Home » قصہ » تین کلومیٹر روڈ ۔۔۔ انور شیخ/ ننگر چنا

تین کلومیٹر روڈ ۔۔۔ انور شیخ/ ننگر چنا

انکوائری افسر اللہ رکھا کو ایک انکوائری تفویض ہوئی کہ ایک پختہ سڑک جو کہ تین کلومیٹر تعمیر ہونے کے باوجود محلِ وقوعہ پر موجو د ہی نہیں ہے اس کا پتہ لگایا جائے۔ انکوائری افسر اللہ رکھا بمع سٹاف، سفید کاغذات، کاربن پیپرز اور بال پوائنٹس کے ، تحقیقات کرنے نکل کھڑا ہوا اور پہنچ گیا محکمہ تعمیراتِ سڑک والوں کے دفتر، جہاں پہلے سے پابند کےے ہوئے انجینئر، کلرک، ٹھیکہ دار اور سب انجینئر موجود تھے۔
مسٹر اللہ رکھا نے انجینئر صاحب سے پوچھا، ” تین کلومیٹر روڈ جو کہ شہر سے گوٹھ میر محمد کی وانڈھ کے درمیان تعمیر شدہ دکھایا گیا ہے، وہ تو وہاں موجود ہی نہیں ہے۔ آپ کا اس کے متعلق کیا کہنا ہے ؟“۔
انجینئر صاحب جو سفید کاٹن کے جوڑے پر سیاہ چشمہ لگائے سُپاریاں چبا رہے تھے، نے اپنے منہ سے سُپاریوں کی اچھی خاصی تعداد پُھوار کی صورت ڈسٹ بن میں پھینکتے ہوئے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر کہا، ” دیکھیں، صاحب! روڈ کا تعمیر ہونا اور روڈ کا موجود نہ ہونا، دو الگ الگ باتیں۔ یہاں موجود تمام فریق مذکورہ پختہ سڑک کی تعمیر اور تکمیل کے نہ صرف گواہ ہیں بلکہ وہ مختلف حوالوں سے اسی کارِ خیر کے سرانجام ہونے میں بھی شامل رہے ہیں۔
” لیکن ، انجینئر صاحب! جو پختہ سڑک آپ سب نے مل کر تعمیر کی ہے، وہ تو بنی ہوئی ہی نہیں ہے !“ انکوائری افسر اللہ رکھا نے قلم کو کاغذات کے پلندے پر پھینکتے ہوئے کہا ۔
” دیکھیں جی ! آپ ایک مرتبہ پھر کئی چیزوںکو گڈ مڈ کررہے ہےں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی گزارش کی کہ سڑک کا تعمیر ہونا اور موجود نہ ہونا ، دو الگ الگ معاملات ہیں۔ کوئی چیز تعمیر کی گئی ، لیکن وہ حالیہ وقت میں موجود نہیںتو اُس کے نہ ہونے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً تشکیل ِ پاکستان کے وقت قائداعظم نے کتنے صوبوں والا پاکستان بنایا تھا؟“۔
”پانچ صوبوں والا“
”اب کتنے ہیں؟“
” چار“
” گُڈ ۔ اب ا س مثال سے سمجھیں کہ کیا ہم یہ الزام قائداعظم پر عائد کرسکتے ہیں کہ انہوں نے پانچ صوبوں والا پاکستان بنایا ہی نہیں تھا؟“۔ انجینئر نے عقلمندانہ جواز بطورِ مثال پیش کرکے ، موجود تمام چھوٹے بڑے افسران کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا تو سب اُس کی دانائی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسانے لگے۔
اللہ رکھا نے پھر غصہ میں آکر قلم ہاتھ میں اٹھا لیا اور انجینئر سے کہا، آپ بڑی عجیب و غریب مثال دے رہے ہےں!؟“۔
” عجیب وغریب مثال میری نہیں بلکہ آپ عجیب و غریب انکوائری کررہے ہےں“۔
” آپ میری انکوائری کو عجیب کہہ کر میری توہین کررہے ہےں ۔ یہ مت بھولےے کہ میں ضلع کا اعلیٰ تفتیشی افسر ہوں“۔
” میں معافی چاہتا ہوں لیکن میں آپ کی تفتیش کو درست رُخ میں چلانے کا مشورہ دے رہا ہوں“۔
” مجھے آپ کے مشوروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مجھے وہ تمام کاغذات فراہم کریں جو اس سڑک کی تعمیر کے سلسلہ میں تیار کےے گئے ہیں۔” اللہ رکھا نے درشت لہجے میں انجینئر سے کہا۔
انجینئر نے بھی سنجیدہ ہو کر فائل کھولی اور ریکارڈ کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں تفتیشی افسر کو دینا شروع کیں۔ ” یہ لیں ، صاحب ! ایم این اے کوٹہ سکیم کے تحت وصول شدہ فنڈز کی کاپی، بجٹ ریلیز آرڈر اور یہ ڈی جی ڈیزائن کی specification ۔ یہ ٹریفک اکاﺅنٹ سیل کا سرٹیفیکیٹ ، یہ نوٹس انوائٹ ٹینڈر(NIT)،یہ جمع شدہ کال ڈیپازٹ سلپ ، یہ ورک آرڈر اور یہ آپ کے سامنے بیٹھا ہے ٹھیکہ دار مسٹر کریم بخش خاں۔ اور یہ ہیں وہ چیک جو مختلف اوقات میں انہیں سڑک کی تعمیر کے سلسلہ میں جاری کےے گئے تھے ۔ یہ آخری کام کی completionکے بعد محکمہ تعمیرات شارعات کے ضلعی افسر کا سر ٹیفکیٹ اور بقایا سیکورٹی ڈپازٹ کی واپسی کا ہینڈ بل اور چیک ……..اور جناب! آخر میں دیکھیں ایم این اے صاحب کی طرف سے معیاری کام کی بر وقت تکمیل پر تعریفی سند ۔ کیا یہ تمام چیزیں ثابت نہیں کرتیں کہ سڑک تعمیر کی گئی تھی؟“۔
انجینئر صاحب تمام کاغذات دینے کے بعد کرسی سے پشت لگا کر سپاریوں کے پیکٹ کو دانتوں سے کھولنے لگا۔ حاصل شدہ کاغذات کا مشیر نامہ بنانے کے بعد موجود سب انجینئر سے لے کر کلرک اور اکاﺅنٹنٹ تک سب کے بیانات اور ٹھیکہ دار کا اصرار تھا کہ سڑک واقعتا مکمل تعمیر ہوئی تھی۔ لیکن سائٹ پر سڑک کا نام و نشان ہی نہ تھا۔ یہ ایک حیران کن امر تھا۔
انکوائری افسر اللہ رکھا کاغذات وغیرہ سنبھال کر دفتر سے یہ سوچتے ہوئے باہر نکلا کہ ایک زمانہ تھا کہ کمیشن 30 فیصد ہوتا تو بقیہ 70 فیصد کا کام ہوتا تھا ، لیکن آج کل قہر تو دیکھو کہ کا م تو سو فیصد نہیں ہوتا بھی ہے تو صرف کاغذات میں۔ انہی خیالات میں گم اللہ رکھا کو ایک خیال نے اُمید بندھائی کہ کیوں نہ ایم این اے صاحب کے پاس جا کر حقیقت بیان کی جائے کہ ” جناب ! آپ جسے حلقہ کے 80 ہزار لوگوں نے ایک مرتبہ پھر ووٹ دے کر اپنا حامی اور مدد گار بنایا ہے، انہی لوگوں کے ساتھ آپ کے ہوتے ہوئے افسر شاہی کیا کچھ کررہی ہے ؟ اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے ۔ اور تو اور آپ کے نام پر جھوٹی تعریفی اسناد بھی بنائی جارہی ہیں۔
اللہ رکھا نے گاڑی کا رُخ ایم این اے صاحب کے بنگلہ کی طرف کردیا۔
بنگلہ پر لوگوں کا اژدہام تھا۔ لوگ دھوپ کے مارے پسینہ پسینہ تھے اور میدانِ محشر میں کھڑے لوگوں کا منظر پیش کررکھے تھے۔ کچھ کے سَروں پر سندھی ٹوپیاں ان کے پیشانیوں پر ٹکی ہوئی تھیں تو کچھ کے سروں پہ صافے تھے۔ ان لوگوں نے صاحب کو حالیہ الیکشن میں ووٹ دیا تھا، اس لےے اب وہ اس کے پاس اپنے چھوٹے بڑے کام لے کر آئے تھے ۔ ایک طرح کا ہنگامہ بپا تھا۔ کوئی بے روزگاری کی فریاد کر رہا تھا تو کوئی پولیس اور دوسرے محکموں کی دست درازیوں اور زیادتیوں کا ذکر کررہا تھا ۔ کوئی لڑائی جھگڑے سے جان چھڑانے کے لےے منتیں کررہا تھا تو کوئی اور اپنے گاﺅں کے لےے سکول اور سڑک کی عرض داشتیں لے کر آیا تھا لیکن ان سب لوگوں سے ایک مرتبہ پھر 80 ہزار ووٹ کا مینڈیٹ حاصل کردہ ایم این اے عوام کی محرومیوں پر پاﺅں دھرے کسی فاتح کی طرح بیٹھا، مونچھوں کو تاﺅ دے رہا تھا۔
انکوائری افسر اللہ رکھا کے تعارف کروانے پر اسے ایک علیحدہ کمرے میں بٹھایا گیا ۔ جہاں کچھ دیر کے بعد ایم این اے بھی تشریف لے آئے۔ رسمی خیرو عافیت کے بعد اللہ رکھا نے اسے پختہ سڑک کی گمشدگی اور اس کی صرف کاغذات میں موجودگی کا حال سُنایا تو ایم این اے نے کہا ، ” یہی تو ہمارے لوگوں کا المیہ ہے کہ ہم اتنی تگ و دو اور محنت کے بعد سکیمیں لے آتے ہیں …….. اور یہاں ان کی نگہداشت کا حال یہ ہے جو آپ سُنا رہے ہےں۔ میں نے سڑک کے لےے سکیم دی، رقم منظور کروائی، بچارے انجینئر نے کوششیں کرکرکے سڑک تعمیر کروائی ۔ کیا اب اس کی نگہبانی بھی میں یا انجینئر صاحب کریں؟ ۔یہ عادات ہیں ہماری عوام کی جن کے لےے ہم دن رات بھاگ دوڑ کررہے ہےں“۔
اور پھر کچھ مزید قریب ہوکر اللہ رکھا سے راز دارانہ انداز میں کہا ۔” آپ رپورٹ میں یہ لکھ کر بھیجیں کہ سڑک واقعی تعمیر ہوئی تھی لیکن سیلاب میں بہہ گئی “ اور پھر سیدھا ہوکر کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ،” میں بھلا کیا کروں ؟ لوگوں کو حوالات میں بند کرواﺅں کہ انہوںنے سڑک کا پتھر اور تارکول چوری کیا ہے یا سڑک اکھاڑ کر لے گئے ہیں ؟ ہمیں تو باجود اس سب کے عوام کا خیال رکھنا پڑتا ہے“۔
ایم این اے اتنا کہہ کر باہر چلے گئے اور اس کے منشی نے اللہ رکھا کو اسی کمرے میں روک لیا۔ تھوڑی دیر بعد انجینئر بھی آپہنچے ۔ اُس کے ہاتھوں میں موجود کھلے لفافوں کے منہ سے سُرخ کرارے نوٹ کسی دلہن کے جوبن کی طرح جھانک رہے تھے، جنہیں دیکھتے ہی اللہ رکھا کے منہ پر اطمینان کی جھلکیاں جلوہ افروز ہوئیں۔ اُس نے انجینئر صاحب سے لفافہ لیتے ہوئے کہا، ” میں بھی پریشان تھا کہ اتنی بڑی ، تین کلومیٹر پختہ سڑک غائب کیسے ہوگئی؟“۔
” صاحب! اب تو مل گئی ناں؟“۔
” تمہارے ہاں تو میں گنوا آیا تھا ، یہ تو ایم این اے صاحب کے احسانات ہیں“۔
” صاحب ! آپ کا اور ہمارا مالک تو ایم این اے صاحب ہے نا!“۔
دونوں کے بڑے بڑے قہقہے کمرے میں پھیل جاتے ہیں۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *