سرسری تم جہاں سے گزرے

"سعیدہ ! فرام ٹوڈے دیز ینگ لیڈیز ول اسٹے انڈر یور سپر ویژن”  
میری باس روزی نے سامنے صوفے پر بیٹھی چار سینک سلائی لڑکیوں کا تعارف کرواتے ہوئے مجھے ہدایت کی۔وہ چاروں جن کی عمریں بارہ سے اٹھارہ سال ہوں گی۔ اتنی دبلی تھیں کہ دو سیٹر صوفے میں آرام سے دبکی ہوئی تھیں – ان میں سے کنارے پر بیٹھی ہوئی نسبتاً صاف رنگت کی لڑکی جو بے پرواہی سے چیونگم چبا رہی تھی کے علاوہ تینوں ہی مجھے دلچسپی سے تک رہی تھیں جبکہ وہ اپنے اطراف سے بے خبر دکھائی دیتی تھی –
اچھا تو یہ ہیں نئی نسل کے خوب صورت ذہین لوگ ،مجھے یقینا ً  بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا – میں نے مسکراتے ہوئے  پیشہ ورانہ لہجے میں لڑکیوں کو خوش آمدید کہا-
روزی پہلے ہی بتا چکی تھی کہ چاروں لڑکیاں جس کرائے کے گھر میں مقیم تھیں اس کا مالک کئی  ماہ سے کرایہ نہ ملنے کے سبب انہیں پولیس کے حوالے کر گیا تھا – ایسے میں پولیس نے خواتین  کے لئے کام کرنے والی ہماری رضاکار  تنظیم  سے ہی رابطہ کرنا تھا جو کہ علاقے میں ایشیائی  ملکوں سے آنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں  کے لئے  واحد سہارا  تھی – بڑی لڑکی نے پولیس کو بتایا ان کا باپ چاروں لڑکیوں کو ان کی ماں سے چھین کر یہاں لے آیا پھر کچھ دن بعد انہیں اس گھر میں چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا-  انہیں اس کے بارے میں کوئی اتا پتا نہیں – ہاں البتہ  وہ بخوبی جانتی تھیں کہ کسی عورت کے پیچھے ہی اس کا ماں سے جھگڑا ہوا تھا  اور اب یہاں کسی دوسرے شہر یا ملک میں شادی کر رکھی تھی –
 شروع میں تو مالک مکان نے ان کی مدد کی لیکن کب تک۔۔ آخر ایک دن وہ پولیس سٹیشن میں بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کا سامان جس میں فلی مارکیٹ یعنی سیکنڈ ہینڈ چیزوں کے بازار سے خریدے گئے  فوم کے  گدے  ، چند جوڑی کپڑے اور کچھ  برتن ہی تھے ، گھر کے باہر پڑ ا تھا …
میں نے سرسری نگاہ سے لڑکیوں کے حلیے کا جائزہ لیا -وہ  بہت پریشان حال دکھائی دیتی تھیں -لگتا تھا کئی وقت سے کھانا بھی نہیں کھایا ہوا……. میں لنچ روم میں اپنے کھانے کے ڈبے سے  سبزی اور سلاد کے ساتھ روٹیاں اٹھا لائی اور جلدی جلدی میز پر لگانے لگی…. سامنے سے وہ لمبی لڑکی جس کا نام روزی نے ماہ رخ  بتایا تھا ، چکن اسٹک کھاتی ہوئی فرج کی طرف آئی –
” ارے یہ تو حلال چکن نہیں”۔ میں نے اسٹک اس کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی -لڑکی ناگواری سے میرا منہ دیکھنے لگی –
 یکا یک پیچھے سے روزی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے سرزنش کے انداز میں بولی "سعیدہ ! یہ سروائیورز ہیں ان کے لئے سب کچھ معاف ہے ”
اوہ …. میں خجل سی ہو کر بولی  ، "چونکہ یہ میری ہم وطن و ہم مذھب ہیں تو اپنی بیٹیاں سمجھ کر کہہ دیا ”
 لڑکی جو ابھی تک وہیں کھڑی تھی ، تھوڑا سا ٹھٹکی پھر دوسری  چکن اسٹک اٹھا لائی  اور اب کھاتی ہوئی کھانے کی میز پر جا رہی تھی …  باقی تینوں لڑکیاں بھی کمرے میں آ چکی تھیں-  میں انہیں نظر انداز کرتی ہوئی اپنے کیبن کی طرف بڑھی اسی دوران میں نے دیکھا روزی نے فرج سے سپارکلنگ گریپ جوس کی بوتل نکالی اور لڑکیوں کے کھانے کی میز پر رکھتے ہوئے میری طرف دیکھ کر استہزائیہ انداز میں  بولی ” سعیدہ ! اب اسے انہیں پینے کو منع مت کرنا،  یہ شراب نہیں جوس ہے ” اس کی  طنزیہ ہنسی مجھے اندر سے کاٹ رہی تھی،  مگر کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔
کسی وجہ سے یا ویسے ہی   روزی کو مذھب کے نام سے چڑ تھی وہ ہر وقت یہ باور کرانے میں لگی رہتی کہ دنیا میں خاص کر ہمارے جنوبی ایشیائی خطے میں سارا فساد مذہب پرستی کی وجہ سے ہے – میرے سر پر بندھے اسکارف  سے تو جیسے اس کی جان جاتی تھی۔ لیکن اپنے کام میں بے حد مہارت نے ابھی تک اسے مجھے تنظیم سے نکال باہر کرنے سے روک رکھا تھا ویسے بھی اپنا غیر  جانب دار ایمیج بنائے رکھنے کے لئے میری موجودگی بہت فائدہ دیتی تھی بلکہ اکثر ایسی جگہوں پر مجھے اپنی تنظیم کا چہرہ بنا کر پیش کرنے میں ذرا تامل نہ کرتی جہاں اسے اقلیتی گروہ کی نمائندگی کرنی ہوتی۔ 
دوسری طرف مجھے کون سا رضاکارانہ کام کا شوق تھا وہ تو گھر کے کرائے اور دوسری مالی ضرورتوں نے روک رکھا تھا – نئے ملک میں پاوں جمانے کے لئے یہ ملازمت میری بقاء کا واحد ذریعہ تھی سو جدید دنیا کی اس غلامی کو خاموشی سے تسلیم کرنا ضروری تھا۔
اگلے دن روزی میرے کیبن میں آئی اور تنظیم کی سربراہ کا خط میرے سامنے رکھتے ہوئے چبا چبا کر بولی ” تمہارے سخت مذہبی رویے کو دیکھتے ہوئے ان چاروں لڑکیوں کی ذمہ داری تمہیں نہیں دی جا سکتی اب وہ فوسٹر کئیر بی کے ادارے میں رہیں گی ….
مگر وہ تو ان بچیوں کی اخلاقی قدریں تباہ کر دیں گے …..میں منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور سخت لہجے میں بولی تم نے مجھ سے کچھ کہا ” 
” نہیں کچھ نہیں "میرے اندر کی بزدل عورت نے مجھے کچھ کہنے سے روک دیا بس سوچ کر ہی رہ گئی 
فلاحی تنظیم چھوڑے ہوئے دس سال گزر  چکے تھے اپنی  یونی ورسٹی کے نمایندے کی حثیت سے بین الاقوامی مہاجرین کی دیکھ بھال سے متعلق سیمینار کی  دعوت میں شریک تھی …. چائے کے وقفے کے دوران شرکاءمیں سیاہ اسکرٹ   میں ملبوس اسمارٹ سی  نوجوان عورت پر میری نظر ٹک گئی وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہی تھی نپے تلے قدموں سے قریب آئی ، میرے سینے پر لگے نیم ٹیگ کی طرف دیکھا اور بولی ”  ڈاکٹر سعیدہ صاحبہ۔  ہم پہلے بھی کہیں مل چکے ہیں …. ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے ….. میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اورفورا” ہی دوسرے مہمانوں سے ملنے کو آگے بڑھ گئی …
 لنچ کے وقفہ میں  ایک بار پھر وہ میرے قریب آئی ….. میں اسے پہچان گئی تھی لیکن  انجان بن کر آگے بڑھنا چاہا مگر وہ دوبارہ میرے سامنے آ گئی….
 اگر آپ اس وقت آپ ہماری ذمہ داری قبول کر لیتیں تو آج حالات بہت مختلف ہوتے …. ڈاکٹر….  سعیدہ!  اس نے ڈاکٹر لفظ پر زور دے کر کہا 
"کیوں کیا ہوا …. میرے منہ سے نکلا مگر پھر تھوڑی بات بناتے ہوئے آہستہ سے بولی ” ارے تو یہ تم ہو ندا شائد یہی نام تھا نہ تمہارا ….
جی آپ نے صحیح  پہچانا 
لیکن تمہارا تو یونی ورسٹی میں میڈیکل کے شعبے میں داخلہ ہو گیا تھا –
 تو اس کا مطلب ہے آپ نے تنظیم چھوڑنے کے بعد بھی ہمارے بارے میں معلومات رکھی تھیں 
ہاں میں نے بہت کوشش کی تھی لیکن قانون کے مطابق ذاتی حیثیت میں تم لوگوں کی سرپرست نہیں بن سکتی تھی-نہ میرے پاس گھر تھا اور نہ میری مالی حیثیت مستحکم تھی-  پھر تمہیں تو پتا تھا باس روزی کتنی سخت گیر عورت تھی ” میں نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی 
” اتنی بھی نہیں اس نے مجھے ٹوکا کم از کم آپ سے کم ہی تھی” اس نے کاٹ دار لہجے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ” روزی نے ہمارا  بہت ساتھ دیا اس نے  ماں کو یہاں بلوانے کے لئے وکیل کا بندوبست بھی کیا  اور اسے یہاں بلوانے میں ہماری مدد کی مگر ماں یہاں کے ٹھنڈے موسم  کو برداشت نہ کر پائی اور  اتنی بیمار ہو گئی کہ الٹا اس کی دیکھ بھال میں بہت وقت صرف ہو گیا  حالات سنبھلنے میں ہی نہ آتے تھے ……. اس کی آواز رندھ گئی تھی ….. دفعتا ً وہ چونکی  میں یہ سب آپ کو کیوں بتا رہی ہوں ….. میں ڈاکٹر بنی نہ بنی آپ تو بن گئیں …..اس نے میرے نیم ٹیگ کی طرف اشارہ کیا –
اوہ تم غلط نہ سمجھو میں نے تو رضاکار تنظیم میں کام کرنے سے پہلے سے  پی ایچ ڈی کر رکھا تھا مجھے اسی ڈگری کی بنیاد پر یہاں کی شہریت ملی تھی ” میں نے چڑ کر وضاحت کی اور یونی ورسٹی میں بھی اپلائی کر رکھا تھا- وہ تو حالات کی مجبوری میں ایسی چھوٹی تنظیموں میں کام کرنا پڑ گیا ” 
 "یعنی آپ انسانی ہمدردی میں وہاں کام نہیں کر رہی تھیں ” اس نے ایک بار پھر میری انا کو چوٹ پہنچائی اور گویا ہوئی ” کاش چند ماہ اور رک جاتیں تو میری بہنیں اس خاص فوسٹر کئیر جانے سے بچ جاتیں … میں اٹھارہ سال کی ہوتے ہی ان کی گارڈین بن جاتی -میں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی اور دو ، دو جاب کر رہی تھی  -زیادہ پیسے کمانے کو  ایسے کام بھی کئے جنھیں بتاتے ہوئے بھی شرم آئے  … فرح اور زیبا تو پھر بھی اچھی بچیاں بن گئیں لیکن …. ماہ رخ نے اپنے لئے جو  راستہ چنا آپ سنیں گی تو آپ کو اچھا نہیں لگے گا- وہ اپنی لائف پارٹنر کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہو گئی – وہ اداس لہجے میں خود پر گزری کہانی دہرا رہی تھی –
 سیمینار جاری تھا اب میرا نام پکارا جا رہا تھا – اسپیکر میرے بارے میں ایک طویل تعارف کروا رہی تھی ”  خدمت کی بے لوث مثال، ایل جی بی ٹی یعنی  گے، لزبینز بائی سیکشول اور ٹرانس جینڈر ز کی تفریق کے بغیر انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی عظیم رضاکار ڈاکٹر سعیدہ  کو مہاجرین اور پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے  کے لئے بے لوث کام کرنے پر خصوصی ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے ”
ندا نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا اور اپنی سیٹ کی طرف چل دی -اور میں اپنے ذھن میں گڈ مڈ ہوتی اخلاقی قدروں کے کوڈ درست کرنے میں لگی تھی –

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*