Home » شیرانی رلی » احمد شہریار

احمد شہریار

مٹی سے

اے ری مٹی
تو کیوں جلتی
آگ اگلتی،
روتی
روکر چشمہ ہوتی
اڑتی
آگے بڑھتی، مڑتی
رہتی ہے!۔
ایسا مت کر
میری مٹی!۔
اے ری مٹی!۔

آگ تجھے کندن کردے گی
لہر تجھے روشن کردے گی
تجھ پر بیٹھی دھول اڑا کر
تیز ہوا تجھ کو وہ پہلی اصلی مٹی
چھن کر، دے گی!
جھونک رہی ہے جو آنکھوں میں
یہ وہ دھول ہے
تیری بھول ہے
میری مٹی
اے ری مٹی!۔

پانی میں مل گارا ہوکر
چاک پہ آکر
تیز ہوا کی خنکی سہہ کر
اور پھر جلتی آگ میں رہ کر

کوزہ ہوکر
تو بازار میں لائی جائے
بزم یار میں پائی جائے
ان نازک ہونٹوں کی پیاس بجھائی جائے
یوں بھی کب ہونا ممکن ہے
ناممکن ہے!۔
میری مٹی
اے ری مٹی!۔

آگ تجھے خاکستر کردے
اور پھیلا دے
لایعنی کے گم صحرا میں
موجِ آب تجھے تر کردے
اور بہادے
غم کی نامعلوم دشا میں
تیز ہوا تجھ کو پر کردے
اور اڑا دے
اس بے مطلب سی دنیا میں
تیری مٹی
اے ری مٹی!۔
میری مٹی!۔
تو کیوں جلتی
آگ اگلتی،۔
روتی
روکر چشمہ ہوتی
اڑتی
آگے بڑھتی، مڑتی
رہتی ہے!؟

 

ضیافت

تو نے ٹوٹی ہوئی کھوپڑی میں بھرا
بے گناہوں کا خوں
بھوک اور پیاس سے
گندی نالی کے پانی میں غلطاں
سگِ مردہ کی کھال کھینچی
اور اس کھال پر
آخری سانسیں گنتی ہوئی
ایک مقہور کوڑھی کی رالوں سے آلودہ
خنزیر کا گوشت
لاکر مرے سامنے رکھ دیا!۔
زندگی!۔
اے مری میزباں!۔
پیاس کی بھوک کیسے مٹاؤں گا میں!۔
بھوک کی پیاس کیسے بجھاؤں گا میں!۔
تجھ کو اس سے غرض!۔
تو تو خوش خوش مرا 150 اپنے مہمان کا 150
ٹینٹوا اپنے خونخوار دانتوں کے نیچے دباتی رہی
پیاس سے خشک، جلتا تپکتا کلیجہ چباتی رہی
صرف کھاتی رہی
رینگتا ہے وریدوں میں کچھ تیرہ گوں اور گاڑھا لہو
جیسے زخموں سے بہتی ہوئی پیپ ہو!۔
زندگی! ۔
تو یہی پیپ پیتی رہی
اور جیتی رہی!۔
ماندگی کا وقفہ
بارش میں بھیگتا مسافر
بجلی کے کمبے کو اپنا جسم امانت دے گیا
اور سائے کی طرح اڑنے لگا
مزید بھیگے بغیر۔۔۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *