Home » پوھوزانت » اکبر علی۔ ایم اے ۔۔۔ صلاح الدین شہبازی

اکبر علی۔ ایم اے ۔۔۔ صلاح الدین شہبازی

۔   ”مستقبل پر قبضہ سائنس کر سکتی ہے۔ تاریخ میں پھنسے رہنے سے ثقافتوں کے نشانات بھی باقی نہیں رہتے“۔

(اکبر علی۔ ایم اے)

۔     میرے اندر ایک چراغِ آرزو روشن ہے جو سدا جلتا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ظاہر ہے میں بھی جلتا رہتا ہوں۔ یہ چراغِ آرزو اصل میں میرے ایک خاص سلسلہئ سوالات کا نتیجہ ہے کہ اتنی بڑی وسیع و عمیق کائنات کیوں ہر دم سرگرمِ عمل چلی ۔آتی ہے؟۔ کارفرما و کارپرداز سپر قوانین کے تحت پیہم رواں دواں اسی کارخانہئ عالم میں کیا کوئی خاص مقصد پنہاں ہے؟۔ اس جہانِ آب و گل اور گردشِ روزگار سے آخر کیا مراد و مطلوب ہے؟۔ ہم انسان یہاں اصل میں کس لیے ہیں؟۔ عموماً تین بنیادی کام ہیں جن کو انجام دینے کے لیے تقریباً ساری دنیا بھاگ دوڑ میں لگی رہتی ہے۔ ایک کمانا، دوسرا کھانا اور تیسرا افزائشِ نسل ہے۔ میرا سوال تھا کہ کمانے، کھانے اور بچوں کے علاوہ یعنی میری اور میرے بچوں کی خیر سے اوپر انسان کا کیا کوئی اور برتر مقصد بھی ہے؟۔میں سوچتا تھا کہ میرے لیے اور میرے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے، کیا بس یہی تین کام ہیں یا باشرف انسانیت کا کوئی اور ارفع تقاضا بھی ہے؟۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ اصل مرضی ئمولا کیا ہے اور تاریخ اکا انجامِ کار، اور حقیقی و مرکزی مدّعا کیا ہے؟۔میں وہ لم اور کنہہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ کائنات و بنی نوعِ انسان کے ذمہ اصل، آفاقی و حقیقی منصوبہ کیا ہے کہ جسے جمیع انسانیت کائنات سے مل کر ہم فطری، ہم مقصدی اور ہم آہنگی کے ساتھ پایہئ تکمیل تک پہنچانے کو اپنا آدرش اور اپنی تحریک بنا لے۔

جس طرح کہ ہرشے کی قدر و معنویت اس کے مقصد و غایت اور اس کے پورا ہونے میں ہوتی ہے۔ مجھے بھی اسی طرح زندگی کے معانی و مقصود کی جستجو بے چین رکھتی تھی۔ یہ سوال انفسی تقاضے سے یوں پیدا ہوئے کہ ان سوالوں کے بغیر زندگی جیسی اشرف و والا قدر نعمت کی کوئی معنویت سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ ایسے سوالات کی دوسری وجہ خارجی ہے۔ گروہوں، پارٹیوں اور جماعتوں کے اژدھام، ان کی وحدتِ انسانی، مظلوم عوام ایسے وسیع البنیاد اور آفاقی آدرش سے یکسر دوری کے سبب ان سے دور رہتا تھا۔  سندھ و بلوچستان الگ اور پختونخواہ الگ، پھر مذہبی تفرقہ بازیوں کا شر و فساد الگ یعنی نہایت محدود اغراض پر مبنی بھانت بھانت کی بے ثمر بولیوں میں میرے لیے کوئی کشش نہیں تھی۔ ان میں پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کو مظلومیت سے نکالنے کیلئے کل عوام سے مخاطب کوئی ایک توانا اور کوئی شعلہ گوں پیغام و پروگرام نہیں تھا اور نہ ہے۔ سب الگ اور اپنا اپنا راگ الاپتے رہتے ہیں۔

۔”نالہ گویا گردشِ سیارہ کی آواز ہے“ کے مصداق سوالات کی چنگاریاں ذہن میں ایک طرف کہیں پڑی تھیں کہ ایک روز راہ چلتے اچانک نوائے سروش نے مجھے روک کر کہا:  ”یہ دنیا دھرتی اور جو کچھ اس میں ہے یعنی ساری کائنات اور تمام انسان …… ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ”سماج کا ارتقاء“!  سماج کے محروموں کی ترقی و ارتقاء!۔

یوں نوائے سروش نے میرے اندر چراغِ آرزو روشن کر دیا۔ جو سدا جلتا ہے اور ساتھ میں مَیں بھی جلتا ہوں۔  تب سے یہ چراغِ آرزو میرا مرشد و رہنما ہے۔ تب سے فقط یہ ہی میرے لیے اتھارٹی ہے! میرے لیے فیصل ہے تو بس یہی چراغِ آرزو ہے۔ اس کی روشنی میں ہی فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سے ادیب و شاعر، کونسے علماء و فاضل، کونسے دانشور و سکالر، کونسے صوفی و متکلم اور کونسے مفکر و فلسفہ داں اور کونسے فلسفی و ہادی ایسے ہیں جن کے ادب و انشاء، جن کے اشعار، جن کے علم و فضل، جن کی دانش، جن کے تصوف و روحانی تعلیم اور جن کے تعقلی کلام، جن کے روشن افکار اور جن کی فلاسفی و ہدایت سے سماج کے کل محروموں کو ترقی کی ضامن ایک اور واحد شاہراہ مل سکتی ہے!

۔مارکس نے کہا تھا:  ”دنیا کے مزدورو!  متحد ہو جاؤ“۔

۔اقبال نے کہا: ”اُٹھو!  میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو“۔

ان بلند و بالا اور آفاق گیر صداؤں کی گونج میں: فرقے، قبائل اور نسلیں کیا معنی رکھتی ہیں؟۔ یہاں تو مطلب و مقصود تھا مزدوروں اور غریبوں کا اتحاد، یہاں تو مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو جگانا اور بیدار کرنا تھا۔ ہمارے بڑے بڑے لکھاری پتہ نہیں کن کنوؤں کے چکر میں پڑ گئے۔ مظلوم سب اپنے ہوتے ہیں اور ظالم سب غیر و مغضوب ہوتے ہیں۔ مجھے تو اِن میں اور مولویوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ ملّا کی دوڑ مسجد تک ہے، وہ بھی ماضی ماضی کرتا ہے تو ان کی دوڑ بھی نسل و علاقہ کے طرہ تک یا پھر ملّا کی طرح ماضی ماضی۔

سوال یہ ہے کہ سماج کو ترقی کیا ماضی سے مل سکتی ہے؟۔ترقی کا سارا سرو سامان، ترقی کے تمام و سائل و ذرائع ”حال“ کے پاس ہوتے ہیں اور یہ ان کو ملتے ہیں جن کی نظر حال اور مستقبل پر ہوتی ہے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا، رسول بخش پلیجو نے اپنے ایک طویل انٹرویو میں کہا تھا: ”میں اپنی شناخت ماضی سے لینے نہیں جاؤں گا“۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ملّاؤں جیسی ذہنیت ہی کو شناخت اور تشخص کا کیوں خبط پڑا رہتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ فرقہ ورانہ شناخت اور نسلی شناخت پر کچھ نہیں لگانا پڑتا جبکہ اصلی زندہ تابندہ شناخت کا تمام انحصار ہی قوم، ملک یا دنیا  میں کوئی فیض رساں کارنامہئ عظیم انجام دینے پر ہوتا ہے۔ لیکن ہم ایسے بڑے کاموں سے عاری ماضی کے پجاری، فرقوں اور نسلوں کے پجاری بننے میں ہی عزت اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ تمدنی ارتقاء کی رواں تاریخ میں صنعتی چین کا ستارہ آج کس اوج پر ہے اور ہم ستر سال سے کہاں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں، سوچنے کے لائق یہ امر ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں کیوں رنگ لائیں اور ہماری بیش بہا قربانیاں بے نتیجہ و بے ثمر کیوں رہیں؟۔چین سائنس و صنعت کی شاہراہِ ترقی پر گامزن ہے اور ہمیں یہ راہ ابھی تک سجھائی نہیں دے رہی، جب تک ہم سائنس و ٹیکنالوجی کا کلمہ وردِ زبان نہیں کریں گے ہم کبھی سچے ترقی پسند نہیں بن سکتے۔

زمین کی ہو یا کوئی اور سوائے ایک رشتے کے، دوسری سب نسبتیں ہیچ اور فریب ہیں، اپنوں بیگانوں کی بھول بھلیوں کو چھوڑ کر آج بھی اگر ہم سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنے سماج کا درماں بنا لیں تو سماج کے محروموں کے سبھی دُکھ ٹل جائیں گے۔

میری یہ لکھت دیکھ کر میرے اندر والا چراغ قدرے اونچی آواز سے گویا ہوا، حتی الوسع میں پاک و ہند کے سب بڑے بڑوں کی خدمت میں پہنچا۔ اپنی آرزو، سماج کے محروموں کی ترقی کی تکمیل کے لیے میں در در پھرا، خاصی دستگیری مولانا سندھی سے عطا ہوئی، فرمایا (مفہوم) ”ہماری ترقی کی بنا سائنسی اور صنعتی تمدّن کو جذب کرنے میں ہے“۔

چراغِ آرزونے مزید بتایا کہ ایسی عقل افروز باتوں کو میں دماغ میں بٹھا چکا تھا کہ مجھے اکبر علی ایم۔اے مل گئے، وہ کیا ملے مجھے سائنس مل گئی۔ مجھے نوید ِسحر مل گئی۔ مجھے یقین کی دنیا مل گئی کہ میری آرزو کی تکمیل ہو گی تو ان سے ہو گی۔ نطشے نے کہا تھا: ”انسانوں میں بھی تمتماتے گرم سورج کی خوبصورت نسل موجود ہے“۔ اپنی بے پناہ ذہانت و ذکاوت اور وسعت ِعلم کے اعتبار سے اکبر علی ایم۔اے نطشے کی بتائی نسل کی ہی ایک بڑی گراں مایہ شخصیت تھے۔ آپ اصلاحی و انقلابی روح کے پیکر اور سائنسی سماج اور سائنس کے دانائے راز تھے۔ حقیقتاً وہ سائنسی انقلاب کے نقیب تھے۔ سائنس، ٹیکنالوجی کا ابلاغ اور فروغ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ اپنے وقت کی فصیل کے شب چراغ تھے۔ ان کی کما حقہٗ پہچان ابھی باقی ہے جیسا کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بتایا کہ بلوچستان میں تو انہیں کوئی جانتا ہی نہیں، بلوچستان تو پھر بھی ایک دور دراز علاقہ ہے، یہاں پنجاب میں مثلاً لاہور، گجرات سے اتنا زیادہ دور نہیں لیکن وہاں کی یونیورسٹیاں، وہاں کے پروفیسرز یا علم و کتاب سے بظاہر جڑے لوگ بھی اکبر آشنا نہیں۔ کراچی تا خیبر تو نامعلوم کتنے عرصے بعد ان کا چرچا ہو گا۔ ابھی تو پورا پنجاب اور اسلام آباد اُن کے نام اور کام سے واقف نہیں۔ اصل میں وہ اپنے سائنسی پیغام کے لحاظ سے مستقبل کے آدمی ہیں، مستقبل اُن کا ہے۔ میں نے یہ دعویٰ اس لیے کیا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ پاکستان ہمیشہ بھٹکے ہوئے ہاتھوں میں نہیں رہے گا، کبھی تو پچاس سو، دو سو سال بعد، کبھی تو قوم بوٹوں تلے سے نکلے گی، سرداروں اور جاگیرداروں کو کبھی نابود کیا جائے گا! اور وہ اہلِ فراست و اہلِ درد و اہلِ اخلاص آگے آئیں گے جو بالخصوص سماج کے محروموں کے دُکھ درد کو مٹانے کی تمنا لیے ہوئے ہوں گے۔ انصاف، سچائی اور دیانت کو زندہ کرنے کے علمبردار ہوں گے۔ تب اُن کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اکبر علی ایم۔اے کی تابندہ تعلیمات اور تحریروں سے مستفید ہوں ……۔

۔اپنے مضامین میں اکبر صاحب کا خطاب پوری قوم کے سبھی تعلیم یافتہ لوگوں سے ہے۔ ان کی تحریروں کی جامعیت، ایجازِ معانی اور اعجازِ بلاغت ملاحظہ ہو۔ انصاف ہی کے ضمن میں وہ لکھتے ہیں:۔

۔”انصاف وسائلِ رزق کی تخلیق سے فروغ پاتا ہے“۔۔

۔۔کرپشن اور جرائم کی اپنے سائینٹیفک انداز میں اس طرح نشان دہی کرتے ہیں کہ:۔

۔”کرپشن اور جرائم مادی ارتقاء میں پسماندگی کی پیداوار ہوتے ہیں“۔

ان کی خوبی ئمضامین میں جملوں کے اندر زورِ معانی ایک نہایت قابلِ غور کمال ہے۔ اکبر علی ایم۔اے واقعات اور اشیاء کو سائنس دان کی نظر سے دیکھتے، فلسفی کی طرح تجزیہ کرتے، مفکر کی طرح نتیجہ اخذ کرتے اور انشاء پرداز کی طرح اظہار کرتے ہیں۔ اکبر علی ایم۔اے سائنسی منادی کے ایسے جیّد امام ہیں کہ جو ایک نادر کشاف کے بطور قارئین کو یوں آگاہی دیتے ہیں کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ گویا کوئی انکشاف کر رہے ہیں یا ہمیں اپنے کشف سے نواز رہے ہیں۔

مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ ہو:۔

۔”آج دنیا کو بنکوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے“۔

۔”آج کا دور اسلحہ دے کر فوجوں کو فتح کرنے کا دور ہے“۔

۔”تاریخ ماضی کا حافظہ ہے اور سائنس تاریخ کا مستقبل۔ ماضی کسی قیمت پر مستقبل کو مغلوب نہیں کر سکتا“۔

۔”سائنس کے تاریخی عمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ تبدیلی کی قوتِ محرّکہ سائنس اور صنعت ہے“۔

۔”انڈسٹری اور کلچر کا ارتقاء لازم و ملزوم ہیں، کلچر کی تخلیق صنعت سے ہوتی ہے اور کلچر کا استقلال صنعت پر منحصر ہوتا ہے۔ انجن کے ہارس پاور نے اپنا کلچر پیدا کیا اور آج بے پہیہ کمپیوٹر کی برین پاور اپنا کلچر پیدا کر رہی ہے“۔

۔”جدید کلچر کی طاقت کا سرچشمہ صنعتی طاقت ہے اور صنعتی طاقت کا مذہب سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔ ان کے حصول کے بغیر جدید زندگی کے کسی بھی مسئلے کو حل نصیب نہیں ہو سکتا“۔

۔”سائنس اور ٹیکنالوجی میں پس ماندہ سماج کے لئے سب سے پہلا مسئلہ علمی لحاظ سے اپنے کلچر کا بانجھ پن ختم کرنا ہوتا ہے اور قبائلی، نسلی، لسانی، علاقائی اور فرقہ پرست عصبیتوں سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے جو سائنسی کلچر کے فروغ میں بڑی رکاوٹیں ہیں“۔

۔”سائینٹیفک اور اکنامک سوسائٹی کے بغیر آزادی ایک واہمہ ہے“۔

۔”ایٹم بم قومی سلامتی کی آخری ضمانت ہیں۔ ابتدائی ضمانت معیشت اور سماج کی سویلین ترقی ہے“۔

ہر روز سورج کے طلوع ہونے کی طرح ہی مجھے بالکل پختہ یقین ہے کہ اہلِ قلم، اصحابِ علم و دانش اور اربابِ بصیرت کی مدبّرانہ و مخلصانہ کاوشوں سے پاکستان میں جناب اکبر علی ایم۔اے کی تعلیمات و نظامِ افکار کا سورج چہارسُو پھیل جائے گا۔ہم بھی سائنسی و صنعتی معاشرے کے قیام اور صنعتی کلچر سے ترقی اور بلندی کی راہ چل سکتے ہیں۔ مگر کب؟  جب ہم اپنی فکری سمت کا صحیح تعین کر لیں گے۔ جب اپنے مائنڈ سیٹ کو خالص سائنسی بنا لیں گے۔

میرے نہایت ہی قابلِ صد احترام جناب ڈاکٹر شاہ مری اپنے مقالوں، دیباچوں وغیرہ میں اپنی یاس و حسرت کا بڑے کرب انگیز انداز میں اظہار کرتے رہتے ہیں۔  اس لئے آنے والی نسلوں کی تشفی و ہمت افزائی کے لیے بوسیلہ جناب اکبر علی ایم۔اے عرض کروں گا کہ:۔

۔”تاریخ کا فیصلہ ہے کہ زندگی مقابلے کا میدان ہے اور مقابلے کا میدان بہتر عقل، بہتر ہنر، بہتر ٹیکنالوجی اور تخلیقِ رزق کے بہتر اوزاروں سے جیتا جا سکتا ہے نا کہ عشق و مستی کے نعروں سے۔ مشرق نے ہزاروں کی تعداد میں عشق و مستی کے مجذوب پیدا ۔کیے لیکن تبدیلی کا عمل کمال سے زوال کی طرف رواں دواں ہے۔ مغرب نے بیس تیس سائنس دان و موجد پیدا کیے، تہذیب و تمدن کا سارا نقشہ تبدیل ہو کر انسانیت کے لیے فیض، ترقی اور قوت کا عظیم سرچشمہ بن گیا“۔

یاد رہے کہ جو قومیں وار آف آئیڈیاز سے بدکتی ہیں وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دُرّ مقصود کو نہیں پا سکتیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *