Home » 2018 » November (page 7)

Monthly Archives: November 2018

سلمیٰ جیلانی 

خوشی /اداسی  جیون ایسی کتھا جس میں خوشی اور اداسی کے سائے ہمہ وقت گڈمڈ رہتے ہیں پل دو پل کو خوشی کا سورج افق کے پار ابھرے تو اداسی اپنے طویل پنکھ پھیلاتی ہے اور دل پر اندھیرے کا کبھی نہ ختم ہونے والا راج پاوں پسار لیتا ھے مگر پھر کوئی ننھی کرن مسکراتی ہے جسے امید کہتے ...

Read More »

سعدیہ بشیر

آئینہ دل  میرے دل کے اک خانے میں غم پیر پسارے بیٹھے ہیں تم بھی تو اک غم ہی ہو ناں اک خانے میں دلدل ہے اس میں جکڑی ہیں کچھ یادیں آنسو ،آہیں اور تصویریں باتیں ،شکووں کی زنجیریں لاکھ رہائی دینا چاہوں اور بھی جکڑی جاتی ہیں پہروں مجھے رلاتی ہیں اک خانہ خواہش کا ہے جس میں ...

Read More »

سحر انصاری

زندہ رہنا سیکھیے پیڑ، پودے اور پرندے آسماں پر اُڑتے بادل اور سمندر کے کناروں سے لپٹتی نقرئی موجیں دھنک کے رنگ اور بارش کے قطرے ہوا کے تازہ جھونکے صبح کے سورج کی پہلی روشنی کہہ رہی ہے زندہ رہنا سیکھیے ماہِ شب کی مسکراتی چاندی کہکشاں کے سلسلے روشنی کی تیز تر رفتار سے بھی دور گرداں تازہ ...

Read More »

سحر اِمداد 

سناٹا آج کل کتابوں میں یا کہ پھر رسالوں میں اور روزناموں میں جو کلام چھپتا ہے اْس کلام میں اکثر شاعری نہیں ہوتی!۔ شاعری کی نگری کے راستے گذرتے ہیں وحشتوں کے سائے میں اور لوگ جیتے ہیں دہشتوں کے سائے میں!۔ شاعری کی نگری کے گھر تو ہوگئے بلڈوز اور جو بچے ہیں وہ اجتماعی قبریں ہیں!۔ سانجھ ...

Read More »

سبین علی 

بحر قلزم کے کنارے مدوجزر تلے سرکتی سنہری ریت قدموں تلے چبھتے گدگداتے کھلکھلاتے مونگے اور دور پرے افق سے ابھرتی گھاٹ کی جانب رواں کشتیاں عجب تمکنت سے موجوں کا سینہ چیرتی ہیں تیرے ان متبرک پانیوں کا کہ جن پر ناخدا کے بنا بھی شکستہ سفینے ساحلوں پر لنگر انداز ہوتے رہے دنیا بھر کے ملاح جس طرف ...

Read More »

سانی سیّد

سو اب کچھ بھی نہیں ہیں نہیں ایسے کہاں تھے سفر کی ابتدا میں ہماری روشنی سے بھرچکی آنکھوں میں خوابوں کے خزانے تھے سبھی موسم سہانے تھے ہمارا دل دھڑکتا تو کسی کا نام سنتے تھے اک ایسا نام جس کو ہم سے مشرک اسم اعظم جانتے تھے ذہن اک باغ تھا جس میں خیالوں کی حسیں پریاں مسلسلِ ...

Read More »

زاہدہ رئیس راجی

آج کا بچہّ زندگی موت بن گئی یا پھر موت کا خوف مر گیا ہوگا گولیوں کی صدا ئیں سُن کر بھی ماں کے آنچل میں اب نہیں چھپتا مقبروں سے یا مرتے انساں سے اب کے بچّے کو ڈر نہیں لگتا موت سے زندگی جُدا کرتا حاشیہ بھی تو مٹ گیا ہوگا؟ دیکھ لو کس قدر بہادر ہے اگلے ...

Read More »

رضوان فاخر

ایر رچ ایر رچ! ۔ چہ قدحے آایر رچ چو خمار شنگ بو چو بہار ایر رچ ایر رچ ماں جان ئے ہورکیں قدح آ کہ زردے ہشکیں کہچرانی بے قراریں خرگوشک پہ بہارے ءَ زراں اے تیوگیں ندارگانی آسک چرتگیں بدن پہ خمارے ءَ زراں ایر رچ!۔ وسوسوں کے شہر میں اک شام لگتی ہے راستوں پہ ہر اک ...

Read More »

روِش ندیم

سوچوں کے ہینگر پہ ٹنگی آنکھیں  انا میکا!ذرادیکھو کہ سورج کتنے جنموں سے مری گلیوں میں ٹھہرا ہے مگر ایسی سیاہی تو کبھی دیکھی نہیں ہو گی سیہ سورج ، سیہ گندم، سیہ آنسو، سیہ پرچم ، سیہ اوراق بھی تم نے کبھی دیکھے نہیں ہوں گے انامیکا! جنم بھومی ہے یہ میری جہاں عیسیٰ صلیبِ شہر کا ہمزاد ہو ...

Read More »

ذی شان ساحل

مشرق  جب سورج مغرب میں ڈوبنے لگتا ہے ہماری کوشش ہوتی ہے تھوڑی روشنی کی خاطر اسے ایسا کرنے سے روک دیا جائے شام ہونے سے پہلے ہم سمندر کے کنارے جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سورج کے آنے کا انتظار کرتے ہیں وہ آہستہ آہستہ آتا ہے اور ہمیں جُل دے کر سمندر میں ڈوب جاتا ہے ہم ...

Read More »