مسکراہٹ نظم لکھتی ہے

کسی خوشبو کا نم
پرتوں سے چٹخی ، بھُربھُری مٹی پہ
تن کی
رچ کے برسے
نیہہ تک سیراب کرجائے
کوئ آواز
آ ہستہ، بہت آ ہستہ
دھیمے نرم سے لہجے میں
سوچوں کے مضافاتوں سے
آ وازیں دئے جائے
کوئی لہجہ
کلائی تھام کے
اندرکہیں کونے میں بیٹھا
دیرتک باتیں کئے جائے
تو کا غذ کن انکھیوں سے
دیکھتا ہے
مسکرا تا ہے
قلم لفظوں میں
مہتابی شہا بی
رو شنائی سے سنہری سبز تصویریں بناتا ہے
بہت بے ساختہ سی مسکراہٹ
نظم لکھتی ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*