Home » آرکائیوز » انگریزوں کے خلاف مزاہمت ۔۔۔ لیمبرک/شاہ محمد مری

انگریزوں کے خلاف مزاہمت ۔۔۔ لیمبرک/شاہ محمد مری

برطانیہ کے ساتھ مریوں کا اولین سامنا 1839میں ہوا ۔ اس قبیلے کی تعداد اور قوت بتدریج بڑھتی گئی ۔ میر نصیر خان کے انتقال کے بعد اس قبیلے پر خان قلات کی بالا دستی ہر لحاظ سے ختم ہو گئی اور اس کے بعد مغربی قبائل کے مقدر میں جو لا قانونیت آئی ، وہ ان کے سرداروں کی اہلیت اور طاقت پر منحصر تھی ۔ مری قبیلہ کے سرداروں کو غیر معمولی وقار حاصل تھا جو کہ گزینی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں بھاولان کی مافوق الفطرت کرامات سے تقویت ملتی تھی ۔ بھاولان نے اٹھارویں صدی کے آخر میں قبیلے پر حکمرانی کی تھی۔ مریوں کی پالیسی بھی اس لحاظ سے یکتا تھی کہ وہ اپنے پڑوسی قبائل کے کار آمد عناصر کو خوش آمدید کہتے تھے ۔ اور اس طرح اصلی رند بلوچوں کے مرکزہ کے گرد جلا وطنوں اور قانون شکنوں کی ایک کنفیڈریشن یکجا ہوئی جنہیں اپنی اصلیت کھیتران، خراسانی کاکڑ ، سندھی، اور پٹھان بتاتے ہوئے فخر محسوس ہوتا تھا ۔ انہیں مری کے نام کے حصول اور قبائلی بھائی چارے کے ساتھ حقوق میسر ہونے پر بھی فخر محسوس ہوتا تھا۔ ایسے مہاجروں سے مریوں نے ان قبائل کو لوٹنے کے طریقے سیکھے جہاں سے یہ مہاجر آتے تھے اور وہ چالاکی کے ساتھ اپنے پڑوسی قبائل کے آپس کے جھگڑوں کو اپنے مفاد کے لیے ہوا دیتے تھے ۔
بھاولان کے دور میں حسنی قبیلے کے ساتھ ایک لڑائی شروع ہوئی اور مریوں نے انہیں اس خطے میں سے بتدریج نکال باہر کر دیا جسے بعد میں ’’ کوہستان مری ‘‘ کے نام سے شہرت نصیب ہوئی ۔ کاہان پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت بنایا گیا ۔ دودا خان کی سرداری کے وقت یہ فتح مکمل ہو گئی ۔ گوکہ دوسرے بلوچ قبائل کی طرح مری بھی مجموعی طور پر چوری اور ڈاکے کے لیے وقف تھا مگر جلد ہی اُن تاجروں کے ساتھ بلیک میل کی ادائیگی پر منحصر اُن کے تعلقات استوار ہوئے جو ان کے علاقے میں سے یا قریب کی شاہراہوں پر سے گزرتے تھے ۔ ان تعلقات میں یہ قبیلہ وقار و ناموس کے اصولوں کی پابندی کرتا تھا ۔
۔1839 ء کے اوائل میں سرجان کین کی فوجوں کی کچھی میں آمد نے دیگر چیزوں کے علاوہ ان تعلقات کو بھی بگاڑ دیا ۔ گوکہ بوڑھے دودا خان کو ان حملہ آوروں سے الجھنے کی کوئی خواہش نہ تھی مگر وہ ایک ’’کافر‘‘کے خلاف ایک اچھے مسلمان کی سی نفرت ضرور محسوس کرتا تھا ۔ اس نے انگریزوں کی پیش رفت کی سمت کے بارے میں اپنے جنونی قبائل کی تشویش کو محسوس کر لیا ۔ لہٰذا مریوں نے فوجوں کو تباہ کرنے ، اُن کے ذخائرکا صفایا کرنے اور اس علاقے میں رسل و رسائل میں مداخلت کرنے میں حصہ لیا جہاں کاکڑوں سے مل کر وہ سبی اور بولان کے قریب بلیک میل وصول کرنے کی لت میں پڑ گئے تھے ۔ جب کہ ڈومکی اور جکھرانی کچھی کی مغربی سرحد پر اپنی کمین گاہوں سے باغ کے جنوبی میدانی علاقے میں جاکر ڈاکے ڈالتے تھے ۔ یہ لوگ بعد کے متوقع نتائج سے یا تو لا پرواہ تھے یا انہیں حقیر گردانتے تھے ۔
جب شاہ شجاع کو اُس کے اجداد کے تخت پر پر امن طور پر بحال کر کے برطانیہ افغانستان کے خلاف کامیابی کی عروج پر پہنچا تو اس نے کچھی کو قلات کی کمزور فرمانروائی سے الگ کر کے اسے کابل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ۔غارتگر قبائل کو سبق سکھانے کے لیے بہت عرسے سے موخر کی ہوئی مہم بھی کی گئی ۔ اسی دوران دروں سے اوپر لوگوں نے خود خان قلات کی زیادتیوں پر سزا دینے کا فیصلہ کیا ۔ اور 13نومبر کو اس کے قلعے پہ دھاوا بول دیا اور خان اپنے آدمیوں کی سربراہی کرتے ہوئے قتل کیا گیا ۔
اس فتح نے برطانیہ والوں کو دوبارہ ایسٹ وک کے بقول ’’شاہ شجاعائز‘‘ کرنے کا موقع دیا ۔ محراب خان کے چھوٹے بیٹے کومعزول کر کے میر شاہنواز کو تخت پر بٹھا دیا ۔ سقوط قلات نے بلوچستان میں ایک تاثر پیدا کیا اور ایک کٹھ پتلی کو خان کرنے سے یہ محسوس کیا گیا کہ سکھر سے کابل تک کے علاقے پر بالآخر مکمل اور حتمی طور پرہماری گرفت ہو گئی۔ تب بالائی سندھ کا پولیٹیکل ایجنٹ راسؔ بیل اس قابل ہوا کہ اس نے میجر بلا موؔ ر کی قیادت میں پلیجی کے کام پر موجود چھوٹے سے دستے سے پہاڑی علاقے پر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی اور بگٹی کو نئی شرائط پیش کیں۔
ان شرائط کا مقصد یہ تھا کہ مری اور بگٹی قبائل کے سردار دودا خان اور بیورغ پولیٹیکل ایجنٹ کی خدمت میں حاضری دے کر پچھلے جرائم کی معافی مانگیں اور شاہ شجاع کو اپنا حکمران تسلیم کرلیں ۔ جسے کابل کی مسند پر بٹھا کر ہم نے فطری انصاف اور عالمی قانون کے ہراصول کی خلاف ورزی کی تھی ۔ یہ شرائط اس دور میں ہماری حماقت اور عمومی گھمنڈ کی سیاست کا نتیجہ تھیں ۔
اس لیے کہ ان مغرور پہاڑی لوگوں نے 45 برس قبل قلات کے نصیر خان اعظم کی موت کے وقت سے اپنی آزادی کو برقرار رکھا تھا ۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اپنی مرضی سے صلح یا جنگ کرتے تھے ۔ تو کیا وہ قبائل اجنبی کابل کے ایک شہزادے کے باجگزار اور مودب غلام بننے کے لیے کبھی بھی تیار ہو جاتے ؟۔یا ان کے غیر مفتوحہ پہاڑ کمزور درانی سلطنت کے وظیفہ خوار بن جاتے ؟۔ مگر برطانوی فوجیں جنہوں نے ایک تخت پہ شاہ شجاع کو بٹھایا تھا اور ایک دوسرے تخت سے محراب خان کو اتار پھینکا تھا اب ان کے علاقے کے دہشت ناک دروازوں کے سامنے تھیں۔وہ کچھی اور سندھ سے ان کی سپلائی کو کاٹ چکی تھیں ۔ سرداروں کے لیے وقت (مہلت)لینا ضروری تھا ۔ اب جب کہ برطانیہ والے ان کے علاقے میں داخل ہونے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے تو’’ آنے دو انہیں ۔ انہیں گھاٹیوں میں سے اور چوٹیوں پر اپنی توپیں گھسیٹ کر نکالنے دو اور جب وہ اس کھیل سے تھک جائیں تو واپس ہو جائیں گے ۔ اور بگٹیوں میں اُس دن کی یاد دلانے والے بہت سے لوگ موجود تھے جب کچھ عرصہ قبل میدانِ مرو کے گیدڑوں نے ان براہوئی فوجیوں کی لاشوں سے اپنے پیٹ بھرے تھے جو خان نے ان قبائل کو کچھی میں لوٹ مار کرنے پہ سزا دینے کے لیے بھیجی تھیں۔ اگر اللہ نے چاہا تو ان کو اس سے بھی بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے ‘‘۔
واقعات کا انتظار کرنے اور مناسب موقع سے قبل اشتعال نہ دلانے کے عزم کے ساتھ سرداروں نے برطانوی شرائط کو قبول کر لیا۔ بیورغ نے خود اور عیار تر دودا خان نے اپنے بڑھاپے اور میدانوں تک طویل مسافت طے نہ کر سکنے کے بہانے ایک وکیل کے ذریعے یہ شرائط قبول کر لیں ۔
دودا خان نے اپنے اخلاص کے ثبوت کے لئے یہ دلیل دی کہ وہ سبی میں شاہ کے نائب سے ملا تھا اور اپنی اطاعت گزاری پیش کر دی تھی ۔ اس نے اس دستے کے لیے گائیڈز بھی بھیجے جس نے کاہان روانہ ہوناتھا ۔
بلا مور کے حملے کی کہانی جان جیکب نے اپنی تصنیف ’’کچھی کے جنوب میں اولین حملے کی سرگزشت ‘‘میں بیان کی ہے۔ جیکب خود اس دستے کے ساتھ تھا اور آرٹلری کو کمان کر رہا تھا ۔ توقعات و خدشات کے برعکس اس نے اپناتوپخانہ ہر جگہ پہنچادیا ۔ اس نے اس پرانی ڈینگ کو جھوٹا ثابت کیا کہ’’ بیورغ کو ڈیرہ میں خدا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا‘‘ ۔
دودا خان 300مسلح سواروں کے ساتھ کیپٹن رائف سے ملنے باہر آیا ۔ بد قسمتی سے بگٹیوں اور بلا مور کے زیر کمان دوسرے دستے کے مابین تصادم کی خبر نے (جو مریوں کو اس انداز میں پہنچی کی بلا مور نے بغیرکسی اشتعال کے بگٹیوں پرحملہ کر دیا تھا ) اس اعتماد کی اچھی فضا کو تباہ کر دیا اور ایک ہی رات میں کاہان کو مکمل طور پر خالی کر دیا گیا ۔ دودا خان نے اس نا قابلِ رسائی جگہ سے جہاں وہ چھپ گیا تھا ، محض یہ الفاظ بھیجے کہ اسے خدشہ ہے کہ جو کچھ بگٹیوں کے ساتھ ہوا وہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔ مریوں کے ساتھ شخصی روابط قائم کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی ۔ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ پوسٹانز نے کوہستان سے فوجوں کے اخراج سے قبل قبائل پہ لکھی گئی ایک رپورٹ میں کہا :’’ دودا خان اور مری قبیلہ روزِ ازل سے کاہان کے دستوں کے ساتھ بد گمان رہے ہیں ، دودا خان خود ایک کمزور بوڑھا شخص ہے اور کہا جاتا ہے کہ سرکش قبیلے پہ اس کا اثر محدود ہے۔ مریوں نے بگٹیوں کی طرح ہمیشہ خود کو آزاد سمجھا ہے اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیوں انہیں باجگزار بننے کو کہا جائے ‘‘۔ اس مسودے میں جو کہ کوہستانی علاقے اور اس کے باسیوں کا اولین ٹھیک ٹھیک بیانیہ ہے ، اس تازہ تازہ ’’مغلوب کردہ‘‘ علاقے کی انتظام کاری کے لیے بہت سی تجاویز موجود تھیں ۔ مگر راس بیل نے حاشیہ پر یہ مشاہدہ لکھا ، ’’انہیں ایسی سرگزشت سے اس کی موجودہ شکل میں کوئی سروکار نہ تھا ۔ لیفٹیننٹ پوسٹانز میرے منصوبوں سے با خبر ہے‘‘ ۔
منسوخ کردہ تجاویز میں سے ایک یہ تھی ’’جب تک دودا خان امن و امان کی طلب کردہ ضمانت نہیں دیتا کاہان میں برطانوی افواج کا ایک دستہ رکھنا ضروری رہے گا۔ اوراس مقصد کے لیے کم از کم ایک توپ اور 150آدمی درکار ہوں گے ۔ یہ دستہ‘ نیز لہڑی اور دھاڈر میں ہماری فوج کی موجودگی اس قبیلے کے شمالی کچھی اور درہ بولان کے آس پاس کارروائیاں کرنے کی قوت کو موثر طور پر روک دے گی ۔ یہ بات 25جنوری 1840کو لکھی گئی اور انہی خطوط پر فوری احکامات جاری کر دیے گئے۔ کاہان پر قبضہ کی تجویز پہلی بار لیفٹیننٹ آمائل نے دی تھی جو کہ بلوچ لیوی کا کمانڈر تھا۔ اس نے گزشتہ نومبر کو تجویز دی کہ غارتگروں کی بیخ کنی کے لیے دیسی انفنٹری کا ایک مضبوط دستہ وہاں رکھنا یا اس جگہ کو مسمارکرنا ضروری ہے ۔ 5فروری کو پوسٹانز نے اسے لکھا کہ کاہان پر قبضے کی تجویز منظور ہو گئی ہے ،جب کہ ڈیرہ بگٹی پر قبضہ کرنے کی اس کی اپنی تجویز نا منظور ہو گئی ہے ۔ اس لیے کہ ہر چند کہ بیورغ کے بیٹے اسلام خان اور احمد خان ابھی تک آزاد تھے ، صرف سردار اور اس کے سسر کو یرغمال بنا کر بکھر کے قلعے بھیجا جا رہا تھا جہاں پر اس کے ساتھ سلوک کا انحصاراس کے بیٹوں کے چلن پر ہونا تھا ۔
سرتھامس ولشائر نے (جس کی کمان میں قلات پر حملہ ہوا تھا) منصوبے کی منظوری دی۔ مگر اس کاخیال تھا کہ دستہ 300افراد پر مشتمل ہو۔ر اس بیل شملہ روانہ ہو گیا ۔اسے یقین تھا کہ اس کے ماتحتوں کی مدد کے ساتھ فوجی حکام اس کام کو کامیابی سے سرانجام دے سکیں گے ۔
مری بغاوت کے پیش منظر کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ہم اپنی اولین بڑی غلطی پر غور کرنے کے لیے رک سکتے ہیں ۔ اپریل 1841ء میں حادثہ کے بعد ہو شیار ہو کر حکومت ہند نے راس بیل کو اتنی دور اور دشوار گزار جگہ پر ایک چھوٹی سی پوسٹ قائم کرنے کے اس کے فیصلے کو عظیم غلطی سے تعبیر کیا ۔ او ر کاہان جیسے قلعے پر قبضہ کرنے کو غلط قرار دیا جہاں کہ ارد گرد کے علاقے سے ایک ایسے دستے کے ذریعے بہت کم اثر ڈالا جا سکتا ہے ۔ کمیٹی نے لکھا:’’ ہم نہیں جانتے کہ کس مقصد کی خاطر ایک ایسی پوسٹ پر قبضہ کیا گیا تھا ۔ ہمارے سامنے لیفٹیننٹ جیکب کی رپورٹ ہے جس میں اُس کوہستانی علاقے کا جغرافیائی خاکہ موجود ہے جہاں کاہان واقع ہے ۔ اس رپورٹ میں ان علاقوں میں سے ایک فیلڈ فورس کی پیش قدمی کرنے کی بھی سمت دی گئی ہے اور ہم نہیں سمجھتے کہ کاہان میں فوج رسل و رسائل کی کسی شاہراہ کو کھلا رکھے گی ۔ یا وہ ایک ایسی جگہ پر ہے جسے ایک ذخیرہ یا ڈپو بنایا جا سکے ۔ یا وہ جگہ کسی ایسی گریزن کو قائم رکھنے کے لیے اہمیت رکھتی ہو جس سے کہ آس پاس کے علاقے پر قبضہ قائم رکھا جا سکے ‘‘۔
پولیٹیکل ایجنٹ نے جواب دیا کہ وہ ایک فوج کے علاوہ جو مری قبیلے پر بھاری ہوتی کاہان کے قبضہ کی سفارش نہ کرتے ‘یہ کہ بریگیڈیئر سٹیونسن ( بالائی سندھ کے کمانڈر) نے اس کی شملہ روانگی سے پہلے اسے بتایا تھا کہ ایسا ہی ہو گا اور فوج کے لیے نومبر تک کا راشن موجود ہو گا ۔ یہ کہ حالانکہ کاکڑ اور براہوئی قبائل جون کے بعد سے بغاوتوں میں مصروف تھے ۔پھر بھی کاہان میں باقی ماندہ چھوٹے سے دستے نے بھی مریوں کو کچھی کے میدانوں میں لوٹ مار کرنے سے روکے رکھا۔ اور یہ کہ کاہان ایک ایسا مقام ہے جہاں سے کہ مری علاقے سے باہر کے درے نکلتے ہیں ۔
یہ جوابات بظاہر معقول لگتے ہیں مگر پولیٹیکل ایجنٹ نے اپنی غیر حاضری کے دوران اپنے ماتحتوں کو زیادہ اختیارات نہ دے کر ان کے ہاتھ عملاً باندھ رکھے تھے ۔ قبضے کے کافی اثرکے بارے میں ہمیں محض یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ کاہان میں فوج متعین کرنے کے باوجود بھی کچھی میں مریوں نے غارتگری جاری رکھی ۔ پوسٹانز نے براؤن کو لکھے گئے اپنے 11جون 1840ء کے خط میں ان کی طرف سے باغ پہ کی گئی کارروائیوں کا ذکر کیا ۔ اس کا مشاہدہ یہ ہے کہ ان کا نائب وہ کام نہیں کر رہا جس کی اُسے تنخواہ ملتی ہے ۔ یہ کہ شمالی کچھی لا قانونیت کا شکار ہے ۔ لیکن اگر گزشتہ سال کی بہ نسبت مریوں کے حملے کم ہوتے تو کیا یہ اُن کے درمیان موجود باقی ماندہ برطانوی فوج کو نیست و نابود کر دینے کی واثق امید نہ تھی اور ذخائر ، بارود اور اسلحہ کی ان کی بیش بہا مالِ غنیمت میں اضافہ کرنے کی شدید امید نہ تھی جس نے قبائلیوں کی بڑی تعداد کو ان کے اپنے علاقوں میں اس قصبہ کے قریب چوکنا اور مجتمع کیا تھا ۔
اگر فوج دوگنی بڑی بھی ہوتی‘ اسے خوب رسائل بھی دستیاب ہوتے اور وہ علاقے میں آنے جانے کے قابل بھی ہوتی تب بھی تو مری کچھی پہ اپنے حملے جاری رکھتے ۔ایک طرف جتنی دیرمیں فوج کا دستہ اپنا اناج اور بیل کھا جاتا تو دوسری طرف اتنی ہی دیر میں کوہستانی لوگ میدانوں سے دوبارہ اناج جمع کر لیتے ۔ اُس وقت ان کے علاقے کے چند زرخیز علاقوں وادی کاہان ، ماوند اور بانبور میں فصل کی ناکامی نے قبائلیوں کو کچھ زیادہ بے چین نہ کیا ۔ اس لیے کہ آج کل جیسے قلت کے زمانوں میں وہ مویشی چَرانے سندھ اور دیرہ جات جاتے ہیں ، کٹائی کے وقتوں میں مزدوری پا لیتے ہیں ۔
ابتدائی وقتوں میں وہ کچھی اور سبی کے علاقوں میں کٹائی کرنے والوں سے تلوار کے زور سے حصہ لیتے ہیں ۔ یہ حقیقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ راستوں کو کاہان کمان کرتاہے ۔ پہاڑی لوگوں کی خانہ بدوش آبادی سڑکوں اور گاؤں سے بے نیاز ہوتی ہے ۔ بلکہ وہ سوائے اناج اور پانی کے ہر چیز سے بے نیاز ہوتی ہے اوریہی پانی اور اناج جانی پہچانی راہوں سے دور جن جگہوں میں پائے جاتے ہیں وہ جگہیں صرف مریوں کو معلوم ہیں ۔ لہٰذا کاہان پر قبضہ قبیلے کو دہشت زدہ کرنے اور سبی اور درہ بولان کے علاقے میں اس کے بار بار کے حملوں کو روکنے کے لیے کیا گیا ۔ بلاّمور کی فوج کے ساتھ مری قبیلے کے رویے نے اُن کی اصل قوت کو ظاہر نہیں کیا ۔
انہوں نے جیکب کے کام کرنے والی پارٹی کے نیم دلانہ کام تک اپنے حملوں کو محدود رکھا جو کہ درہِ نفسک کو توپ خانے کے لیے قابلِ گزر بنانے میں مصروف تھی ۔ نتیجتاً شاید مریوں کو بگٹیوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا گیا جنہوں نے حملہ آوروں کے ساتھ طاقت آزمائی جاری رکھی تھی ۔ در اصل مری قبیلے کو اس کے بوڑھے سردار نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا ۔ اس کا مقصد فوج سے مد بھیڑ کرنا نہ تھا بلکہ اس کی نا گزیر واپسی کا انتظار کرنا تھا ۔ جس کے بعد وہ میدانوں میں اپنی غارتگر مہمات دوبارہ شروع کرنے میں آزاد ہوتے ۔ دودا خان کی پالیسی پہ مریوں کے اندر سر کش عناصر نے ناراضی کا اظہار کیا ۔ مگر بگٹیوں کو سزا ملنے اور ان کے سردار کی جلا وطنی نے دودا خان کے فیصلے کو دانشمندانہ ثابت کیا۔ بگٹی شاعر نے جس نے جنگِ نفسک کو بہادرانہ انداز میں شہرت دی‘ فرنگیوں کے ساتھ کسی قسم کی لین دین نہ کرنے پر دودا خان کی توصیف کی۔ بوڑھے سردارنے شاید برطانیہ والوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جو ان دو قبائل کو شاہ شجاع کی حکمرانی میں دینے کی اپنی جنونی سکیم پہ قائم تھے ۔
حکومتِ ہند نے 1840ء کی تباہی کے بعد جب پہلی بار ان وجوہات کی انکوائری کی جن کی بنا پر راس بیل نے کاہان کو ایک پوسٹ کی حیثیت دینے کی ٹھان لی ۔ تو اس نے جواب دیا کہ اس جگہ پر قبضہ کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی ۔ مگر یہ کہ بریگیڈیئر ولشائر، سٹیونسن اور وہ خود اس بات پر متفق تھے کہ ایک عارضی پوسٹ کے ذریعے اسے قبضہ میں لائے بغیر اس علاقے کو افغانستان میں شامل کرنا نا ممکن ہے۔ تب حکومتِ ہند نے یہ کہہ کر ان کی ذمہ داری کو قبول نہ کیا کہ ’’کونسل کے خیال میں اگر کچھی کو افغانستان میں شامل کر کے آپ مری قبیلہ کو آزادی کی اسی حالت میں رہنے دیتے جس میں کہ وہ قلات کی حکمرانی کے تحت تھے تو وہ ایک ایسے انتظام میں ناراضی کا اظہار نہ کرتے جس کے تحت وہ حقیقتاً بہت کم متاثر ہوتے، بہ نسبت پوسٹ کے قیام سے‘‘ ۔مگر جب انصاف اور کسی جواز کے بغیر قبیلوں اور ممالک کے مستقبل کا فیصلہ حکومت ہند کے حکم کے تحت ہو چکا تھا تو یہ یقیناًسرکار کے اعلیٰ وقار کے ساتھ میل نہ کھاتا اگر اس کے نوکر اس کے درندہ صفت تصورکو عملی شکل دینے کی کوشش نہ کرتے۔ جہاں تک میدانوں کی حفاظت کے مقصد کا تعلق ہے تو بالائی سندھ میں جیکب کے بعد والی کامیابی نے واضح کر دیا کہ میدانوں میں امن و امان کو کیولری پوسٹوں کے ذریعے بہت اچھی طرح سے برقرار رکھا جا سکتا تھا ۔ جن کے درمیان تمام موسموں میں مسلسل گشت جاری رکھا جاتا۔ مگر 1839 کے موسم گرما میں زندگیوں کے ہیبت ناک اتلاف کے بعد گورنر جنرل نے ہدایت کی کہ اپریل سے لے کر اکتوبر تک فوجوں کو سندھ اور کچھی میں سرگرم ڈیوٹیوں کے لیے متعین نہ کیا جائے۔ آمائل کی بلوچ لیوی کو بجار خان کے خلاف اس کی نا خوشگوار مد بھیڑ کے بعد جنوبی کچھی میں پولیس کے کام پہ روانہ کیا گیا تھا۔ وہاں اس کی ڈیوٹی روجھان‘ برشوری اور بھاگ کے راستے سے بڑی ڈاک لائن کی حفاظت کرنا تھی ۔
جیسے کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ میدانوں میں مریوں کی غارت گری زیادہ تر سبی اور بولان کے آس پاس ہوتی تھی۔ اس علاقے میں ہم نے دو پوسٹیں قائم کیں۔ ایک بلوچ خان ڈومبکی کے دارالخلافہ لہڑی میں ، جو کہ ہمارے ساتھ اس وقت دوستانہ انداز میں رہا جس وقت بجار خان اس قبیلے کی وحشی ارواح و عناصر کو لوٹ مار میں کمان کر رہا تھا ۔ لہڑی مری علاقے سے کچھی کے اندرونی علاقے تک کے اہم راستے کو کنٹرول کرتا تھا ۔ جب کہ دوسری پوسٹ درہ بولان کے دھانے پر واقع ڈھاڈر میں قائم کیا گیا ۔ وہاں ایک بڑا فوجی دستہ موجود تھا۔ اگر ان دونوں پوسٹوں کے درمیان سال بھر کیولری کی مضبوط افواج رکھی جاتیں تو سبی کے علاقے کو مریوں کی لوٹ مار سے موثر طورپر بچایا جا سکتا تھا۔ ان مقامات پر کبھی کبھار چارے کی قلت بذاتِ خود آس پاس کے علاقوں پہ حملے کرنے پر اکساتی جہاں پہ مستقل طورپر کاشت کاری ہوتی تھی ۔

Spread the love

Check Also

محمد حسن نظامی کی یاد میں ۔۔۔ عبداللہ جان جمالدینی

بلوچوں اور بلوچستان کی تاریخ میں دوشخصیتوں کا ذکر ہمیشہ ہوا کرے گا اور انکی ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *