Home » سموراج » ادیبہ ۔۔۔ صنوبر الطاف

ادیبہ ۔۔۔ صنوبر الطاف

یہ جاتی سردیوں کے دن تھے۔سخت کٹیلی دھوپ، یخ ہواؤں کو دور چھوڑکر آنے کی تیاریوں میں تھی اور نئے موسم نے درختوں کو تازہ پتوں اور پھولوں کا تحفہ دیاتھا۔سردی سے بے زار اور بے رونق فضاؤں پر آہستہ آہستہ بہا ر کھلنے لگی تھی۔میں دفتر میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اپنا کوٹ اتاروں یا پنکھا چلادوں۔اسی شش و پنج میں تھا کہ دروازے کی سریلی سی دستک نے مجھے چونکا دیا۔آنے والی کی صرف دستک ہی سریلی تھی۔اس میں کچھ ایسا خاص نہ تھا کہ میں اپنے کوٹ اور پنکھے جیسے اہم موضوع کو چھوڑ کر اس کی طرف توجہ دیتا۔لیکن جب اس نے لب کھولے تو کچھ دیر کے لیے میں لفظ فہمی بھول گیا۔
’’میرا نام ادیبہ ہے۔میں افسانہ نگار ہوں۔مجھے میرے استاد اور آپ کے دوست امجد صاحب نے بھیجا ہے۔اپنے افسانوں کی اصلاح کے لیے۔۔۔‘‘
’’جی تشریف رکھیے۔مجھے بتایا تھا امجد نے آپ کے بارے میں‘‘۔وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔میں بظاہر اپنے کاموں میں مگن مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ میرے پرانے دوست کے حوالے سے نہ آتی تو کیا میں صرف اس کی آوازکی و جہ سے اسے چائے پلا رہا ہوتا۔میرے دل نے زور سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
’’ابھی تک کتنے افسانے لکھ چکی ہیں آپ‘‘۔میں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا
’’یہی کوئی پانچ یا چھ‘‘
’’کس قسم کے افسانے لکھتی ہیں آپ؟‘‘۔میں چاہتا تھا وہ زیادہ بولے اور میں اسے سنوں
’’آپ خود پڑھ کر دیکھ لیجیے گا‘‘
’’ہوں!ٹھیک ہے آپ دو یا تین دن بعد تشریف لائیے گا‘‘میں نے اس کے انداز سے مایوس ہو کر کہا
پھر وہ اکثر میرے دفتر آنے لگی،میرے دوست نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے بہت پسند کرتی ہے۔میری کہانیوں اور ناولوں کو بہت شوق سے پڑھتی ہے۔میرے نزدیک یہ بہت عام سی بات تھی لیکن شاید اس کی انفرادیت ہی اس کی صلاحیت تھی۔اپنی خواہش کے مطابق اس کے اندر ایک بڑا افسانہ نگار بننے کے سو فیصد امکانات تھے۔اس کا شوق دیکھ کر میں بھی مخلص ہوگیا۔اپنا سارا علم آہستہ آہستہ اسے دینے لگا۔وہ بھی ایک فرمانبردار چیلے کی طرح گرو کے نقشِ قدم پر چلی۔اس کے افسانوں کے موضوعات اور پھران کا نبھاؤدونوں ہیسب سے الگ ہوتے تھے لیکن اس کا تصورِ محبت سکول میں پڑھنے والی ایک پندرہ سال کی لڑکی جیسا تھا،جو محبت کو تھیوری سمجھ کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔اس کے نزدیک مرد اور عورت کا تعلق فرشتے اور خدا جیسا ہونا چاہیے۔یہ دیکھ کر کبھی تو مجھے کوفت ہوتی اور کبھی دل چاہتا کہ اسے محبت سکھاؤں۔یہ اس کے افسانوں کا ایک اہم موضوع بن سکتا تھا اور زندگی کا ایک اہم تجربہ اور مشاہدہ بھی۔اس دن جب وہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں قلم گھماتی اور ٹانگ پہ ٹانگ رکھے پاؤں ہلاتی کسی نئے افسانے کی تراش خراش میں مصروف تھی تو میرا دل چا ہا کہ میں اسے کہہ دوں کہ ’’دنیا کے بہترین افسانے کاغذ پر نہیں کسی کے ہونٹوں اور آنکھوں پر بھی لکھے جاسکتے ہیں‘‘۔لیکن میں اس وقت توکہہ نہ سکا ۔ لیکن اگلے کچھ دنوں کے اضطراب نے مجھ سے یہ کہلوا ہی دیا’’کیا تم مجھ سے محبت کرسکتی ہو؟‘‘
میرے اس سوال پر وہ ویسے ہی چونکی جیسے میں امید کر رہا تھا
’’کیا محبت کی بھی جاسکتی ہے؟‘‘
’’جب افسانے بنائے جاسکتے ہیں تو محبت کی کیوں نہیں جاسکتی؟‘‘
پھراس کی محبت کی تھیوری محض تھیوری نہ رہی۔ہم ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔میں نے اسے بتایا کہ ایک افسانہ نگار کے لیے ہر حادثہ ایک افسانہ ہے۔زندگی خود ایک افسانہ ہے۔میری اور تمہاری محبت اس افسانے کا ایک خوبصورت موڑ ہے۔کہانیاں بند کمروں میں نہیں بنائی جاتیں ،عظیم کہانی کار کو اپنا وجود بھی دان کرنا پڑتا ہے۔اپنے اندر اور باہر ہونے والی توڑ پھوڑ کو سہنا پڑتا ہے ۔سچا فنکار وہ ہے جو توڑ پھوڑ کے بعد فوراً تحریر کے ذریعے اپنی مرمت کی سوچتا ہے۔ اس کے افسانے چھپنے لگے،وہ مشہور ہونے لگی۔
’’یہ تم کیسے کپڑے پہنتی ہو؟عجیب، بے ہنگم اور کھلے کھلے ،اب اتنی بڑی افسانہ نگار بن گئی ہو ،یہ سب تمہارے لباس سے بھی لگنا چاہیے نا۔‘‘
میں نے اس کے کپڑوں کے مختلف حصوں کو ہاتھ سے چھوتے ہوئے اسے خود سے قریب کرلیا۔اس کی آنکھوں میں اس قرب کے حوالے سے کئی سوال جاگے ۔میں نے ان سوالوں کو مٹانے کے لیے کئی باراس کی آنکھوں کو چوما۔میں نے اسے سمجھایا کہ یہ کسی عام مرد اور عورت کا تعلق نہیں ہے بلکہ ایک ادیب اور ادیبہ کا تعلق ہے۔جو سماج میں ادبی اور موضوعاتی انقلاب لاسکتا ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سب کے باوجودوہ اپنے اور میرے بارے میں ایک لفظ بھی نہ لکھ پائی ۔اس کے افسانوں میں اس کا تصور محبت وہی رہا، ایک پندر ہ سال کی لڑکی کا، لیکن اب اس میں ایک پوری کائنات سمٹ آئی تھی۔
بہت سالوں بعد آج وہ ایک کامیاب افسانہ نگار ہے۔گو اب میری اور اس کی وہ پہلی سی ملاقاتیں نہیں رہیں۔لیکن اب جب بھی میں اسے ٹی وی اور ریڈیو پر محبت کے موضوع پر بولتے سنتا ہوں تو مجھے خوشی اور فخر ہوتا ہے ۔بالکل ویسا ہی فخر جیسا مجھے اپنی تخلیقات پر ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ وہ لڑکی جو میرے سامنے کبھی چھ سات جملوں سے زیا دہ نہ بو ل پاتی تھی ۔ آج اپنے ہر افسانے کے جواب کی صورت میں موجود ہے۔میں نے اس پر بہت محنت کی تھی ،وہ میرے لیے ناول جیسی تھی،جسے میں نے لکھاتھا۔
پھرکچھ عرصہ گزرا، میں نے دیکھا کہ ادبی محفلوں کی سرگوشیوں میں اس کا ذکر میرے ایک ادبی دشمن کے حوالے سے ہونے لگاہے ۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے میرے ناول پر کوئی اپنا نام لکھنا چاہتا ہے۔میرے بنائے پلاٹ میں کوئی اور کردارآکرکیسے رہ سکتا ہے۔میں نے اس سے دوپہر کے کھانے پرتفصیلی ملاقات کا وقت لیا۔وہ ذرا دیر سے پہنچی ۔لباس اور شخصیت کی اسلوب کو دیکھ کر میں تھوڑا مرعوب سا ہوگیا ۔اب وہ پہلے جیسی ادیبہ نہ تھی۔بالوں کی تراش سے لے کر جوتے تک اس کے ادبی ذوق کے گواہ تھے ۔لیکن میرے خیالوں میں اپنے ایک پرانے کمرے کے زیرو واٹ بلب میں شکن زدہ لباس اور بکھرے بالوں والی پرانی ادیبہ گھومی تو میں سنبھل گیا۔
’’بہت مصروف رہنے لگی ہو۔وقت ہی نہیں دیتی ہو ۔‘‘میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا
’’ہاں۔آپ تو جانتے ہی ہیں ،تین چار جگہوں پر بیک وقت کام کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔میں تو خود کو وقت نہیں دے پاتی‘‘اس کا یہ پیشہ ورانہ جواب سن کر مجھے اپنا آپ کسی شو کے میزبان سا لگا جو اس کا انٹرویو لینے کے لیے بے تاب ہے۔
’’راشد کے ساتھ بھی تم کسی پراجیکٹ پر کام کر رہی ہو؟‘‘
’’ہاں،ارے وہ ایک ادبی رسالہ ہے، بس اس سلسلے میں۔۔۔‘‘
’’بہت گہرے تعلقات ہیں اس کے ساتھ؟‘‘میں اسے تولنے لگا
’’ایک تعلق ہے بس۔مجھے نہیں پتا آپ گہرے تعلقات کس کو کہتے ہیں۔‘‘
’’کیسا تعلق؟‘‘
اس نے پہلی اورشاید آخری بار میری آنکھوں میں دیکھا
’’وہی جو آپ کے ساتھ تھا۔وہ بھی مجھے افسانوں کے نئے موضوعات دے رہا ہے‘‘
میرے کپ سے چائے چھلکی اور سفید میز پوش پر پھیلنے لگی

Spread the love

Check Also

کنا داغستان  ۔۔۔ رسول حمزہ توف؍غمخوارحیات

سرلوزنا بدل سر لوزاتا بارواٹ گڑاس لس و ہیت ! تغ آن بش مننگ تون ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *