Home » شیرانی رلی (page 114)

شیرانی رلی

March, 2017

  • 16 March

    ادھوری نظمیں (سپیشل بچے)  ۔۔۔ سبین علی

    کمزور ذہن چوڑے ماتھے والے اور ان کے ہر خط پیشانی میں کنداں اک کرب مسلسل چھوٹی آنکھیں کمزور نظر دھندلے مناظر اور وہ دیکھ لیتے ہیں مکمل انسانوں کا ادھورا پن سانس لیتے ہیں آڑی ترچھی لکیروں آبی رنگوں میں اور چل پڑتے ہیں ہوا کی خانہ بدوش موجوں کے سنگ سر دھنتے ہیں موسیقی کی لَے پر اور ...

  • 16 March

    غزل ۔۔۔ وصاف باسط

    اندروں نیند کا اک خالی مکاں ہوتا تھا میری آنکھوں میں ترا خواب نہاں ہوتا تھا روز جاتے تھے بہت دور تلک ہم دونوں پر یہ معلوم نہیں ہے میں کہاں ہوتا تھا دشت کے پار بہت دور تھی اک آبادی اور اس سمت بہت گہرا دھواں ہوتا تھا خوف کے بعد بھی وحشت ہی نظر آتی تھی وحشتوں سے ...

  • 16 March

    غزل ۔۔۔ احمد شہریار

    دریا سخت دباؤ میں ہے ڈوبنے والا ناؤ میں ہے اب ذرے ذرے کا ہاتھ صحرا کے پھیلاؤ میں ہے مرہم میں آرام نہیں ساری تسکیں گھاؤ میں ہے تصویروں میں جلتا شہر کب سے سرد الاؤ میں ہے آئنہ گر کو کیا معلوم جو لذت پتھراؤ میں ہے

  • 16 March

    کہیں ٹوٹتے ہیں ۔۔۔ ابرار احمد

    بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوے ہوے قافلوں کی صدائیں ، بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں درختوں میں ۔۔۔۔۔۔ آنسو ہیں صحراؤں کی خامشی ہے ادھڑتے ہوے خواب ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہوے خشک پتے کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں افسوں ہے سمتوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حد ...

  • 16 March

    غزل ۔۔۔ رضوان فاخر

    دیا کہتا رہا ، چپ تھے دریچے پتنگوں نے سنے خوشبو کے قصے ان ہونٹوں پر تبسم کھلتے کھلتے بدل جاتے ہیں انگوروں میں غنچے یہ ساحل پہلے بھی دیکھا ہوا ہے مگر پہلے یہاں دیوار و در تھے کوئی سلوٹ نہیں دریا پہ لیکن کنول رکھے ہیں پانی پر قدم کے میں جل لے کر بناوں تیری صورت جو ...

  • 16 March

    غزل ۔۔۔ منیر فیاض

    چاند کے ساتھ گئی جھیل کی تابانی بھی سسکیاں لینے لگے رات کے زندانی بھی شہرِ معلوم کی گلیوں سے گزرتے لوگو دھیان میں رکھنا کوئی لمحہء امکانی بھی ساتھ چلتی ہے کسی منزلِ گم نام کی اور گام دو گام مری بے سروسامانی بھی آئنہ وار مجھے دیکھے چلی جاتی ہے تیری تصویر سے لپٹی ہوئی حیرانی بھی ہجر ...

  • 16 March

    غزل ۔۔۔ رحمان راجہ

    بْجھے ہوئے سے جو چند سگریٹ پڑے ہوئے ہیں سو ہم محبت میں اس طرح سے جلے ہوئے ہیں یہ میرا کمرہ۔۔۔یہ میرا گھر ہے؟۔۔ میں کیسے مانوں یہاں تو ہر سْو تمہارے فوٹو لگے ہوئے ہیں جواں درختوں کی چھاوں میں بھی وہی مزہ ہے مگر جوبوڑھوں سے اپنے رشتے بنے ہوئے ہیں وہ خط پْرانے، پْرانے فوٹو،،تمہارے تخفے ...

  • 16 March

    لبادے ۔۔۔ کاوش عباسی

    سچ کو سچ ہونے نہیں دیتے ہیں اپنے لبادوں پہ جو ہم سچ پہ چڑھائے ہوئے ہیں فیصلے سب اپنے کئے جاتے ہیں خود کو، ہر رِشتے کو اِن کہنہ ، گرانبار لبادوں کی اِطاعت میں دئیے جاتے ہیں مارنا، کاٹنا ہاتھوں سے گلا گھونٹنا اِنسان کو، رِشتوں کو دبا کر رَکھنا یہ لبادے ہیں ہمارے کئی صدیوں سے ہم ...

  • 16 March

    غزل  ۔۔۔ آفتاب حْسین

    تیر اِس بار نشانے کی طرف سے آیا یعنی اِک زخم نہ آنے کی طرف سے آیا کارِ دْنیا نے اب اْلجھایا ہے ایسا کہ مجھے دھیان اپنا بھی زمانے کی طرف سے آیا ہر گْلِ تازہ میں خْوشبْوئے گْذشتہ پائی ہر نیا خواب ، پْرانے کی طرف سے آیا راستہ دیکھتے رہتے تھے کہ آئے گا کوئی اور جسے ...

  • 16 March

    درد کی لکیروں سے گفتگو ۔۔۔ ثروت زہرا

    وراثت شاہ کٹی پھٹی لاشوں کے ٹکڑے ڈھوتے ڈھوتے تمھاری انگلیوں کی لکیروں کے بیچ خوں کے کتنے خوابیدہ داغ دفن ہوچکے ہیں تمھارے ماتھے کی شکنوں کے بیچ درد کی ہزارہا لکیریں ہیں جو اپنے خط کھیچتے کھیچتے ہانپ رہی ہیں آنکھ کی پتلیوں میں دھرے منظروں کے ترازو میں کتنے بریدہ وزن تول چکے ہو ہاتھوں کی جنبشوں ...