Home » قصہ » نِل بائی ماؤتھ ۔۔۔ نجمہ عثمان 

نِل بائی ماؤتھ ۔۔۔ نجمہ عثمان 

          بیڈ نمبر پندرہ کی مریضہ کی دائیں ٹانگ پلاسٹر میں جکڑی ہوئی تھی۔ ستر پچھتر کے لگ بھگ عمر۔ ہشاش بشاش گول چہرہ۔ کٹے ہوئے بال۔ آنکھوں پر موٹی فریم کا چشمہ۔ آواز میں کرارہ پن اور بھرپور زندگی۔ اس کے ارد گرد کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہیل چیر میں بیٹھا ہوا شخص جو سب کی گفتگو خاموشی سے سن رہا تھا یقینا اس کا شوہر تھا۔ جوان شخص جس بے فکری سے اس کے پلنگ پر چڑھا بیٹھا تھا اس کا بیٹا ہی ہوسکتا تھا۔ اور وہ ادھیڑ عمر کی عورت جو مستقل مریضہ کی چیزیں سمیٹنے میں لگی ہوئی تھی اور بار بار اسے اپنے سے لاپرواہ رہنے پر ڈانٹ رہی تھی اس کی بیٹی ہوگی۔ شہلا نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوچا اس کا اپنا نائٹ بیگ ابھی تک بند رکھا ہوا تھا۔ دن بھر کے انتظار کے بعد ایپسم (Epsom) ہسپتال نے شام کو پانچ بجے فون کیا تھا کہ اس کے لیے بیڈ خالی ہوگیا ہے اور وہ فوری طور پر ہسپتال پہنچ جائے۔

          اب اس اورتھوپیڈک وارڈ میں مزید کوفت سے پچنے کے لیے وہ چاروں طرف کے ماحول کا جائزہ لے رہی تھی۔ میاں اسے وارڈ میں بٹھا کر بڑے بیٹے کو فون کرنے چلے گئے تھے۔ ویلزونگ کے اس وارڈ میں صرف چار بیڈ تھے۔ اس کے سامنے اٹھارہ نمبر پر بہت ہی ضعیف اور منحنی سی انگریز بوڑھی عورت تھی۔ اس نے نام پڑھا مسز براؤن۔شاید اونچا سنتی تھی اس کی آواز قدرے بلند تھی اور وہ ایک ہی بات بار بار پوچھے جارہی تھی۔ ”آج کونسا دن ہے۔ تم کون ہو؟ مجھے اپنے گھر جانا چاہیے۔“ شہلا پر یہ دکھ بھرا انکشاف ہوا کہ وہ الزائمر (alzheimer) کے مرض میں مبتلا ہے۔ بات چیت کے دوران وہ تھوڑی دیر کیلئے اپنی ارد گرد کی دنیا میں لوٹ آتی۔ مسز براؤن کے برابر سولہ نمبر بیڈخالی تھا۔

          پندرہ نمبر بیڈ کی مریضہ کی سائیڈ ٹیبل پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی تھی اس کے بیڈ کے سامنے بندھی ہوئی ڈوری پر درجن بھردعائے صحت کے کارڈ لٹکے ہوئے تھے۔ اس کی بیٹی کافی مشین سے چائے اور  بسکٹ وغیرہ لے آئی تھی۔ ہلکی پھلکی گفتگواور جاندار قہقہوں کا سلسلہ جاری تھا۔

          میاں لوٹے تو وہ اسی طرح سامان لئے بیٹھی تھی اور اس کے چہرے پر بیزاری کی چھاپ بدستور تھی۔

          اب اور کتنی دیر بیٹھنا پڑے گا۔ سارا دن انتظار کی کوفت اور اب یہ مزید کوفت۔ سات بج رہے تھے۔ وارڈ میں کھانا پینا بند ہوچکا تھا اور اسٹاف کچن سے ٹرالی گھسیٹنے اور برتنوں کو رکھنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ دوپہر میں اس نے صرف سوپ پیا تھا کہ نہ جانے کس وقت ہسپتال سے کال آجائے۔

          ”کچھ کھانے کے لئے لاؤں۔“ میاں پوچھنے لگے۔

          ابھی نہیں ”وہ جھلا کر بولی اور ذرا انہیں دیکھو“ اس نے پندرہ نمبر بیڈ کی طرف اشارہ کیا ”ایسا لگتا ہے جیسے پکنک منائی جارہی ہے۔ یہ قوم بھی بس عجیب ہے،ہر حال میں خوش۔“

          میاں چپ رہے۔کچھ کہتے وہ مزید چڑ جاتی۔ خالی پیٹ میں درد کے گولے سے اٹھ رہے تھے اور پیٹھ بیٹھے بیٹھے اکڑ کر تختہ ہوچلی تھی۔ سامنے کاریڈور میں آمدورفت جاری تھی۔ وہ نرسیں جو اس وارڈ میں ڈیوٹی پر تھیں تیزی سے آتیں اور مسز براؤن یا پندرہ نمبر کی مریضہ مسز فلنٹ کے ساتھ گفتگو کرکے لوٹ جاتیں۔

       کیا میں انہیں دکھائی نہیں دے رہی ہوں یا ان کا ارادہ مجھے ساری رات سزا دینے کا ہے۔

        ”شکر کرو تمہیں بیڈ مل گیا ہے۔ دوسرے وارڈ کا چکر لگا کر آیا ہوں اتنے ڈھیر سارے مریض اور چند بھاگتی دوڑتی نرسیں، ہر جگہ اسٹاف کی کمی کا مسئلہ ہے۔ تمہاری باری بھی آجائے گی۔ڈیوٹی پر نرس تمہارا ریکارڈ اور دوسرے فارم بھر رہی ہے۔“ میاں اسے تسلّی دے رہے تھے۔

          ”یہ نیشنل ہیلتھ سسٹم بھی بس تماشہ ہو کر رہ گیا ہے اور مجھے ان بوڑھوں کے وارڈ میں کیوں لا پھینکا؟“۔

          میاں کے جواب دینے سے قبل ڈیوٹی نرس کاغذات سنبھالے آ پہنچی ”سوری آپ کو انتظار کرنا پڑا“ وہ مسکرا کر بولی۔ مجھے راہینہ کہتے ہیں اس کے چپٹے نقوش اور بونا سا قد بتارہا تھا کہ وہ شاید کوریا یا فلپین سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی خوش اخلاقی دیکھ کر شہلا کے چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔ اور سارے انتظار کی کوفت جاتی رہی۔ چلو کم از کم مسکراتو رہی ہے ورنہ زیادہ تر سٹاف اور خاص طور سے ویسٹ انڈین نرسوں کے چہرے اتنے کرخت اور رویہ اتنا غیردوستانہ اور میکانکی ہوتا ہے کہ مریض دہشت سے بیمار پڑجائے۔

          پندرہ منٹ بعد بڑا بیٹا اور بہو آئے تو وہ اطمینان سے نائٹ گاؤن پہنے بستر پر بیٹھی راہنہ کے لائے ہوئے انڈے کے سینڈوچ کھانے اور چائے پینے میں مصروف تھی۔ بیٹا پلنگ پر ٹک گیا اور لاڈ سے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ بہو پوچھنے لگی آپ کے لئے جوس یا ٹھنڈا پانی لاؤں۔ ایسا لگتا تھا وہ مدت سے اسی وارڈ میں قیام پذیر ہے۔میاں بھی کافی لے آئے تھے اور ہلکی ہلکی چسکیاں لے رہے تھے۔

          انسان کتنی جلدی اپنے ارد گرد کے ماحول سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور پھر اسی کا ایک حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں چھوٹا بیٹا بھی آگیا۔ وہ لوگ ساڑھے آٹھ بجے تک بیٹھے رہے۔ شہلا سوچ سوچ کر پریشان تھی یہ سب آفس سے سیدھے آگئے ہیں۔ نہ کھانا نہ پینا، بس اب تم سب جاؤ، وہ انہیں تقریباً ہنکاتی ہوئی لفٹ کی طرف لے گئی۔

          فورتھ فلور کے ویلز وارڈ میں اب خاموشی طاری تھی۔ مسز فلنٹ کا خاندان بھی جاچکا تھا۔ شہلا نے تکیے پر سر ٹکایا تو پچھلے تین مہینوں کے دکھ درد کروٹ لے کر بیدار ہوگئے۔ پیٹ کی تکلیف تو نہ جانے کب سے چل رہی تھی۔ الم غلم وہ ویسے بھی کھاتی رہتی تھی۔ اس لئے خیال بھی نہیں کیا۔ جب درد زیادہ بڑھا تو جی۔ پی یعنی اس کے ڈاکٹر نے اسے ہوسپٹل الٹراساؤنڈ کے لئے بھیجا۔ پھر یہ انکشا ف ہوا کہ اس کے پتّے میں پتھر ہیں اور آپریشن ہوگا جو دل دہلانے کو کافی تھا۔ انگلی میں سوئی چبھ جائے تو اسے پریشانی ہوتی تھی کہیں سیپٹک نہ بن جائے۔ اس کے وہم کا یہ حال تھا کہ چند چھینکیں آنے پر فلو کی تشخیص ہوجاتی تھی۔

          شہلا کے پتّے میں پتھری ہے۔ یہ خبر گھر کے افراد سے نکل کر محلے اور دور دراز ملنے جلنے والوں تک پہنچ گئی۔ مشوروں کی ایک لمبی چوڑی لسٹ تھی۔ یہ کرو۔ یہ نہ کرو۔ فلاں کا پتّے کا آپریشن ہوچکا ہے فوری طور پر رابطہ کرو۔ انیسہ نے اپنے آپریشن کا قصہ اور اس کے بعد کے حالات اس دلدوزی سے سنائے کہ شہلا کو اپنے بچنے کے آثار بہت کم نظر آنے لگے۔ ”میں نے غلطی یہ کی کہ آپریشن سے پہلے اور بعد میں بالکل احتیاط نہیں کی اور حالت یہ ہے کہ چھ مہینے گزرنے کے باوجود اب بھی درد ہوتا ہے۔ ایک تو ہمارا گھر گرمیوں میں مہمانوں سے بھرا رہتا ہے پہلے سسرال سے نند اور بچے آگئے تھے ان کے ساتھ گھومنا پھرنا۔ کھانا پکانا اور رات کی مصروفیت۔ حالت تباہ ہوگئی۔ آپریشن کے بعد جس دن گھر لوٹی میاں نے مژدہ سنایا کہ انڈیا سے ان کے عزیز ترین دوست پہلی دفعہ لندن آرہے ہیں۔ کچے زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کچن اور باتھ روم صاف کیا۔ اور بس حلیہ ہی ٹائٹ ہوگئی۔“

          شہلا چاہتے ہوئے بھی پوچھ نہ سکی کہ کسی ہوم ہیلپ کا بندوبست کرلیا ہوتا۔ انیسہ کے میاں کا بڑا بزنس تھا۔ ودلت کی ریل پیل تھی لیکن یہ بھی تھا کہ پیسہ دانت سے پکڑ کر خرچ کرتے تھے۔ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔

          بہی خواہوں کے مشورے اور انکوائری جاری تھی، جس دن درد زیادہ ہوتا چھٹی لے لیتی۔ ویسے بھی صرف تین دن ایک کالج میں پڑھاتی تھی۔ گھر کا بھاری کام کاج لڑکوں بہو اور میاں نے سنبھال لیا تھا۔ تھوڑا بہت کام اور لیٹنا بیٹھنا یہی شہلا کی مصروفیت تھی۔ پھر فون پر خیریت بتانے کا سلسلہ بھی خاصا وقت لے لیتا تھا۔ گھر والے محسوس کرتے کہ بہی خواہوں سے گفتگو کے بعد شہلا زیادہ مضطرب اور پریشان ہوجاتی۔

          وہ جھنجھلا کر سوچتی۔یہ تکلیف یہ مجبوری۔ اتنے کاموں سے معذوری۔ گھر میں جیسے کتے لوٹ رہے تھے۔برسوں کی محنت سے بنا ہوا گارڈن جنگل بن گیا تھا۔ میاں کیا کیا کرتے۔ بس اوپر کی صفائی ستھرائی اور کھانے پینے کا نظام لشتم پشتم چل رہا تھا۔ ان تکلیفوں کا دکھڑا رونے وہ اپنی جی پی کے پاس پہنچی۔

          ”شہلا آپ کا وزن بہت بڑھ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے آپ چلتی پھرتی بہت کم ہیں۔ کم از کم دو تین میل پیدل چلیں۔ آپریشن ہونے تک اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔ اکثرتکلیفیں صرف ہمارے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ تھوڑا بہت درد برداشت کرنے کی ہمت کریں اور زیادہ اس بارے میں نہ سوچا کریں۔“

          شہلا کی فیورٹ جی پی نے جیسے بم کا دھماکہ کیا۔ اسی لمحے وہ شہلا کی بلیک بک میں چلی گئی۔ کم بخت نے اپنی اصلیت دکھا ہی دی طوطا چشم قوم۔ اب تک پاکستان سے لائے ہوئے ماربل کے قلمدان، لیس کے میزپوش اور شیشے لگے کشن کور جیسے اور تحفوں کے ضائع ہونے کا ماتم کرتی ہوئی اور نیشنل ہیلتھ کو کوستی ہوئی وہ گھرلوٹی۔

          اس دن بہی خواہوں سے گفتگو کے دوران اس کی جی پی تحقیق و تنقید کا موضوع بنی رہی۔ بس انگریزوں کی یہی خرابی ہے ہم ایشیائیوں کو جاہل سمجھتے ہیں رخشندہ آپا نے بی ایڈ کے علاوہ ہومیوپیتھی کورس کر رکھا تھا۔ روبی نے ہربل ڈائٹ پر ہر قسم کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ سب نے یہی مشورہ دیا۔ تم اس عورت کی باتوں میں بالکل مت آؤ۔ اپنا خیال رکھو اور بس آرام کرو۔

          ایپسم ہسپتال سے اچانک ہی فون آیا تھا۔ آج شاید بیڈ خالی ہوجائے شام تک انتظار کریں۔ شہلا نے جلدی جلدی دوچار فون دوڑادیئے آج جارہی ہوں۔ کل آپریشن ہے دعا کریں۔

          اب دعا ہی کی ضرورت تھی۔اس نے گھبرا کر کروٹ لی اور اٹھ کر بیٹھ گئی صرف دس بجے تھے۔ وارڈ میں خاموشی تھی۔ مسز فلنٹ اپنی پلاسٹر چڑھی ٹانگ کو تکیے کا سہارا دیئے پلنگ پر نیم دراز پڑی خراٹے لے رہی تھی۔ مسز براؤن کے برابر سولہ نمبر بیڈ پر ایک نئی مریضہ آگئی تھی۔ گلوکوز کی تھیلی لگی ہوئی اور منہ پر Nebulizor چڑھا ہوا۔ مسز براؤن پلنگ پر بیٹھی مسکرا رہی تھی۔

          ”آر یو آل رائٹ؟“ اس نے بڑی محبت سے پوچھا پھر نئی مریضہ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔ ”اس کا ہپ ریپلس منٹ ہوا ہے بیچاری بڑی تکلیف میں ہے۔ جلد ہی ٹھیک ہوجائے گی۔“

          شہلا کے چہرے پر تردّد دیکھ کربولی ”مسکراؤ دنیا اتنی بری نہیں ہے۔“

          شہلاہڑ بڑا کر بولی ”نونو۔آئی ایم فائن تھینکس!“

          وہ گاؤن لپیٹ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

          ”تمہارے دوست چلے گئے“۔مسز براؤن کا باتیں کرنے کا موڈ تھا۔

          ”میرے میاں اور دونوں لڑکے تھے اور بڑی بہو“ شہلا نے بتایا۔

          ”میرے بھی کئی بچے ہیں“ مسز براؤن ہولے سے بولی۔   ”لڑکے یا لڑکیاں؟“

          مسز براؤن سوچ میں پڑگئی ”لڑکی تو شاید نہیں ہے۔ دو لڑکے ہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ شاید تین ہیں۔ ایک ہمیشہ ملک سے باہر رہتا ہے۔ میں نے عرصے سے نہیں دیکھا۔“

          وہ ہاتھ بڑھا کر پانی پینے کا جگ اٹھانے کو جھکی۔ شہلا مدد کرنے کو لپکی تو ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔

          شہلا نے دیکھا اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مڑی تڑی تھیں۔

          ”آرتھرائٹس“ وہ اسے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ”ایک زمانہ تھا کہ میں اپنے کام خود کیا کرتی تھی۔ مجھے صفائی کا خبط ہے، سینے پرونے کا بے حد شوق ہے اب ان انگلیوں سے مجبور ہوں۔ سوئی نہیں پکڑ سکتی اور پاؤں میں ایگزیما کی وجہ سے زیادہ بھاگ دوڑ نہیں سکتی۔ تم کیا کرتی ہو؟“

      ”میں کالج میں پارٹ ٹائم پڑھاتی ہوں“

          ”چلو یہ بھی اچھا ہے گھر کے کام کے لئے تمہیں اچھا خاصا وقت مل جاتا ہوگا۔ میری عمر پچاسی برس کی ہے۔ میرے آگے تو تم جوان ہی ہومنٹوں میں سارے کام کر لیتی ہوگی۔“

          ”کام کہاں ختم ہوتے ہیں“ شہلا اپنی کرسی آگے گھسیٹتی ہوئی بولی۔ ”پھر آج کل اس درد کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔“

          ”ارے یہ چھوٹے موٹے درد تم جیسے جوان لوگوں کے لیے کیا ہیں۔ یہ بات تمہیں کسی نے نہیں سمجھائی“۔ شہلا کے چہرے پر سوالیہ نشان دیکھ کر مسز براؤن نے پوچھا ”کیا تمہارے بہت سے دوست ہیں؟“۔

          ”بہت سے“ شہلا فخر سے مسکرائی ”میں بہت خوش قسمت ہوں“۔

          ”اور شاید یہی تمہارا مسئلہ بھی ہے“ مسز براؤن اس کی طرف جھک کررازداری سے بولی۔ ”میری بات کا برا نہ ماننا۔ اپنے مسائل خود حل کرو تو جلدی ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کو شریک کرو تو اور الجھ جاتے ہیں۔“

          شہلا کو اس کی باتیں اتنی سچی اور کھری لگ رہی تھیں کہ جی چاہ رہا تھا سنتی ہی رہے۔

          ”میرے پاؤں کا ایگزیما دیکھو بڑھتے بڑھتے گھٹنوں تک آگیا ہے۔ڈاکٹرکہتا ہے وہیل چیئر پر بیٹھ جاؤ یا بیساکھی لے لو۔ اور میں ابھی معذوروں کی فہرست میں شامل ہونے کو تیار نہیں۔ جب تک چل پھر سکتی ہوں اپنے پاؤں پر تو کھڑی ہوں اور مجھے تو بیکار بیٹھنے سے وحشت ہوتی ہے۔“

          وہ باتیں کرتے کرتے خاموش ہوگئی اس کی آنکھوں میں خلاسا ابھر رہا تھا۔

          ”آج کونسا دن ہے مجھے گھر جانا چاہئے۔ تم کون ہو؟“

          ارے یہ تو پھر کسی اور دنیا میں چلی گئی۔

          شہلا پھر اپنے پلنگ پر جا بیٹھی۔ بیچاری مسز براؤن یا بیچاری میں۔ اللہ میاں میرے اس درد کو دور کریں۔ آپریشن خیریت سے ہوجائے پھر میں اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کروں گی۔

          شہلا کا آپریشن دو بجے ہونا تھا۔ صبح ہلکے سے ناشتے کے بعد اس کے سرہانے ”نِل بائی ماؤتھ“ کانوٹس لگادیا۔

          بارہ بجے تک اس کا کلیجہ کھرچنے لگا اور حلق خشک ہونے لگا۔ وہ بھوکی پیاسی چپکی پڑی رہی۔ نرسیں آکر تسلی دے جاتیں بس تھوڑی دیر اور۔ گھر والے بھی ایک بجے تک مل ملا کر چلے گئے۔ دوبجے خبر آئی کہ ایمرجنسی کی وجہ سے آپریشن شاید چار بجے ہوگا۔ اس کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر مسزبراؤن اس کے پلنگ کے نزدیک آئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی۔ چہرے پر مسکراہٹ لئے۔

          ”تم کون ہو۔ کیا آپریشن ہونا ہے؟“ وہ کل کے واقعات بالکل بھول چکی تھی۔

          ”ڈونٹ وری اینڈچیراپ“ شہلا زبردستی مسکرادی پھر اسے اپنا نیا عہدہ یاد آگیا۔ ایمرجنسی بھی تو کسی نہ کسی کی اہم ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایمرجنسی میرے لئے بھی ہوسکتی تھی۔ اس کا دماغ ہلکا پھلکا ہوگیا۔ وہ لیٹے لیٹے صبح کی پڑھی ہوئی دعائیں پھر سے پڑھنے لگی۔

          چار بجے اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ وہ کافی حد تک پر سکون تھی۔ شاید ڈیڑھ دو گھنٹے میں وارڈ میں واپسی ہوئی۔ تھوڑا بہت ہوش آتا تو جانے پہچانے چہرے چاروں طرف کھڑے نظر آتے۔ دھندلے دھندلے سے عکس۔

          حلق خشک ہورہا تھا زبان میں جیسے کانٹے پڑگئے تھے۔

          ”پانی۔ پانی مجھے پانی چاہئے۔“

          بہو سہارا دے کر گیلی پھریری سے منہ صاف کررہی تھی ”ابھی آپ پانی نہیں پی سکتیں حلق تر کرلیں“۔ پھرغنودگی بے ہوشی رات گئے ہوش آیا تو سب چاروں طرف بیٹھے تھے۔

          میاں نے بتایا آپریشن کامیاب رہا اب کل تک بالکل ٹھیک ہوجاؤں گی۔

          ”ازشی او کے؟“۔مسز براؤن کی نرم آواز کانوں سے ٹکرائی۔

          ”آئی ایم فائن“ شہلا اپنا سر اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

          ”لیٹی رہو۔ لیٹی رہو“ سب اس کی طرف لپکے۔

          ”میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس حلق خشک ہورہا ہے۔“

          ”اب کھانا پینا تو کل ہوگا فی الحال تو گلوکوز کی ڈرپ اور آکسیجن ماسک پر گزارہ کرو“۔میاں کی اس بات پر سب ہنسنے لگے۔

          رات بہت کم نیند آئی حالانکہ نرس نے پین کلرز کھلادیے تھے۔ وہ کبھی ڈرپ سے الجھتی کبھی آکسیجن ماسک منہ سے ہٹادیتی۔ مسز براؤن جب بھی باتھ روم جانے کے لئے اٹھتی اسے جاگتا دیکھ کر خیریت پوچھ لیتی۔ ایک دفعہ بیڈپین کے لئے نرس بلا لائی۔ گلوکوز ڈرپ ختم ہونے کو تھی وہ بدلوائی۔ حالانکہ نرسیں بھی مستقل آکر چیک کررہی تھیں۔

          شہلا اسے یہ سب کام کرتے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔ پوزیٹو (Positive) سوچ ہونی چاہیے اور دماغ کو بھی کھلا رکھنا چاہیے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر جو یہ اوٹ پٹانگ خیالات دندناتے چلے آتے ہیں اور دماغ میں لمبے عرصے کے لئے پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ یہی جڑ ہیں کاہلی کی۔ بیزاری کی۔ اور یہ ڈپریشن کوئی چیز نہیں ہوتی۔ خود کردہ لاعلاج نیست۔

          صبح وہ رات بھر کی جگار کے باوجود اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔ دس بجے تک گلوکوز کو ڈرپ اور آکسیجن ماسک سے بھی نجات مل گئی۔ چائے کے ساتھ جو بھی کھانے کو ملا اس نے ڈٹ کر کھایا۔ مسز فلنٹ کی فیزیوتھیراپسٹ آئی ہوئی تھی۔ ”میں آج گھر جارہی ہوں“ اس نے خوش ہو کر بتایا۔ ”یہ پلاسٹر چھ ہفتے اور چڑھا رہے گا۔ اب سارے خاندان والے اور دوست احباب اس پر دستخط کریں گے اور پیغامات لکھیں گے۔ کچھ بہت ہی ناٹی ہوں گے۔“ وہ قہقہہ لگا کر بولی۔ فریم کے سہارے وہ ٹانگ پر تقریباً کود کود کر آگے سرک رہی تھی۔ لگتا تھا اسے سخت تکلیف ہورہی ہے۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

          ”یہ خوشی کے آنسو ہیں۔“ وہ جلدی سے آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی۔

          دوپہر تک اس کا بیٹا بیٹی لینے آگئے اور وہ اپنے پھول کارڈ اور سامان سمیٹ کر چلی گئی۔ منٹوں میں نرسوں نے اس بیڈ کی چادریں بدلیں نئے غلاف چرھائے اور اسپنج سے میزوغیرہ صاف کردی۔ صاف ستھرا بیڈ نئے مریض کا منتظرتھا۔

          چاربجے تک بہت سے لوگ اسے دیکھنے آگئے۔ کیا حال ہے؟

          ”کتناتکلیف ہے؟ ہسپتال کیسا ہے؟ یوپورتھنگ“

          چہرہ کتنا پیلا پڑگیا ہے۔ بس اپنا خیال کرو۔ ان سے محبت بھرے سوالات سے ہٹ کر میاں رازداری سے پوچھ رہے تھے۔ ”اب یہ بتادیں اور کتنے لوگوں کو فون کرنا ہے اور کیا کہنا ہے؟“

شہلا نے سب باتوں کے جواب میں سرہانے لگے نوٹس کی طرف اشارہ کیا ”نِل بائی ماؤتھ؟“ سب تعجب سے بولے مگر تم تو اب کھا پی سکتی ہو۔“

          ”میرا آج سے مکمل پرہیز ہے غیرضروری گفتگو اور شکایتوں سے مکمل پرہیز۔“

          سب بولتے بولتے اچانک خاموش ہوگئے۔ مسز براؤن بلند آواز میں نرس سے کہہ رہی تھی۔ ”سامنے والے بیڈ پر کیا کوئی نئی مریضہ آئی ہے؟ مجھے بھی گھر جانے دو۔ آج کونسا دن ہے؟“

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *