Home » پوھوزانت » رسالہ عوامی جمہوریت ۔۔۔ شاہ محمد مری 

رسالہ عوامی جمہوریت ۔۔۔ شاہ محمد مری 

ہفت روزہ ’’عوامی جمہوریت ‘‘اور اس کے گاؤں سے لے کر مرکزی دفتر تک کے اہلکار، مجھ جیسے بے شمار لوگوں کو کارواں میں بھرتی کرتے چلے گئے ۔ یوں یہ رسالہ نصف صدی تک مقہوروں ، ضعیفوں اور محکوموں کا لائق فائق ترجمان رہا۔ اس باہمت رسالے نے1969میں اپنی پیدائش سے لے کر پچھلی صدی کی سترکی دہائی تک سید مطلّبی فرید آبادی اورسی آر اسلم کے ہاتھوں بلا مبالغہ ہزاروں بے چین ارواح کو راستے کی چوکھٹ مہیا کردی۔سید صاحب کی موت کے بعد اگلے پچیس برس تک سی آر اسلم اِس چراغ کوآ ندھیوں طوفانوں میں بجھنے سے بچاتا رہا۔اس چراغ کو بجھنے سے بچا نے میں اُس بڑے آدمی نے اپنا کیا کچھ تج دیا تھا، اس پر ہم آگے چل کرضرور بات کریں گے۔ 10جولائی 2007کو سی آ راسلم انتقال کر گیا۔اُس کے بعد کے اِن دس سالوں میں محترم اختر حسین سمیت کئی دوسرے دوستوں نے اسے سنبھالا۔ اور اب یہ پچاس برس کا نیم سفید ریش را ہبر ہے ۔
ایک طبقاتی فکر کے رسالے کے ساتھ اُس کا ایک پورا فکری کارواں جڑا رہتا ہے ۔ اور رسالہ اُس کارواں کا ترجمان ہوتا ہے ، اور اُس میں کام کرنے والے اُس کارواں کے رپورٹیئر ہوتے ہیں۔چونکہ ’’عوامی جمہوریت‘‘ نچلے طبقات کا ترجمان رسالہ رہا، اس لیے یہ اُسی رواں کارواں کا ترجمان رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں رسالہ عوامی جمہوریت کی پیدائش اُس کارواں میں ہوئی تھی ۔ تو سوال اُٹھتا ہے کہ عوامی جمہوریت سے حاملہ کارواں کے ترجمان کااُس کی پیدائش سے قبل کیا نام تھا؟ ۔
بھئی، عوامی جمہوریت کمال کا شجرہِ نسب رکھتا ہے ۔اس کے باکمال آباؤ اجداد کا تذکرہ کیے بغیر تسلسل کا معاملہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ہم بہت زیادہ دور تونہیں جائیں گے ۔ بس عوامی جمہوریت کی دوپشتوں کا تذکرہ کریں گے ۔
میرے پاس عوامی جمہوریت کے دادا، یعنی’’آفاق ‘‘ محنت ایڈیشن کی ایک بہت ہی بوسیدہ فائل موجود ہے ۔ ۔۔ عوامی جمہوریت کے اِس گرینڈ فادرکے زمانے میں کارواں کے لوگ نیشنل عوامی پارٹی میں کام کرتے تھے اس لیے اُن کی ادارت میں چلنے والا یہ اخبار اُسی پارٹی کا ترجمان تھا اور لاہور سے شائع ہوتا تھا ۔
یہ نیشنل عوامی پارٹی محنت کرنے والے لوگوں کی شعوری اور تنظیمی فاقہ زدگی کے زمانے کی جائے پناہ تھی۔ ملٹی کلاس پارٹی تھی۔ تقدیر نے مزدور طبقے کو بھی اُس ’’شیر بکری ایک گھاٹ ‘‘والی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔بہت ساری سادہ ارواح نے اس عارضی پناہ گاہ ہی کو مستقل جانا اور چنانچہ یہ اُسی مکان کے بدلتے ناموں کے ہی مکین چلی آئیں۔ مگر جن لوگوں نے ’’اپنا‘‘ الگ خیمہ کھڑا کرنے کے قابل بننے سے قبل تک اِس عبوری پناہ گاہ میں رہنا قبول کیا وہ اُس میں رہتے رہتے اپنے لیے الگ بستر اور برتن اکھٹے کرتے رہے ۔ اس الگ بستر اور برتن کا نام انہوں نے ’’آفاق ‘‘ محنت ایڈیشن رکھ دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں’’ آفاق ‘‘محنت ایڈیشن اُس ملٹی کلاس پارٹی کے اندرسوشلسٹ سیاست کی آواز تھا۔
میری یہ فائل 5جنوری1966سے شروع ہوتی ہے ۔معاشی سیاسی سماجی حالات کو سمجھاتے رہنے کی’’ لا‘‘حاصل کوششوں میں مگن اخبار ’’آفاق محنت ایڈیشن ‘‘کی فائل میں میرے پاس آخری شمارہ 28دسمبر1966کا ہے ۔
اس کی سالانہ خریداری کے آٹھ روپے مقرر تھے ، جبکہ ایک شمارے کی قیمت بیس پیسے تھی ۔اخبار کے سرور ق پر اوپر ایک سرخ پٹی ہے جس کے دائیں طرف پہیہ چھپاہوا ہے اور بائیں طرف گندم کے خوشوں سے بنے دائر ے کے بیچ ہل چلاتا ہوا ایک کسان چَھپا ہوتا تھا۔ درمیان میں موٹا موٹا ’’روزنامہ آفاق ‘‘ لاہور لکھا ہے ۔ جس کے اوپر چھوٹی سرخی میں’’ محنت ایڈیشن ‘‘‘ اور سرخی کے نیچے مینیجنگ ڈائریکٹر کے بطور راؤ مہروز اختر خان کا نام لکھا ہے ۔اس طرح اولین صفحے کے نیچے بھی ایک سرخ پٹی تھی جس پر ’’محنت کشوں اور جمہوری قدروں کا ترجمان ‘‘ کی سرخی چھپی ہوتی تھی۔
واضح رہے کہ یہ آفاق ،ایک ڈیلی اخبار تھا۔ مگر اُس روزنامے کے دوسرے شماروں سے اِن لوگوں کو کوئی غرض نہ تھا۔ انہوں نے بس بدھ کے دن کا اخبار لے رکھا تھا ، اُس کا بھی عام حصہ نہیں بلکہ میگزین کا حصہ۔ اُسے انہوں نے ’’محنت ایڈیشن ‘‘کا نام دے رکھا تھا ۔ اس طرح یہ ہفت روزہ بن گیا تھا پارٹی ورکرز کے لیے ۔ایک ایسے ڈیلی اخبار کا ’’محنت ایڈیشن ‘‘ جو کہ ہر بدھ کو چھپتا تھا ۔ اور یہ محنت کشوں کی پارٹی کے افکار کے لیے وقف تھا۔ اس بدھ والے ہفت روزہ میں کسان کمیٹی کی خبریں ہوتی تھیں ، ٹریڈ یونین کی باتیں چھپتی تھیں اور اپنی ’’پارٹی ‘‘کی خبریں ۔
اُس کے صفحوں کا سائز بعد میں 40برس تک چھپنے والے عوامی جمہوریت جتنا ہوتا تھا مگر اُس کے صفحوں کی تعداد مختلف ہوتی تھی ۔ یہ صفحات شروع میں بارہ اور بعد میں آٹھ ہوتے تھے ۔جبکہ عوامی جمہوریت کے شروع سے لے کر آخری عمر تک آٹھ ہی صفحے ہوا کرتے تھے ۔ خط وکتابت اور خریداری کے پیسے بھیجنے کا پتہ تھا: سید مطلبی فرید آبادی ۔5۔مہر بانو سکیم ۔فرید کوٹ روڈ لاہور
محنت کشوں کے فلسفے کے اس ترجمان اخبار میں ہمیں مختلف جگہوں پرمیٹنگوں کی خبریں ملتی ہیں ۔ نیپ کے لیڈروں کی نہیں بلکہ نیپ کے اندر مزدور پارٹی کے راہنماؤں کی۔جن میں سید فرید آبادی، سی آر اسلم ، میجر محمد اسحاق ،سید قسور گردیزی اور مرزا ابراہیم کے نام اکثر ملتے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی جیسے نام اکثر نظر آتے ہیں۔
اس رسالے میں بنی نوعِ انسان کے سو سالہ طویل دشمن ،امریکی سامراجی کے خلاف کھل کر اور مدلل مضامین اور خبریں ہوتی تھیں۔ معاشی ، سماجی اور سیاسی ہر طرح سے اس سامراجی ملک کے خلاف تجزیات چھپتے تھے ۔ ایسی زبان میں جسے عام آدمی سمجھ سکے ۔ بہت بڑی نعرے بازیوں سے بچتے ہوئے ایجوکیٹو سٹائل کو اپناتے ہوئے ۔ مطلب شعور کی بنیاد پہ عوام کی تنظیم کاری تھی لہذا بڑے بڑے بول اور نعرے بازی سے ہمیشہ گریز کیا جاتا تھا۔اس ہفت روزہ میں اسی وضاحت کے ساتھ اور سادہ زبان میں ویت نام ، کیوبا، چین اور سویٹ یونین جیسے سوشلسٹ ممالک اور دیگر ممالک کی انقلابی تحریکوں کے بارے میں مضامین ،خبریں اور مقالے ہوتے تھے ۔
ہفت روزہ آفاق میں سی آر اسلم کے مضامین آپ کو اکثر نظر آتے ہیں۔سنجیدہ ، متین ، سنگین ، عام فہم، اور قائل کرنے والے انداز کے مضامین ۔ایک شمارے میں سی آر اسلم کی طرف سے تیار کردہ کیوبا کے فیوڈل کا سٹرو کی اُس تقریر کے اقتباسات شائع ہوئے جو اس نے اپنے انقلاب کی چھٹی سالگرہ پر کی تھی ۔ اُس پورے بڑے صفحے میں اُس کی تقریر سے کوٹیشن جیسے ٹکڑے منتخب کر کے دیے گئے ہیں۔اسی طرح تقریباً ہر شمارے میں اِس دانشور کے مضامین موجود ہوتے تھے ۔ عالمی تضادات کیا ہیں ۔ ملک کے اندر طبقات اور ان کے مابین چپقلش کی نوعیت کیا ہے ۔ ان تضادات اور چپقلشوں کا حل کیا ہے ، بیرونی تجارت اور پاکستان کی معاشی ترقی کا باہمی تعلق کیا ہے؟، ریاست اور جمہوریت کاگو رکھ دھندا کیسا ہے ؟۔ ایسے ہی عنوانات کے تحت مضامین سی آر اسلم کے نام سے چھپے ہوئے ملیں گے ۔ لیکن اندر غور سے دیکھیے توبغیر نام کے بھی بے شمار مضامین آپ کو ملیں گے جن میں سے 70فیصد سے زائد مضامین کا ڈکشن یہی سی آر اسلم والا ہے ۔نظریاتی ، سیاسی اور معاشی موضوعات پر۔
اسی طرح بین الاقوامی سوشلسٹ راہنماؤں کی تقریروں اور مضامین کے ترجمے ہیں۔ایک اور باوقار کمیونسٹ ملک اسلم کا نام بھی کافی بار مترجم کے بطور چھپاہوا ملتا ہے۔
اُسی زمانے میں سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کے بیچ دشمنی ختم کروانے کی ایک زبردست کوشش کی تھی ۔ یہ دونوں ممالک تباہ کن جنگ لڑچکے تھے ۔ مالی وسائل اور انسانی جانوں کا بے تحاشا ضیاع ہورہا تھا۔ جنگی ماحول میں دفاعی اخراجات اتنے بڑھ چکے تھے کہ عوام کی بہبود پر خر چ کرنے کے لیے پیسے نہ بچتے۔ ذرا سا کامن سنس پیدا ہوا تو سوویت یونین بیچ میں پڑا۔ زبردست مصالحتی سفارت کاری کے نتیجے میں اُس کے شہر تا شقند میں پاکستان ہندوستان کے بیچ مذاکرات ہوئے ۔ جس کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان تا شقند معاہدہ ہوگیا تھا۔
مگر جنگباز توامن کے آکسیجن کے ایک مالیکیول سے ہی بے آرام ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ ایک واو یلا شروع ہوگیا۔ وہی’’ غدار ہوگیا، وطن بیچ دیا ‘‘جیسی سستی حب الوطنی کی کائیں کائیں ہونے لگی۔ اخباری کالموں ، پوسٹروں ، جمعہ کی تقریروں اور جلسوں کے لاؤڈ سپیکروں نے اس معاہدے کے خلاف کان پھاڑنے شروع کردیے تھے ۔ رجعتی پریس بالخصوص چیخ اور چلارہا تھا۔ یوں پورا ماحول جنگ آلود ہو چلا۔
یہاں ہمارے دوست ڈٹ گئے۔ آفاق محنت ایڈیشن میں ہمیں ’’اعلانِ تا شقند ‘‘ کے حق میں زبردست مضامین اور قرار دادیں ملتی ہیں۔ اِس اعلان کے مخالفین کے خوب لتے لیے گئے ہیں۔اور ایک نظریاتی فریضہ کے بطور امن کی مہم چلائی گئی۔ پاکستان کا نرم چہرہ دکھانے کا کسی کو احساس ہو تو اُس زمانے کے آفاق اخبار کے وہ مضامین الگ کتاب کی صورت میں چھاپنے کی قابل ہیں۔
اس رسالے کے صفحات میں ایک اور انوکھی جنگ بھی نظرآتی ہے ۔خیرہ ہمارے زمانے میں تواب یہ جنگ اُس قدر ضروری نہیں رہی ۔ تھایوں، کہ اُس زمانے میں مزدور تحریک کی اپنی الگ طبقاتی سیاسی پارٹی موجود نہ تھی ۔بلکہ ملک کے اندر ایک بہت بڑی پارٹی موجود تھی جس کا نام ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ تھا۔ اس پارٹی میں وہ سارے لوگ اور طبقات موجود تھے جو خارجہ امور میں امریکہ کی بالادستی کے خلاف تھے ، جو ملک ون یونٹ کا خاتمہ چاہتے تھے اور جو ووٹ ، الیکشن اور پارلیمنٹری نظام چاہتے تھے ۔ چنانچہ اس پارٹی میں جاگیردار بھی موجود تھے، سرمایہ دار بھی ، سردار بھی موجود تھے اور خان ونواب بھی۔ چونکہ مزدور تحریک کے لوگ بھی انہی نکات پر متفق تھے اور اُن کی الگ پارٹی موجود نہ تھی تو وہ بھی اسی کثیر طبقاتی چھتری کے نیچے کام کرتے تھے ۔ لیکن چونکہ محنت کش لوگوں کی لوٹ گھسوٹ یہی جاگیردار اور سرمایہ طبقہ ہی کرتا تھا اس لیے اُس خلاف بھی بولنا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک ہی پارٹی میں رہتے ہوئے اپنا خبار الگ کر دیا تھا: آفاق ۔
یہاں وہ نیشنل عوامی پارٹی کی متفقہ باتوں پرتو ساتھ دیتے تھے مگر اِسی پارٹی کے رجعتی حصے پر ناترس تنقید بھی کرتے تھے۔ عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے مخالف طبقات کے نظریاتی اور سیاسی نقطہِ نظر پہ جان لیوا حملے موجود ہیں۔ یوں یہ اخبار بار بار اپنے ورکرز کو بتاتا رہتا ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی میں موجود کمیونسٹ گروہ الگ ہے اور سرمایہ دار گروہ الگ۔ اس واضح موقف کا بار بار دوہرایا جانا ہمیں باور کراتا ہے کہ فکر کی دنیا میں غفلت نا قابلِ معافی جرم ہوتا ہے ۔
اخباراپنے یا دوسرے دھڑے کے افراد کا نام بہت کم لیتا ہے ۔اسی لیے اخبار میں مخالفین کی ذات پہ بہت کم بات کی گئی ۔ البتہ کبھی کبھی اپنی شناخت کے لیے نیشنل عوامی پارٹی پنجاب وبہاولپور کی خبریں اور اشتھار نظر آتے ہیں ۔ ایک آدھ جگہ میاں محمود احمد کا نام اس گروہ والی پارٹی کے فنانشل سیکریٹری کے بطور چھپا ہواہے۔ وگرنہ بس سیاسی اور فکری فرق پہ سارا زور ہے۔
انٹرنیشنل کمیونسٹ تحریک کا یہ ترجمان اخبار عالمی سرمایہ داری نظام کی زبردست مخالفت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ صنعتی اور ٹکنالوجیکل ترقی اور اس کی جگمگ کے باوجود انسانوں کی بڑی اکثریت کے حالات ابتر ہوتے جاتے ہیں ۔منافع اور قدرِ زائد جمع کرنے کی دوڑ والے اس نظام میں ہر ’’چیز ‘‘ کماڈٹی ہوتی ہے ۔ کماڈٹی میں متواتر چمک اور دمک ڈال دی جاتی ہے ، اُسے پرکشش بنایاجاتاہے ۔ اور ہر حیلے بہانے سے ’’انسان ‘‘ کی جیب خالی کی جاتی ہے ۔ منافع اورانسان دو مخالف حقیقتیں ہیں۔ کماڈٹی کے پوش اور ڈبے اور پیکٹ جازب نظر، خوبصورت اور مہنگی ہوتی جاتی ہیں اور انسان کامکان، سڑک اور لباس بوسیدہ ہوتے جاتے ہیں۔ اَن پڑھی ، غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کی واحدوجہ وہ نظام ہے جس میں منافع آزاد اورانسانیت زنجیروں میں ہے ۔ ’’آفاق ایڈیشن‘‘ سمجھو اسی حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے جاری کیا گیاتھا۔
لینن کے یومِ پیدائش سے قبل رسالے کاایک خصوصی ایڈیشن نکالنے کااعلان کیا گیا تھا: لینن ایڈیشن اوریہ ایڈیشن مقرر ہ تاریخ کوچھپا ۔ صفحات تو زیادہ نہ تھے ، وہی بارہ رہے مگر مضامین شاعری اور دیگر تحریریں لینن ہی سے متعلق تھیں ۔ عنوانات تھے : لینن کے یوم ولادت پر ، انسانیت کا عظیم محسن ۔ لینن کی تعلیمات ، خراجِ عقیدت ۔
اسی طرح یکم مئی کو ’’مئی نمبر ‘‘کے نام سے مزدوروں کے لیے خصوصی نمبر نکلا ۔مگر یہاں 12کے بجائے 16صفحات تھے۔ بات وہیں امریکی سامراج اور اُس کے عزائم سے شروع ہوتی تھی اور دیگر ممالک کے عوام کی کامیاب انقلابات کی حاصلات سے ہو کر پاکستان میں کسانوں اور مزدوروں کی تنظیموں کی سرگرمیوں اور قرار دادوں تک آتی تھی۔
25مئی 1966کے شمارے میں پورے دو صفحات پر مشتمل تعزیتی میٹنگوں کی خبریں ہیں۔ عنوان ہے :
دائم آبادر ہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
اور یہ تعزیتیں جہلم کے میرے آئیڈیل سیاسی ورکرلال خان نامی کمال آدمی کے لیے تھیں جو غریب طبقے کا بہت ہی کمٹڈ، بہت سرگرم اور بہادر ساتھی تھا۔ اس شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہر اچھے انسان کا سمجھو فریضہ ہے۔ اس لیے کہ گورکی کی ایک کہانی کے مرکزی کردار ’’کامو‘‘ کا پاکستانی ایڈیشن دیکھنا ہو توجان جائیے کہ اُس کا نام لال خان تھا۔ وہ ریلوے مزدور تھا اور پسے ہوئے طبقے کا بہت بڑا طرفدار۔
چونکہ 17جون کو اس کے گاؤں میں اُس کی چالیسویں کا اجتماع رکھا گیا تھا اس لیے اخبار میں اشتھار چھپا ہے کہ 15جون کا اخبار اسی کے متعلق (اور فیروز الدین منصور اور میاں افتخار الدین )مضامین چھاپے گا۔اور وہ اخبار چھپا بھی۔ یہ الگ اور ارمان بھری بات ہے کہ میرے پاس موجود فائل میں اُس کے اولین دو صفحے گم ہیں۔
اُسی زمانے میں ایوب نے بھٹو کو وزیر خارجہ کی ’’نوکری ‘‘ سے نکال دیا۔ اخبار آفاق نے اِس پہ ایک بہت ہی متوازن ردِعمل دکھایا۔ اُس نے بھٹو کے عزائم پرخوب شکوک کا اظہار کیا۔ اِس واقعتا ’’شوبوائے ‘‘ نے غربیوں کی تحریک کو اتنا دیمک لگایا، اتنا کھوکھلا کیا کہ تحریک دوبارہ پاؤں پہ کھڑا نہ ہوسکی۔ اخبار کے ایڈیٹروں نے اپنے قارئین کے لیے بھٹو کے عزائم تفصیل سے بیان کیے ۔ مگر اُس کو وزیرِ خارجہ کے عہدے سے برطرف کرنے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا۔ وہ یہ کہ ملک کی خارجہ پالیسی یکسربدل دی گئی ۔ ایوب نے خود ایسا نہ کیا ‘اُسے تو امریکہ کا ’’حکم ‘‘ مل گیا تھا۔ صرف افراد کو بدل دینا مقصد نہ تھا بلکہ پاکستانی خارجہ پالیسی کا رخ از سرِ نو متعین کرنا مقصد تھا۔ اس کے خلاف چار سطروں میں نہیں بلکہ 29جون میں آفاق کا پورا صفحہ اس پر وقف کردیا گیا۔ بات عوام تک لے جانی ہو تو بات تفصیل سے ہی کی جاتی ہے !۔
حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ لوگ شعوری طور پربین الاقوامی امور پہ زیادہ لکھتے تھے ۔ اپنے قارئین کو تحریکوں اور انقلابات سے متعلق ایجوکیٹ کرتے تھے ۔وہ ایسا مشن کے بطور کرتے تھے ۔ چنانچہ اخبار میں جگہ جگہ سوویت یونین ، چین، ویتنام اور کیوبا کے اخبارات سے حوالے ، تراجم اور خبروں کو اردو میں ڈھال کر اپنے قارئین کو پہنچانے کا شاندار شعور موجود تھا۔ تقریباً اس کے ہر شمارے میں یہ صورتحال موجود ہے ۔ بالخصوص ویت نام کی جاری جنگِ آزادی تو تراتر کے ساتھ اخبار میں چھپتی تھی ۔ بلاشبہ کسی جمہوریت پسند اور انقلابی پارٹی اور گروہ کے لیے بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک سے بے خبری موت ہوتی ہے ۔
مگر آپ اُس وقت بہت حیران ہوں گے جب آپ یہ دیکھیں گے کہ باون برس قبل ہمارے دانشور جو کچھ کہہ رہے تھے ابھی بھی ہم وہی کچھ کہہ رہے ہیں ۔لگتا ہے ہمارا سماج ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا۔ اتنا طویل جمود، اتنا لمباسکوت !! ۔گوکہ یہ جدلیاتی قانون ہی ہے کہ کبھی کبھی تضادات میں توازن پیدا ہوجاتا ہے اور کچھ عرصے کے لیے تضادات میں سکون کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مگر اس قدر طویل سکوت اور اس قدر گہری سکوت !!۔ہمارا سماج کبھی کبھی توجدلیاتی اصولوں کی صحت تک پرشک کرنے کی شیطانی ترغیب دیتا نظر آتا ہے۔ ہمارا خطہ اگر روشن فکر نظریات کا قبرستان نہیں توان کی جائے افزائش بھی نہیں۔
مثلاً 21ستمبر1966کے آفاق میں اُس مضمون کا آخری پیراگراف دیکھیے جو نواب کا لاباغ،( امیر محمد خان )کی جگہ جنرل موسیٰ کو مغربی پاکستان کا گورنر لگائے جانے پر لکھا گیا تھا: ’’اس غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ،کہ محض افراد کی الٹ پلٹ سے عوام کی زندگی کے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ عوام کی زندگی کے مسائل کا دار و مدار اب تک عوام کی مضبوط تنظیم، سیاسی شعور کی پختگی اور جدوجہد کے تسلسل پررہا ہے اور ہمیشہ رہے گا‘‘۔
اِس بات کو نصف صدی گزر گئی مگر آج بھی یہاں جاگیرداروں ہی کے درمیان الیکشن ہوتے ہیں۔ عوام اُن جاگیرداروں میں سے ایک کو ووٹ دینے پر مجبور رہیں۔ اور پھر جو بھی جاگیردار جیت جائے تو لاکھوں عوام مسرت کے ابلیسی رقص میں اپنے پاؤں شل کرتے ہیں۔ آج بھی بغیر منشوروں کے الیکشن ہوتے ہیں۔ آج بھی غیبی وقوعات اچانک نظر آتے ہیں۔ کوئی قانون نہیں، فزکس کے اصول لگتا ہے لاگوہی نہیں ہیں،اور حرکت وبرکت کے جدلیاتی فارمولے غیر معینہ مدت تک کے لیے رہن رکھے جاچکے ہیں۔ کبھی کبھی دیکھیے تو لگتا ہے ہمارے ارتقا کا سفر تودائروں تک کا سفر بھی نہ رہا ۔ بلکہ یہ تو پچھل پیری کا سفر ہے ۔ اُس زمانے میں مولانا مودودی اور میاں طفیل تھے تو آج مولوی رضوی ، پیر سیالوی اور طاہر القادری ہیں۔ خود فیصلہ کیجئے کہ اس ربع صدی میں فکری ارتقا کی سمت کیا رہی ، آگے یا پیچھے؟۔
’’آفاق محنت ایڈیشن‘‘ والوں کے لیے اُس وقت بھی حالات موزوں نہ تھے ، آج بھی نہ بدلے ۔ اُس وقت جو عوام مخالف کام سرکار او اس کا اخبار’’نوائے وقت ‘‘ کرتے تھے آج ڈیڑھ سو ٹی وی چینل کرتے ہیں، سوشل میڈیا کرتا ہے ۔ کل مارشل لا جو کام آمریت اور اندھی قوت سے کرواتا تھا ، آج وہی کام اندھی قوت کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کرتا ہے ۔ عوام کے ذہنوں پہ ایک طرف ’’شیر آیا‘‘ کی یلغار ہے تو دوسری طرف تیر اور بلّا اُس کا شعور کند کررہے ہیں۔ سچائی کی جیت تو حتمی ہے مگر لگتا ہے اُس کے آج کے آفا ق محنت ایڈیشن کو تعداد میں زیادہ اور تنظیم میں مزید منظم قارئین چاہییں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *