Home » پوھوزانت » گیبریل گارسیامارکیز۔۔۔۔۔۔۔غلام شبیر۔ جھنگ

گیبریل گارسیامارکیز۔۔۔۔۔۔۔غلام شبیر۔ جھنگ

شاید اسی وجہ سے اُس کے ساتھی اُسے بُوڑھا آدمی کہہ کر چھیڑتے اور اُس کا تمسخر اُڑاتے ۔اس کے باوجود یہ حساس ادیب اور مستقبل کا زیرک تخلیق کارنہایت تحمل سے دوستوں کی کج رائی پر مبنی سب کچھ سنتا اور یہ سب باتیں خندہءاستہزا میں اُڑ ا دیتا اور کبھی دل بُرا نہ کرتا۔1947میں اپنے والدین کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے گیبریل گارسیا مارکیز نے نیشنل یو نیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے سلسلے میں داخلہ لیالیکن بعض نا گزیر حالات کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑ ھ سکی اور اُس نے قانون کے بجائے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔حالاتِ حاضرہ اور صحافت سے اُسے قلبی لگاﺅ تھا۔اُس کا خیال تھا کہ زندگی کے مسائل ے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اُس نے زندگی بھر حریت ِ فکر و عمل پر اصرار کیا اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔یونیورسٹی آف کارٹاگیناسے فارغ التحصیل ہونے والے اِس یگانہءروزگار فاضل نے صحافت ،افسانہ نگاری ،ناول نگاری اور علم بشریات میںاپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی ۔ 1958میں اُس کی شاد ی مرسیڈس بارچاسے ہوئی جو اُس سے پانچ سال چھوٹی تھی ۔باہمی افہام و تفہیم اور پیمان ِ وفا کی اساس پر استوار ہونے ولا یہ بندھن نہایت کام یاب رہا اور اُس کے دو بیٹے پیدا ہوئے ۔یہ دونوں بیٹے اب عملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔اب بیوگی کی چادر اوڑھے مرسیڈس بارچا اپنے عظیم شوہر کو یاد کر کے اُسے آہوں اور آنسوﺅں کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔ ایک وسیع المطالعہ ادیب اور جری صحافی کی حیثیت سے گبریل گارسیا مارکیزنے عالمی ادبیات کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔اُس نے بیسویں صدی کے ادب پر گہری نظر رکھی اوراس کی روشنی میں اپنے لیے ایک ٹھوس اور قابلِ عمل لائحہءعمل کا انتخاب کیا ۔برطانیہ کی ادیبہ ورجینا وولف کی تصانیف اُسے پسند تھیں ۔نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب ولیم فالکرکے اسلوب کو بھی اُس نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔خاص طور پر بیسویں صدی کے انتہائی موثر اور جدیدیت کے علم بردار جرمن ادیب فرانز کافکاسے اُس نے گہرے اثرات قبول کیے ۔ گیبریل گارسیا مارکیز نے جب فرانز کافکا کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لیا تو اُس کے دل میں رشک کے جذبات پید ہوئے کہ یہی تو ایسا تخلیق کار ہے جس جیسا بننے کی تمنا کی جا سکتی ہے ۔ گیبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میں تاریخ ،تہذیب اور معاشرت کے بارے میں جو مثبت شعور و آگہی موجود ہے اُس کے سوتے ادب کے وسیع مطالعہ سے پُھوٹتے ہیں ۔اُس کی تخلیقی فعالیت میں کلاسیکی ادب اور جدید ادب کی اقدار و روایات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔تاہم اُس نے اپنا تزکیہ نفس کرنے کے لیے جو طرزِ فغاں ایجاد کی وہ اُس کی پہچان بن گئی۔اُس کا اسلوب اُس کی ذات کی صورت میں اُس کی بصیرت کا اثبات کرتا ہے ۔موضوعات کے اعتبار سے اِس میں تانیثیت ،استعماری نظام کی مخالفت دیہی تہذیب و معاشرت اور جسم فروش رذیل طوائفوں کے جنسی جنون کی کہانیاں جن میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری پر توجہ دی گئی ہے قابلِ ذکر ہیں ۔ اُس کی اہم ترین تصانیف درج ذیل ہیں :
1.One Hundred Years of Solitude
2.The Autumn of Patriarch
3.Love in the Time of Cholera
اپنے والدین کی داستانِ محبت کو گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنی تصینف ”Lave in the Time of Cholera“میں پیرایہ ءاظہار عطا کیا ہے۔مصنف کی گُل افشانی ءگفتار قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔محبت تو ایک چنگاری ہے جو عمر کے کسی حصے میں بھی بھڑک سکتی ہے۔محبت کے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ یہ بڑھاپے میں نہیں ہو سکتی ۔بعض لوگوں کی رائے ہے کہ محبت کوئی سرکاری ملازمت تو ہے نہیں کہ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد ریٹائرمنٹ پر منتج ہوتی ہے اور اس کے بعد کوئی بھی مُلازم سرکاری ملازمت کرنے کا اہل نہیں رہتا۔گیبریل گارسیا مارکیزاپنے مشاہدات کی بان پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ دو پیار کرنے والے اپنے جذبات کو حدودِ وقت میں مقید نہیں رکھ سکتے۔گو ہاتھ میں جنبش نہ ہو مگر انسان کی آنکھوں میں تو دم ہوتا ہے ،وہ حُسن کے جلووں سے فیض یاب کیوں نہ ہو؟۔بے شک اعضا مضمحل ہو جائیںاور عناصر میں اعتال کا بھی فقدان ہو لیکن محبت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ گیبریل گارسیا مارکیز کا خیال ہے کہ بعض عشاق تو زندگی کے سُنہری دنوںیعنی جب وہ ستر برس کے ہو چُکے ہوتے ہیں، میں بھی کسی حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔اس مرحلہ ءزیست میںہر سُو بکھرے ہوئے موت کے جال بھی محبت اس طرح کی والہانہ محبت کرنے والوں کے لیے سدِ راہ نہیں بن سکتے ۔گبریل گارسیا مارکیز نے اسی سال کے معمر جوڑے کی داستانِ محبت کا احوال بیان کیا ہے جس نے خلوص اور چاہت کے رشتے میں منسلک ہو کر عہد وفا استوار کیا اور اسے علاجِ گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے اُسے گور کنارے پہنچنے کے باوجود پایہ ءتکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔عشق خواہ جوانی کا ہو یا ضعیفی کا کبھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔
اُس کے اسلوب میں ارتقا کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے اسلوب میں نکھا ر آتا چلا گیا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی ہر تصنیف میں ایک نیا انداز اپنا یا گیا ہے وہ پامال راہوں اور کلیشے کے سخت خلاف تھا۔نقال،چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد لفاظ حشرات ِ سخن کے خلاف اس نے زندگی بھر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔خوب سے خوب تر کی جانب اس کا تخلیقی سفر جاری رہا ۔جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے کو ئی بھی تخلیق کار اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کوئی اسلوب منتخب نہیں کرتا بل کہ اسلوب تو ایک تخلیق کار کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلوب کی مثال ایک چھلنی کی سی ہے جس میں سے ادبی تخلیق کار کی شخصیت چھن کر باہر نکلتی ہے ۔گیبریل گارسیا مارکیزکے اسلوب میںجلوہ گر اُس کی مستحکم شخصیت کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔اُس کا اسلوب موضوع ،مواد ،ذہنی کیفیت اور تخلیقی وجدان کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ معاشرے اور ماحول میں وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور زندگی کے جتنے موسم اُس کے قلب اور روح کو متاثر کرتے ہیں وہ سب کے سب اُس کے اسلوب میں دھنک رنگ منظر نامے کی صورت میں قاری کی نگاہوں میں رچ بس جاتے ہیں ۔طلسمی حقیقت نگاری کے سوتے فکر پرور خیالات ا ور بصیرت افروز تجربات و مشاہدات سے پُھوٹتے ہیں۔اسی لیے طلسمی حقیقت نگاری قلبی ،روحانی اور وجدانی کیفیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔اُس کی تحریروں میں پریوں کی دُھول ،فضا میں محوِ پرواز مرحومہ دادی کی آوازیں، جنوں ،چڑیلوں ،بُھوتوں اور دیو زادوں کا عمل اور سحر کے ا ثرات گرچہ ناقابلِ یقین سمجھے جاتے ہیں لیکن دُنیا بھر میں اُس کے اسلوب کی باز گشت اب بھی سنائی دے رہی ہے۔طلسمی حقیقت نگاری کوفنون لطیفہ بالخصوص ادب ،فلم اورڈراما میں بہت پذیرائی ملی۔بعض اوقات تخلیق کار یہ تاثر دینے میںکام یاب رہتے ہیں کہ طبعی موت کے بعد بھی بعض کردار ہمارے گرد و نواح میں موجود رہتے ہیں اور نسل در نسل ہماری زندگی کے معمولات میں ناقابلِ یقیں انداز میں دخیل رہتے ہیں۔ امروز کی شورش میں اندیشہءفردا کا احساس اسی کا ثمر ہے ۔
ادبی تحریکیں فروغ ِ علم و ادب میں کلیدی کردا ر ادا کرتی ہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز کا تعلق بھی ایک ادبی تحریک سے تھا ۔یہ تحریک لاطینی امریکہ بُوم (Latin America Boom)کے نام سے جانی جاتی ہے ۔اُس کے رفقائے کار میں مابعد جدیدیت پر دسترس رکھنے والے جولیو کارٹزار (Julio Cartazar)اورنوبل انعام یافتہ ادیب ماریو ورگاس للوسا(Mario Vargas Llosa)کے نام قابلِ ذکر ہیں۔بیسویں صدی کے وسط میںعالمی ادبیات میں فکشن میں جس رجحان کو پذیرائی ملی اُسے طلسماتی حقیقت نگاری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔گبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میںطلسماتی حقیقت نگاری کی کیفیت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہامنو الیتی ہے ۔طلسماتی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب کی اساس بنا کر جب ایک تخلیق کار مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو وہ منطق و توجیہہ سے قطع نظر فکشن میں کردار نگاری کو ایسی منفرد بیانیہ جہت عطا کرتا ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔اسلوب کی غیر معمولی دل کشی،حقیقی تناظر، موہوم تصورات،مافوق الفطرت عناصر کی حیران کُن کرشمہ سازیاں اور اسلوب کی بے ساختگی قاری کو ورطہءحیرت میں ڈال دیتی ہے اور دل سے نکلنے والی بات جب سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے تو قاری اش اش کر اُٹھتا ہے ۔گیبریل گارسیا مارکیزنے اپنے متنوع تخلیقی تجربات کے اعجاز سے عالمی ادبیات میں تخلیقِ ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا۔اُس کے نئے ،منفرد اور فکرپرور تجربات گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھے۔ان تجربات کے معجز نما اثر سے جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیقی فعالیت کو بے کراں وسعت اور ہمہ گیری نصیب ہوئی۔اُس نے حقیقت نگاری کے مروجہ روایتی اندازِ فکر کے بجائے طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر ایک نئے جہان کی تخلیق پرتوجہ مرکوز رکھی۔اُس کے اسلوب میں حیرت کا عنصر نمایاں ہے ۔اُس کے ناول اور افسانے دِل دہلا دینے والے مناظر ،لرزہ خیز اعصاب شکن سانحات کی لفظی مرقع نگاری ،خوف ناک کرداروں کی مہم جوئی اور جہد للبقا جیسے موضوعات سے لبریز ہیں۔اُس نے غیر معمولی انداز میں زندگی کے معمولی واقعات کو بیان کر کے پتھروں سے بھی اپنے اسلوب کی ا ثر آفرینی کا لوہا منوایا ہے ۔زندگی اور موت کے مو ضوعات ہی کو لے لیں انھیں گیبریل گارسیا مارکیز نے جس دل کش انداز میں زیبِ قرطاس کیا ہے وہ اُس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے اس سے آگے کا سفر تھوڑا سا دم لے کر شروع کیا جاتا ہے۔موت کے بعد کی روداد کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اس موضوع پر بھی اپنے تخیل کی جو لانیاں دکھائی ہیں۔اپنے لا زوال اسلوب سے گیبریل گارسیا مارکیز نے گلشنِ ادب کو جس طرح نکھارا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اُس نے اپنی بے مثال ادبی کا مرانیوں سے لاطینی امریکہ کے ادب کو ثروت مند بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اُس نے تخلیق ادب ،تنقید و تحقیق اور اظہار و ابلاغ کے مروجہ معائر کو یکسر بد ل دیا اور واضح کیا کہ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع تخلیقی فعالیت کو کسی معیار یا طریقِ کار کی تقلید کی احتیاج نہیں، اور نہ ہی اُسے کسی کی تصدیق اور تائید کی ضرورت ہے ۔ وہ اپنے لیے خود ہی لائحہءعمل کا انتخاب کرتی ہے اور آنے ولا وقت اُس کے معیار اور مقام کے بارے میں فیصلہ صادر کرتا ہے ۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
اُردو زبان کے جن ممتاز ادیبوں نے گیبریل گارسیا مارکیز کے تخلیقی شہ پاروں کے ترجمے پر توجہ دی اُن میںڈاکٹر نثار احمد قریشی ،غفار بابر ،ارشاد گرامی ، آفتاب نقوی ،محمد فیروز شاہ ،محمد طحہٰ خان،آفاق صدیقی ،بشیر سیفی ،ذکیہ بدر ،شبیر احمد اختر ،صابر آفاقی ، اسحاق ساقی،رانا عزیز احمد ،صابر کلوروی اور محسن بھوپالی کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ان دانش وروں کے تراجم ابھی ابتدائی مراحل میں تھے کہ فرشتہءاجل نے اِن سے قلم چھین لیا ۔گیبریل گارسیا مارکیز کی اہم تصانیف کے اُردو زبان میں جو تراجم شائع ہو چُکے ہیں اُنھیں بہت پذیرائی ملی۔اُس کے ناول ”تنہائی کے ایک سو سال “کا اُردو ترجمہ ڈاکٹر نعیم احمد کلاسرا نے کیا۔یہ ترجمہ تخلیق کی چاشنی لیے ہوئے ہے اور قاری کو مصنف کے اسلوب کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔اس ترجمے کے دیباچے میں ڈاکٹر آشو لال نے مصنف کے اسلوب اور تخلیقی عمل کے لا شعوری محرکات پر روشنی ڈالی ہے ۔اُس کے ناول ”Chronicle of a Death Foretold“کا اُردو ترجمہ معروف ادیب فضال احمد سید نے کیا ۔یہ ترجمہ ”ایک پیش گُفتہ موت کی روداد “کے نام سے شائع ہوا اور قارئین ِ ادب نے اس میں گہری دلچسپی لی ۔پنجابی زبان کے نامور ادیب افضل احسن رندھاوا نے اِسی عظیم ناول کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا جو ”پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ “کے نام سے شائع ہو چُکا ہے ۔پنجابی زبان میں تراجم کے حوالے سے یہ ترجمہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس ترجمے کی اشاعت سے پنجابی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔ پنجابی زبان میں عالمی ادبیات کے تراجم کے سلسلے میں یہ ترجمہ لائق صد رشک و تحسین کارنامہ ہے ۔گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک اور مشہور تصنیف ”No One Writes to the Colonel“کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہو چُکا ہے ۔یہ ترجہ جو ”کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا“کے نام سے شائع ہوا ہے ،ممتاز ادیب فاروق حسن کی بصیرت افروز ترجمہ نگاری کا ثمر ہے ۔اُردو کے جن ادیبوں نے گیبریل گارسیا مارکیز کی تصانیف کے نا مکمل تراجم کیے ان میں زینت حسام کا نام قابلِ ذکر ہے جنھوںنے سب سے پہلے ”تنہائی کے ایک سو سال “کے ابتدائی چند ابواب اُردو کے قالب میں ڈھالے جو کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے ”آج“کی زینت بنے۔اُرد وزبان میں تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی مساعی جاری ہیں ۔اس سلسلے میں گیبریل گارسیا مارکیز کی تصانیف ”Autumn of the Patriarch“ اور ”Love in the Time of Cholera“کا اُردو ترجمہ بھی کیا جا چُکا ہے ۔
اگرچہ گیبریل گارسیا مارکیز نے اس عالمِ آب و گِل سے اپنا ناتا توڑ کر عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا ہے لیکن اُس کی حسین یادوں سے دامنِ دل ہمیشہ معطر رہے گا ۔اُس کی دائمی مفارقت کے صدمے سے نڈھال دنیا بھر میں اُس کے کروڑوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں ۔موت سے کسی کو رستگاری نہیں آج وہ تو کل ہماری باری ہے ۔رخش ِحیات مسلسل ر ومیں ہے ہمارا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اورنہ ہی ہمارا پاﺅں رکاب میں ۔نامعلوم کس مرحلے پر کُوچ کا نقارہ بج جائے اور سو برس کے سامان کے باوجود ہم ایک پل کے بارے میں بھی کچھ نہ جان سکیں ۔ دنیائے دنی کو نقشِ فانی سمجھنا چاہیے لیکن گیبریل گارسیا مارکیز کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔ حیرت اور حقیقت کو تخیل کی آمیزش سے ابد آشنا بنانے والے اس لافانی تخلیق کار کے اسلوب پر دنیا بھر میں ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ غیر مختتم ہے ۔اُس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اُس کا نام اُفقِ ادب پر مِثلِ آفتاب ضو فشاں رہے گا ۔وہ ایک ایسی دُنیا کا مکین ہے جہاں فکر و خیال کے گُل ہائے رنگ رنگ اپنی سدا بہارعطر بیزی سے قریہءجاں کو معطر کرتے رہتے ہیں۔اس دنیا کی فصلِ گُل کو اندیشہءزوال نہیں ۔اُس نے فکر و خیال کی انجمن آرائی ا ور خوابوں کی خیاباں سازیوں سے جو سماں باندھا ہے وہ رہتی دنیا تک قارئینِ ادب کے دلوں کو ایک ولولہءتازہ عطا کرتا رہے گا۔اس نے طلسمی حقیقت نگاری کی جس دنیا میں اپنا مسکن بنایاہے وہ سیل ِ زماں کے تھپیڑوں سے بالکل محفوظ رہے گا۔ایک زیرک تخلیق کار اپنے ذہن و ذکاوت کے اعجاز سے طلسمی حقیقت نگاری کی جو دنیا آباد کرتا ہے وہ قارئینِ ادب کے فکر و خیال میں رچ بس جاتی ہے ۔طلسمی حقیقت نگاری کی دنیا کی اقدار و روایات تہذیبی ارتقا کے مانندنسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔اسی لیے سمے کے سم کے ثمر سے بھی اس کی رعنائی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔گیبریل گارسیا مارکیز ناول اور افسانے کی طلسمی حقیقت نگاری کی اقلیم کا بے تاج بادشاہ تھا۔اس اقلیم میں اُس کی عظمت فکر کا ڈنکا بجتا رہے گا اور اس کے اسلوب کا سکہ چلتا رہے گا۔قارئینِ ادب اُس کی کتابوں کا مطالعہ کر کے اُس فکر و خیال کی جولانیوں ،اشہب ِ قلم کی روانیوں اور بصیرت و وجدان کی بے کرانیوں میں کھو جائیں گے۔اُس کے مداح خوابوں میں بھی اُس کے ابد آشنا تصورات ، روح پرور خیالات اور یادوں کے طلسمات سے دلوں کو آباد رکھیں گے۔عقیدتوں ،محبتوں اور خلوص کا یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے گا۔فضاﺅں میں ہر سُو اُس کی عطر بیز یادیں پھیلی ہیں جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے اُس کی یہ مانُوس آواز نہاں خانہءدِل پر دستک دیتی ہے ۔
مجھے لمحے نہیں صدیاں سُنیں گی
میری آواز کو محفوظ رکھنا

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *