Home » شیرانی رلی » یہ دس نظمیں ۔۔۔ علی بابا تاج

یہ دس نظمیں ۔۔۔ علی بابا تاج

(ایک رَو میں لکھی گئی نظمیں)

1
چھوٹی عمر ہی سے
ہم نے کتابیں پڑھیں
خوب پڑھیں
ہمارے والدین خوش ہوتے تھے
ہم پڑھ رہے تھے
ہم اپنی شرارتوں کو
انگلیوں پر
گن سکتے ہیں
خوشی کو ہمیشہ معنویت کے پیوند لگائے
سچ ہے
جن باتوں پر لوگ سوتے
جاگتے خوش ہوتے رہے ہم
معنی تلاش کرتے رہے
ہم کتابیں پڑھتے رہے
2
یاد ہے تمہیں
تم نے پہلا تحفہ
کونسا بھیجا تھا؟
مجھے یاد ہے
مجھے پتہ ہے
اس کا جواب ایک نہیںہوگا
سوچیں یادیں تمہیں
گھیر لیں گی
یاد نہ بھی ہو
تو کیا فرق پڑتا ہے
یہ راز میں روشنی کے
حوالے کرچکا ہوں
3
ہجر کی اونچی نیچی
فصیلوں پر
آرزﺅں کی بیلیں بہت
حسین لگتی ہیں
ہم اِس بار طویل جدائی میں
اپنی اپنی زندگیاں گزارہی لیں گے
ہم اپنے وجود کا اظہار کرچکے ہیں
اور جسموں کا انکار (بھی)
ہماری روحیں پاگل پنے
سے سرشارہیں ہمارے
قہقہے پہاڑی دروں میں
گونجیں گے اور ہمارا
گریہ دیواروں میں جذب ہوگا
4
آج واپسی ہوگی
میرا دل ایک پرندے کی طرح
دھڑک رہا ہے
آنگن میں زرد پتے گر رہے ہےں
خزاں شروع ہوچکی ہے
یہ بھی ضروری ہے
تازہ کونپلوں
پھول پتیوں کے لےے
بہار آئے گی
5
شام آنکھوں میں ٹہل رہی ہے
ایک پرندے کو دیر ہوگئی ہے
اپنے گھونسلے تک
پہنچنے میں
وہ ایک ٹہنی پہ رات بسر کرے گا
ستارے دیکھے گا
اور ہوا کے جھونکے پر سہم جائے گا
کائنات میں ستارے
تنہائی کو سہارنے کے لےے ہیں
میں شہر میں
بھیڑ میں اکیلا ہوں
فضا آلودہ ہے
شہر سے ستارے نظر نہیں آتے
تنہائی بڑھ رہی ہے
6
میں انتظار کاٹوں گا
…………….
میں نظمیں لکھوں گا
تم واپسی کا سفر
تمہارے آنے کا
7
تم نے کہا تھا ہم خوب
باتیں کریں گے
باتیں ختم ہوں گی
تو موسیقی ہے ناں
بولتے بولتے ہم چپ ہوئے تو
تم نے میری دھڑکنوں پہ
اپنے کان رکھ کر
خاموشی توڑی
میرے گرداب
تمہاری خوشبو بولتی ہے
8
زندگی ایک بار ملی
جینے کے لےے
( کون کس کا جینا حرام کرتا ہے
کبھی اس پر بات کریں گے)
جینا سب سے آسان کام ہے
جو جبر و اختیار کا فلسفہ
نہیں جانتا
جن کو قدر زائد کا پتہ نہیں
یا جو جزا و سزا کی بھول بھلیوں میں بھٹکا نہیں
جینا آسان ہے ان کے لےے
جو ضرورت پوری کرتے ہیں
اور خواہشوں کے انبار پر
سر رکھ کر
خواب تک نہیں دیکھتے
جینا اس ایک لمحے
کتنا آسان ہوتا ہے
جب اس کائنات میں
کوئی تمہیں
محبت سے پکارتا ہے
9
مسکراہٹ
تمہیں پہچانتی ہے
کسی کے آنسوﺅں سے
تمہارے دُکھوںکا مداوا
نہیں ہوتا لیکن تعلقات
کی دھند چھٹ جاتی ہے
کسی کے ہاتھوں کا لمس
تمہاری تنہائیوں میں
رنگ بھرنے کے لےے کافی ہے
محبت میں سرگوشی
تمہارے وجود کی تصدیق ہے
کسی کا ہجر
زندگی کا عنوان بن
جاتا ہے
10
اب ہاتھ پہ پنکھڑی رکھ
سوچتا ہوں
وقت رک نہیں سکتا
ایک دن یہ نظروں سے
اوجھل ہوجائے گا
ہم تیز تیز چلنا شروع کردیں گے
انسانیت کا بچہ بچہ
نفرت محبت کا اپنی سانسوں
سے حساب دیں گے
وقت نہیں ہوگا
ہماری سانسیں ہوں گی
دیکھتے ہیں
سانسیں
محبت میں خرچ ہوں
کہ نفرت کے تصرف میں ہوں
ہم اپنی نسلوںکے لیے
دنیا چھوڑ جارہے ہیں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *