گواہ چُست

وہ کوچ میں بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا اپنی سوچ میں گم تھا کہ کنڈیکٹر کی پاٹ دار آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی” آگے بڑھو صاحب آگے بڑھو! “
بس میں پہلے ہی تِل دھرنے کی جگہ تک نہیں تھی اور وہ مزید سواریوںکی کوشش کررہا تھا۔صمد نے مڑ کر خشمگیں نگاہوں سے کنڈیکٹر کو دیکھا اور پھراُس کے ڈھیٹ پنے سے مسافروں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کرنے پروہ سَر جھٹک کر دوبارہ منہ کھڑکی کی طرف کر کے اپنی سوچ میں گم ہوگیا ۔وہ سوچ سوچ کے تھک چکاتھا مگر اس مسئلے کا کوئی حل اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا جو دفتر میں اُسے درپیش تھا۔
معاملہ کچھ یوں تھا کہ صمد کی ایک عجیب عادت تھی کہ وہ لوگوں کی اُن حرکات کو اپنے دھیان میں رکھتا تھا جن پر عام طور پر لوگ غوربھی نہیں کرتے۔ عموماً لوگ اپنے سامنے والے کے کپڑے، بالوں ،چہرے کے نقش و نگار، آنکھوں اور جلد کی رنگت وغیرہ پر نظر رکھتے ہیں لیکن صمداس کے برعکس یہ دیکھتا تھا کہ سامنے والاشخص بات کرنے کے دوران اپنے ہاتھوں کو کیسے رکھتا ہے، کتنی بار منہ کے قریب لے جاتا ہے اور کتنی مرتبہ ناک اور کان کھجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے گھر والے اور قریبی دوست احباب اُس کی اس انوکھی عادت کا مذاق اُڑایا کرتے تھے لیکن وہ خود اپنی اس عادت سے بے حد لطف اٹھاتا تھا۔۔۔ مگر یہاں معاملہ دوسراتھاجس نے اُسے بیٹھے بٹھائے پریشانی میں مبتلا کردیا تھا، کیونکہ یہاں بات کسی عام آدمی کی نہیں بلکہ اُس کمپنی کے مالک کی تھی جہاں وہ نوکری کرتا تھا۔
ملک ٹریڈنگ کے نام سے یہ شہر کی ایک نامی گرامی ٹریڈنگ کمپنی تھی جس میں کام کرتے ہوئے اُسے دو سال ہوگئے تھے۔ ابتداً وہ دفتر کے ماحول اور اپنے کام سے مطمئن تھا ۔ مسئلہ اُس وقت سے شروع ہوا جب اس نے دو ماہ پہلے کمپنی کے مالک اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سہیل ملک کی ایک ایسی خفیہ عادت کو دیکھ لیا جس کے بارے میں وہ اگر کسی کو بتاتا تو کوئی اس کا یقین نہیں کرتا۔
یہ تین مہینہ پہلے کی بات تھی کہ اُسے ترقّی دے کر آپریشن ڈیپارٹمنٹ سے ہیڈ آفس میں اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دیا گیا۔جو سہیل ملک کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ ایک دن سہیل ملک اُس کے برابر کی میز پر بیٹھے اسد علی کے پاس آئے اوراُس سے کسی کام کے سلسلے میں بات کرنے لگے ۔ گو کہ صمد اپنے کام میں مشغول تھا مگر اُس نے غیر ارادی طور پر ایک نظر اُن دونوں پر ڈالی اور یہی وہ لمحہ تھا جب اُس نے دیکھا کہ سہیل ملک نے اسد علی کی میز پر رکھا اُس کے آئی پیڈ کا قلم اٹھا کر اُس وقت اپنی جیب میں رکھ لیا جب اسد علی پیچھے مڑکر دراز سے کوئی فائل نکال رہا تھا۔ صمد کو لگا کہ شاید بے دھیانی میں سہیل ملک نے ایسا کیا ہے مگر چند دن ہی گزرے تھے کہ اُس نے اسی طرح کی ایک اور کاروائی نفیس صدیقی کی میز پر رکھی ان کی عقیق کی انگوٹھی کے ساتھ دیکھی جو انہوں نے وضو کرنے کے لئے اتار کر رکھی تھی اور پہننا بھول گئے تھے۔صمد کو حیرانی تو بہت ہوئی مگر اُس نے پھر بھی کسی منفی سوچ کو اپنے ذہن میں جگہ نہیں دی لیکن جب ایک دن میٹنگ ہال میں سہیل ملک نے میز پر رکھے رحیم انصاری کے فون کو بہت صفائی سے اٹھالیا تو اُس دن اُسے یقین ہوگیا کہ یہ دوسروں کی چیزیں اٹھا لینا کوئی اتفاق نہیں بلکہ بیماری ہے۔لگتا یوںہے کہ سہیل ملک بھی اس بیماری کا شکار ہیں ورنہ اتنے دولت مند آدمی کو معمولی چیزیں چرانے کی کیا ضرورت ہے۔
اُس نے انٹرنیٹ پر ایک آرٹیکل پڑھا تھا کہ بلا ضرورت چیزیں چرا لینا ایک ذہنی بیماری ہے جسے طبی زبان میں جنون سرقہ یا کلپٹومینیا کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کے شکار مریضوں کوکسی چیز کی قیمت اور ضرورت کو مدّنظر رکھے بغیر چوری کرنے کی خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ خود کو اس سے روک نہیں پاتے ہیں ۔چوری کرلینے کے بعد وہ سکون اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ عام طور پر مانایہ جاتا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا لوگ ذہین ہوتے ہیں اور ذہانت کے ساتھ اپنی بیماری کو مخفی رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔تاہم گذشتہ سالوں میں دنیا کی چند مشہور شخصیات کا اس بیماری میں مبتلا ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے جنھیں خفیہ کیمروں کی نگاہ سے دیکھے جانے پر دنیا کے سامنے اپنی بیماری کا اعتراف کرنا پڑا۔
حقیقت جان لینے کے بعد اورکچھ اپنی متجسّس فطرت کی وجہ سے صمد نے سہیل ملک پر نظریں رکھنا شروع کردیں۔ وہ جب بھی سامنے آتے، صمدکمالِ ہوشیاری سے اپنے موبائل کے کیمرے سے خفیہ ویڈیو بنالیتا۔ اگر اُس میں چیزیں اٹھانے کی کاروائی ہوتی تو وہ اسے محفوظ کرلیتا ورنہ مٹا دیتا ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اس نے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سالانہ دعوت کے موقع پر سہیل ملک کی ایک ویڈیو بنائی تھی جو شہر کے ایک معروف ہوٹل میں دی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا تھا کہ سہیل ملک نے کھانے کے بعد دو چمچے اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈال لیے تھے۔
صمد سوچ رہا تھا کہ سہیل ملک کے جس راز سے وہ واقف ہوگیا ہے ، دفتر میں کسی اور کو بھی اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔ یہ ذکر تو اکثر ہوتا رہتا تھا کہ چیزیں آئے دن غائب ہوتی رہتی ہیں ۔ بعض لوگ اسے چپراسیوں اور صفائی کرنے والے عملے کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے اور بعض منچلے مذاق میں کسی پراسرار روح کو اس کا ذمہ دار ٹہرا کے بھول بھال جاتے تھے۔ البتہ رحیم انصاری کے فون کے غائب ہونے پر کئی سوال اٹھے ۔چند ایک لوگوں نے دفتر کے اندر مختلف جگہوں پرکیمرے لگانے کی صلاح بھی دی مگر مالکان نے اسے انسانی خلوت کی خلاف ورزی کہہ کر رد کردیا ۔ پھر یوں ہوا کہ یہ معاملہ بھی رفع دفع ہوگیا کیونکہ کمپنی کی جانب سے رحیم انصاری کو اس سے زیادہ مہنگا اور اچھا فون مل گیا تھا۔
صمد کو اب یہ بات کھلنے لگی تھی کہ چیزوں کے غائب ہونے کا شک غریب چپراسیوں اور صفائی کے عملے پر کیا جاتا ہے جب کہ اصل ذمہ دار کوئی اور ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اُس نے ایک سینئر کیشیئرماجد سلیم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ماگو کہ جد سلیم عمر میں صمد سے کافی بڑے تھے اور دفتر میں اُس کے قریب بیٹھتے بھی نہیں تھے مگر ایک ہی علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اُن دونوں کی آپس میں اچھی علیک سلیک تھی۔ماجد سلیم خود بھی صمد کو پسند کرتے تھے اور اکثر و بیشتر کام سے متعلق اُس کو مفید مشورے دیتے رہتے تھے۔ ایک دن صمدنے چھٹی کے بعد موقع دیکھ کر اُن سے کسی ضروری بات میں مشورہ کرنے کے لئے وقت مانگا تو انہوں نے اُسے چھٹی والے دن ہفتے کی رات کو دس بجے پیپلز چورنگی کے پاس کیفے پیالہ میں ملنے کو کہا جہاں وہ اکثر چائے پینے دوستوں کے ساتھ جاتے رہتے تھے۔
صمد کے گھر سے کیفے پیالہ زیادہ دور نہیں تھا۔اُس کی رہائش سخی حسن چورنگی کے پاس تھی جہاں سے کیفے پیالہ کا فاصلہ سات یا آٹھ منٹ سے زیادہ نہیں تھا۔وہ جب وہاں پہنچا تو ماجد سلیم اُسے ایک طرف کسی دوست کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیئے۔صمد کوآتا دیکھ کر انہوں نے اپنے دوست سے رخصت لی اور صمد کو لے کر ایک طرف کبچھی چارپائی کی طرف بڑھ گئے ۔ صمد نے چائے منگوائی۔ چائے پینے کے دوران اُس نے ماجد سلیم کو سہیل ملک سے متعلق ساری بات تفصیل سے بتائی۔ صمد کی زبانی سہیل ملک کی اس انوکھی عادت کا سن کر ماجد سلیم حیرت زدہ رہ گئے اور پھر کچھ دیرسوچ میں غلطاں رہنے کے بعد وہ بولے ۔” بھئی یہ تو بڑی عجیب و غریب بات بتائی ہے تم نے۔اتنی بڑی عمر ہوگئی مگر ایسا تو نہ کبھی دیکھا اور نہ کبھی سُنا ۔۔۔ کیا تم سہیل ملک کی چوری کرنے کی ویڈیو مجھے دکھا سکتے ہو ؟“
” جی بالکل دکھا سکتا ہوں ۔ سب میرے فون پر موجود ہیں۔ “ صمد بولا اور جیب سے فون نکال کر تمام ویڈیو ایک کے بعد ایک انہیں دکھائیں جن میں بالکل صاف دکھ رہاتھا کہ سہیل ملک کس طرح چیزیں اُٹھا رہے تھے۔
ویڈیو دیکھنے کے بعدماجد سلیم بولے۔” اچھا صمد میاں ایسا ہے کہ ابھی اس بات کا ذکر کسی اور سے ہرگز نہ کرنا ۔ میںایک دو روز میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جاسکتا ہے ۔یہ کمپنی کے مالک کی بات ہے تو بہت سوچ سمجھ کر کچھ ایسا کرنا پڑے گا جس سے ہم دونوں کی نوکریوں پر کوئی آنچ نہ آئے ۔تمہیں بھی اندازہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں مراعات کے ساتھ اچھی نوکری ملنا آسان نہیں رہا۔“
” آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔اسی لیے تو میں نے آپ سے مشورے کا فیصلہ کیا ۔“ صمد نے اُن کی بات کی حمایت کی اور مدد کے لیے اُن کا شکریہ ادا کرکے وہاں سے چلا آیا۔
اگلے دن صبح دفتر میں صمد کی ماجد سلیم سے ملاقات ہوئی مگر رسمی گفتگو سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوسکی ۔ اگلا پورا ہفتہ تو خود صمد کو بھی ان سے ملنے اور بات کرنے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ دفتر میں آج کل کام کا زورحد درجہ بڑھا ہوا تھا۔ ایک روز چھٹی کے وقت سے تھوڑا پہلے صمد ماجد سلیم کے کمرے کی طرف گیا تو دیکھا کہ وہ ابھی تک کام میں مشغول ہیں ۔ وہ پاس جاکر اُن سے پوچھنے لگا کہ اگر وہ فارغ ہوگئے ہیں تو کیفے پیالہ چلتے ہیں ۔ چائے بھی پی لیں گے اورکچھ باتیں بھی ہوجائیں گی۔“
صمد کی بات پر ماجد سلیم بولے ۔” نہیں میاں! آج تو مشکل ہے ۔مجھے تو ابھی کام ختم کرنے میں دیر لگے گی۔کچھ اہم کام کرنے ہیں۔ باس کا حکم ہے کہ آج ختم کرنا ضروری ہے ۔“
” دراصل مجھے اُس مسئلے پر بات کرنی تھی۔۔۔ کوئی حل سوچا آپ نے ؟ صمد قریب آکر سرگوشیانہ انداز میں بولا۔
” ارے بھئی فرصت ہی نہیںمل پا رہی ہے کہ تم سے بات کرسوں ۔آج کل کام کا بار بہت بڑھا ہوا ہے۔ بہرحال میں نے غور تو کیا ہے اس پر اور ایک دو تجویز ہے دماغ میں، لیکن یہاں بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ میں تمہیں گھر پہنچ کر کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر فون کرتا ہوں رات کو،پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔ “ ماجد سلیم بولے۔
”چلیے ٹھیک ہے ۔ میں انتظار کروں گا پھر۔ “ صمد نے اثبات میں سر ہلایا اور خداحافظ کہہ کر جانے لگا۔ابھی کمرے سے باہرنکلاہی تھا کہ ماجد سلیم نے پیچھے سے اُسے آواز دے کر بلایا اور بولے ۔” صمد میاں!اگر تمہیں زحمت نہ ہو تو تمہارے موبائیل فون سے ایک کال کرسکتا ہوں۔ دراصل آج صبح جلدی میں اپنا موبائیل گھر پر ہی بھول گیا ہوں۔تمہاری بھابھی کو بتانا ہے کہ آج گھر دیر سے آئوں گا۔ گھر پہنچنے میں تھوڑی بھی دیر سویر ہوجائے تو وہ پریشان ہوجاتی ہیں اور اپنا بلڈ پریشر بڑھا لیتی ہیں ۔“
” جی ضرور! زحمت کیسی۔ یہ لیجئے، آپ اطمینان سے بات کیجئے۔میں اپنا بیگ لے کر آتا ہوں پانچ منٹ میں۔“ صمدہاتھ میں پکڑا اپنا فون کھول کر ماجد سلیم کی طرف بڑھا کر بولا اور احتراماً فوراً ہی کمرے سے باہر آ گیا تاکہ ماجد سلیم اپنی بیگم سے آرام سے بات کرسکیں۔
صمد گھر آیا تو اُس کی بڑی بہن اپنے تینوں بچوں کے ساتھ آئی ہوئیں تھیں۔اُن کے ساتھ مصروف ہوجانے کی وجہ سے اُسے ماجد سلیم کے فون کا دھیان ہی نہیں رہا۔ اُن کے جانے کے بعد اُسے خیال آیا تو اس نے فوراً اپنا فون اٹھا کر دیکھا کہ ماجد سلیم صاحب نے فون تو نہیں کیا مگر اُن کی کوئی کال نہیں تھی۔رات دیر تک جاگ کرصمد، ماجد سلیم کے فون کا انتظار کرتا رہا مگرآدھی رات گزر جانے کے بعد بھی کوئی فون نہ آیا تووہ مایوس ہوکر سو گیا۔
اگلے دن دفتر میں بھی اُسے ماجد سلیم دکھائی نہیں دیئے تو اُس نے اُن کے ایک ساتھی سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ماجد سلیم کی طبیعت خراب ہے اور انہوں نے دفتر سے چند دنوں کی چھٹی لے لی ہے۔ صمد کو حیرت ہوئی کہ کل شام تک تو وہ بالکل ٹھیک تھے ۔ اچانک سے ایسا کیا ہوگیا کہ چھٹیاں لینی پڑ گئیں ۔پھر اُس نے سوچا کہ شاید زیادہ کام کی وجہ سے تھک کر بیمار پڑ گئے ہیں ۔ عمر بھی خاصی ہے اُن کی اور کوئی خاص صحت مند بھی نہیں دکھتے۔ویسے تو کرونا وائرس کے بعد سب ہی لوگ زیادہ بیمار پڑنے لگے ہیں کیا صحت مند کیا کمزور ۔لگتا ہے اس وائرس نے قوت ِ مدافعت کو کمزور کردیا ہے۔
دفتر سے واپس آکر اس نے کئی بار ماجد سلیم کو فون کیا مگر ہر بار فون مصروف ہی ملا۔اُس نے انہیںفون پر کئی مرتبہ پیغام بھی بھیجے مگر اُن کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔اسی طرح کئی ہفتے گزر گئے ۔ماجد سلیم نہ دفتر آئے اور نہ ہی کسی سے کوئی رابطہ کیا ۔صمد نے سہیل ملک سے اُن کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے دو ہفتے کی چھٹی کے بعد اپنا استعفیٰ بھجوا دیا تھا۔ صمد سمیت سب ہی کو اس بات سے بڑی حیرت ہوئی مگر پھر سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
صمد وقتاً فوقتاً اُن کو فون کرتا رہا مگرکبھی کوئی جواب نہیں ملا ۔ پہلے تو کال مصروف ملتی تھی مگر اب تو کئی دنوں سے فون مستقل بند جارہا تھا۔ بالآخر تھک ہار کر اس نے نہ صرف انہیں فون کرنا بند کردیابلکہ سہیل ملک والے معاملے پر بھی خاموشی اختیار کرلی کیونکہ نہیں معلوم کہ کیسے مگر اُس کے فون سے سہیل ملک کی ساری ویڈیو غائب ہوگئیں تھیں اور اب اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں بچاتھا ۔خیر ثبوت تو وہ تھوڑی محنت کر کے دوبارہ بھی حاصل کرسکتا تھا لیکن اب وہ اس درد سرَی میں پڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس لیے اُس نے سہیل ملک کے معاملے سے دور رہنے کے لیے اپنا ٹرانسفر کمپنی کے دوسرے دفتر میں کروا لیا تھا ۔
دن پر دن گزرتے رہے۔ماجد سلیم کو گئے چھ ماہ سے اوپر ہوگئے تھے کہ ایک روز صمد دفتر سے گھر آکرٹی وی پر کرکٹ کا میچ دیکھ رہا تھا کہ اُس کے بھائی نے آکر بتایا کہ باہر کوئی حفیظ صاحب آئے ہیں جو اُس کے لیے کسی ماجد سلیم کا پیغام لائے ہیں۔ ماجد سلیم کا نام سنتے ہی وہ بلا کی تیزی سے باہرکی جانب لپکا۔ دروازے کے پاس ایک تیس پینتیس سالہ آدمی ہاتھوں میں ایک پیکٹ اور تازہ گلاب کے پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑا تھا۔ سلام دعا کے بعد وہ پیکٹ اور گلدستہ صمد کی طرف بڑھاکربولا۔” صمد صاحب! یہ ماجد صاحب نے آپ کے لیے بھیجوایا ہے۔“
” مگرماجد صاحب خود کہاں ہیں ؟ اور آپ اُن کے کیا لگتے ہیں؟“ صمدنے دونوں چیزیں تھام کر پوچھا۔
” میری اُن سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے ۔ وہ میرے پرانے گاہک تھے۔نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ میں اُ ن کی گلی کے نکڑ پر میری موبائل کی دکان ہے ”نیوموبائل سینٹر“ کے نام سے۔ پچھلے ماہ وہ اپنا مکان بیچ کر بمعہ اہل و عیال کراچی چھوڑ کر کسی اور جگہ ہجرت کر گئے ہیں ۔
” کہاں چلے گئے ہیں۔“ صمد نے پوچھا۔
” اس بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم۔انہوں نے شاید بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ جانے سے ایک دن پہلے انہوں نے آج کی تاریخ میں مجھ سے یہ سامان آپ تک پہنچانے کی درخواست کی تھی۔ تو میں اسی لیے حاضر ہوا ہوں۔“
” آپ کے پاس اُن کا کوئی فون نمبر ہو تو مجھے عنایت کردیجئے ، مہربانی ہوگی۔ میرے پاس اُن کا پرانا نمبر ہے جو اب کام نہیں کررہا۔“ صمد بولا۔
” جی نہیں میرے پاس اُن کا کوئی نمبر نہیں ہے ۔ پہلے تووہ میرے گاہک تھے مگر اب تو اُن سے کوئی واسطہ ہی نہیں تو نمبر کا کیا کرتا۔یہ چیزیں اُن کی امانت تھی میرے پاس جو میں نے آپ تک پہنچا دی۔ ‘ ‘حفیظ بولا اورصمد سے ہاتھ ملا کر رخصت ہوگیا۔
حفیظ کے جانے کے بعد صمد نے اپنے کمرے میں آکر گلدستہ ایک طرف رکھااوربے صبری سے پیکٹ پر چڑھا رنگین کاغذ اتارنے لگا ۔ کاغذ اتارنے کے بعد اُس نے ڈبے کو کھولا تو اُس میں دو عدد فون رکھے ہوئے تھے ۔ ایک بالکل نیا اورمہنگا ،جدید آئی فون تھا جبکہ دوسرا پرانا اور استعمال شدہ معمولی فون تھا ۔ فون کے ساتھ ایک کاغذ بھی تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔ صمد نے اُسے کھولا تواُس پر لکھا تھا ۔” میرے کرم فرما صمد کے لئے ایک ادنیٰ سا تحفہ ! ۔۔۔پرانے فون کے میسیج میں تمہارے سوالوں کا جواب موجود ہے۔۔ماجد سلیم۔“
صمد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ماجد سلیم نے یہ کیا اسَرار پھیلایا ہے۔ اس نے جلدی سے پرانا فون اٹھایااور اسے کھولا تو میسنجر میں اس کے لئے صَوتی پیغام موجود تھا ۔ اس نے اسے چالو کیا تو ماجد سلیم کی آواز ابھری ۔
” صمد! مجھے پتہ ہے کہ تم حیرت زدہ ہوگے کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ تو میرے دوست! سب سے پہلے تواپنی اس کرم فرمائی کے لئے آئی فون کی صورت میں چھوٹا سا نذرانہ قبول کرو جو انجانے میں تم میرے ساتھ کرگئے ہو۔ ۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بات یہ ہے کہ تم نے جب سہیل ملک کا راز مجھے بتایا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے جو مجھے تمہارے ذریعے سے مل رہا ہے۔ سو ،میں نے وہ تمام ویڈیو جو تم نے بنائی تھیں سہیل ملک کو بھیج دیں کہ اگر اسے اپنی عزّت عزیز ہے توخاموشی سے دوکروڑ روپے دے کر اُسے بچالے ۔کیونکہ اگر یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی تو وہ کسی کو بھی منہ دکھانے کے لائق نہ رہے گا۔۔۔ عقل مندی کا تقاضہ یہی تھا کہ اُس نے میری بات مان لی اور میں نے اُس کی کہ میں نے وہ ساری ویڈیو اُس کے سامنے ہی مٹادیں بلکہ اپنا فون ہی اُسے دے دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے ہو لیکن تم سے رابطہ اب میرے حق میں نہیں ۔میں پچھلے ہفتے اس شہر کوچھوڑ کرجا چکا ہوں۔۔۔ حالانکہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا جو میں نے کیا لیکن کیا کیا جائے کہ معاملہ کروڑ وں کا تھا۔ اور تم جانتے ہو کہ ایک معمولی تنخواہ پانے والے کے لیے یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے ۔ تمہیں اب تک تویہ پتہ چل ہی چکا ہوگا کہ تمہارے فون میں سہیل ملک کی ایک بھی ویڈیو باقی نہیں رہی ۔ یہ کام بھی میں نے ہی کیا تھا ۔ میں نے اُس دن تمہارے فون سے ساری ویڈیو مٹادی تھیں جس دن میں دفتر میں دیر تک کام کرنے کے لئے رکا رہا تھا اور بہانہ کرکے تمہاری بھابھی کو فون کرنے کے لئے تم سے فون مانگا تھا۔ یقیناًتمہیں یاد ہوگا۔ خیر جانے دو! اب ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ تمہاری نوکری پر کوئی آنچ نہیں آئے گی کیونکہ سہیل ملک کو یہ نہیں پتہ ہے کہ یہ ساری محنت تمہاری تھی میری نہیں ۔ تو دوست ! بے فکر ہوکر تم اپنی نوکری جاری رکھو۔“

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*