Home » بلوچالوجی » گوادر۔۔۔۔عیسیٰ خان

گوادر۔۔۔۔عیسیٰ خان

ساحل مکران پر گوادر کی کہانی کچھ اس طرح ہے یہ ایک چھوٹا ماہی گیروں کا گاو¿ں ہے۔ سن 1581عیسوی میں پورچگیزی حملہ آوروں نے اس پوری بستی کو جلا دیا۔ بلوچ مزاحمت کار حمل جئند پورتگیزی حملہ آوروں سے لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ اسے گوادر کی سرزمین کا پہلا ہیرو کہا جاتا ہے۔ سن 1783 میں خان آف قلات میر نصیر خان اول نے گوادر کو سلطنت مسقط عمان کے ایک شہزادے سلطان بن احمد کو بطور جاگیر عطا کیا۔ یہ شہزادہ مسقط میں بغاوت کی وجہ سے میر نصیر خان کے پاس مدد کا طلبگار ہوا تھا۔ انہوں نے گوادر کو بطور جاگیر مسقط سلطان کے سپر د کیا۔ اس نے گوادر پر قبضہ کرکے سن 1792 میں گوادر کو سلطنت مسقط ، عمان کے ساتھ شامل کردیا۔ گوادر انگریزوں کی آمد کے وقت ایک چھوٹا کاروباری مرکز بن چکا تھا۔ خانان قلات کی لاکھ کوششوں کے باوجود مسقط کے حکمرانوں نے گوادر کو واپس کرنے سے انکار کردیا کیونکہ اس وقت بھی گوادر اس وقت بھی تجارتی اور دفاعی اعتبار سے ایک اہم مقام رکھتی تھی۔ اس لیے سن 1860 کے بعد برطانوی حکومت نے گوادر اور بندر ، چہبار پر مکمل سیاسی تسلط حاصل کرلیا۔ یہ دونوں جگہیں سلطنت عمان کی تھیں اس کی دفاعی نوعیت کی آج بھی ایک یاد گار موجود ہے جو گوادر اور جیونی کے درمیان واقع ہے۔ اس جگہ پر برطانوی رائل ائر فورس کی ایک دفاعی رن وے آج بھی موجود ہے۔ جسے برطانوی فوج نے دوسری جنگ عظیم میں خلیج کے تیل کی حفاظت کے لیے بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد گوادر کو عمانی سلطنت سے خرید کر کے پاکستان میں شامل کیا گیا۔  گوادر کی سب سے اہم چیز شہر کے جنوب میں واقع ایک دیو کی طرح کھڑی ہوئی کوہ باتیل ہے۔ یہ پہاڑ تقریباً 19 کلومیٹر لمبی ہے ڈیڑھ کلومیٹر چوڑی اونچائی زمین سے تقریباٍ ً 3 سے 500 میٹر ہے۔ تین جانب سمندر ہے ایک طرف خشکی ہے۔ اس حصے میں بندرگاہ ہے۔ یہ ماہی گیروں کے روزمرہ کی زندگی کا ک±ل اثاثہ ہے۔ کوہ باتیل جو ماہی گیروں کی کشتیوں کو تیز ہواو¿ں اور طوفانوں سے بچاتی ہے جس طرح کوئی ماں اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس وقت کوہ باتیل کا زیادہ حصہ دفاعی اداروں کے حوالے ہے۔ ایک چھوٹے سے حصے سول لوگوں کی ایک کالونی موجود ہے۔ یہ کالونی زیادہ تر بڑے سرمایہ داروں اور سرکاری اہلکاروں کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔ یہ تقریباً ایک لاکھ نفوس کی آبادی ہے۔ زیادہ تر آبادی تقریباً 95 فیصد بلوچ ہیں۔ باقی 5فیصد آبادی میں ہندو، خواجہ، یہاں کے مقامی لوگ رہے ہیں۔ ہندو ہجرت کرکے جاچکے ہیں خواجہ کمیونٹی کے کچھ لوگ قیام پذیر ہیں۔ یہاں پر مڈل کلاس بلوچوں کا ایک کاروباری طبقہ موجود ہے جو مچھلی کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کچھ لوگ ایرانی ذیزل ، تیل کا کاروبار کرتے ہیں۔ کوئی دکانوں میں ایرانی سامان کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ عام لوگوں کا کاروبار ماہی گیری ہے۔  آج کل سی پیک معاہدہ (CPEC) اور گوادر کا چرچہ عام ہوگیا ہے۔ لفظ سی پیک اور گوادر ہر پاکستانی کے اعصاب پر سوار ہوگیا ہے۔حکمران طبقے کی نظر میں یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے پورا ملک خوشحال ہوجائے گا اور گوادر جنت الفردوس کی شکل اختیار کر جائے گا یا دبئی کی طرح تیز ترقی کرتے ہوئے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگا۔ فری پورٹ ہونے کی وجہ سے یہ ایک بہت بڑا تجارتی مرکز بن جائے گا۔ اس کی تشہیر کے لیے سرکاری ٹی وی چینل ، پرنٹ میڈیا اور نجی ٹی وی چینلز میں پروپگنڈا ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ چین کی جانب سے کی گئی اس چیالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو ایک تاریخ ساز کارنامہ قرار دیا جارہا ہے۔ واقعی یہ ایک تاریخ ساز سرمایہ کاری ہے کیونکہ حاکموں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کوئی بھی بیرونی ملک یہاں پر سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت چین کی امداد کسی طرح سے بھی من و صلوا ہ سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ چنینوں کا کام ہے۔ ہم بیٹھ کر کھائیں گے۔ اس منصوبے سے جو منفی اثرات اس خطے پر مرتب ہوں گے اس کی پرواہ حکمرانوں کو نہیں ہے۔ ہماری ریاست سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی پشت پناہ اور اس کی تحفظ دینے والی ایک ایسی مشین ہے جو عوام کی یا غریب طبقات کی مستقبل یا ملک کے مستقبل کے لیے سوچنا ، فکرکرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کم از کم ملک کا 70 سالہ سیاسی و معاشی تجربہ اس بات کو بالکل ثابت کردیتا ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ قوم پرست ، دانشور، سوشلسٹ حضرات ، سی پیک اور گوادر کے بارے میں کچھ اس طرح کے خدشات رکھتے ہیں۔ 1۔ مکران کے ساحل پر واقع گوادر بلوچستان کا سب سے متنازعہ علاقہ ہے جس میں اس صدی کا سب سے بڑا سازشی کھیل جاری ہے۔ 2۔ دنیا میں سب سے زیادہ جنگیں اور خانہ جنگی ان ملکوں میں ہوتی ہیں جو تیل و گیس کے ذخائر رکھتے ہیں یا گزر گاہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً عراق، شام، لیبیا، یمن، ترکی، یا تین ملکوں میں پھیلے ہوئے ک±رد باشندے آج بھی ان جنگوں کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔ سامراجی ملکوں کے تاجروں کو یہ پرواہ نہیں ہوتی مقامی لوگ مریں یا جئیں ، ان کو اپنے مفادات اور منافع سے مطلب ہوتا ہے۔3۔ ساحل مکران کا پاکستان کو حصہ ہو یا مکرانی ہر دو جانب بین الاقوامی بڑی طاقتیں چین ، امریکہ ، بھارت، ایران ، سب کی نظریں گوادر پر لگی ہوئی ہیں۔ کوئی گوادر میں بیٹھ کر اپنے سیاسی ، معاشی مقاصد پوری کرنا چاہتا ہے۔ کسی کو چہبار کے بندر کی ضرورت ہے۔ جب ان سامراجی ملکوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے۔ مکران کا ساحل جنگ کا آماجگاہ بن جائے گا۔ اس خطے میں دو کلاسک دشمن پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ اس سے دونوں اطراف کے بلوچوں کی سرزمین او ر لوگوں کو بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ 4۔ وسط ایشائی ممالک قازقستان ، تاجکستان، کرغیزستان ، ازبکستان، ترکمانستان کے پاس تیل و گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ مستقبل میں خلیج کے تیل ختم ہونے کے بعد دنیا کی نظریں اب انہی ملکوں کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ ان ممالک کے پاس تیل اور گیس کا سمندری راستے ترسیل کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ ماسوائے مکران کے ساحل کے۔ ساحل چاہے یہ ایرانی مکران کا ہو یا پاکستانی مکران کا دونوں اطراف میں ترقی کے نام پر بلوچستا ن کی سرزمین استعمال ہوگی۔ پھر تمام مصیبت بلوچ عوام کے گلے پڑے گی۔ وسط ایشیائی ملکوں کے حکمران طبقے سی پیک میں شریک ہونے کی بات چیت کرچکے ہیں۔ ان ملکوں کا شامل کیے بغیر گریٹ گیم کسی طرح مکمل نہیں ہوگا۔ جبکہ دوسری جانب ایرانی قیادت وسط ایشائی ملکوں کےساتھ کئی معاہدے کرچکے ہیں۔ 5۔ ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے تصوراتی طور پر گوادر کو دبئی بنانے کی بات کرتے ہیں ، کیا ہمارے پاس دبئی کے حکمرانوں جیسی انتظامی صلاحیت موجود ہے؟ جو حیثیت دبئی او ر خلیج کے دیگر ممالک میں مقامی لوگوں کو حاصل ہے گوادر میں اس تصور موجود نہیں ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے بائے روڈ گوادر کا سفر کریں۔ عام لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہمارے انتظام کار کرتے ہیں وہ تضحیک آمیز سلوک آپ پر واضح کردے گا کہ یہ کس طرح کے انتظام کار ہیں۔ 6۔ تمام ملک کے ٹی وی چینل و اخبارات کی ہسڑیائی پروپیگنڈے کی وجہ سے بڑے تاجروں سے لے کر چھوٹے کاروباری غیر مقامی لوگوں کا ایک جم غفیر گوادر پہنچ چکا ہے ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کا تعلق بڑے صوبےپنجاب سے ہے سیاسی رشوت اور کرپشن کی کمائی ہوئی دولت کو گواد ر میں ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔ دوسرے گروہ کا تعلق صوبہ پختون خواہ سے ہے یہ گروپ جہاد کے نام پر افغان جنگ اور منشیات سے کمائی ہوئی دولت گوادر میں لگا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال اچانک گوادر کی زمینوں کی قیمت 100 فیصد سے 500فیصد تک بڑھ جانا ہے۔یہ کالا دھن ہے یہ کسی طرح عام کاروباری لوگوں کی بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اتنی مہنگی زمین یا دکان خرید سکے وہ بھی گوادر جیسے متنازعہ (War Zone) کی شہرت رکھنے والے علاقے میں ان سرمایہ کاروں کا حکمرانوں اور مقتدر اداروں کی مکمل پست پنائی حاصل ہے۔  7۔ گوادر کی زمینوں کی خریداروں کے دو گروپ ہیں۔ (1) سی پک کے نام پر چائینیز کمپنیاں (2) پرائیویٹ سیکٹر کے وہ افراد یا گروہ ہیں جن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ 8۔ گوادر میں باہر سے آنے والے نوآباد کار اور ان کے مقامی گماشتے آج کل ہر گھر کا دروازہ کھٹ کھٹاتے پھرتے ہیں اور مقامی لوگوں سے اصرار کرتے ہیں کیا تم اپنا گھر دکان خالی پلاٹ یا زمین بیچنا چاہتے ہو؟ اور پھر ریٹ اتنا زیادہ دے رہے ہیں جس کو سن کو مقامی غریب ماہی گیر ہواو¿ں میں ا±ڑنے لگتا ہے۔ ایک مقامی ماہی گیر جس کی کل ملکیت ایک ٹوٹی پھوٹی کشتی ، دو بکریاں او ر ایک گدھا ہوتا ہے وہ ایسی آفر کو کبھی نہیں ٹھکرائے گا۔ وہ فوراً اس پیش کش کو قبول کرتا ہے۔ اس طرح کئی مقامی لوگ اپنے آب و اجداد کی زمینیں بیچ کر گوادر سے بے دخل ہوگئے۔ کیا یہ سب ترقی کے نام پر ہورہا ہے؟ ترقی کے نام پر ہمارے سامنے جیتا جاگتا مثال سندھ اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ جس میں سندھی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ تمام زمینیں جائیدار غیر سندھیوں کے تصرف میں چلی گئیں۔ واہ ترقی خوشحالی یہی کچھ اب گوادر میں ہونے والا ہے۔ اس کے جو ثمرات ہوں گے کثیر اللسانی شہر۔ قومی نسلی جھگڑے ، فرقہ واریت، دہشت گردی، لاقانونیت۔ گوادر میں زمینوں کی اس تیز رفتار خرید و فروخت کو دیکھتے ہوئے فلسطین کی پرانی تاریخ یاد آتی ہے۔ جس یہودیوں نے مہنگے دام دے کر مقامی فلسطینی عربوں سے زمینیں خریدیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد واقعی علاقے میں ترقی ہوئی لیکن کس کی ؟ مقامی فلسطینی تو اب بھی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جن قوموں کے پاو¿ں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے ان کی وجود مشکل سے بچ پاتی ہے۔ فلسطین کے ترقی یافتہ حصے میں جاکر کام کرنے کے لیے فلسطینیوں کو روزانہ لائن میں کھڑے ہوکر ورک پرمٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ہر قابض طاقت کا مقامی لوگوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے کیونکہ مقامی لوگ ان کو دہشت گرد، ملک دشمن ، امن امان میں خلل ڈالنے والا قرار دے کر اپنی قبضہ گیری کو برقرار رکھتے ہیں۔ 9۔ گوادر کی جانب مہم جو سرمایہ داروں کی دوڑ ہمیں سولہویں صدی کی امریکا کی تاریخ یاد دلاتا ہے جب یورپی قوموں نے امریکی سرزمین پر ہلہ بول دیا تھا۔ کیونکہ وہاں سونے کی کانیں تھیں۔ان یورپی قوموں نے زمین اور سونے کے لیے آپس میں جھگڑا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں کئی سال تک خانہ جنگی ہوتی رہی۔ امریکہ نے ساری دنیا سے زیادہ ترقی کی۔ لیکن جن کی دھرتی تھی وہ کہاں گئے ؟ آج بھی امریکہ میں چند ریڈ انڈین خاندان موجود ہیں۔ جو صدیاں پہلے باہر سے آنے والے امریکیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ کیونکہ نوآباد کاروں نے ان کے آبا و¿ اجداد کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا تھا وہ اب تک نہیں بھولے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے طاقت ور قوم کسی کمزور قوم کی زمین و وسائل پر زبردستی قبضہ کرسکتی ہے لیکن مظلوم قوم کی نفرت اور مزاحمت پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتی چاہے صدیاں گز ر جائیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔ 10. دنیا میں ایسی قوم موجود نہیں ہے جو ترقی اور خوشحالی نہ چاہتی ہو اس طرح بلوچ بھی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں مگر اس بہانے سے ان کی سرزمین نوآباد کاروں کے حوالے نہ کی جائے ان کو اقلیت میں تبدیل کرنا غیر فطری عمل ہوگا اس سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا یہ ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ اس بے مہار ترقی کے لیے خاص قوانین وضع کرکے ان کو لگان دیا جائے تاکہ مقامی لوگوں میں بے چینی او ر مایوسی ناپھیلے۔11. ایشا میں تیز ترین ترقی کا چیمپئن ملیشیا کو مانا جاتا ہے ، مہاتیر محمد کی قیادت میں جو اقتصادی پالیسی اختیار کی گئی اس کے مطابق ملائی زبان بولنے والے 60فیصد مقامی آباد ی کو بھومی پترا زمین کے فرزند کا نام دیا گیا۔ ان کو الگ رنگ کے شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔ 40 فیصد چینیوں ، ہندوستانیوں کو یہ درجہ نہیں دیا گیا۔ حالانکہ چینی ، ہندوستانی صدیو ں پہلے یہاں کے نوآباد کار ہیں۔ ان کے لیے الگ قسم کے شناختی کار ڈ جاری کیے گئے۔ کیوں؟ لیکن ہمارے ملک میں مقامی لوگوں کے بارے میں جو ذہنت کار فرما ہے اس کے مطابق ایسے تمام اقدامات کو علاقائیت ، تعصب ، نفرت پھیلانے، قوموں کو آپس میں لڑانے کا عمل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں پر دنیا کے ہر خطے سے آنے والا شخص چاہے افغانی ہو، ہندوستانی ہو، برمی ہو ، بنگالی ہو ، ایرانی ہو یا کوئی اور ایک مہینے کے بعد پاکستان شناختی کارڈ حاصل کرکے پاکستانی بن جاتا ہے۔ کیا مہاتیر محمد کا سماجی معاشی پالیسی ایک بے وقوفانہ عمل تھا جس میں ملیشیا کو ایشیا ئی ترقی کا ٹائیگر بنا دیا۔ ملیشیا میں صدیوں سے آباد چینی ہندوستان کے باشندوں کو بھومی پترا نہیں مانا حالانکہ وہ ملیشیا کی کل آباد ی کے 40 فیصد ہیں۔ ان کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے کسی ملائی باشندے کو شریک کار بنانا لازمی ہوتا ہے۔ ملیشیا کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے میں مقامی لوگوں کا کردار بڑا اہم ہے۔ یہ سب صرف مہاتیر محمد کی سوچ کا کمال ہے اور ملیشین پالیسی سازوں کی محنت و ہمت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ہم ببول سے بیر کی توقع نہ کریں۔ ہمارے یہاں ملکی معیشت میں مقامی لوگوں کی شرکت کتنی ہے اس کا اندازہ بلوچستان کے داراحکومت کوئٹہ اور سندھ کی دارالحکومت کراچی سے کرسکتے ہیں۔ اب باری گوادر کی آنے والی ہے۔ 12. کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یہ مفروضہ صحیح ہے یا غلط ہم اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے مگر سی پیک کے اغراض و مقاصد ہمیں بڑ ی حد تک ہوبہو ویسے ہی لگتے ہیں۔ جیسے انیسویں صدی کی وسط میں برطانوی سامراج میں خان آف قلات سے معاہدے کیے تھے۔ جس کے تحت حکومتِ قلات کو پابند بنا یا گیا تھا کہ وہ برطانوی مفادات کا تحفظ کرے۔جس کا اسے معاوضہ دیا گیا۔ برطانیہ کو بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے گزرنے اور تجارت بڑھانے کے لیے محفوظ راستے درہ بولان سے گزرنے والے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی قافلوں کی حفاظت کی ضمانت مکران کے ساحلی بندرگاہوں پر برطانوی بیڑوں کی آزاد نقل و حمل بحری راستے سے ایسٹ انڈیا کمپنی ایران اور وسط ایشائی ملکو ں سے کاروبار کرتا تھا۔ اس کام کے لیے برطانوی سامراج نے بلوچستان کے خانان قلات اور مقامی حاکموں اور سرداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ جس کے لیے حکومت برطانیہ ان کو سالانہ وظیفہ دیا کرتی ہے۔ ہمارا آج کا خان آف قلات ریاست پاکستان ہے ، چین برطانوی سامراج کا کردارنبھا رہا ہے۔ ماسوائے قبضہ گیری اور فوجی مداخلت کے۔ مقامی میر سردار اپنے پرانے کام کا جدید انداز میں کررہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طریقے سے خان قلات کی پشت پناہی میں سرداروں نے 1864 کے بعد انڈین یورپی ٹیلیگراف کی لائن کی تنصیب کے کام کی حفاظت کے نام پر پیسہ کمایا اب سی پیک راہداری کی حفاظت اور زمینیں بیچ کر پیسہ کمائیں گے۔ ایک بات وطن اور قوم کے نام پر پیسہ کمانے والے لیڈروں سے ضرور کہنا ہے۔ جس انڈو یورپی ٹیلیگراف کے نام پر خان قلات سے لے کر وہ تمام حاکم سردار وقتی طور پر مستفید ہوئے مکران کے ساحل سونمیانی بندر سے لے کر ایرانی بلوچستان کے بند ر جاسک تک اسی پٹی کے تقریباً زیادہ تر حاکم و سرداروں نے برطانوی سامراج کا ساتھ دیا۔ آج جو منظر ہمارے سامنے ہے۔ گلگت سے گوادر تک ہر آنے والے سردا ر حکومتی کارندہ اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ نقصا ن صرف غریب طبقے کے حصےمیں آئے گا۔ کیونکہ یہ طبقہ حکمرانوں کے ایجنڈا میں شامل نہیں ہے۔ 13. برطانو ی سامراج نے انڈو ٹیلیگراف کے نام پر بلوچ قبائل میں جو پیسہ تقسیم کیا اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ اس پیسے کی فراوانی او ر لالچ کی وجہ سے بلوچ سماج میں افراتفری مچ گئی۔ خان قلات کے خلاف بڑی بڑی بغاوتوں کا آغاز ہوا مقامی سردار آپس میں دست و گریباں ہوئے، بلوچوں کی بدبختی کو دیکھو جس ٹیلی گرام لائن کی وجہ سے انہیں نوازہ جارہا تھا اسی کے حدبندی کے معاملے میں جب دو استعماری طاقتیں برطانوی سامراج اور ایران کے درمیان مفادات میں ٹکراو¿ پیدا ہوا قربانی کا بکرا بلوچستان کی سرزمین کا بنایا گیا۔ فارسی شہنشاہ نصیر الدین قاچار کے زمانے میں 1872 میں انگریزوں ، فارسیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بلوچستان کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصے پر ایرانی فارس نے قبضہ کرلیا۔ دوسرے میں بظاہر خان قلات کی حکمرانی تسلیم کی گئی۔ مگر اس کے اصل مالک انگریز تھے۔ یہ ٹھیک وہی جگہ ہے جہاں پر اب پاکستان ، چین مل کر ترقیاتی کام کررہے ہیں۔ اور دوسری جانب ایران بھارت اپنے مقاصد کے لیے روبہ عمل ہیں۔ امریکہ اور روس اس خطے میں گدھ کی منڈلا رہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کے یہ خدشات درست ہیں جس خطے میں بالادست قوموں میں ٹکراو¿ ہوگا اس سرزمین کی خیر نہیں اس میں رہنے والے عام لوگوں کی خیر نہیں۔ ایسا نہ ہوکہ 1872 والا کوئی نیا قضی? نہ جنم لے۔ اوپر بیان کیے گئے نقاط سے ہم نے جو نتائج نکالے ہیں۔(1) حکمرانوں کا کہنا ہے سی پیک یا راہداری منصوبے سے ملک میں شاندار ترقی ہوگی۔ اس سے حاصل ہونے والی ٹیکس سے ملک معاشی طور پر مستحکم ہوجائے گا۔ اور ملک میں معاشی ، سیاسی نظام کو فائدہ ہوگا۔ تمام لوگوں کی معیار زندگی بلند ہوجائے گی۔ جواباً عرض ہے دنیا کی قدیم کی قدیم ترین تجارتی بندرگاہ نہر سوئیز ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ملک مصر میں سوئر کینال کے نام سے یہ مشہور تجارتی راستہ ہے یہ کینال 1869 میں تجارت کے لیے کھول دی گئی اس کی تمام تر سرمایہ کاری یورپی ملکوں فرانس برطانیہ اور دیگر بین الاقومی سرمایہ داروں نے کی مصر کی حکومت کو راہ داری کے نام سے ٹیکس وصول کرتے ہوئے تقریباً ایک سو اڑتالیس سال ہوگئے ہیں۔ مصر میں کتنی معاشی ترقی ہوئی ہے؟ مصر میں کس قدرسیاسی استحکام ہے جہاں سے دنیا کا تیل گزرتاہے یورپی منڈیوں کے لیے اس ٹیکس کے مد میں کتنی آمدنی ہوسکتی ہے؟ مصر کی ترقی اور آمدنی کے تمام ذرائع بین الاقوامی سرمایہ دار ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ملکی حکمران سامراجی ملکوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے خاندا ن کے افراد کمپنیوں کے گماشتے بن کر پیسہ کماکر باہر کے ملکوں کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں۔ ملک کی غربت دور کرنے کے نام پر ملکی معیشت ٹوٹل تباہ کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں معدنیات بشمول تیل او ر گیس کے ذخائر موجود ہوتے ہیں۔ وہاں پر سیاسی استحکام بہت کم ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ تمام کارستانیاں ان سامراجی ملکوں کے ہیں جو اسلح کی اپنی فیکٹریوں کو چلانا چاہتے ہیں۔ تجارت کے نام پر پسماندہ ملکوں کے مقامی صنعت کو تباہ کرنے کے لیے اپنے ملک کی غیر معیاری سامان سے ان ملکوں کی منڈیاں بھر دیتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں کبھی کبھار سیاسی منڈی خالی دیکھ کر سرمایہ داروں کی جانب سے معین الدین اور شوکت عزیز جیسے لوگو ں کو وزیر اعظم بنا کر اس کی بھرائی کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔شوکت عزیز کے زمانے میں گوادر پورٹ کو پانچ سال کے لیے ایک قلیل سی رقم پر سنگا پور کی کمپنی کو ٹھیکے پر دے دیا گیا تھا۔ اس سے گوادر میں جو ترقی ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ بیرونی اشیاء کے ساتھ ساتھ ملک کے وزیر اعظم باہر سے درآمد کرنے والے ملک میں کیا ترقی ممکن ہے؟ 16۔ گوادر کی پرانی شہر اور بندر گاہ کو مقامی لوگوں سے خالی کرانے کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے۔ ماہی گیروں کو کشتیوں سمیت متبادل جگہ دینے کے لیے گوادر کے قریب چھوٹی بندرگاہ سرو یا پیشکان کی طرف دھکیل دیئے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ دونوں چھوٹی بندرگاہیں گوادر سے بالترتیب 21 سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر تیار حالت میں موجود ہیں اس طرح گوادر بمع بندرگاہ ترقی اور تجارت کے نام پر مقامی لوگوں سے چھین کر تجارتی قزاقوں کے حوالے کیے جانے کا بہت بڑا امکان موجود ہے۔ مستقبل میں نہ گوادر کی بندرگاہ مقامی لوگوں کے تصرف میں ہوگا اور نہ شہر۔اس لیے کہ آج گوادر برائے فروخت ہے۔۔۔

 

Spread the love

Check Also

Balochistan Agriculture — Abida Rehman

Being a farmer means shaking hands with Nature When did Agriculture started? If we go ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *