Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ سانی سید

غزل ۔۔۔ سانی سید

اے جانِ طلسمات کوئی جاگ رہا ہے
آہستہ کرو بات کوئی جاگ رہا ہے

پوروں سے جلاتا ہے ستارے وہ فلک پر
کرتا ہے کرامات کوئی جاگ رہا ہے

کس غم میں اُسے نیند نہ آئی نہ کبھی اونگھ
کیوں ہیں یہ روایات کوئی جاگ رہا ہے

اس درد کی حدت کو ذرا اور بڑھا دے
اے سرد سیاہ رات کوئی جاگ رہا ہے

شیشہ نہ پٹخ شور نہ کرسانی گلی میں
اے رندِ خرابات کوئی جاگ رہا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *