ الغرض ہمارے سماج کو سانس لینے کا موقع ہی نہ مِلا۔“(۲)

ان سب حالات کے باوجود بلوچستان میں مقامی زبانوں کے علاوہ اُردو زبان میں بھی ادب تخلیق ہوتا رہا ہے۔ صحافت کی روایت خاصی مضبوط رہی۔ اخبارات کے علاوہ رسائل کی اشاعت بھی مسلسل رہی ایک بڑی تعداد میں رسائل چھپتے رہے۔ مثلاً میزان کوئٹہ، کلمتہ الحق(کوئٹہ)، رہبرنسواں(کوئٹہ) کوہسار،کوئٹہ، بولان۹۴۹۱ءمیں شائع ہوا۔

بلوچستان میں مقامی زبانیں بولی جاتی تھیں لیکن سکولوں، کالجوں، دینی مدرسوں میں اُردو زبان مروّج تھی، جو یہاں مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطے کی زبان بھی تھی۔ اُردو ایک ثروت مند ادبی ورثے کی حامِل ہے۔ بلوچستان میں بھی اُردو کی مختلف اصناف میں ادب تخلیق ہوتا رہا۔ اگرچہ شاعری کا چلن زیادہ تھا، تاہم اُردو افسانے کی روایت قیامِ پاکستان سے پہلے سے یہاں موجود تھی۔ اگرچہ یہ زیادہ ثروت مند نہیں ہے کیونکہ یہاں بلوچی، پشتو، براہوی، زبانوں کے ساتھ فارسی زبان کا چلن زیادہ رہا۔ بہرحال اُردو افسانے کی طرف توجہ ضرور دی گئی۔

مسزمبارکہ حمید نے اپنے تحقیقی مقالے”بلوچستان میں اُردو افسانے کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ“ میں لکھا ہے:

”یہاں ابتداءمیں صرف اُردو میں افسانوں کی طرف اتنی زیادہ توجہ نہیں ملتی اور اگر لکھے بھی گئے تو وہ فنی اور تکنیکی لحاظ سے کمزور افسانے تھے لیکن بعد میں تہذیبی ترقی اور علمی و ادبی سرگرمیوں کے سبب اس فن کی طرف خصوصی توجہ ہوئی اس میں سب سے پہلے جو نام اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ یوسف عزیز مگسی کا ہے۔“(۳)

یوسف عزیز مگسی کی تحریروں میں آزادی کی لگن اور غلامی سے نفرت کا اظہار ملتا ہے۔ یہی موضوع ان کے ایک افسانے ”تکمیل ِ انسانیت“کا ہے جس میں افسانے کا ہیروعزیز احمد تحریک ِآزدی کے حق میں ایک مضمون لکھنے کے جرم میں قید کر دیا جاتا ہے لیکن اس دوران بھی وہ قربِ الٰہی اور اپنے خلوص و ایثار کی وجہ سے تکمیل ِانسانیت کے مقام پر متمکن ہو جاتا ہے۔

ناصر بلوچستانی کا ایک افسانہ ”عروس عجم“ کے عنوان سے الحنیف جیکب آباد سالنامہ فروری ۷۳۹۱ءمیں چھپا۔اس افسانے میں حب الوطنی بلوچ عورتوں کی دلیری بلوچ روایات کے علاوہ رومانویت اور حقیقت نگاری کے عناصر موجود ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد اپنی شناخت بنانے والے افسانہ نگاروں میں چند اہم نام شامِل ہیں۔ سیّدخلیل احمد، خورشیدمرزا، عبدالرحمن غور،پروفیسر انوررومان، یاسمین صوفی، خادم مرزا،ظفر مرزا، جمیل زبیری، معین الحق، رفعت زیبا، ڈاکٹر فردوس انورقاضی، شاہین رُوحی بخاری، طاہر محمدخان، آغا گل کے ہیں۔

۰۸۹۱ءکی دہائی میں چند اور نام سامنے آئے مثلاً عرفان بیگ، محمد عبداللہ، افضل مراد، شکیل عدنان، وحیدزہیر، قمرمرز۱، ظفرمعراج، عارف ضیائ، فاروق سرور، محسن بٹ، حسن جاوید ان کے علاوہ چند خواتین افسانہ نگاروں نے بھی اپنی شناخت بنا لی۔ مثلاً روبینہ بٹ،طاہرہ احساس، رقیہ آرزو، حمیراصدف، اُجالا مینگل، اُجالا تبسم اورجویرہ حق وغیرہ۔

سیّدخلیل احمد کا مجموعہ ”خمارزہرآلود“ کے عنوان سے چھپا، جس میں تین افسانے شامِل تھے:۱۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے“، ۲۔”خزاں بدوش بہار“، ۳۔”درد وہ سنگ ِگراں ہے۔“

ان افسانوں میں معاشرے کے تضادات،ملکی سیاست کا کھوکھلا پن، نعرے بازی اور عوام کو جھوٹے وعدوں سے ٹالنے والے سیاست دانوں کے کردار کو پیش کیا گیا ہے۔ اسلوب طنزیہ اور کاٹ دار ہے۔

بیگم خورشیدمرزا کا نام بھی بلوچستان میں اُردو افسانے میں اہم ہے۔ انھوں نے کم لکھا زیادہ تر عورتوں کے مسائل کی نشاندہی کی عورت کی وفاشعاری ،ایثار،شوہر سے محبت، بدلے میں ملنے والی محرومیاں اور جذباتی و نفسیاتی اُلجھنوں پر قلم اُٹھایا۔

عبدالرحمن غور ایک اچھے ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمیں بلوچستان کے زمینی رنگ ، فضا،ماحول اور تہذیبی و روایتی کلچر نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ سیاسی و سماجی مسائل پر بھی قلم اُٹھاتے ہیں۔ پیسوں کے عوض کم عمر لڑکیوں کی عمررسیدہ مردوں سے شادیاں اُس دور کے بیشتر افسانہ نگاروں نے اس مذموم روایت پر مذمتی انداز میں بہت لکھا۔ عبدالرحمان غور کے ہاں بھی عورتوں کے مسائل کو ہمدردی اور دُکھ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

پروفیسر انوررومان بلوچستان کے معروف ادیب ہیں۔ ان کے افسانوں میں بھی بلوچستان کی پسماندگی، تواہم پرستی، غربت و افلاس، طبقاتی تفریق، سرداروں کا ظالمانہ رویہ، عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی، کڑے رسوم و رواج کے علاوہ اس علاقے کے سیاسی خلفشار کو بھی پیش کیا ہے۔

بلوچستان کے مسائل کی اس دور کے افسانہ نگاروں میں سے طاہرمحمد جان نے سب سے مو¿ثر عکاسی کی ہے۔ فنی اور تکنیکی لحاظ سے بھی ان کے افسانے مضبوط ہیں۔ پلاٹ کا گھٹاﺅ ، کرداروں کے نفسیاتی اور حقیقی مطالعے، بلوچستان کی سرزمین کی سچی منظرکشی، وہاں جنم لینے والے روایتی حالات و واقعات کے بیان میں افسانہ کہیں بھی مثالیت، کھلی تبلیغ یا پھسپھسے بیانیہ تک محدود نہیں ہوتا۔ اسی لیے اُس دور کے لکھنے والوں میں نہ صرف ان کا نام اہم ہے بلکہ ان کے افسانے معیاری افسانوں کی فہرست میں جگہ پانے کے مستحق ہیں۔

افسانے کی فنی دروبست، زمان و مکان کی بندش آغازوانجام میں ربط و ضبط، پلاٹ کی بنت اور واقعے کی دلچسپی قاری کو باندھے رکھتی ہے، پھر بلوچستان کے رسوم و روایات، مناظر، تمدن کی عکاسی کرتے ہوئے مقامی الفاظ کا استعمال کہانی کو زیادہ حقیقی اور موضوع و منظر کے زیادہ قریب کر دیتا ہے۔

یکم اگست ۶۳۹۱ءمیں والبندیں ضلع چاغی میں پیدا ہونے والے طاہر محمد خان پیشے کے لحاظ سے قانون دان ہیں۔ اُنھوں نے اعلیٰ تعلیم پائی اور سیاسی، رفاعی اور ادبی میدانوں میں نہایت بھرپور زندگی گزاری۔

عنایت اللہ خان جو ہفت روزہ نشتر کوئٹہ اور ماہنامہ نوکیں دور(کوئٹہ) کے ایڈیٹر رہیں، لکھتے ہیں:

”طاہر محمدخان طبعاً افسانہ نگار ہیں ان کے افسانے عمیق سماجی شعور سے مملو ہیں ان کے افسانوں کی تعداد بے شمار ہے لیکن اُنھوں نے کبھی ان کو محفوظ کرنے کی کوشش نہیں گی۔“(۴)

شاید اسی وجہ سے اُن کا صرف ایک مجموعہ شائع ہو سکا۔ ”زودپشیمان“ جو ۴۰۰۲ءمیں چھپا، جس میں اُنیس کہانیاں شامِل ہیں۔بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد لکھتے ہیں:

”بلوچستان کے قبائلی نظام اور سماجی زندگی کا اتنامو¿ثر اور دردبھرا اظہار ہمیں کہیں اور نہیں مِل سکتا۔ بلوچستان کی سچی اور نکھری ہوئی دستاویز پڑھنا ہو تو ان افسانوں کو پڑھ لیجیے یہ ایک مہذب انسان کی آواز ہے۔ یہ چشم خوں بستہ سے ٹپکا ہوا لہو ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔“(۵)

ان کا ہر افسانہ بلوچستان سے متعلق کسی تلخ حقیقت کو سامنے لاتا ہے، لیکن واقعات کی ندرت اور اندازِبیان کی دلچسپی تلخ حقائق کو گوارا بنا دیتی ہے۔ مثلاً افسانہ ”زودپشیمان “کا تھیم ہلا دینے والا ہے۔ بلوچستان میں موجود ایک عجیب روایت کا ہمیں یہاں علم ہوتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ٹکڑی ایک معزز قبائلی شخص ہے۔ اس نے اپنی بیٹی گل پری کی شادی اپنے بھتیجے سومرسے کرادی۔ شادی کی پہلی رات ہی سومرو گل پری کوچھوڑ کر چلا جاتا ہے کیونکہ وہاں کی روایت کے مطابق لڑکی اپنی بکارت کا ثبوت دینے سے قاصررہی تھی۔ پورے خاندان میں کہرام مچ جاتا ہے۔ مجرم کی تلاش شروع ہوتی ہے ”جولاں“ جو ٹکڑی کے قبیلے کا آدمی تھا۔ اُس کے بیٹے صلائی پر گناہ کا الزام آتا ہے، جرگے کے فیصلے کے مطابق صلائی اور گل پری دونوں کو مار دیا جاتا ہے۔ علاقے کے رواج اور روایت تو پورے ہو گئے لیکن افسانہ نگار واقعات کی خارجی سطح کے اندر جھانک کر باطنی سطح کو بھی دیکھتا ہے۔ سگی بیٹی کو قتل کرنے والا باپ بظاہر اپنی غیرت مندی اور قبائلی روایات کی پاسداری پر فخر کا اظہار کرتاہے لیکن ایک روز اُس کے اندر کا انسان یعنی بیٹی کا باپ بول پڑتا ہے، کہتا ہے:

”وکیل صاحب جب میں نے گل پری کو ذبح کیا تو اس کے خون کی دھار میرے ہاتھ پر گری، جس نے میرے ہاتھ کو جلا دیا جس کی جلن آج بھی محسوس کرتا ہوں گل پری ہر رات میرے خواب میں آتی ہے اور بے بسی میں اب بھی وہی آواز دیتی ہے، ہائے ماں، یہ کہہ کر ٹکری دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔“(۶)

اس مجموعے میں شامِل ایک اور افسانہ ”پانی کا جبر“ بلوچستان کے خانہ بدوشوں کی سخت کوش زندگی اور وہاں سہولیات کی کمیابی کو واضح کرتا ہے۔

راوی جیولوجیکل سروے کے لیے بھولوندی کے کنارے ایک ٹیلے پر واقع کیمپ میں مقیم تھا۔ ایک خانہ بدوش اپنے ساتھ چند بھیڑیں اور بیوی بچوں کو لے کر ندی پار جانا چاہتا تھا لیکن سیلابی ندی نے اُسے ایسا نہ کرنے دیا۔ بیوی درد زہ میں مبتلا تھی لیکن یہاں کوئی طبی مدد موجود نہ تھی۔ اس لیے راوی کو یقین تھا کہ یہ عورت جانبر نہ ہو سکے گی۔

”ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آج بھی انسان اس قدر بے بس ہو سکتا ہے۔۔۔ ہم رضائی کے گدان پر موت کو منڈلاتے دیکھ رہے تھے۔۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ صبح کی پہلی خبر رضائی کی بیوی کی موت ہو گی اس کی موت سے زیادہ مجھے اس کی تجہیزوتکفین کی فکر رہی۔ کیونکہ اس کھلے صحرا میںکوئی ایساانتظام نہیں تھا پھر مجھے خیال آیا کہ بیڈشیٹوں سے یہ کام لیا جا سکتا ہے لیکن شریعت کا خیال آیا کہ ہم اتنے مہینوں سے ان پر سو رہے ہیں لازماً یہ نجس ہوئے ہوں گے۔ صاف پانی پینے کو نہیں بھلا بیڈشیٹوں کو کیسے دھویا جائے اور میّت کو کیسے غسل دیا جائے گا۔“(۷)

لیکن صبح معلوم ہوا کہ رات کو بچہ پیدا ہو گیا تھا اور دونوں زچہ بچہ خیریت سے ہیں۔ان پہاڑوں اور وادیوں کی سخت کوش زندگیوں میں خدا کی مدد ہی آخری وسیلہ ہوتی ہے بہرحال یہ افسانہ وحدتِ تاثر ،پلاٹ کی تنظیم اور ضبط و ربط کے باعث قاری کے پورے حواسوں پر چھاجاتا ہے۔ اسے اُردو کے اچھے افسانوں میں شامِل کیاجا سکتا ہے۔ان کی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وحید زہیر کہتے ہیں:

”طاہر محمد خان کے افسانے بلوچستان کی حقیقی کہانیاں ہیں ان کہانیوں میں ہماری سائیکی، سماجی اور ثقافتی ماحول، تاریخی حقائق کے ساتھ کرداروں کو برتا گیا ہے جن کو ہم بلوچستان کی نمائندہ کہانیاں کہہ سکتے ہیں۔“(۸)

ان کہانیوں میں بلوچستان میں معدنیات سے بھرے پہاڑوں اور صحراﺅں، خشک سالیوں، سیلابوں، قبیلوں اور خانہ بدوشوں کے طرزِحیات،عورتوں کی ستم رسیدگیوں، رسوم و روایات اور جرگوں کی ناقابلِ فہم اقدار ،مقامی سیاست اور ملکی حالات کے اثرات غرضیکہ بلوچستان کے جغرافیہ، معاشرہ اور سیاست سبھی کچھ موجود ہے۔

ڈاکٹرفردوس انورقاضی بھی بلوچستان کی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ اُن کی وجہ¿ شہرت تو اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”اُردو افسانہ نگاری کے رجحانات“ ہے لیکن وہ ایک اچھی افسانہ نگار بھی ہیں۔ اُنھوں نے تکنیک و ہیئت کے کئی تجربے کیے مثلاً زمان و مکاں کی قید سے آزادخیالات کے گرد کہانی کو بنا اور اس کا نام خیالیہ رکھا اس میں خیال کی رو اور تلازمہ¿ خیال جیسی اصطلاحوں سے ہٹ کر ایک مجرد سوچ یا خیال کو کہانی کی تجسیم میں پیش کیا ہے جب کہ تلازمہ¿ خیال یا کہانی کے اندر سے سوچ کا بھٹکنا یا کرداروں کا زمان ومکاں سے پرواز تخیل کر جانا یا سوچ کی کسی نئی رو کا داخل ہو جانا وغیرہ ہوتا ہے ان کے ہاں خیال پہلے موجود ہوتا ہے۔ اُسے کہانی کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔ یہ تمثیل سے بھی یوں فرق ہے کہ خیال یا تصورات ازخود کلام یا عمل نہیں کرتے اور کہانی کے کردار بھی نہیں بنتے، اُنھوں نے علامہ اقبال کی بعض مشہور نظموں کے تھیم کو لے کر بھی کہانیاں ساخت کیں اور اقبال کے نظریات اور فلسفوں کو افسانے کی شکل میں پیش کیا۔ افسانے میں ایک اور تجربہ بھی اُنھوں نے متعارف کروایا یعنی کہانیاں مصرعوں کی شکل میں بیان ہوئیں، یوں افسانے آزاد نظم کا رُوپ دھار گئے۔ ان نئے نئے تجربات کے ساتھ اُن کے افسانے معاشرتی مصائب اور نفسیاتی اُلجھنوں کو بھی پیش کرتے ہیں۔ بلوچستان اپنے حالات و واقعات کے ساتھ ان کہانیوں میں نظر آتا ہے۔

جمیل زبیری نے بھی بلوچستان کے پس منظر میں کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کے افسانوں کاپہلا مجموعہ ”زردپتے“ کے نام سے شائع ہوا دوسرے مجموعے کا نام ”لمحوں کی دہلیز“ ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر کہانیاں، بلوچ رسم و رواج، اُس معاشرے کی قدیم روایات وہاں کا لینڈاسکیپ اور معاشرتی و سیاسی ماحول کو پیش کرتی ہیں چونکہ یہ ایک نیم خواندہ اور نیم خانہ بدوش معاشرہ ہے اس لیے اس کے مسائل بھی اپنی ہی نوعیت کے ہیں۔

افضل مراد بلوچستان کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے بلوچستان کی تہذیب وثقافت، جغرافیائی ماحول اور مخصوص معاشرتی و سیاسی فضا کو پیش کیا ہے۔ اس خطے میں جاری سختیوں، پسماندگیوں اور مجبوریوں کی عکاسی خوب کی ہے۔ خصوصاً عورت کے ساتھ روا رکھے گئے ترجیحی سلوک اور اُس کی حق تلفی کوکئی افسانوں کا موضوع بنایاہے کیونکہ اُس معاشرے میں عورت اور مرد کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ عورت کو اپنی مرضی اور آزدی سے جینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مصنف نے اس ناانصافی پر دلسوزی سے لکھا ہے۔

شکیل عدنان نے بھی اس معاشرے میں جاری معاشرتی و معاشی ناہمواریوں کو اپنا موضوع بنایا اُن کے افسانے اصلاحی رجحان کے غماز ہیں۔ وحیدزہیر بنیادی طور پر براہوی زبان کے کہانی کار ہیں لیکن اپنے کئی براہوی افسانوں کے تراجم اُنھوں نے خود اُردو میں کیے۔ مثلاً ”اووررائیٹنگ“،” نعیم چارٹ ہاﺅس“اور” ڈسٹرب لائسنس“ وغیرہ وہ معاشرتی، سرکاری و دفتری مسائل کو پیش کرتے ہوئے مقامی معاشرے کی حقیقت نگاری کے اسلوب میں ترجمانی کرتے ہیں۔

عارف ضیاءبھی براہوی میں لکھتے ہیں لیکن اُنھوں نے اُردو میں بھی افسانے تحریر کیے جو اُن کے مجموعے ”سیپ کے اندر موتی“ کے نام سے طبع ہوئے ان افسانوں میں مقامی، معاشرتی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے وہ انسانوں کے درمیان محبت اور دوستی کی خواہش رکھتے ہیں۔ امن اور بھائی چارے کی فضا کے مفقود ہو جانے پر تاسف کا احساس گہرا ہے۔

فاروق سرور کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ اُن کے تین مجموعے پشتو زبان میں چھپے ایک مجموعہ پشتو افسانوں کے اُردو تراجم کی شکل میں ”ندی کی پیاس“ کے عنوان سے چھپا اُن کے ہاں علامتی رنگ غالب ہے۔ عہد کی نارسائی، ماحول کا جبر اور اندر کا خوف ان کے افسانوں میں کئی علامتوں کو ساخت کرتا ہے۔ معاشرہ ترقی کی بجائے تنزلی کی سمت گامزن ہے جو اخلاقی و تمدنی اقدار اور معیارات ایک مثبت سطح قائم کیے ہوئے تھے وہ مضبوط ہونے کی بجائے اب کمزور ہورہے ہیں۔ اُن کے افسانہ ”بھیڑیا“ کا ایک اقتباس دیکھیے:

”میں جب اردگرد دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں میرے چاروں طر ف بے شمار درخت ہیں ہر درخت میں کسی نہ کسی شخص نے پناہ لے رکھی ہے، اور نیچے اُس کا بھیڑیا کھڑا غرا رہا ہے۔“(۹)

اُن کے ہاں بھی جنگ اور ہتھیاروں سے نفرت، محبت، یگانگت اور اخوت کی خواہش نظر آتی ہے کہ ہر عہد کا ادیب اپنے زمانے سے انھی جذبوں کی تمنّا رکھتا ہے۔ ظفر معراج کے افسانوں میں مقامی رنگ گہرا ہے۔ بلوچستان کے مسائل اور تمدن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک، معاشی و معاشرتی خلیج ،کہنہ روایات کی فرسودگی اور قبائلی نظام کا جبر اُن کے خاص موضوعات ہیں۔

محسن سلطان کے افسانوں کے مجموعے ”خود سے چھپا اُداس آدمی“ کے افسانے علامتی و استعاراتی رنگ کے حامِل ہیں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ نارسائی اور عہد کی جبریت آج کے انسان کا المیہ ہے یہ المیہ ذاتی سطح سے معاشرتی اورسیاسی سطحوں تک کو محیط ہے۔ اُنھوں نے طنز کے اسلوب میں معاشرے کے انھی تضادات کو اُبھارا ہے۔

حسن جاوید شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں میں بھی علامتی انداز غالب ہے۔ فرد کی توڑپھوڑ بگڑتے ہوئے چہرے معاشرتی تمدنی انتشار اور انسان کی تنہائی اور افسردگی اُن کے افسانوں کو اسّی کی دہائی کے مخصوص اسلوب کا حامِل بنا دیتے ہیں۔ یعنی ضیاءدور کی سیاسی گھٹن اور جبر کا تازیانہ جس طرح اُس عہد کے دیگر افسانہ نگاروں کے ہاں اعضا بریدگی، بے شناختیت، بے چہرگی اور ماحول سے اجنبیت اور نامانوسیت کا احساس پیدا کر رہا تھا اور رشیدامجد، انتظارحسین، انورسجاد، احمدجاوید،احمدداﺅد، منشایاد وغیرہ کے ہاں افسانہ جس طرح اپنے عہد کا ترجمان بنا تھا،کچھ ایسی ہی کیفیت اس دور میں بلوچستان میں لکھے گئے افسانے میں بھی نمایاں ہے۔ اس سیاسی جبر اور حکومتی ناانصافیوں کے ساتھ خود بلوچستان کی دھرتی کے اپنے مسائل مثلاً عورتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ترجیحی سلوک، فرسودہ روایات، قبائلی جکڑبندیاں، غربت و افلاس، یتیم، خانہ بدوش، معاشرے کی پسماندگی و جہالت وسخت گیر رسوم و روایات، باہمی نفرتیں، عداوتیں، جنگیں خانہ جنگیاں اورخوں ریزیاں یہ سبھی مسائل ان افسانہ نگاروں کے ہاں نمایاں ہیں۔ ادبی مراکز سے دُور اُفتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان افسانہ نگاروں کو چاہے مین سٹریم لائن کے افسانہ نگاروں جیسی شہرت نہ ملی ہو لیکن اُن کے افسانے اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے عہد اور علاقے کے مسائل کے ترجمان ہیں۔ موضوعاتی اور فنی لحاظ سے ایک مقام کے حامِل ہیں۔ بلوچی معاشرے کی تصویرکشی کا حق ادا کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے عہد کی شہادتیں اپنے اندر محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ ادب پارے تاریخی دستاویزات اگرچہ نہیں ہوتے لیکن تاریخ داں کسی عہد کو لکھتے ہوئے ان ادب پاروں سے استناد ضرور کرسکتے ہیں۔

بلوچستان کے افسانہ نگاروں میںآغا گل کانام اس لیے بھی نمایاں ہے کہ اُنھوں نے اُردو زبان کو ہی اپنا وسیلہ¿ اظہار بنایا، تواتر سے لکھا اور اچھا لکھا اُن کے افسانے کئی دہائیوں سے معیاری اُردو جرائد میں چھپتے رہے ہیں اور کئی مجموعوں میں طبع ہو چکے ہیں۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اُنھوں نے خصوصاً بلوچستان کے سیاسی و معاشرتی حالات سے عام قاری کو آگاہ کیا۔ پچھلی دو تین دہائیوں سے بلوچستان جس سیاسی انارکی سے دوچار ہے۔ ان افسانوں میں بلوچستان کی دھرتی کے انھی مسائل اور سیاسی محرومیوں کا ذِکر ہے جو اسی لینڈاسکیپ کے سارے رنگوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان افسانوں میں ہم حقیقی بلوچستان سے ملاقات کرتے ہیں۔ اُس کے باشندوں کے روزوشب اور اُن کی معاشرتی، سیاسی اور نفسیاتی محرومیوں سے ہی نہیں اُن کے جذبات و احساسات اور نازک کیفیات تک سے آگاہ ہوتے ہیں۔ مقامی زبانوں کے کتنے الفاظ ہیں جو اُردو کا دامن ان افسانوں کے توسط سے وسیع کر رہے ہیں۔

ان کے ہاں ہر دو سطحوں پر دلیری موجود ہے یعنی حساس معاملات اور سیاست و حکومت، سفارت و امارت کے ایوانوں کی پوشیدہ خبروں کی اطلاع دیتے ہوئے بھی وہ ہچکچاتے نہیں ہیں اور جس علاقے اور جس زمین کے باشندوں کی کہانی سنا رہے ہیں اُن کی زبان استعمال کرتے ہوئے بھی اہلِ زبان سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔

سہراب اسلم لکھتے ہیں:

”بڑا ادب کبھی خلا میں تخلیق نہیں ہوتا۔ وہ ایک خاص دھرتی اور معاشرت کی کوکھ سے کونپل کی مانند پھوٹتا ہے۔ تنآور پودے میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر اس کی شاخوں پر جو پھول کھلتے ہیں وہ بلاامتیاز مذہب و ملت علاقہ اور زبان سب انسانوں کی اپنی مہکار سے معطر کرتے ہیں۔“(۰۱)

افسانہ ”اُستادمہر “میں سے یہ پیرا دیکھیے:

”۲۷۹۱ءمیں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا قبل ازیں بلوچستان کہنا اس علاقے کو قابلِ دست اندازیِ پولیس ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے کو کوئٹہ، قلات ڈویژن کہا جاتا تھا۔ صوبہ بلوچستان بننے سے یوپی کلچر کم زور پڑ گیا۔ بلوچستانیوں کو بھی ملازمتیں ملنے لگیں۔ ورنہ ان کے حصے میں چپڑاسی، چوکی دار، مالی یا اگر قسمت یاوری کرے تو ڈرائیور کی ملازمت آیا کرتی۔ مشاعروں کی وبا بھی کم ہو گئی۔“(۱۱)

ان افسانوں میں نہ صرف بلوچستان کی تاریخ کی بازخوانی ملتی ہے بلکہ اس سرزمین کے جغرافیے، موسمی حالات، زمینی کوائف سے آگاہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں کے باشندوں کے اقداروروایات، مزاج اور عادات و اطوار سے ہی واقفیت نہیں ملتی، بلکہ اُن کی سوچ اور نظریات بھی واضح ہو جاتے ہیں، پاکستان بننے کے بعد یہ خطہ غیرمطمئن ہونے لگا۔ اُن کی شکایات اور گلے بہت تھے جنھیں شاید کسی نے سننے اور اُن پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی اسی لیے مختلف صوبوں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی بلکہ نسلی اور لسانی شناخت کی خواہش، منافرتوں اور تفاوت میں تبدیل ہوگئی۔ خصوصاً پنجاب پر الزامات
اور اس سے مغائرت بڑھتی چلی گئی، دیکھئے:

” براہوی کبھی زرخیز زمینوں پر حملہ آور نہ ہوئے کبھی دریاﺅں کی سونا اُگلتی زمینوں کے خواب نہ دیکھے کیا قناعت ہے ہم میں! کیا توکل ہے، کیا درویشی ہے؟ لیکن قابیل کہ بڑا بھائی ہے۔ گندم اور کپاس کا مالک ہے اسے تو ہمارا محافظ ہونا چاہیے۔ وہ اپنے ہی چھوٹے بھائی کو فتح کرنے نکل کھڑاہوا ہے۔“(۲۱)

چاہے یہ غلط فہمیاں سیاسی مقاصد کے لیے پیدا کی گئی ہوں یا عالمی سازشوں کا تانا بانا بنا گیا ہو چاہے خفیہ ایجنسیوں اور بیوروکریسی کا کوئی گٹھ جوڑ ہو لیکن بدنامی ہمیشہ بڑے بھائی یعنی پنجاب کے سر ہی آئی ۔ افسانہ ”پرندہ“ میں انھی اَن دیکھے ظالم ہاتھوں کو علامتاً گولڈن ایگل کہا گیا ہے۔

”آئے دن لوگ غائب ہو رہے تھے ان کے ورثا احتجاج کرتے دھرنے دیتے تو پولیس ان پر ٹوٹ پڑتی گھروں میں رونے دھونے کے سواکوئی چارہ نہ تھا مگر پولیس کو ان آدم خور عقابوں سے بھلا کیا ہمدردی؟ وہ کیوں گولڈن ایگل کو تحفظ دیئے جا رہے تھے۔۔۔“(۳۱)

افسانہ نگار کا منصب سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں ہوا کرتا وہ تو ان مسائل کا شکار عوام کے احساسات و جذبات کو پیش کرتا اور کسی حد تک ان مسائل کے محرکات کو علامتاً بیان کرتا ہے ۔تاریخ اور سیاسیات سے ادب اسی نقطے پر مختلف ہو جاتا ہے۔ ادب میں شہادتیں اور گواہیاں اکٹھی نہیں کی جاتیں بلکہ ان شہادتوں کو افراد کی زندگیوں میں جاری دکھایا جاتا ہے۔ ان گواہیوں کے خطرناک خارزاروں سے گزرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جیسا کہ اس افسانے میں گولڈن ایگل کی علامت ہے جو ایک شیطانی طاقت ہے۔ علامتاً یہ ایک دیومالائی کردار ہے جیسے چڑیل بلاوغیرہ یہاں گولڈن ایگل ڈریکولا ہے ایک خون پینے والا انسان لیکن یہ ابہام برقرار رہتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کا خون پینے والا یہ ڈریکولا کون ہے۔

افسانہ ”ایڈکولیم“ پولیس کے منفی کردار عقوبت خانوں کی ایذارسانی، سیاسی الزامات پر معصوم شہریوں کی پرتشدد ہلاکتیں بدلے میں عوام میں بڑھتے ہوئے غم و غصے اور احتجاج کو پیش کرتا ہے۔اس افسانے میں بھی تاریخی اور اساطیری اسلوب کو موضوع کی وضاحت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس قدیم سیاسی اصطلاح کو بلوچستان کے تناظر میں بخوبی استعمال کیا گیا ہے جس سے افسانہ اپنی فنی معنویت میں کئی درجے بلند ہو گیا ہے۔

افسانوں میں بلو چستان کی مختلف زبانوں کے الفاظ کا استعمال موضوع کی ضرورت بھی ہے اور ان الفاظ کو اُردو کا حصہ بنانے کی دانستہ کوشش بھی بہرحال اُن کے افسانے بلوچستان کے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی پس منظر میں بہت خوب لکھے گئے۔

بلوچستان کے نوجوان افسانہ نگار یعقوب شاہ غرشین نے اپنی کہانیوں میں تاریخی حالات و واقعات کو دلائل و شواہد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دُنیا میں طاقت و کمزوری، حاکم و محکوم، زبردست و زیردست کے فلسفے کو پیش کیا ہے۔ یہ عفریب یہ طاقت وربلا آج بھی انسانوں کو اپنا لقمہ تر بنا رہی ہے۔ بیشتر افسانے بلوچستان کی محرومیوں، خشک سالیوں اور وہاں مسلط موت کی جدید صورتوں کو پیش کرتے ہیں۔ یہ موت طاقتوروں اور مقتدر قوتوں کی اَناپرستی اور خودتسکینی کا باعث ہے۔ وہ احتجاج کرنے والوں اور ظلم کے خلاف زبان کھولنے والوں کو ہی نہیں مارتے بلکہ ان کے اندر خوف پیدا کرنے اَنا اور خودی کا احساس ختم کرنے کے لیے بھی متشدد طریقے آزماتے ہیں کہ اُن پر دبدبہ اور خوف طاری رہے۔

اسی موضوع کا حامِل افسانہ ”بوئے خونِ دِل ریش“ ہے۔ اس افسانے میں ایک جاگیردار ہے جو دراصل اس گلوبل ولیج کے استحصال کنندہ کی علامت ہے۔ جس طرح گاﺅں کا جاگیردار وہاں کی ساری آبادی کو اپنے تابع رکھنے کو سارے وسائل پر جبراً اپنا قبضہ رکھتا ہے اسی طرح اب سپرپاورز تیسری دُنیا کو اپنا تابع بنانے کو اُن کے وسائل ہڑپ کر رہی ہیں۔ افسانہ نگار کے نزدیک یہ عالمی دہشت گردی ہے، اگرچہ کمزور اور طاقت ور کی لڑائی ازل سے جاری ہے اسی لیے غرشین نے دُنیا کی مختلف حاکمیتوں، عقوبت خانوں، غلاموں، بغاوتوں اور باغیوں کے عبرت ناک انجام کو رپورتاژ کی تکنیک میں پیش کرتے ہوئے آخر آج کے عہد کے مظالم کو واضح کیا ہے۔

افسانہ ”بازگیر“ اسی گلوبل ولیج کی کہانی ہے۔ جہاں استحصالی قوتیں غریب افراد یا اقوام کے وسائل لوٹنے کو ایک جال پھیلاتی ہیں جو مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر چال بازیوں اور سازشوں کا تانا بانا بنتی ہیں۔ اس افسانے میں بلوچستان کے پس منظر میں عوام کے وسائل لوٹنے کی رُوداد شکاری، شکار اور جال کی علامتوں سے پیش کی گئی ہے۔ اس دیہی منظرنامے میں استحصالی قوتوں کا بنیادی شکار باز ہے ،جسے بچانے کو ”کمال چاچا“ ایک مزاحمتی کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے:

”اس دھرتی کے غیور فرزندو! زمین اورمٹی ماں سے زیادہ مقدس ہوتی ہے۔ اپنی عظیم ماں کا دامن داغدار ہونے سے بچاﺅ اِس کے تقدس پر آنچ مت آنے دو۔ ان خودغرض استحصالیوں کے سامنے آہنی چٹان کی طرف ڈٹ جاﺅ۔۔۔ان کا راستہ روکو۔۔۔ ورنہ ہاتھ ملتے رہ جاﺅ گے۔“(۴۱)

” ملنگ باچا“ میں بھی مرکزی کردار ظلم و ستم سہتے سہتے آخرکار استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرتا ہے۔ مصنف اپنی سرزمین سے پوری طرح وابستہ ہے اسی زمین کا دُکھ ”آخری آنسو“ میں بھی نظر آتا ہے۔غرضیکہ بلوچستان کے سارے دُکھ سکھ، گہرے،شوخ رنگ، بلوچستان کی روائتیں اور رسوم اور ثروت مند زمین کی بھوک اور یہ بھوک بانٹنے والے عناصر یہاں کا امن و سکون چھیننے والے اور نفاق بونے والے ان دیکھے ہاتھ سبھی کو گہرے سیاسی شعورکے ساتھ مصنف نے پیش کیا ہے۔

بلوچستان میں خواتین افسانہ نگاربھی عصری شعور کو اپنی تحریروں میں منتقل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹرفردوس انورقاضی کا تفصیلاً ذِکر ہوا، ان کے علاوہ رفعت زیبا، شاہین رُوحی بخاری، روبینہ بٹ، رقیہ آرزو،طاہرہ احساس اور حمیرا صدف نے بلوچستان کے مسائل خصوصاً عورت کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک، ظالمانہ رسوم و روایات کو خصوصاً اپنا موضوع بنایا۔ حقیقت نگاری اور رومانویت کا امتزاج بیشتر خواتین افسانہ نگاروں کے اسلوب پر غالب ہے۔

علاوہ ازیں آشوبِ عہد اور عدم تحفظ کا احساس جو بلوچستان اور باقی ملک میں موجود ہے۔ اُس کا عکس بھی ان افسانوں میں دکھائی دے جاتا ہے۔ مثلاً شاہین روحی بخاری کا افسانہ ”خداکی آنکھیں“ جس میں جنگ سے نفرت اور امن کی خواہش ملتی ہے۔ رقیہ آرزو کا افسانہ ”وطن کی مٹی“ حب الوطنی کے جذبے کو پیش کرتا ہے۔لیکن بیشتر خواتین نے عورتوں کے مسائل کو ہی مرکز توجہ بنایا۔ اُن پر مردوں کی اجارہ داری اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے کرب کو بیان کیا ہے۔ معاشی و معاشرتی ناہمواریوں، غربت و افلاس اور عورتوں کی بے کس زندگی کو بیانیہ حقیقت نگاری میں سمو دیا ہے۔

جدید عہد میں اُجالامینگل، اُجالا تبسم، جویریہ حق وغیرہ بلوچستان کے انھی پرانے مسائل اور فرسودہ روایات کو نئے انداز سے لکھ رہی ہیں۔

اُجالا مینگل کا ایک افسانہ ”بابا ہم کب پہنچیں گے“ روشنائی کے اپریل تا جون کے شمارہ ۶۰۰۲ءمیں چھپا تھا ، جس میں ایک جلے ہوئے بچے کو اُس کا باپ کسی ہسپتال میں پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور سست رو پرانی بس دُوردراز کے اس ہسپتال تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، بچہ رستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ وہ بار بار اپنے باپ سے ایک ہی سوال پوچھتا ہے”بابا ہم کب پہنچیں گے۔“

باپ اُسے جھوٹی تسلیاں دیتا ہے لیکن جانتا ہے کہ اس علاقے کی پسماندگی اور بنیادی انسانی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بچہ جانبر نہ ہو سکے گا۔ افسانہ انتہائی کرب انگیز تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ قاری تادیر اُس کرب کے دباﺅ سے باہر نہیں نکل سکتا ہے۔ اسلوب کا رچاﺅ اور مقامی الفاظ کا استعمال احساس کی شدت کو بڑھادیتے ہیں۔ بچے کا جملہ محرومیوں کا وہ تازیانہ ہے جو اس سرزمین کا استعارہ بن جاتا ہے کہ آخر یہ خطہ کب اکیسویں صدی کی سہولیات حاصل کر سکے گا کب دیگر علاقوں کا ہم رکاب ہو پائے گا کب ترقی کی اُس سطح پر پہنچے گا جہاں اُسے پہنچنا چاہیے تھا۔ یہی وہ بنیادی دُکھ یا مسئلہ ہے جس کا احساس بڑھتے بڑھتے اب ایک گمبھیر سیاسی انتشار اور تنازعے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بلوچستان کے افسانہ نگاروں نے تو اس پر بہت لکھا لیکن ملک کے باقی حصوں میں رہنے والے افسانہ نگاروں تک اس کے مسائل کی آنچ شاید اس حدت کے ساتھ نہ پہنچ سکی۔بہرحال اس سلسلے میں محمد حمیدشاہد کا افسانہ ”برشور“ بلوچستان میں خشک سالی کے عذاب کو پیش کرتا ہے ، جہاں لاکھوں روپے کمانے والے امدادی ٹیموں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ پورا علاقہ صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے باغات بھسم ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بیٹی کے نام پرمسجد بنائی تھی وہ تاج محمد ترین تھا جس نے بے تحاشا قرضہ اُٹھا کر بار بار کنویں کھدوائے تھے۔ زمین کا سینہ پانی سے بالکل خالی ہو چکا تھا کھیت تو سیراب نہ ہوئے اس خرچے کے عوض یہ ساری زمین، قلعہ اور دیگر اسباب دے کر بھی قرض نہ چکا سکا اور آخر بیٹی بھی اسی کی نذر کرنا پڑی۔

”اس سے دگنی عمر والے تسبیح اُٹھائے دودھ جیسی سفید ریش والے معزز نظر آنے والے شخص نے اس کے کندھے پر اپنی تسبیح والا ہاتھ رکھا ا ور کہا ۔

”ترین کیوں تماشا بناتے ہو تم نے پچھلے سات سالوں میں جتنی پے منٹ مانگی میں نے دی۔۔۔ دیکھو میں نے تمہاری بیٹی سے اتنے شریف لوگوں کے سامنے نکاح کیا ہے۔۔۔ اب باقی قرض میں خدا رسول کے نام پر تمہیں معاف کرتا ہوں۔

ترین چپ ہونے کی بجائے اور شدت سے چیخا۔

خدا رسول کے نام پر۔۔۔؟“(۵۱)

آخر وہ مسجد کے ستون سے لپٹ کر دھاڑیں مارتے کہتے چلا گیا۔

”کاش میں تمہیں بیچ سکتا۔“

پورا افسانہ خشک سالی سے پیدا ہونے والے قحط، بھوک، موت، ویرانی کی ایسی منظرکشی کرتا ہے گویا زندگیاں ازخود بے آب و گیاہ ریگ زار میں بین کرتی ڈھانچوں میں تبدیل ہوتی سارے آداب، قرینے نگل گئی ہوں۔

خالد فتح محمد کا افسانہ”صحرا کا پھول“ بلوچستان کے باشندوں میں پھیلی بے چینی، عدم مساوات اور ناانصافی کے نتیجے میں اُبھرنے والی انارکی اور مزاحمت کو پیش کرتا ہے، لیکن وہاں کے باشندوں کا حوصلہ و ہمت سخت جانی، اصول پسندی اور غربت و پسماندگی قاری کو دہلا دیتی ہے۔

حساس فوجی دستے پر لق و دق صحرا میں گوریلا حملہ ہوا،حملہ آوروں کی تلاش میں ایک ٹیم بھیجی گئی جسے راستوں کی جانکاری دینے کے لیے بچل کی خدمات حاصل کی گئیں یہ شخص عجب شخصیت کا مالک تھا۔ ایک ماہر کھوجی جو راستے کی گرد سونگھ کر حالات کا پتہ بتا سکتا تھا جو دنوں کچھ کھائے پیئے بغیر صحراﺅں کی ریت اور نوکیلے پتھروں پر سفر کر سکتا تھا، جو کہتا ہے:

”سائیں! ہم جب چلتے ہیں تو اپنی رُوح کو جسم سے الگ کر لیتے ہیں اس سے جسم بالکل ہلکا سا ہو جاتا ہے۔“(۶۱)

یہ ایک صحرائی سفر تھا جس کے دوران واحدمتکلم کو عجب تجربات ہوتے ہیں۔ ایسی ُپرمشقت زندگی، بھوک پیاس صحرا کی گرمی پتھروں کی ساخت اور پھر ان کو سر کرنے والے یہ باشندے جن کے عزم اور کردار پہاڑوں جیسے اٹل اور مضبوط ہیں، جنھیں محرومیوں نے تشدد کی راہ پر ڈال دیاہے۔ افسانے کا انجام بھی اسی نظریے کو پیش کرتا ہے جب دونوں مجرم مِل گئے تو ٹیم کا ایک رُکن منصور اُنھیں گولی مارنا چاہتا ہے لیکن راشد اُسے منع کرتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے۔

”یہ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے انھیں اپنے آپ سے محبت ہے۔۔۔ “(۷۱)

افسانے کا انجام گویا بلوچستان کے اصل مسئلے کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ وہاں کے باشندوں کو محروم رکھا گیا نتیجتاً وہ تشدد کی راہ پر گامزن ہو گئے تو اُن کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اُن کے ساتھ ایک بے مقصد جنگ لڑی جانے لگی۔

یہ افسانہ بلوچستان کے زمینی حالات و کوائف صحرائی زندگی اور سیاسی مسئلے کو بڑی جامعیت، دلچسپ اور ُپرتاثیر پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ اس مسئلے سے الگ بھی افسانہ اعلیٰ جہات اور معیار کاحامِل ہے۔

مجموعی طور پر بلوچستان میں لکھا جانے والا اُردو افسانہ وہاں کی مٹی اور سرزمین سے جڑا ہوا ہے۔ انگریز کے خلاف مزاحمت سے لے کر موجودہ عہد کی ناانصافیوں تک ہر دور کے سماجی و سیاسی شعور کا حامِل رہا ہے۔ فنی و اسلوبیاتی حوالے سے بیانیہ اور علامتی تکنیک کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے یہاں انگریزی افسانوں کے تراجم بہت کےے گئے اور ان کی تکنیک اور بنت سے افسانہ نگار متاثر بھی ہوئے۔ مقامی مسائل کو جدید تکنیک میں مو¿ثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

۱۔ خدابخش میربجرانی مری جسٹسسعید احمد رفیق،پروفیسر ،Search Light on Baluches & Baluchistan، بلوچستان تاریخ کے آئینے میں، کوئٹہ:نساءٹریڈرز، ۴۸۹۱ئ،ص ۲۲

۲۔ شاہ محمد مری، بلوچی کہانی کا عروج و زوال، الحمرا انٹرنیشنل کانفرنس ، اکتوبر ۲۱۰۲ءمیں پڑھا گیا

۳۔ مبارکہ حمید،ڈاکٹر، بلوچستان میں اُردو افسانے کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، کوئٹہ:نوید پبلی کیشنز،۱۰۰۲ئ،ص ۳۳

۴۔ عنایت اللہ خان، طاہر محمد خان کے افسانے،(دیباچہ)،مشمولہ:زودپشیماں، مرتبہ:طاہر محمد خاں، کوئٹہ: قلات پبلشرز، ۴۰۰۲ئ، ص۷

۵۔ فاروق احمد،ڈاکٹر، سچا اظہار، ایضاً،ص ۲۱

۶۔ طاہر محمد خان، زودپشیماں، ایضاً،ص ۱۳

۷۔ طاہرہ محمد خان، پانی کا جبر، ایضاً،ص ۳۴

۸۔ وحیدزہیر، ماسک سے محروم دانشور،ص ۸۱

۹۔ فاروق سرور،بھیڑیا، ندی کی پیاس، کوئٹہ:تھرڈ ورتھ پبلی کیشنز، ۴۹۹۱ئ،ص ۲۴

۰۱۔ سہراب اسلم، آغا گل کے افسانوی مجموعے گوریجہ پر ایک نظر، مشمولہ:قلم قبیلہ،سہ ماہی،(مدیر:ثاقبہ رحیم الدین)،کوئٹہ، بلوچستان: جنوری تا جولائی ۴۹۹۱ئ،ص ۲۳۲

۱۱۔ آغاگل، اُستاد مہر،مہر گڑھ، کوئٹہ:دُعائے حق پبلی کیشنز، ۱۱۰۲ئ،ص ۳۷

۲۱۔ ایضاً،ہابیل قابیل،ص ۳۸

۳۱۔ آغا گل، پرندہ، کوئٹہ: انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈپبلی کیشنز، ۲۱۰۲ئ،ص ۴۷۔۳۷

۴۱۔ آغاگل، دشت ِوفا کے بارے میں آغا گل نمبر،مشمولہ: روشناس۔ ۶،(مدیر: محمدمصلح الدین)، کراچی:نومبر ۱۱۰۲ئ،ص ۱۱

۵۱۔ یعقوب شاہ غرشین،بوئے خون ریش،بازگیر، کوئٹہ:قلات پبلشرز، ۴۰۰۲ئ،ص ۲۵۔۱۵

۶۱۔ محمدحمیدشاہد، برشور،مشمولہ:محمدحمیدشاہد کے پچاس افسانے، مرتبہ:ڈاکٹر توصیف تبسم، اسلام آباد:پورب اکادمی، ۹۰۰۲ئ، ص۸۷۔۷۷

۷۱۔ خالد فتح محمد، صحرا کا پھول، مشمولہ:مزاحمتی ادب،(۷۰۰۲ئ۔۹۹۹۱ئ)،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان، ۹۰۰۲ئ،ص ۷۰۱

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *