Home » شونگال » سنگت کی سنگتی ۔۔۔ وحید زہیر

سنگت کی سنگتی ۔۔۔ وحید زہیر

بارش ہو برفباری ہو۔ دھماکے ہوں دھمکی ہو ہر طرف افراتفری ہو۔ سڑکوں پہ لگی نفری ہو، دوست زیادہ ہوں یا ان میں کبھی کمی ہو، میٹرو ، اورسی پیک کے نام پر کہیں اور ترقی ہو،بلوچستان میں خشک سالی وبدحالی ہو سنگت نے ہرحال میں چھپنا ہے۔ پیغام محبت وجدوجہد پھیلانا ہے ۔ اپنے عوام کی صحیح سمت میں رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا ہے ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری اس کا کرتا دھرتا ہے۔ صبح شام سر کھجاتے ہوئے کام کرتا ہے ۔ کم مواد میں بھی اسے خوب سجاتا ہے کبھی کبھار زیادہ مواد بھی خوب کھپاتا ہے ۔ بلاناغہ اِسے نام نہاد مارکیٹ میں لاتا ہے ۔ اس طرح تسلسل اور کمٹمنٹ کی مثال قائم کرتا ہے۔ اپنے چاہنے والوں کی چاہت اور محبت کی جانب دیکھتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں مستقل مزاجی۔
سنگت میں ادب ہے عالمی سیاست کی غضب ناکی ہے۔ کیوں اور کب ہے ۔ سنگت نے واقعی گذشتہ 20سال سے علم کی روشنی پھیلا کر اپنا حق ادا کردیا ہے ۔ اللہ کرے اس کی سنجیدگی اور عوام الناس کیے ساتھ سنگتی میں کمی واقعہ نہ ہو۔ یقیناًجب تک اس کے پڑھتے اور لکھنے والے تھکتے نہیں یہ مشن جاری وساری رہے گا۔
اس کے کاروان میں شامل نور محمد شیخ جیسے لوگ اسے تھکنے کہاں دیں گے۔ یہ ہندوسندھ میں اپنے قارئین کی جان ہے، جس کا بے چینی سے انتظا ر رہتا ہے ۔ اگر کسی نے لفظوں کی سر سنگتی کرنی ہے تو اُسے سنگت میں چھپنا ہوگا۔ خود کو قارئین تک سر کرنا ہوگا، سنگت سے باقاعدہ جڑنا ہوگا۔ سنگت انسانیت سے محبت کا ترجمان ہے۔ بلوچ معاشرے کا عکس ہے ۔ بلوچستان کی پہچان ہے ۔ذہنی بالیدگی کے لیے باعث امان ہے ۔ اس کے بطن سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز نکلا ، فنون لطیفہ، ادب اور سکالرز کو اکٹھابٹھانے، ایک دوسرے کو سننے کا باعث بنا۔ اس نے سمو راجہ ونڈ کا خواتین کو تحفہ دیا۔ اس کی کوششوں کا متبادل نہیں لیکن کیا کیا جائے اب کوئی عادل نہیں۔
یہ مست توکلی کا پرچہ ہے۔ یوم مئی کا حوالہ ہے
،ماما عبداللہ جان کا اس پر شفیق سایہ ہے ،کمال خان شیرانی کی دعاؤں کا سر مایہ ہے ۔ عورت نمبر اس کی جستجو کا حصہ ہے ۔ اس کو قلمکارکہلانے والوں کے نہ لکھنے پر تھوڑا بہت غصہ ہے ۔ اس میں لاہور ، سندھ کے قلمکار بھی چھپتے ہیں، مانوس وغیرمانوس شعراء ادبا اس کا حصہ بنتے ہیں۔ نئے لکھاری بھی اس میں جنتے ہیں، پرانے تو چھپ کر ہمارا لیڈر بنتے ہیں۔ اس کے ٹائٹل گونگوں کی زبان بھی بولتے ہیں ۔دکھوں، غموں اور کبھی سرخروئی کی کہانی بنتے ہیں۔ تاثیرمیں جو روح تک پہنچتے ہیں۔
ایک سے ایک نیا اداریہ چھپتا ہے۔ پوری دنیا کے مسائل اپنے اندر سمیٹتا ہے ۔ یہ اداریے شاباشیاں بھی لیتے ہیں تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ تنقید وہ جس سے مباحث کا پہلو نکلتا ہو۔ نظریاتی سنگتی مزید مستحکم ہو ،زمانہ اور وخت کی تبدیلیوں کا علم ہو۔
اس سے وابستہ بہت سے نوجوان سفید ریش ہوگئے سفید ریش پیرانہ سالی میں چلے گئے ۔ لیکن ان کے جذبات کبھی ٹھنڈے نہیں پڑے۔ ان کی سچائی کو کبھی انڈے نہیں پڑے ، ایک اچھے ذہین طالب علم کی طرح انہیں ڈنڈے نہیں پڑے۔ اس کے پلّو میں ہتھکنڈے کبھی نہیں آئے ۔ یہ صاف شفاف صحافت کا علمبردار ہے ۔ یقیناًاس راہ میں اصل چیز کردار ہے ۔ نہ یہ کوئی تھانہ ہے نہ ہی یہاں کوئی تھانیدار ہے ۔ نہ ہی کوئی نمبردار ہے۔
اس کے مقابل کوئی رسالہ نہیں جس سے مقابلہ کار جحان پیدا ہو۔اگر ایسا ہو تو مزید توانائی خرچ کرنا پڑے گی، مزید جان کا تیل جلانا پڑے گا، لکھاریوں میں سبقت لے جانے کی بازی ہوگی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہونہیں پارہا۔ کوئی مقابلے میں نہیں آرہا ۔اس کے باوجود کسی حد تک جاں کا تیل جل رہا ہے۔ وٹس ایپ ایس ایم ایس نے اس کے خوبصورت خطوط کو لائک،ڈس لائک میں بدل دیا ہے۔ اب ہم سب کے خوبصورت خیالات سے محروم ہوگئے ہیں۔ خط لکھنے والے لوگ ہی معدوم ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود محبوب آشنائی کے خطوط مضامین کی شکل میں چھپتے ہیں۔ حالانکہ خطوط بھی ایک تاریخ رقم کرتے ہیں ۔ ادب کے اس شعبہ کو اگنورنہیں ہونا چاہیے۔ خطوط چھپنے چاہییں۔ اسی سے تو اصل محبت کا پرچار ہوتا ہے۔
بلوچستان کا ادب ہی تو سنگت کا بہترین حصہ ہے ۔ اسی میں دکھوں کا واویلہ بھی ہے ۔ غموں کو شانتی ملنے کی کہانی بھی ہے ۔
یہ واحد رسالہ ہے جس نے یوسف عزیز مگسی ،آزات جمالدینی، بابو شورش اور اس کے قبیل کی سیاست ، صحافت کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے ۔ دست بردِ زمانہ سے ان کے خوبصورت خیالات کو محفوظ رکھا ہے ۔
سوشلسٹ نظام معیشت کے افکار کو زندہ رکھنے میں اِسے کمال ملکہ حاصل ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کے خلاف سرمایہ دارانہ نظام کے داؤ پیچ ہمیشہ آزمائے گئے ۔ مگر آج دنیا میں اس نظام کی حقیقت پر بولا جارہا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام تھک ہار کر ابھی سستانا چاہتا ہے مگر اُسے ابھی تک محفوظ سایہ نصیب نہیں ہورہا۔جس روز اسے محفوظ سایہ نصیب ہوگا یہ ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جائے گا اور سوشلزم سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے جہاں دنیا بھر کی تحریکوں کو کمزور کردیا ہے وہیں اسلامی امن کے درس کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔سنگت اس کہانی کا اصل راوی ہے ۔ جس نے برسوں میں تمام نشیب وفراز کو قریب سے دیکھا ہے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *