Home » پوھوزانت » پولٹیکل اکانومی ۔۔۔ پوہیں مڑد

پولٹیکل اکانومی ۔۔۔ پوہیں مڑد

غلام داری سما ج میں طریقہ پیداوار

غلامی انسانی تا ریخ میں استحصال (لوٹ) کی بہت ہی بھدی اور اولین صو رت ہے ۔ ماضی میں تمام انسانو ں میں غلامی کے رواج کا پتہ چلتا ہے ۔ غلامی کا رواج سب سے پہلے قدیم ایشیا میں ہوا جہاں ابتدائی اشتر ا کی سماج ختم ہوا تو اس کی جگہ غلام داری سماج نے لے لی ۔میسوپو ٹامیہ( عراق)میں ابتدائی اشترا کی سماج ختم ہو نے کے بعد جو سمیری اثیری اور بابلی تہذیبیں ابھریں وہ سب غلام داری سماج کی بنیاد پر قائم ہوئیں ۔میسو پو ٹا میہ (عراق )میں غلام داری سماج کی بنیاد ولادتِ مسیح سے کم وبیش چار ہزار سال قبل پڑی ۔اسی زمانے کے لگ بھگ مصر ،ہندوستان اور چین میں غلام داری سماج کی ابتداکا پتہ چلتا ہے ۔ خوار زم (وسط ایشیا ) میں غلام داری سماج کی بنیا د پر ایک وسیع سلطنت قائم ہو ئی جس کا قیام آٹھویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی سن عیسوی تک 1300سال پر مشتمل تھا ۔یو نان میں غلام داری سماج پانچو یں اور چھٹی صدی میں (ق ۔م ) پورے عروج پر تھا ۔ایشائے کو چک میں چو تھی صدی (ق ۔م )میں غلام داری سماج قا ئم ہو ا۔غلام داری سماج کی سب سے بڑی سلطنت رمتہ الکبری تھی جو چار سو سال پو ری شان و شو کت سے قائم رہی۔
ایشیا میں غلام داری سماج کے دوران جو کلچر کی ترقی ہو ئی اس کا یو رپ کی سماجی نشونما پر زبر دست اثر پڑا۔
ابتدا میں غلام کو گھر کا ایک فرد سمجھا جاتاتھا اور ا س کے ساتھ شفقت کا بر تاؤ کیا جاتا تھا ۔شروع شروع میں غلام کی محنت سماج کی پیداوارمیں ثانوی حیثیت رکھتی تھی کیو نکہ پیداوار کا مقصد قبیلے کی ضرورت کی تکمیل تھا ۔چونکہ تجارت کو فر و غ نہیں ہوا تھا ۔اس لئے پیداوار جنسِ تبادلہ نہیں بنی تھی ۔ آقاؤ ں کو غلامو ں پر لا محدوداختیار حاصل تھے ۔چو نکہ غلام کی قوتِ محنت کو کام میں لانے کے وسائل محدود بھی تھے اس لئے اس کی قوتِ محنت کے استحصال کی جو صورتیں بعد میں بنیں وہ مو جو د نہ تھیں ۔
جب پیداواری قوتو ں میں مزید ترقی ہو ئی محنت کی تقسیم اور بڑھی ۔اشیا کے تبادلے (تجارت ) نے فر و غ پایا تو ابتدائی اشترا کی سماج کے غلام داری سماج میں تبدیل ہو جانے کے مادی حالات پیداہو گئے ۔
جب انسان پتھر کے آلات پیداوار کی جگہ لو ہے کے آلاتِ پیداوار بنانے لگا تو اس تبدیلی سے اس کی قوت محنت کا دائرہ عمل وسیع ہو گیا ۔دھونکنی کی ایجاد نے لو ہار کو اس قابل بنادیا کہ وہ لو ہے کے مضبو ط ہتھیا ر بنا لے ۔لو ہے کی کلہاڑی انسان کے ہاتھ میں ایساہتھیار آگیا جس سے وہ جنگلو ں کو صاف کر نے کے قابل ہو گیا اور لو ہے کے پھالے کی مدد سے لکڑی کے ہل کے مقابلے میں زیادہ بڑی زمین کے قطعات کو زیر کاشت لے آیا ۔اب اس نے جنگلی جانوروں کے شکار سے خوراک حاصل کرنے کا کام چھو ڑ کر کاشت کاری اختیار کر لی ۔وہ مو یشی پالنے لگا۔اس منزل پر پہنچ کر دستکاری نے ایک علیحدہ شعبہ کی صورت اختیار کر لی ۔کاشت کاری اور مو یشی پالنے کے کامو ں میں انسان کے طاق ہوجانے سے زرعی پیداوار بڑھی۔اب اس نے انگور کی بیلیں ،السی ،سروں ،تو ریا اور تل جیسی جنسو ں کی کاشت بھی شروع کر دی ۔دولت مند گھرانو ں کے مو یشیو ں کے ریو ڑ اور گلے بڑھنے لگے اور اُن کے چرانے اور دیکھ بھا ل کرنے کے لئے زیادہ انسانو ں کی ضرورت محسوس ہو نے لگی ۔کپڑابننے ،برتن بنانے اور لو ہے کے آلات گھڑنے اور ڈھالنے کے فن نے آہستہ آہستہ ترقی کی ۔اس سے پہلے کاشت کاری اور مویشی پال کے کام زیا دہ اہم اور دستکاری ضمنی کام تھا ۔جسے کاشتکار اور چرواہے خود ہی کر لیاکرتے تھے ۔ مگر جب دستکاری کے کام نے ایک علیحدہ شعبہ کی صورت اختیار کر لی تو قوتِ محنت میں تقسیم عمل میں آگئی جو قوتِ محنت کی سماجی تقسیم کا دوسرابڑاعمل ہے۔ جس سے دستکاری اور زراعت کی علیحدہ علیحدہ نشونما ہونے لگی۔ اس تقسیم کے نتیجے میں تبادلے کے لیے پیداوارکی جانے لگی جو ابتدا میں معمو لی تھی ۔اس تقسیم سے محنت کی کارکردگی اور صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ جس سے پیداوار بڑھی ۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے سماج کے ایک مختصر گروہ کے ہاتھو ں میں دولت کے جمع ہو نے اور کام کرنے والو ں کی اکثریت کی محرومی ومحکومی اور غلامی کی مادی بنیاد پڑگئی اور اس طر حمحنت غلامی بن گئی۔
ابتداء میں غلام داری سماج کی معیشت بنیادی طو ر پر فطری تھی ۔فطری معیشت میں پیداوار کا تبادلہ عمل میں نہیں آتا بلکہ مقامی ضروریات میں استعمال ہوتی تھی ۔ لیکن غلام داری سماج میں یہ صورت زیادہ دیر قائم نہ ر ہ سکی ۔اضافہِ پیداوار کے ساتھ اشیا کا تبادلہ ہو نے لگا ۔پہلے دستکار، قبیلے کے لو گو ں کے لیے وہ اشیا بناتے تھے جن کی وہ خواہش کرتے تھے لیکن بعد ازاں وہ تبادلے کے لیے بنانے لگے۔ شروع شروع میں دست کا ر دستکاری کے کام کے علاوہ معمولی پیمانے کی کاشت کاری بھی کرتے تھے ۔کاشت کار پہلے اپنی ضرورتیں پو ری کر نے کے لیے غلہ پیدا کرتے تھے مگر بعد ازاں وہ اشیائے ضرورت دست کاروں سے بدل لینے کے لیے بھی اجناس پیدا کرنے لگے اور سرکاری واجبات کی ادائیگی کے لیے بھی اپنی پیداوار کا ایک حصہ منڈی میں لے جانے پر مجبور ہوگئے ۔اور اس طر ح دستکاروں اور کاشت کاروں کی محنت سے پیدا کی جانے والی پیداوار نے جنس تبادلہ کی شکل اختیار کر لی ۔
جنس تبادلہ اس پیداوار کا نام ہے جو ذاتی استعمال کے لیے نہیں بلکہ تبادلے اور منڈی میں بیچنے کے لیے پیداکی جاتی ہے۔ جب اشیا کی پیداوار تبادلے کی غر ض سے ہو نے لگتی ہے تو اس معیشت کو جنسِ تبادلہ کی معیشت کہتے ہیں ۔غر ض اس طر ح دست کاری اور زراعت کی ایک دوسرے سے علیحدگی اور دست کا ری کا الگ شعبہ وجو د میں آجانے سے جنس تبادلہ کی معیشت کا آغا ز ہو گیا ۔
جب تک پیداوار کے تبادلے کی حیثیت ضرورت کی بنا پر لین دین کی رہی تو پیداوار کا تبادلہ براہ راست ہو تا تھا لیکن جب تجارت کو فر وخ ہوا تو تبادلہ کا پیمانہ ایک ایسی شئے قرار پائی جس سے اشیاکا تبادلہ ہو نے لگا ۔اس طر ح تجارت میں زر کے نظام نے قدم رکھا ۔
زر ایک ایسی جنس تبادلہ ہے جس سے دوسری اشیائے تبادلہ کی قیمتیں مقررکی جاتی ہیں اور جو تبادلے کے عمل میں پیمانے کا کام دیتی ہے ۔مثلاً تجارت کی ابتدائی شکل میں کسان اپنا غلہ بیچتا تھا اور رائج الوقت سکہ لے کر اس سے اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیتا تھا ۔جبکہ سکے کے رواج سے قبل وہ براہ راست دستکار کو اپنی پیداوار دے کر اشیائے ضرورت لیتا تھا ۔جس شے نے سکے کی صورت اختیار کی وہی زر کہلائی ۔بعد میں یہ شے چاندی اور سونا قراردی گئی ۔
دستکاری کی نشو ونما اور تجارت کے فرو غ سے شہروں کی ابتدا ہو ئی۔ غلام داری سماج کے آغاز کے ساتھ ساتھ شہر نمو دار ہوئے ۔ ابتدامیں شہروں اور دیہات میں کو ئی خاص فر ق نہ تھا لیکن جب دست کا ر اور تا جر شہر وں میں جمع ہو نے لگے تو شہر اور دیہات میں ایک نمایاں فر ق پیدا ہو گیا ۔یہ فر ق کا رو بار زندگی اورر ہن سہن کے طو ر طر یقو ں کا تھا ۔ ا س طر ح شہر دیہات سے الگ حیثیت اختیار کر گئے اور ان میں بنیادی فر ق پیدا ہو گیا ۔
جو ں جو ں اشیا ء کے تبادلہ میں اضافہ ہواتا جر دور دور تک پھیل گئے ۔تا جر انسانو ں کا وہ گر وہ تھا جو پیدا کر نے والو ں سے اشیاء خریدتا اور قر یب یا دور کی منڈیو ں میں یہ اشیا ضر ورت کے خریدارو ں کے ہاتھو ں بیچتا ۔پیداوار کے اضافے اور تجارت کے فر وغ نے سماج میں عدم مساوات کو بڑھادیا ۔مو یشی ، آلاتِ پیداوار ، بیج ، روپیہ اور،زرامیر لو گو ں کے ہاتھو ں میں جمع ہو تے چلے گئے ۔ اور وہ دولت مند بن گئے ۔غریب لو گ اِن امیر لو گو ں سے ضرورت کے وقت قر ض لینے پر مجبور ہو ئے جسے وہ کبھی جنس کی صو رت میں لیتے اور کبھی روپیہ کی شکل میں ۔امیر لو گ انہیں آلات پیداوار اور بیج اور روپیہ کی شکل میں قرض دیتے تھے اور ان سے قبالہ غلامی لکھوالیتے تھے اور قرض ادانہ ہو نے کی صورت میں انہیں اپنا غلام بنا لیتے تھے اور ان کی زمینو ں کے مالک بھی بن بیٹھتے تھے ۔اس طر ح دنیا میں سود خو ری کا رواج ہوا اور وہ مر حلہ پیداہو گیا جس کے نتیجے میں زمین کی خرید وفر و خت اور رہن رکھنا شروع ہو گیا اور زمین نجی ملکیت بن گئی ۔بڑے قطعات کے مالک مشترکہ چراگاہو ں اور شاملات دیہہ کے رقبوں کو بھی ہتھیانے لگے ۔امیر آقاوں کے ہاتھ زمین اور روپیہ کے علاوہ غلامو ں کی بڑی تعدادبھی آگئی ۔خو د کاشت کی بنیا د پر زراعت ختم ہو تی چلی گئی۔ اوراس کی جگہ غلام داری کی معیشت کی جڑیں مضبوط ہو تی چلی گئیں اور آہستہ آہستہ زراعت اور دستکاری کے علاوہ پیداوارکے دوسرے شعبو ں میں غلام داری کی معیشت چھاگئی ۔اینگلز نے ’’ خاندان ، نجی ملکیت اور ریاست ‘‘ میں لکھا کہ ’’پیداوار میں متواتر اضافے نیز صلاحیتِ محنت اور کا ر کر دگی میں اضافے نے انسانی قوت محنت کی قدر وقیمت بڑھا دی ،اور اس طر ح غلامی جو ابتدائی شکل میں تھی سماج کے نظام کا اہم حصہ بن گئی ۔غلام اب صرف پیداواری عمل میں مددگار نہ رہے بلکہ کھیتو ں اور ورکشاپو ں میں ان کی بڑی تعدادسے کام لیا جانے لگا ‘‘ ۔

مختصر یہ کہ غلام کی محنت سماج کی زندگی کی بنیاد بن گئی اور سماج دو مخالف طبقو ں یعنی غلامو ں اور آقا ؤ ں میں بٹ گیا ۔غلام داری سماج میں ایک طر ف آزاد تھے اور دوسری طر ف غلام ۔آزاد لو گو ں کو ہر قسم کے سیاسی و سماجی حقو ق حاصل تھے البتہ عو رتیں ان حقو ق سے محروم تھیں جنکی سماجی حیثیت غلاموں جیسی تھی ۔غلام ہر قسم کے حقوق سے محروم تھے ۔اور کبھی ان آزاد انسانو ں کی صفو ں میں شامل نہیں ہو سکتے تھے ۔آزاد لو گ بھی دو حصو ں میں منقسم تھے ۔سینکڑو ں غلاموں کے آقا اور وسیع قطعات اراضی کے مالکو ں کا ایک گر وہ تھا۔ دوسراگر وہ دستکاروں اور خو د کاشت کرنے والے آزاد لوگو ں کا تھا ۔دوسرے گروہ میں جو صاحبِ حیثیت تھے وہ بھی غلامو ں کے آقاتھے ۔ اور ان کی محنت سے فا ئدہ حاصل کر تے تھے ۔پر وہت اور مذہبی آقاؤں کے وبستگان تھے ۔
غلامو ں اور آقاوں کے طبقاتی تضاد کے علاوہ دوسرا طبقاتی تضاد بڑے مالکو ں اور خود کاشت کرنے والوں کے مابین تھا ۔لیکن چو نکہ غلامو ں کی محنت بہت سستی تھی اس لئے پیداوار کے تمام شعبو ں میں اسی کو استعمال کیا جانے لگا اور سما ج کا بنیاد ی تضاد آقاو ں اور غلامو ں کا تضاد بن گیا ۔
سماج کی طبقاتی تقسیم نے ریاست کی ضرورت پیداکر دی۔ محنت کی تقسیم اور تجارت کے فر وغ کو ایک دوسرے کے ساتھ باند ھ دیا اور قبیلائی نظام کا پہلاکردار ختم ہو گیا ۔قبائلی نظام کے سماجی ادارے غلامو ں پر غلبہ رکھنے کے ادارے بن گئے اور غلامو ں کو لو ٹنے اور دبانے کے علاوہ پڑوسی قبیلوں کو لو ٹنے اور دبانے کا کام کرنے لگ گئے ۔قبیلو ں کے سردار اوقاتِ جنگ کے قائد اب بادشاہو ں اور راجا ؤ ں کے چو لو ں میں نمودار ہو ئے ۔پہلے قبیلو ں کے لو گ انہیں خو د بطو ر سردار چنتے تھے ۔ ان قبیلے کے افراد سے نہ تو حیثیت الگ ہو تی تھی اور نہ ہی حقوق الگ ہو تے تھے۔ مگر اب وہ آقاؤ ں اور بڑے مالکو ں کے مفادات کی حفاظت کا کام سر انجام دینے لگے اور اس مقصد کے لیے مسلح جھتے رکھنے لگے ۔درباری کا آغاز ہوا اور ان کی حکم عدولی کرنے والو ں کے لیے تعزیر یں مقررکی گئیں ۔اور اس طر ح ریاستی اقتدارسماج میں پیداہوا ۔
لینن نے اپنے ایک مضمون ’’ریاست ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’جب سماج میں طبقات پیداہو گئے ۔جب غلامی کا رواج ہو ا‘اور جب انسانی محنت زائد پیداوار کرنے کے قابل ہو ئی جو اس پیداوار کو پیداکرنے والے غلام کی کم سے کم ضرورت سے زیادہ بنتی تھی تب اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے ریاست کا وجو د نا گزیر ہو گیا‘‘ ۔ ریاست کا وجو د اس لئے ضروری ہو گیا کہ لو ٹی جانے والی اکثریت کو اقلیت کے مفاد کے لیے قابو میں رکھا جائے ۔ریاست نے غلام داری سماج کے پیداواری رشتو ں میں استحکام پید اکرنے میں اہم رول اداکیا اور غلامو ں کو محکو می میں رکھا۔ اس طر ح ریاست عوام کو دبانے اور ان پر غلبہ رکھنے کی ایک مضبو ط مشین بن گئی ۔یو نان اور رومہ کی شہری جمہوری ریاستیں جن کی بور ژوا مو رخ تعریفیں کرتے ہیں ان میں غلامو ں کو مطلق کسی قسم کے حقوق حاصل نہ تھے ۔

غلام داری سماج کے پیداواری رشتے

غلام داری سماج کے پیداواری رشتو ں کی بنیاد یہ تھی کہ نہ صرف ذرائع پیداوار بلکہ غلام بھی آقاؤ ں کی ملکیت تھے ۔غلام کی حیثیت آلاتِ پیداوار سے مختلف نہ تھی ۔آقاؤ ں کو غلامو ں پر مکمل اختیار ات حاصل تھے ۔اس سماج میں غلامو ں کی محنت کا استحصال ہی نہ ہو تا تھا ۔بلکہ ان کی حیثیت مو یشیو ں سے زیادہ نہ تھی۔آقاوں کو انہیں جان سے مار ڈالنے تک کے اختیارات تھا ۔ ابتدائی سماج میں جب غلامی کا رواج ہو اتوغلام کو کنبے کا فر د سمجھا جاتا تھا ۔لیکن غلام داری سماج میں وہ انسان بھی نہ رہ گیا تھا ۔
مارکس نے غلام داری سماج میں غلام کی حیثیت کا ذکر کر تے ہوئے لکھا ہے ۔’’غلام آقاکے پاس اپنی قوت محنت نہیں بیچتا تھا ۔اس کی حیثیت تو بیل کی سی تھی ۔جو کسان کے پا س اپنی قوتِ محنت نہیں بیچتا ۔غلام اپنے آقا کے پا س بک جا تا اور اس کے اس کی حیثیت بیل سے زیا دہ نہ رہتی تھی ‘‘۔
غلام کی محنت جبر یہ تھی۔ غلامو ں کو اپنی جسمانی قوت سے کام کر نا پڑتا تھا۔ انہیں چا بک سے ہا نکا جا تا تھا۔ معمولی سے معمولی لغزش کی سزاسخت تر ین ہو تی تھی ۔ غلامو ں کی پیشانی کو داغاجا تا تھا تاکہ اگر وہ بھاگ نکلیں تو پکڑنے میں آسانی ہو ۔ بعض آقاان کے گلو ں میں لو ہے کے پٹے ڈال دیتے تھے جن پر اُن کے آقاوں کا نام لکھا ہو تا ۔بعض کے کانو ں میں بالیا ں ڈال دی جاتی تھیں ۔’’ حلقہ بگو ش ‘‘ لفظ اسی زمانے کی یا د گا ر ہے جو غلامو ں کے لیے استعمال ہو تا تھا ۔
آقاغلامو ں کی محنت سے حاصل ہو نے والی ساری پیداوار لے لیتا تھا اور انہیں صرف معمولی خوراک دی جاتی تھی تا کہ وہ زندہ رہیں اورکام کرنے کے قابل رہیں ۔و ہ غلام کی محنت سے پیداکر دہ تما م اشیا ء ساری کی ساری لیتا تھا ۔اور اس کے پاس اتناچھو ڑ دیتا تھا جو اس کی بنیا دی ضروریات کے لیے بھی کافی نہ ہو تا تھا ۔
جو ں جو ں غلام داری سماج میں تر قی ہو ئی غلامو ں کی مانگ بڑھی ۔بہت سے ملکو ں میں غلامو ں کے اہل و عیال نہیں ہو تے تھے ۔غلامو ں سے اتنی زیادہ محنت لی جاتی تھی کہ وہ بہت جلد مر جا تے تھے ۔ اس لئے غلامو ں کی کمی کو پو راکرنے کے لیے جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔چنانچہ اس دور میں غلام حاصل کرنے کا اہم ذریعہ جنگ تھا ۔
ایشیاء میں غلام داری سماج میں جو سلطنتیں قائم ہو ئیں وہ غلامو ں کے حاصل کر نے کے لیے دوسرے ملکو ں پر اکثر فو ج کشی کیا کرتی تھیں ۔ اور ہزاروں کی تعدادمیں لو گو ں کو غلام بنالیتیں ۔
قدیم یو نان کی تا ریخ ایسی جنگو نسے بھری پڑی ہے رومتہ الکبریٰ کی سلطنت اکثر جنگ کی حالت میں رہتی تھی اور غلامو ں کو حاصل کرنے کے لیے یو نان نے اسوقت کی آباد دنیا کو فتح کر لیا جنگ میں مفتو ح سپاہیو ں ہی کو غلام نہیں بنایا جاتا تھا مفتو حہ علاقے کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو بھی غلام بنا لیا جا تا تھا ۔
مفتوحہ علاقے غلام حاصل کرنے مستقل ذریعہ تو تھے ہی فا تح ان علاقو ں سے غلامو ں کے علاوہ پیداوار بھی سمیٹ لیتے ہیں ۔غلامو ں کی تجارت کی بڑی بڑی منڈیا ں قا ئم ہو ئیں جن میں دور دراز سو تاجر آکر غلامو ں کی خرید فرو خت کرتے تھے ۔
غلام دار ی سماج کے طر یق پیداوار سے پیداواری قو تو ں کی ترقی کے لیے امکانات بڑھے اور اس سماج میں پیداواری قوتو ں کو ابتدائی سماج سے زیادہ ترقی ہو ئی ۔جب ریاستو ں اور آقاوں کے پا س غلامو ں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تو انہو ں نے ان کی قوت محنت سے پیداوار کو بڑاھا یا اس عہد مین چین ،ہندوستان ،مصر ،اٹلی ، یو نان اور وسط ایشیا میں غلامو ں کی محنت سے نہریں ،سڑکیں ، پل ،قلعے اور محل تعمیر ہو ئے ۔اہر ام مصر بھی اسی دور کی یا د گا ر ہیں ۔اس عہد کی تمام یا د گا ریں غلامو ں کی محنت کا نتیجہ ہیں ۔
غلام داری سماج میں سماجی محنت کی مزید تقسیم عمل میں آئی اورزراعت اور دستکاری نے مزید ترقی کی۔ تقسیم محنت سے محنت کی کارکردگی میں اضافہ ہوا۔
یونان میں غلاموں سے دستکاری کرائی جا تی بڑی بڑی ورکشاپیں قائم تھیں جن میں درجنو ں غلام بیک وقت کام کرتے تھے ۔کان کنی کے کام میں غلامو ں کو لگا یا گیا ۔لو ہا سو نا اور چا ندی کے کا نو ں سے نکالنے کا کام غلام ہی سر انجام دیتے تھے۔ اسی طر ح تعمیرات کا کام بھی غلامو ں سے لیا جا تا رہا ۔رومہ میں غلا مو ں کو کھیتی باڑی کے کام میں لگایا گیا۔ غلاموں کے مالک اشرافیہ طبقے کے لوگ بڑے بڑے قطعات اراضی کے مالک تھے۔ ان قطعات میں ہزاروں غلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ غلاموں کی محنت بے حد سستی تھی۔ وہ ہزار روں کی تعداد میں اپنے آقاوں کی زمینو ں کو کاشت کرتے تھے ۔ان کی محنت سے زرعی اجناس بہت پیداہو نے لگیں ۔ چھو ٹی خو د کاشت کسان ان بڑے مالکوں کا کھیتی باڑی میں مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ اس لیے خودکاشت ختم ہوگئی اور خود کرنے والے کسان غلامو ں کی صفو ں میں شامل ہو تے گئے یا شہرو ں میں غریب اور بیکار لو گو ں کی تعدادمیں اضافہ کا با عث بنے ۔
ابتدائی سما ج سے غلام داری کا سماج تک کے عبو ری دور اور دیہات کا تضاد ابھر آیا تھا اور جو ں جو ں غلام داری کا سماج مستحکم ہو تا گیا ۔ یہ تضادگہراہو تا گیا غلامو ں کے آقاء اشرافیہ طبقہ کے لو گ ۔تا جر ،سود خور اور ریا ست کے اہلکار شہروں میں جمع ہو گئے یہ سب دیہاتی آبادی کو لو ٹنے تھے اس وجہ سے شہرو ں ااور دیہات کے تضادمیں شدت پیداہو ئی ۔
اس عہد میں معیشت اور ثقافت میں خاص تر قی ہو ئی ۔چو نکہ اس عہد میں غلام آسانی سے دستیاب ہو جاتے تھے اس لئے ٹیکنیکل تر قی بہت کم ہو ئی ۔غلامو ں کی محنت کی امتیازی خصو صیت یہ تھی کہ ان میں پیداوار بڑ ھا نے میں کو ئی دلچسپی نہیں تھی وہ کا م سے جی چراتے تھے ۔غلامی کی زندگی کے خلاف وہ گا ہے گا ہے اپنے غم و غضے کا اظہا ر آلات تیار کئے اور غلامو ں سے ان کے ذریعے کام لینے لگے ۔
یہی وجہ ہے طریق پیداوار غلام داری سماج میں بہت پست رہا ۔سائنسی امو ر میں جو تھو ڑی بہت تر قی ہو ئی اس عہدمیں اسے بھی پیداواری عمل میں نہیں لا یا گیا البتہ جنگ کے ہتیھیارو ں اور تعمیرات میں کام آنے والے آلات میں ضرور تر قی ہو ئی ۔ غلام داری سماج کے طر یقہ پیداوار میں کئی صدیو ں کے بعد بھی تبدیلی نہ آئی اور ایسے ایسے آلات اور پیداواری عمل میں استعمال کئے جاتے رہے جو بھا ری اور بھدے تھے ۔پیداوار کی بیادی قوت غلامو ں اور مو یشیو ں کی جسمانی قوت ہی رہی ۔چو نکہ پیداوار کے تمام شعبو ں میں غلامو ں سے کام لیا جا تا تھا اس لئے آقاہرقسم کی محنت و مشقت سے آزاد تھے اور تمام کام غلام ہی کرتے تھے ۔غلامو ں کے آقا جسمانی محنت کے نام پر ناک بھو ں چڑھا تھے اور ان کے نزدیک یہ کام صرف غلامو ں کا تھا ۔غلام داری سماج میں غلاموں کے آقاؤ ں کا کام ریا ست کا کام چلاتااور عملی مشاغل میں حصہ لینا تھا۔اس طبقے کے پا س فر صت ہی تھی اس لئے اس نے سیاست اور سائنس میں دلچسپی لی جس سے سائنس اور علم و ادب میں خاصی ترقی ہو ئی ۔

غلام داری سماج میں ذہنی اور جسمانی کا م کرنے والو ں میں تفریق پیداہو ئی اورتفریق بہت بڑھ گئی ۔غلام داری سماج کے پیداواری رشتو ں کی خصو صیت یہ تھی کہ اس میں آقاغلامو ں کا استحصال کر تے تھے ۔ایشیا ئی ملکو ں میں معیشت کی فطری حیثیت غالب رہی فطری معیشت کی خصوصیت یہ تھی کی اس میں پید اوار مقامی استعمال کے لیے ہو تی تھی لیکن یو رپ میں معیشت کا یہ پہلو زیا دہ غالب نہ تھا ۔یہا ں غلام ریاست ۔آقاو ں اور معبدو ں کے لیے کام لیا جا تاتھا ۔چین ، ہندوستا ن اور مصر میں صرف غلامو ں کا استحصال ہی نہیں ہو تا تھا خو د کاشت کسانو ں کی آبا دیو ں کو بھی لو ٹاجا تا تھا ۔خو د کا شت کسان اکثر قر ض لینے پر مجبو ر ہو تے تھے اور ان میں سے جو قر ض ادانہ کر سکتے تھے سود خوروں کے غلام بن جاتے تھے ۔
ایشیا ء میں اس عہد میں زمین کی مشترکہ ملکیت تھی ۔ریاست کی ملکیت میں بڑے بڑے قطعات اراضی ہو تے تھے ۔چو نکہ ان ملکو ں میں قدرتی وسائلِ آبپاشی کم تھے اور با رش ساراسال نہ ہو تی تھی ۔اس لئے مصنوعی آبپاشی کا نظام وجو د میں آیا اور نہر یں کھو دی جا نے لگیں۔ نہریں بنانے، تالاب کھو دنے اور بندات باندھنے کے لیے لا کھو ں انسانو ں کی ضرورت تھی ۔وسائل آبپاشی کی تکمیل اور دیکھ بھا ل کا کام ریاست کے ذمہ تھا۔ مصنو عی آبپاشی زراعت کے لیے شر طِ اول تھی ۔ اور یہ کام مرکزی حکو مت ہی سر انجام دے سکتی تھی ۔ان ملکو ں میں کسانو ں پر بھا ری ٹیکس عائد کئے جاتے تھے اور انہیں مختلف قسم کے فر ائض بیگا ر میں سرا نجام دینے پڑتے تھے ۔ ان کسانو ں کی حالت غلا مو ں سے کسی طر ح بہتر نہ تھی۔ غلام داری سماج میں یہ بستیا ں مطلق العنان شہنشاہیت کی بنیاد بنیں ۔
غلام داری سماج میں غلامو ں کے آقاپیداوار کو اپنی ذاتی عیاشی میں صرف کر تے تھے ۔ وہ سو نا چاندی اور جو ہرات جمع کرتے اور عظیم الشان محلات بناتے ،قلعے تعمیر کرتے اور معبد بناتے تھے ۔اہرام مصر جو آج بھی قائم ہیں لا تعداد غلامو ں کی محنت کا نتیجہ ہیں اور ان کا وجو د اس با ت کی دلیل ہے کہ ان گنت غلامو ں کی بے پناہ محنت اس کام پر صرف کی گئی تھی ۔غلامو ں کی محنت سے پیدا کی گئی پیداوار کا بہت تھو ڑاحصہ ذرائع پیداوار کو تر قی دینے کے لیے خر چ کیا جا تا تھا ۔ اس عہد میں تبا ہ کن جنگیں لڑی گئیں جن میں پیداواری قوتیں تباہ ہو ئیں شہر اور بستیا ں اجڑ گئیں ۔
غلام داری سماج کے معاشی نظام کا بنیادی قانون یہ تھا کہ غلامو ں کی محنت سے پیدا کی گئی پیداوار غلامو ں کے آقا اپنی عیاشیو ں پر خر چ کرتے تھے اور آقاؤں کو اس پیداوار پر مکمل اختیا ر تھا ۔اس عہد میں دستکا رو ں اور خو د کا شت کسا نو ں کو بھی غلام بنایا گیا ۔ اور دوسرے ملکوں پر فوج کشی کی گئی اور مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو بھی غلام بنایا گیا۔
تجار ت کو ترقی
تا جر و ں اور سود خورو ں کا سر مایہ
غلام داری سما ج میں پیداوار غلامو ں کے آقاؤ ں، ان کے ملازمو ں اور خدمت گا روں کے کام آتی تھی اور ابتدامیں یہ پیداوار تبادلے کے لیے نہیں کی جا تی تھی۔ لیکن اس کے با وجو د تجارت کو فر و غ ہوا اور پیداوار کا ایک حصہ جنسِ تجارت بنا اور منڈی میں جا کر فر وخت ہو نے لگا ۔جو ں جو ں تجارت کو فر و خ ہوا زر کا نظام پھیلا۔ چر واہی قبیلو ں میں پہلے پہل مو یشی تبادلے کا ذریعہ بنے لیکن مو یشی آہستہ آہستہ چاندی اور سونے میں تبادلے کا پیمانہ بن گئے ۔اور قدیم ایشیائی ملکو ں میں دھا ت نے سکے کی صورت اختیار کر لی ۔ کا نسی ،چاندی اور سو نے کے سکے استعمال کیے جانے لگے ۔یہ رواج تین ہزار سال قبل مسیح میں ہوااور ساتو یں صدی قبل مسیح میں ان دھاتوں کے باقاعدہ سکے ڈھالے جانے لگے۔ یونان میں آٹھویں صدی قبل مسیح،رومہ میں پا نچویں صدی قبل مسیح میں تا نبے کے سکے بنتے تھے ۔ لو ہے اور تا نبے کے سکو ں کی جگہ چاندی اور سونے کے سکوں کا رواج بہت بعد میں ہو ا ۔یو نان کی شہری ریاستیں دور دراز تک تجارت کرتی تھیں ۔بحر روم کے ارد گر د کے صو بو ں سے غلام ،اون اور مچھلی حاصل کی جا تی تھی ۔ان کے علا وہ تعیش کے سامان کی بھی تجا رت ہو تی تھی ۔ حکمران مفتو حہ علا قوں سے خراج کی صورت میں یہ چیزیں حاصل کر تے تھے ۔اس زمانے میں تجارت ، رہزنی ،غارت گر ی اور لو ٹ ما ر میں کو ئی زیا دہ فر ق نہ تھا ۔
غلام داری سماج کے عہد میں زر محض اشیا ئے صر ف کی خریدوفر و خت کا ذریعہ نہ تھا ،سود کی صورت میں دوسروں کی محنت کو لو ٹنے کا ذریعہ بھی بن گیا تھا ۔تا جر اور سو د خورو ں کے پا س تجا رت اور سود سے بے پناہ دولت جمع ہو گئی۔ تا جر و ں نے اس سر مائے کو تجا رت میں استعما ل کیا ۔ تا جر غلامو ں ، کسانو ں اور صنعت کا روں کی محنت سے پید ا کی گئی اشیا ء کو اپنے سر مائے کی مدد سے لوٹتے تھے اور سودخوار رو پے اور آلات پیداوار چھو ٹے کسانو ں ، دست کا روں اور دوسر ے ضرورت مند افراد کو قرض دے کر سو د لیتے تھے ۔سود خو ر آقا ؤ ں کو بھی قرض دیتے تھے اوراس طر ح اس لو ٹ میں حصہ داربن جا تے تھے جو غلام کے آقا غلامو ں کی محنت کی کمائی کر تے تھے ۔

غلام داری کے طر یقہ پیداوار میں تضادات
انسان کی ترقی کی راہ پر غلامی ایک ضروری منز ل تھی ۔ اینگلز نے قاطع ڈھو رنگ میں لکھا ہے :
’’غلامو ں کے رواج کے بغیر یو نان کی شہری ریاستیں قائم نہیں ہو سکتی تھیں اور یو نان کا آر ٹ اور سائنس وجو د میں نہیں آسکتے تھے ۔ غلامو ں کے بغیر رو متہ الکبریٰ کی سلطنت وجو د میں نہ آسکتی تھی اور ان دو نو ں کے بغیر جدید یو رپ وجو د میں نہ آسکتا تھا ‘‘۔
غلامو ں کی ہڈیو ں پر وہ کلچر پیدا ہوا جو نبی نو ع انسان کی مز ید ترقی کی بنیا د بنا ۔علم کی کئی شا خو ں ، ریا ضی، فلکیا ت اور فن تعمیر نے اس عہد میں خاصی تر قی کی ۔ادب ،سنگ تراشی اور فن تعمیر کے بہت بڑے نمو نے اس عہد کے طفیل ہم تک پہنچے ہیں ۔وہ انسانی تہذیب کا انمو ل خزانہ ہیں ۔
غلام داری سماج کے اندر وہ تضادات مو جو د تھے جو اس کی تباہی کا سبب بنے اس سماج میں پیداواری قوت غلام تھے اوران کا اس قدراستحصال ہو تا کہ اس کے سبب وہ زیا دہ عمر نہیں پا تے تھے۔ اس استحصال کے خلاف غلامو ں نے مسلح بغاو تیں کیں جو اس کی تبا ہی کا مو جب ثابت ہو ئیں ۔ اس نظام کو زندہ رکھنے کے لیے غلامو ں کا حصو ل ضروری تھا ۔یہ بڑی تعداد میں صرف جنگ سے ہی حاصل ہو تے تھے ۔ چھو ٹے خو د کا شت کسان اور دستکا ر اس سماج کی فو جی قوت کی بنیاد تھے ۔وہ فو ج میں بھرتی ہو تے تھے اور جنگو ں کو جا ری رکھنے کے ٹیکسو ں کا بو جھ اٹھاتے تھے ۔ کسانو ں اور دستکارو ں کو ایک طر ف غلامو ں کی محنت کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا جو بڑے بڑے قطعات اراضی اور بڑی بڑی ورکشاپو ں میں کا م کر تے تھے اور دوسری طر ف ٹیکسو ں کا نا قابل برداشت بو جھ بھی اٹھا نا پڑ تا تھا ۔ بڑے بڑ ے قطعات اراضی کے مالکان اور چھو ٹے چھو ٹے قطعو ں کے کا شتکار کسانو ں کا تضاد شدید سے شدید تر ہو تا گیا ۔ خو د کاشت کسان مقابلے کی تا ب نہ لا سکے اور اس طر ح اس دوہرے بو جھ کے نیچے وہ پس گئے ۔اس سے صرف یہ نہیں ہو اکہ غلام داری سماج کی معیشت کو اس سے نقصان پہنچابلکہ غلامو ں کی بنیا د پر قائم تمام سلطنتو ں بالخصو ص رومتہ الکبر ی کی سلطنت کو فو جی اور سیاسی طو ر پر بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔ان طبقو ں کے کمزور پڑنے سے جنگی فتو حا ت کا زمانہ ختم ہوگیا اور جنگو ں میں شکستیں ہونے لگیں اور فتو حات کی جگہ دفاعی جنگو ں نے لے لی ۔فتوحات کے بند ہو نے سے غلامو ں کی فراہمی بند ہو گئی اور پیداوار میں انحطاط آگیا ۔ رومتہ الکبری کی آخری دو صدیو ں میں پیداوار کا زوال انتہا کو پہنچ گیا ۔اس سے تجارت کو دھکا لگا۔ وہ زمینیں جو پہلے سو نا اگلتی تھیں غلامو ں کی فراہمی نہ ہو نے سے برباد ہو گئیں۔ دستکاری تباہ ہو گئی ۔شہر اجڑ گئے ۔ غلامو ں کی محنت کی محنت کی بنیاد پر جو پیداواری رشتے قائم ہو ئے تھے وہ سماج کی پیداواری قوتو ں کی نشو نما کے لیے بیڑیاں بن گئے ۔غلامو ں کو پیداوار میں کو ئی دلچسپی نہ تھی اس با ت کی تا ریخی ضرورت پیدا ہو ئی کہ غلام داری کے پیداوار ی رشتو ں کی جگہ دوسرے دوسرے پیداواری رشتے قائم ہو ں تا کہ سماج کی پیداواری قوتو ں کی نشو نما کے راستے کی رکاوٹیں دورہوں ۔سماج میں معاشی تر قی کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری قوتو ں اور پیداواری رشتو ں میں ہم آہنگی اور مطابقت ہو ۔اس قا نو ن تقا ضہ تھا کہ غلامو ں کی جگہ ایسے کا کرنے والے انسان لیں جو پیداواری عمل میں کسی حد تک دلچسپی رکھتے ہو ں ۔
غلامو ں کی پیداوار میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کیثر تعدادمیں غلام رکھنے والے آقاو ں کے لیے اتنی بڑی تعداد میں غلام رکھنا منفعت بخش نہیں راہا اور انہو ں نے ایسے غلامو ں کے گر و ہو ں کو آزاد کر نا شروع کر دیا جو ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ نہیں تھے ۔انہو ں نے اپنے وسیع قطعات اراضی چھو ٹے چھو ٹے ٹکڑو ں میں تقسیم کر دیئے اور یہ ٹکڑے یا توان غلامو ں کو چند شرائط پر کا شت کے لیے دے دئیے جنہیں انہو ں نے آزاد کیا تھا یا ان آزاد شہر یو ں کو مزارعت پر دے دئے جو اپنے خو د کا شت رقبے چھن جانے کی وجہ سے بے کا ر ہو گئے تھے ۔ یہ نئے کا شتکا ر زمین سے با ندھ دئیے گئے تھے اور وہ اسے چھو ڑ نہیں سکتے تھے زیر کا شت اراضی کسی دوسرے کے پا س بک جانے سے یہ بھی بک جاتے تھے لیکن وہ پہلے سے غلام نہیں تھے ۔انہیں
چو نکہ پیداوار کا ایک حصہ ملنے لگا تھا اس لئے پیدا وار میں دلچسپی غلامو ں کی نسبت زیا دہ تھی ۔اس عمل سے غلام داری سماج کے بطن میں جا گیری طر یق پیداوار کے عناصر پیدا ہو گئے اور غلام کی جگہ صرف (رعیتی غلام ) غلام نے لے لی ۔
غلام داری نظام میں طبقاتی کشمکش
*غلامو ں کی بغاوتیں اور غلام داری سماج کا خاتمہ *
قدیم ایشیا ۔یو نا ن اور رومہ کی غلام داری سماج کی تا ریخ سے واضح ہو تا ہے کہ غلام داری سماج کی معاشی نشو نما کے ساتھ طبقاتی کش مکش بڑھی جو غلامو ں اور آقاؤ ں کے درمیان تصادم کی شکل اختیا ر کر گئی ۔غلامو ں کی بغاوتیں پھو ٹ نکلیں اور غلامو ں نے غلام داری سماج کے دستے کے ساتھ مسلح بغاوت کا آغاز کیا ۔
اس سماج میں دوسراتضاد چھو ٹے قطعات کے خو د کا شت کسانو ں اور بڑے مالکان کے ما بین تھا جو غلامو ں سے کا شت کراتے تھے ۔ اس تضادنے اس سماج میں آزاد کسانو ں اور دستکا رو ں کی جمہو ری تحریک کو جنم دیا جس کا مقصد قر ضو ں کا خاتمہ ، زمین کی ازسر نو تقسیم اور آقاو ں کے ہا تھو ں سے اقتدار عوام ( آزاد کسانو ں اور دستکارو ں ) کو منتقل کر نا تھا ۔
رمتہ الکبر یٰ کی سلطنت میں غلامو ں کی بہت بغاوتیں ہو ئیں جن میں سب سے بغاوت 84قبل مسیح میں شرو ع ہو ئی اور تین سال تک جا ریرہی ۔اس بغاوت کا لیڈر ’’سپار ٹس ‘‘ تھا اس کانام غلامو ں کی جد و جہدکی تا ریخ میں ہمیشہ رو شن رہے گا غلامو ں کی بغاوت میں غریب خو د کا شت کسانو ں نے ہمیشہ ان کاساتھ دیا آقاوں نے یہ بغاوتیں ہر با ر بہیمانہ طر یقو ں سے دبا دیں ۔
*******
غلامو ں کی بغاوتو نے عظیم رومتہ الکبری ٰ کی بنیا دیں ہلاکر رکھ دیں اور اس سلطنت کی جڑیں کھو کھلی کر دیں اند ر سے غلامو ں کی بغاوتیں اس پر کا ری ضر بیں لگا رہی تھیں با ہر سے بیر ونی حملہ آوروں نے اس پر ضر بیں لگا نا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں یہ عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۔
رو متہ الکبریٰ کے زوال سے تقریبا ہر جگہ غلام داری کے سماج کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ جا گیر داری نظام پیداوار نے لے لی ۔

غلام داری سماج کا خاتمہ
غلام داری سماج کے عہد کے معاشی نظریات اس زمانے کے شاعر و ں ، مو ر خو ں اور سیاست دانو ں کی کتابو ں میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کے نز د یک غلام کو انسان نہیں سمجھاجا تا تھا بلکہ انہیں اپنے آقا کا ایک آلہ پیداوار تصور کیا جا تا تھا ۔اس سماج میں محنت کو ذلیل سمجھا جا تا تھا محنت آزاد لو گو ں اور آقاوں کا کام نہیں تھا ۔بلکہ صرف کا کام تھا کہ وہ اپنے ہا تھو ں سے کام کر یں ۔
جو غلام اپنے آقاسے بھا گے اس کی سزامو ت تھی ۔جو خو د کا شت کسان قر ضہ ادانہ کر سکے یالگان نہ دے تو اسے اس کے عوض اپنی بیوی ، بیٹے یا بیٹی کو غلام کے طو ر پر فر ض خواہ یا زمین کے ما لک کو دینا پڑتا تھا ۔ہندوستان میں ’’منو ‘‘ نے غلامو ں کے با رے میں جو قوانین واضع کیے تھے ان مین غلام جا ئیدادنہیں رکھ سکتا تھا اور غلام کے بھا گنے کی سزامو ت تھی ۔
حکمرانو ں کے طبقو ں کے نظریات ہی اُس عہد کے مذاہب کی بنیا د ہیں ۔ ہندوستان میں بدھ مت نے جس کو چھٹی صدی قبل مسیح میں فروغ ہواتھا یہ اصول بنائے تھے کہ تشددکا مقابلہ نہ کیا جائے ،حاکمو ں کی فرمانبرداری کی جائے ۔اس مذہب میں انکساری کو بلند مر تبہ دیا گیا تھا ۔بدھ مت اس عہد کے غلامو ں کے آقاؤ ں کا مذہب تھا ۔جنہو ں نے اُسے غلامو ں پر اپنے غلبے کو قائم رکھنے اور مضبو ط کے لیے استعمال کیا ۔
یو نان کا مشہو ر فلا سفر افلاطون جو پانچویں صدی قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس نے ’’یو ٹو پیا ‘‘ نام کی ایک کتاب تحریر کی اور اس میں ایک خیالی سماج کی تصویر کشی کی ۔اس کا یہ مثالی اور خیالی سماج غلامی کے سماج کے سوائے کچھ اور نہیں تھا ۔اس کے نزدیک غلامو ں ، کسانو ں اور دست کاروں کا کام حاکمو ں ، جنگی جر نیلو ں اور
دانشو رو ں کے لیے ضروریاتِ زندگی مہیا کر نا تھا ۔ اسی طر ح ارسطو جو چو تھی صدی قبل مسیح کا مفکر ہے اس کے نزدیک بھی سماج کے لیے غلامی نا گزیر تھی ۔ارسطو کے خیالات نے اپنے زمانے اور قرون وسطیٰ میں نظر و فکر پر گہرااثر ڈالا ۔ ارسطو اپنے خیالات کے لحاظ سے اپنے زمانے کے دوسرے مفکروں سے بلند تھا لیکن جہاں تک غلامی کا تعلق ہے وہ اپنے عہد کے ان نظریات سے بلند نہ ہو سکا جو غلامی کے با رے میں اُس وقت رائج تھے ۔ اس کے نزدیک غلام قدرت کا عطیہ تھا ۔ اُس کی رائے میں قدرت کا یہ تقا ضہ تھا کہ کچھ انسان غلام بن کر کام کریں اور کچھ اُن پر حکومت کریں ۔غلاموں کی محنت اس لیے بھی ضروری تھی کہ آزاد انسان اپنی ذات کی تکمیل کر سکیں ۔ وہ تجارت کے حق میں تھا لیکن منافع خوری اور سود خو ری کے خلاف تھا کیو نکہ اس کے نزدیک اس سے دولت کی حر ص بڑھتی تھی ۔
اہل رومہ کے نزدیک غلام پیداوار کا محض ایک آلہ تھا ۔پلو ٹار ک نے جو کہ رومیو ں کا مشہور مو رخ ہو گزرا ہے غلامو ں کے ایک آقا’’کا ٹو ‘‘ کے حوالے سے بتایاکہ غلام خریدتے وقت اس با ت کا خیال رکھا جا ئے کہ وہ چھو ٹی عمر کے ہوں کیو نکہ چھوٹی عمر کے غلامو ں کو مو یشیو ں کی طرح سکھا یا اور سدھایا جا سکتا ہے ۔اور غلامو ں کو اپنے تا بع فر مان رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں پھو ٹ ڈالی جا ئے ۔روماکی سلطنت کے زوال کے عہد میں شہرو ں اور دیہات میں غلامو ں ، دستکا رو ں اور بیکار کسانو ں کی کثیر آبادی جمع ہو گئی تھی جن کااس عہد کے پیداواری رشتو ں پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور وہ غلامی کے سماج کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ئے تھے ۔ان کی بغاوتو ں سے غلامی کے سماج کے نظریات میں ایک بحران آگیا ۔ان کی طبقاتی کشمکش نے ایک نئے نظرئیے کو جنم دیا ۔ یہ نیا مذہب عیسائیت تھا ۔یہ در اصل غلامو ں ، تباہ حال دستکا روں ‘اور چھو ٹے کسانو ں کی اپنی تباہی اور غلامی کے نظام کے جبرو ظلم کے خلاف صدائے احتجاج تھی ۔عیسائیت میں حکمران طبقے کی ضروریات کا اظہار بھی تھا ۔اس نے امراء اور آقاؤں کو خبر دار کیا کہ وہ ظلم سے با ز آجائیں ،انکساری اختیار کر یں اور اپنی نجات کی فکر کر یں اور عذاب قبر سے بچیں ۔حکمران طبقہ نے عیسائیت کو قبو ل کر لیا اور عیسائی مذہب کے نظریات کو اپنے بچاؤکے لیے استعمال کرنے لگے اوردبے اور کچلے ہو ئے مظلو م عوام کو دوسری دنیا میں انعام واکرام کا لالچ دے کر انھیں اپنی قسمت پر قانع رہنے کی تلقین رہنے لگے اورمذہب کی تعلیم سے اپنی لو ٹ کا جو ازان کے سامنے پیش کر نے لگے تا کہ وہ صبرو شکر سے ان کی لو ٹ کو برداشت کرتے رہیں ۔
خلاصہ
1۔ غلام داری سماج کا طر یق پیداوار سماج کی پیداواری قوتو ں کی ترقی اور زائد پیداوار کے وجو د میں آنے اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت بننے سے پیداہواجس میں ذرائع پیداوار کے مالک زائد پیداوار کو اپنے تصرف میں لانے لگے ۔غلامی استحصال کی سب سے پہلی اور بھدی صورت ہے جس میں انسان نے انسان کا استحصال کر نا شروع کیا ۔
2۔ چو نکہ غلامی کے سماج میں طبقات پیدا ہو گئے تھے ۔ان طبقات کے پیداہو نے سے ریا ست پیدا ہو گئی ۔چو نکہ طبقات کے مفادایک دوسرے سے ٹکراتے تھے ۔ان متحارب طبقو ں کی کشمکش نے ریا ست کے وجود میں آنے کو نا گزیر بنادیا تاکہ لو ٹے جانے والے طبقوں کو لو ٹنے والے طبقو ں کی خاطر دبایا جا سکے ۔
3۔ غلام داری سماج کامعاشی نظام فطری تھا اور اس میں پیداوار مقامی استعمال کے لیے ہو تی تھی ۔جہاں تک تجارت کا تعلق تھا وہ صرف غلامو ں اور تعیش کے سامان کی ہو تی تھی ۔اس عہد میں تجارت کے فر و غ کے سبب سکہ کا رواج بھی شروع ہوا ۔
4۔ غلام داری سماج کے طریقِ پیداوار کا بنیا دی معاشی قانو ن یہ تھا کہ زائد پیداوار جو آقا غلامو ں کی بے تحاشالو ٹ سے حاصل کرتے تھے ان کی ضروریا ت کو پو را کر تی تھی ۔آقا ذرائع پیداوار اورغلامو ں کے مالک تھے۔ اس معیشت میں خودکا شت کسان اور دستکا ر تباہ ہو ئے اور آقاو ں کے غلام بنے ۔غلام حاصل کرنے کا دوسراطر یقہ جنگیں تھیں ۔ جنگی قیدی بھی غلام بنائے جاتے تھے ۔ اور مفتو ح علا قے کے لوگ بھی ۔
5۔ غلامی کی بنیاد پر آرٹ ، فلسفے اور سائنس کے علو م میں ترقی ہو ئی۔ لیکن اس ترقی کا فا ئدہ غلامو ں کے آقا ؤ ں کو پہنچا ۔اس سماج میں لوگو ں کا سماجی شعور ، طر یقِ پیداوار اور پیداواری رشتو ں کے مطابق تھا ۔حکمران طبقے اور دانشور غلامو ں کو انسان نہیں سمجھتے تھے ۔چو نکہ محنت ومشقت صرف غلام کر تے تھے اس لئے محنت اور مشقت کو ذلیل سمجھا جا تا تھا ۔جو کہ کسی آزاد انسان کے شایانِ شان نہیں تھی ۔
6۔ ابتدائی سماج کی نسبت غلامی کے سماج میں پیداواری قوتوں کوترقی ہو ئی ۔اس نظام میں چو نکہ غلامو ں کو پیداوار میں کو ئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے غلام داری کے سماج کی افادیت ختم ہو گئی ۔غلامو ں کو کو ئی تحفظ حاصل نہیں تھا جس سے سماج کی بنیاد ی قوت یعنی غلام‘ محنت کی سختی اور فا قوں کے سبب جلد مر جاتے تھے ۔چھو ٹے کسان اور دستکا ر اس سماج میں نہ پنپ سکے۔ یہ اسباب غلام داری سماج کی تباہی کا با عث بنے ۔
7۔ غلامو ں کی بغاوتو ں نے غلام داری سماج کی بنیادیں ہلادیں اور اس کوتباہی کے کنارے پہنچا دیا ۔غلام داری طر یقِ پیداوار کی جگہ جا گیرداری طریق پیداوار نے لے لی ۔غلامی کا استحصال ختم ہوا اور اس کی جگہ جا گیری استحصال قائم ہوا ۔جا گیرداری نظامِ پیداوار کے قائم ہو نے سے سماج کی پیداواری قوتو ں کی مزید ترقی کے امکانات پیدا ہو ئے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *