Home » شیرانی رلی » کاش ۔۔۔ کاوِش عبّاسی

کاش ۔۔۔ کاوِش عبّاسی

(خونریز ، مُسلّح اِنتہا پسند سے ایک بات)

مُحبّت سے بھی تُم نے نفرت ہی سِیکھی
ترقّی سے سِیکھی خرابی
تھیں آنکھیں بھی ، مستک بھی آگے تمہاری
تھے پاؤں بھی آگے
تھے رَستے سب آگے تمنّا کے
اور زِندگی کے سبھی شہر گاؤں بھی آگے
مگر تم تو بس خود میں بند
ایک اُلٹے ، مبارز جنوں میں تھے
اُلٹا ہی چلتے رہے
جیتے اور جینے دیتے تو کیا
مارتے اور مرتے رہے

تُم
جو کُچھ نفرت و شر سے، غارت گری سے
سیہ رات کے کونوں کُھدروں پہ شب خُوں سے
کمتر ، گدایانہ مِقدار میں لُو ٹتے، نوچتے ہو
وہ سب، سارے عا لَم کی مِقدار میں
ساری تاریخ کے کامِل انداز میں
لینے کی جُہد پر کیوں نکلتے نہیں

کیوں ہمیشہ،
جو مذہب میں، افکار میں مُختلف تھا
وہ برداشت تم کو نہ تھا
وہ غلَط، قابلِ قتل تھا
اُس سے باہر بھی ، اندر بھی لڑتے رہے تُم
سدا دُور ہی دُور اُس سے رہے تُم
تُمہاری یہ صدیوں کی تنہائیاں کب مِٹیں گی
تُمہیں مختلف آدمی کیوں ہے لگتا مُخالِف تمہارا
یہ تاریخ بدلو بھی اَب
ٹھیک ہے و ہ غلَط تُم کو لگتا ہے
اُس کا غلَط اُس پہ چھوڑو
ُ اُسے خود ہی خود سے نِمَٹنے دو
وہ،
وہ بھی تو، آدمی ہے
اگر مُختلِف ہے تو کیا
(مُختلِف تو کشِش بھی ، مُحبّت بھی ہے)
فرق کِتنا بھی ہم میں ہو تو اِس سے کیا؟
فرق دُشمن نہیں
فرق قاتِل نہیں
ایک فِطرت ہیں ہم
مُختلِف آدمی بھی
زمیں آسماں میں شراکت برابر کی رکھتا ہے
ویسی ہی جو شُکر اور فخر کرنے کو
تُم رکھتے ہو
دھرتی پر مرکزِ زِندگی
تُم، فقط تُم، نہیں
اور وہ بھی نہیں
زِندگی جو تمہاری ہے
اُس کی بھی ہے
مَوت جو اُس کی ہے
(اِس گھڑی اِس تمہاری جو بندُوق میں بند ہے)
وہ تمہاری بھی ہے
زِندگی، مَوت، دَھرتی
برابر ہیں سب کے لئے
تُم مگر مان لو
کاش

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *