Home » شیرانی رلی » محسن چنگیزی

محسن چنگیزی

ہمارے واسطے اب تو

ہمارے واسطے اب تو
کیلنڈر میں کسی آسان دن کی
کوئی گنجائش نہیں ہے
اور ایسا بھی نہیں ہم کو
بھلے دن کی کوئی خواہش نہیں ہے
ہمالہ جیسے مشکل وقت کو
سنگاب کرنے کے لیے
تیشہ نہیں توناں سہی ۔۔۔لیکن
ہمیں یہ حکم پہنچایا گیا ہے
کہ ضرب المثل سے ہم کچھ تو سیکھیں
سوئی کی نوک سے کوشش کریں ہم۔۔
۔۔ ہمالہ جیسے مشکل وقت کو سنگاب کرنے کی۔

مقتول نظم

ڈھونڈتا ہوں
کہیں ملتی ہی نہیں
اُس کی آنکھوں میں دیکھا
وہ وہاں بھی نہیں تھی
خالی کمرے کے اندھیرے میں
چمکتی تو نظر آجاتی
پیڑ کی چھاؤں میں ہوتی تو دکھائی دیتی
راستے میں بھی نہیں
ناؤ بھی کب سے اکیلی ہے کنارے سے بندھی
قہوہ خانے میں بھی جاکر دیکھا
اُس کے کھاتے میں کوئی چائے کی پیالی بھی نہ تھی
مُردہ خانے کی بھی فہرست میں ڈرتے ہوئے دیکھا تھا مگر۔۔
جائے صد شکر کہ نام اُس کا نہیں
اُجلے کا غذپہ مگر
خون کی چھینٹیں کہاں سے آئیں

دُعائیہ

سانپ ابابیل کے
گھونسلے میں نہ ہو
تتلیوں کے پروں پر
نہ کیچڑ پڑے
آسماں اور ہوا اڑنے میں
ہجر تی طاہروں سے مناسب رویہ رکھیں
باپ کی خالی جیبوں سے
بچے رہیں بے خبر
خیمہ بستی میں بھی
خواب کی شہریت
خط تنسیخ سے آشناہی نہ ہو
لحظہ لحظہ
بدلتے ہوئے روز شب میں یونہی
روشنی اپنی پہچان میں
خوبصورت رہے
زندگی اپنے امکان میں
خوبصورت رہے

 

التواء میں پڑی زندگی

دن نکلتا ہے مگر اُس کی طرف
آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ہم
شام ڈھلتی ہے ستاروں سے تہی
رات کو خواب پہیلی بھی نہیں بوجھتے ہم
رنگ میں رنگ نوازی کی جھلک ہے ہی نہیں
پھول میں پھول کی خوشبو کی چمک ہے ہی نہیں
لمحے مجبور ہوئے خانہ بدوشی میں کہیں
دل دھڑکتا ہے خرابے کی خموشی میں کہیں
وقت بہتا ہے مگر ہم کہیں ٹہرے ہوئے ہیں
رستہ چلتا ہے مگر ہم کہیں ٹہرے ہوئے ہیں
چاندی کی یہ سیہ روشنی کس سے کہیے
التوا میں ہے پڑی زندگی کس سے کہیے

اِن دنوں

اِن دنوں زندگی کا رویہ ہے ہم سے عجیب
جیسے کنکر کوئی
نرم روٹی کے بیچ
جیسے پی جائے
گڑیا کا دُودھ
کالی بلی کوئی
جیسے پاکیزہ پانی میں
پھیرے زباں
اِک سگِ گرسُنہ
جیسے تتلی پکڑنے کی دُھن میں کوئی
پاوں رکھ دے کسی
منتظر مائینز پر
جیسے مقتول بیٹے کی ماں کو
بُلالے کبھی
شام کی چائے پر
اُس کے بیٹے کے قاتل کی ماں
اِن دنوں زندگی کا رویہ ہے ہم سے عجیب
وقت تیرا رقیب ۔وقت میرا رقیب، وقت سب کا رقیب

مہاجر پرندے

مہاجر پرندے
ہواؤں کے خوگر ہیں
موسم کی ایک اک اداجھیلتے ہیں
مہاجر پرندوں
کے بوجھل پروں میں
لہوگی جگہ
ہجرتیں خون بن کر رواں ہیں
مہاجر پرندوں کی تقدیر میں
مستقل آشیانہ نہیں ہے
شمالی پہاڑوں میں ہے اِن کا دانہ
تو پانی ملے مغربی ساحلوں میں
مہاجر پرندے تو بس عارضی دھوپ ، چھاؤں کی لذت لیے
اجنبی جنگلوں کے درختوں میں یہ زندگی
تنکا تنکا یونہی جوڑتے جوڑتے
بے گھری کی کہانی کی تکمیل کرتے رہے ہیں
مہاجر پرندوں کو اِن چار طرفہ رُتوں کی اذیت کی گردان میں
آسماں بھی ملا ہے تو نقصان میں
مہاجر پرندوں کی بے خواب آنکھوں میں ہر پَل
سراسیمگی ہے
(جو اُن کے نہ ہونے یا ہونے کا شک ہے)
مہاجر پرندوں کی قسمت سفر ہے
مسافت ہی اُن کے لیے مستقر ہے

زمانہ ہمارا مخالف وکیل

یہ دُنیا کچہری سی لگنے لگی ہے
ہمیں آئے دن
وقت کی بے مروت عدالت میں
حالات کی ہتھکڑی میں
کسی اندھے بہرے سے
مُنصف کے آگے
مقدس کتابوں پہ
سوگندکھانے پہ مجبور
کرتے ہوئے
اور اپنی صفائی میں
کچھ بھی نہ کہنے کی تنبیہہ کرتے ہوئے
جانے وہ کون ہے ؟
استغاثے کا موقع ہمیں روز ملتا تو ہے
وہ بھی کچھ اِس طرح
جیسے پیا سے کو صحرا میں خالی کٹورا ملے
بوڑھی تاریخ
جھوٹی گواہی سے بازآتی نہیں
زندگی روز کرتی ہے ہم پر جرح
رد ہی کرتا نہیں کوئی اُس کی دلیل
یہ زمانہ ہمارا مخالف وکیل
اور ہم بے وکیل

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *