Home » شونگال » سلیمانی بلوچی ۔۔۔ ہارون مری

سلیمانی بلوچی ۔۔۔ ہارون مری

ادیب،شاعر،لکھاری اور مصور کسی بھی معاشرے کی ترقی وتبدیلی میں قلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہ وہ طبقہ ہے جو کسی بھی معاشرے کی صحیح عکاسی کرسکتے ہیں۔اس طبقے میں سارے پیار کی بولی بولنے والے اور محبت کی بھاشا سمجھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔یہ لوگ کسی بھی مسئلے کو درست زاویے سے سمجھ سکتے ہیں۔
کوئٹہ میں اس وقت بلوچی زبان پر بہت اچھا کام کیا جا رہا ہے جو کہ ہر صورت قابل تحسین ہے۔بلوچی زبان پر خصوصی طور پر بلوچی اکیڈمی کوئٹہ،بلوچی ڈیپارٹمنٹ جامعہ بلوچستان اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ نے جو کام کیا ہے وہ یقیناًبہت بڑے کارنامے سے کم نہیں ہے۔ان اداروں نے کئی کتابوں کے بلوچی میں تراجم کرائے ہیں جو کہ غیر معمولی کاموں میں سے ہیں۔
میں نے جہاں تک محسوس کیا بلوچی میں آج تک جتنا کام ہوا ہے وہ مغربی بلوچی میں ہے۔اس کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔اب تو اس حد تک مسئلہ ہے کہ مشرقی بلوچی میں کسی خاص لغت یا ڈکشنری کا ملنا بھی ممکن نہیں۔یہ بات نہیں کہ مشرقی بلوچستان میں شاعروں یا ادیبوں کی کوئی کمی ہو۔لیکن ان کی اکثر تحریریں آپ کو اردو یا انگریزی میں ملیں گی ۔مارکیٹ میں جتنی بھی دستیاب کتابیں ہیں اکثر مغربی بلوچی میں ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ مارکیٹ میں ان کی کتابوں کو لوگ بہت کم ہی خریدیں گے۔اب کل ہی کی بات ہے میں نے یونیورسٹی بک پوائنٹ میں اپنے تربت کے ایک دوست کوجناب غلام نبی ساجد بزدار کی لکھی کتاب دکھائی اور بتایا کہ یہ کتاب اپنی نوعیت کی بہترین کتاب ہے ،اسے دیکھ کر وہ کہنے لگا یار یہ تو ڈاکٹر شاہ محمد کی بلوچی میں لکھی ہے اور اس نے کتاب رکھ دی ۔میں حیران ہوا کہ ہماری ادبی حلقوں میں اتنی دوریاں کیوں ہیں؟؟
ایک طرف تو ہم کوئٹہ کے تمام ادبی حلقوں کے اتفاق کی بات کرتے ہیں جو کہ بالکل ایک صحیح اقدام ہے،لیکن بلوچی اکیڈمی اور شعبہ بلوچی جامعہ بلوچستان کو چاہیے کہ سلیمانی بلوچی کی طرف بھی کچھ توجہ مرکوز فرمائیں۔سلیمانی بلوچی بولنے والوں میں سے کئی ایک ہیں جو کہ سرائکی یا سندھی میں کتابیں لکھ رہے ہیں۔
مغربی بلوچستان کے جتنے بھی گلوکار ہیں شاہ جہان داؤدی،عارف بلوچ سے لے کر زیباء صنم تک کو مشرقی بلوچستان میں سنا جاتا ہے۔جب کہ اس کے برعکس آپ کو شاید ہی مغربی بلوچستان کوئی ایساملے جو نڑ سر سنتا ہو یا سبز علی بگٹی سے واقف ہو!! آخر کیوں ایسا ہے؟
اگر بلوچی اکیڈ می کی شائع کی ہوئی کتابوں کو دیکھا جائے تو سوال ذہن میں آتا ہے کہ سلیمانی بلوچی کی کتابیں کیوں کم ہیں؟ جو پرانی کتابیں ہیں ان کو دوبارہ پبلش کیوں نہیں کیا گیا؟ اسی طرح اگر پی ٹی وی بولان یا وش ٹی وی کی کارکردگی دیکھی جائے وہاں بھی کم وبیش ایسا ہی تناسب ہے۔اور تواور کچھ امتحانات ہیں جنھیں ہمcompetitive examsکہتے ہیں ان میں بھی مست توکلی،رحم علی اور جوانسال کے چند ہی ایک اشعار ہیں جو ہر سال دہرائے جاتے ہیں۔
شعبہ بلوچی جو کہ اکثر وبیشتر ادبی پروگرامز کا احتمام کراتی ہے ،اس نے آج تک مست توکلی،سمو،رحم علی یا جوانسال کے نام پر پروگرام نہیں کرائے ہیں۔ خاص وجہ؟اگر شعبہ بلوچی میں ایک طالبعلم مست توکلی یا سمو پر اپنا ایم فل یا پی ایچ ڈی کا مقالہ لے جاتا تو اس کی کس حد تک رہنمائی کی جاتی ہے،یا پھراسے کسی آدمی کا حوالہ دے کر روانہ کیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں بلوچی اکیڈمی،شعبہ بلوچی، سنگت اکیڈمی اور پی ٹی وی بولان والوں کوچاہیے کہ سلیمانی بلوچی کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ ہماری بلوچی کے قیمتی الفاظ و محاورات ضائع ہونے سے بچ سکیں۔۔
یہ ایک ایسا کام ہے جس پر ڈاکٹر شاہ محمد صاحب،رحیم مہر صاحب یا غلام نبی بزدار صاحب جیسے سکالر ہی کچھ لکھ سکیں تو لکھ سکیں ورنہ میں نے جو محسوس کیا اسے تحریر کیا۔بلکہ میں سمجھتاہوں کہ اگر یہ قابل غور پہلو ہے تو اس پر ماہتاک سنگت کوئٹہ کے اداریے ہی میں بحث کی جائے تو برا نہ ہو گا۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

One comment

  1. The Eastern Balochi is being neglected severely. I agree this statement. Shah Muhammad Marri is not writing Eastern Balochi but writing Urdu. The Great Eastern Balochi writers were Mir Mitha Khan Marri, Sher Muhammad Marri, Sardar Khan Gishkori, Haji Mahmood Momin Buzdar, Ishaq Sajid Buzdar and Jowansal Bugti Family. The Present Eastern Balochi writers should strive for publishing Easter Balochi books.

Leave a Reply to Dr. Ghulam Qasim Mujahid Baloch Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *