سنگت ادارتی نوٹ

کوئٹہ کان حادثہ

ابھی چند روز قبل بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان سے 12 کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئیں۔
خیال رہے کہ ہرنائی میں کوئلے کی کان میں گیس بھرنے سے دھماکے کے بعد 10 کان کن پھنس گئے تھے جن کی مدد کے لیے جانے والے 8 مزید کان کن بھی پھنس گئے۔
معلوم ہوا کہ وہاں نہ تو حفاظتی سامان موجود تھا اور نہ کان کے اندر گیس کی سطح ناپنے کا کوئی آلہ موجود تھا ۔
کانوں کے یہ حادثے روز مرہ معمول بن چکے ہیں۔ سرکار مائن اونرز کے ساتھ ملی ہوئی ہے ۔ اور مائن اونراپنے منافع میں اضافے کی خاطر مزدوروں کے حفاظتی اقدامات پر کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ کوئلہ کی کانیں شہروں سڑکوں سے بہت دور واقع ہیں۔ وہاں کوئی صحافی یا ٹوراسٹ نہیں جاتے ۔ عام انسان کو پتہ ہی نہیں کہ وہاں کان کن غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ رہائشی سہولتیں ہیں نہ ہسپتال موجود ہیں اور نہ طبی مراکز۔ بس سب کچھ کان مالک کے رحم و کرم پرچلتا ہے ۔ اور ہر سال سینکڑوں مزدور حادثات میں مارے جاتے ہیں ۔
کوئلہ کانوں کے مزدوروں کا کوئی ٹریڈ یونین نہیں ہے ۔ روشن فکر ادیب اور روشن خیال سیاستدان بھی اپنی کمزوری کے باعث ان اموات کی یاد گیری بعد میں نہیں کرتے ۔ ہمیں تلف شدہ اِن زندگیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور مزید اموات کو روکنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر شخص کام کے بعد زندہ گھر آنے کا مستحق ہوتا ہے ۔ ہمیں اندازہ ہے کہ کپٹلزم میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس نظام میں مزدوروں کو مشینری یا عمارتوں کی طرح بہت منافع کمانے کے ذریعے کے بطور دیکھا جاتا ہے ۔ کپٹلزم کے اندر مزدور منافع کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت اہم نہیں ہوتی ۔ ان کے لیے اہم یہ بات ہوتی ہے کہ کی ہوئی سرمایہ کاری کا اچھا بھلا منافع ملے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہر سال کئی مزدور زندہ گھر نہیں آتے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی مزدور گھر آتے ہیں زخمی حالت میں ۔
کاش کوئی انسان دوست حکومت آئے اور معدنی صنعت کو قومی ملکیت میں لے کر وہاں کان مزدور کے لیے بڑے پیمانے کے حفاظتی اقدامات کرے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*