Home » شیرانی رلی (page 16)

شیرانی رلی

November, 2020

  • 11 November

    بنام فیض احمد فیض  ۔۔۔ صفدرصدیق رضی

    ہم تجھے بھولنے والے تھے تجھے بھول گئے ہوتے کہ ہم زود فراموش کسی کو بھی بھلا سکتے ہیں حافظہ اتنا سبک سر ہے کہ تادیر اس میں کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہم تجھے بھولنے والے تھے مگر بھولے نہیں عہدِ حاضر میں بھی ماضی کی طرح شہر کی سرخ و سیہ سڑکوں پر رنج اور کرب کی اڑتی ...

  • 11 November

    انچو تہنایا رند ئے تو ۔۔۔۔ دادبخش کلمتی

    انچو تہنایا رند ئے تو گشے گاراں  وتئی رند پداں گمان بھی ٹکرے دلئے تو گوں وتا برتگ پہ وابابند بنت چم منی… اکس تئی چول جنت باتنا انچو کمزور باں گشئے تہا سک پرشتگاں تو یاد  کائے ارس انارکاں ہْل وراں اِشکْتہ انچو کے گشتگ تو تئی محبت نست مناں۔۔۔ آسمان ہما روچا ہروتکا سرا منی زمین انگر بوتگ ...

October, 2020

  • 8 October

    گل خان نصیر

    بچے رو رو نین گنوائیں بوڑھے در در ٹھوکر کھائیں چُھپ چُھپ مائیں نیر بہائیں بھیک ملے نہ ادھار، رے بھیا راج کرے سردار بلک بلک کر بچے روئیں بھوکے پیٹ سجنوا سوئیں سجنی گھر کی لاج ڈبوئیں توند بھرے زردار، رے بھیا راج کرے سردار بھوکی، ننگی قوم بچاری گھر گھر ماتم گریہ زاری لینے کو سردار بیگاری مالی ...

  • 8 October

    ہم ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ نہیں ہیں ۔۔۔ نسیم سید

    ہم نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے چرایا اوراس کنویں میں چھپا دیا جسے بلیک ہول کہتے ہیں ہم تھے۔۔۔۔۔۔۔۔مگرنہیں تھے پھر۔۔۔۔۔ وقت کے ہیرپھیرنے، اتھل پتھل نے کا ئنات کا سارا لکھا مٹا دیا سارا بنا بگاڑ دیا مشرق سے مغرب تک شمال سے جنوب تک زمیں پرنقطوں کی صورت جابراورچوکنی سرحد یں اپنی اپنی للکارسمیت سمیٹ دی ...

  • 8 October

    دعا ۔۔۔ فیض احمد فیض

    آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی زہرِ امروز میں شیرینیِ فردا بھردے وہ جنہیں تاب گراں باریِ ایام نہیں اُن کی پلکوں پہ شب وروز کو ہلکا کردے   جن کی آنکھوں کو رُخِ صبح کا یارا بھی نہیں اُن کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے جن کی قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں اُن کی نظروں ...

  • 8 October

    چاند میں بیٹھی بڑھیا دیکھ رہی ہے ۔۔۔  کشور ناہید

    پانچ مہینوں سے دروازے پہ دستک نہیں ہوئی میں کیوں بار بار دروازہ کھول کے کیا ڈھونڈتی رہی کوئی چہرہ، کوئی قدموں کی چاپ مگر باہر تو ایک دفعہ بلی گزرتی نظر آئی اور ایک دفعہ چھپکلی سارے مکیں اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ کھڑکی سے باہر بھی نہیں جھانکتے پہلے کرونا سے ڈرتے تھے اب انسانوں کے سائے سے ...

September, 2020

  • 7 September

    بانجھ بنجھوٹی ۔۔۔ انجیل صحیفہ

    میں نے  کثرت سے آنکھوں کی بینائی خوابوں پہ خرچی ہے سو آنکھ اب کوئی منظر بھی تکنے کے قابل نہیں دل نے آنکھوں کی باقی بچی روشنائی سے خوابوں کاسودا کیا ہے جو روز ازل سے سفیدی کی رہ تک رہی ہیں وہ وحشت بھری ساری بے خواب آنکھیں کہاں پر کھلی تھیں یہ اسرار تم پر کہاں کھل ...

  • 7 September

    قندیل بدر

    آسماں سے جو شب گرا ہوگا سرمئی جھیل میں پڑا ہوگا   خواب وادی میں نیند جھرنے سے دودھیا چاند بہہ رہا ہوگا   بخت کی ملگجی ہتھیلی پر آتشیں پھول کاڑھنا ہوگا   لاکھ روکا گھڑی کو چلنے سے ریت لمحہ پھسل گیا ہوگا   قمقمے تھک کے سو چکے ہوں گے پر وہ جگنو ہے جاگتا ہوگا   ...

  • 7 September

    رتجگا ۔۔۔ تمثیل حفصہ

    نظم کہتی رہی میں نہیں ہوں نہیں ہاں کہیں ہوں کہیں لفظ گٹھڑی بھرے کاغذوں کے تلے چھپ کے بیٹھے ہیں یوں بات کرتے نہیں دیکھتے بھی نہیں سوچ کشتی میں چپو چلاتے رہیں رات مجھ کو مجھی کو سناتے رہیں تم نہیں ہو نہیں مجھ کو مجھ میں کہیں لفظ ملتے نہیں تیری پہلی کرن ڈوبتی بھی نہیں صبح ...

  • 7 September

    ستیہ پال آنند ۔۔۔ بساط

    بساط کیا ہے؟ کسی بھی مہرے کی؟ فربہی، ڈیل ڈول، جْثہ؟ عمل کی قوت؟ بضاعت و کارکردگی؟شکل؟ چھب؟ تناسبِ؟ خطاب، اعزاز، کلغی، وردی،نجابت و نسل و جاہ و منصب کہ نا تراشیدہ، نیچ، اسفل، غلام، گھسیارے، امکے ڈھمکے؟ چلو، چلیں، دیکھیں کیا بچھایا گیا ہے۔۔۔ اپنی بساط پر آج کے حوالے سے کون کیا ہےَ؟ یہ فوجی جرنیل۔۔۔کل کلاں یہ ...