Home » شیرانی رلی » فیصل ندیم

فیصل ندیم

میر ی غزلیں

ذرا پہلے
میں جب اپنے ارادے
تمھیں میسج میں لکھ کر بھیجتا تھا
ان کہے رشتوں کے پیکج پر
مری انگلی کی پوریں
لفظ لکھتی اور نقطے بولتے تھے
اسے لکھنا سمجھنے سے زیادہ ہو گیا ہے
تصور تک
جسے آورد کے پہلو سلیقے سے بٹھایا تھا
کہیں آمد کے رستے بے لبادہ ہو گیا ہے
زرا پہلے
میرے پتوں کے بے چہرہ مقدر پر
ہوا اپنی دلیلوں سے
چراغوں کی کوئی غیبت
تنفس سے نہ کرتی تھی
جسے سب جسم کہتے اور حصارِ روح رکھتے ہیں
شہیدوں کی فلک آثار وادی کی زمینوں میں
روایت تھی کہ خالی موت مرتی تھی
ذرا پہلے
بریکینگ نیوز کے آزاد میڈیا پر
کئی آنکھیں کٹے چہرے
خدا کے عینی شاہد تھے
خبر میں وقت کا پیوند لگنے تک
محبت پٹیوں پر چل رہی تھی
میں چاروں سمت کا منکر
صراطِ آئینہ پر آچکا تھا
کئی اشکوں کے سکوں پر پلی آنند وادی میں
مجھے صدیوں یہی ہلچل رہی تھی
میں اس کے کاسنی ہونٹوں سے لفظوں کے بہے اشکوں پہ ہنستا تھا
تو ساکت وقت رستا تھا
جدائی میرا مکتب تھی
محبت میرا بستہ تھا
تمھارے لمس میں لذت کا خالی پن اذیت تک عبادت تھا
گلابوں سے اٹے روحوں کے قبرستان میں
اجسام کے تدفین کی بدعت
ہمیں قوسِ قزح کی پالکی پر تتلیوں کے دشمنوں نے دان میں دی ہے
خزاں کے کھیت میں پھولوں کی پگڈنڈی
برونِ آئینہ اک آشنا انجان نے دی ہے
دکانِ خواب کی دہلیز بیٹھی کب سے یہ آنکھیں
دیارِ بحر کی منظر فروشی کررہی ہیں
میں اپنی نظم جیتا جا رہا ہوں
میری غزلیں مجھی میں مر رہی ہیں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *