Home » Javed Iqbal (page 20)

Javed Iqbal

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔۔۔ رانا محمد اظہر

کور سر پینٹس رُوسی مصنف ایوان یفری موف کا تنصیف کردہ ناول ہے۔ ناول کی کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ زمین کے باسی انسانوں نے کپٹلزم اور کمیونزم کی تضاد کو حل کرلیا ہے۔ ہماری دنیا میں ایک ہی معاشی نظام رائج ہو چکا ہے۔ استحصال سے آزاد ایک معاشرہ بننا شروع ہوگیا ہے۔ جو محنت اور وقت ...

Read More »

مرید

بڑئیں شاہ محمد مری۔۔ دروت  و  دراھبات!۔ نامداریں دانشور! تئی وانوک وش  و  جوڈ انت، امیت انت کہ تو ھم سلامت بہ ئے۔ مئے وش بہتی انت کہ ما تئی دور ئے مردم انت، مرچی اگاں مئے رنگیں بے علمیں مردمے چندے شعوری گپ یا کہ لبز نویسیت، گڈا آ تئی شعوری زانت  ئے   برورد انت۔ مناں چونائی  آ  دیر ...

Read More »

۔”وزیر اعظم بدلو“  فارمولا

سیاست دو بڑی سماجی قوتوں یعنی دولت مند اور غریب کے بیچ فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے تک کے لیے مہلک لڑائی کا نام ہے۔عوام اور سرمایہ دار کے بیچ اس برحق لڑائی میں ایک طرف معیشت پر قابض لوگ ہیں جو ریاست پہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔اور دوسری طرف محنت کش طبقے کی قیادت میں عوام ...

Read More »

April 2022 First Page

Read More »

April 2022

Read More »

آخر کب تک ۔۔۔ رخسانہ صبا

چلتے چلتے کیسے موڑ پہ آنکلی ہوں شہرِ جبر کے ان سنگین حصاروں سے باہر آئی تو دل کو کیسی خوش فہمی تھی میرے ساتھی یہ سمجھے تھے ہم منزل تک آپہنچے ہیں لیکن اب تو سارا چہرہ دھول ہوا ہے سر پر خاک ہے پاؤں کے چھالے اب تو دل تک آپہنچے ہیں   میری ماں کے شانوں پر ...

Read More »

مجھے بولنے دو ۔۔۔   مطربہ شیخ

میں جانتی نہ تھی کہ میں صرف بدن ہوں میں جانتی نہ تھی کہ میں صرف وحشت کی ساتھی ہوں میں جانتی نہ تھی کہ میری عمر کتنی ہے تین سال۔ چار سال۔ سات سال۔ تیرہ سال سولہ سال۔ بیس سال ساٹھ سال یا قبر میں مردار مجھے تو بس یہ بتایا گیا کہ تو صرف جسم ہے تو وہ ...

Read More »

مہمیز ۔۔۔ میرساگر

چالیس اْونٹیں نوّے گھوڑے اَسّی بھیڑیں لاکھ پیادے تیرے آگے چلتے ہیں لاکھ سپاہی پیچھے، پھر بھی اے سردار!۔ مْجھ ناچار کے سر سے چادر کھینچتا ہے

Read More »

عورت ذات ۔۔۔ ناصرہ زبیری

جلتا سورج، راہیں لمبی ننگے پاؤں، دْور ہے ندی ٹیڑھا پینڈا، گہری وادی موڑ مْڑے گی کب پگڈنڈی کبھی میں رکھوں راہ پہ آنکھیں کبھی اْٹھاؤں رکھ کے گگری   کبھی یہ سوچوں کنکر، پتھر توڑ نہ ڈالیں میری جھجھری کبھی نکالوں کْھلتا گھونگھٹ کبھی سمیٹوں گِرتی چْنری کبھی نکالوں پیر سے کانٹا کبھی سنبھالوں سر پر مٹکی ”بہت کٹھن ...

Read More »

ہچکی ۔۔۔  قندیل بدر

سنتی بھی ہو کبر کی ماری مٹی کی ڈھیری کتنے سال پرانی ہو گئی یہ تیری چمڑی دیکھ چکی ہے کتنے منظر آنکھوں کی پتلی تھاپ چکی ہے ان ہونٹوں پر کتنے من سرخی کیا کیا ہڑپ لیا ہے تو نے بھوک بھری تھالی کتنا پانی جذب کیا ہے کتنی سانسیں لیں ناپ سکی ہے ان پیروں سے کتنے میل ...

Read More »