آشنائی

” مسٹر کریم ! اُولف سے تمہاری جان پہچان کب سے ہے؟“ خاتون پولیس انسپکٹر ریتانے مجھ سے پوچھا۔
” میری ان سے کوئی جان پہچان نہیں ہے ۔ میں توآج سے پہلے ان کا نام تک نہیں جانتا تھا ۔“ میں نے جواباً کہا۔
”اوہ! توپھر تم کو کیسے پتہ چلا کہ وہ اپنے اپارٹمنٹ میں زخمی حالت میں پڑا ہوا ہے جبکہ اُس کے پڑوس میں رہنے والوں کو بھی اس بات کا پتہ نہیںچلا۔ “ انسپکٹر ریتا مشکوک لہجے میں بولی۔
میں نے گردن گھما کے وہاں کھڑے لوگوں کو دیکھا جو مجھے اجنبی نظروں سے گھور کر دیکھ رہے تھے ۔میں اُن کی طرف دیکھ کرخوش دلی سے مسکرایا اور بولا۔ ” میں نے جو کہا وہ سچ ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں سڑک کے اُس پار بلڈنگ نمبر ۵ میں رہتا ہوں اور ہر روز صبح جاگنگ کرتے ہوئے اس طرف آتا ہوں تو تھوڑی دیر اس چھوٹے سے تالاب کے کنارے بیٹھ جاتا ہوں جس کے بالکل سامنے اُولف کا اپارٹمنٹ ہے ۔“
” ایک منٹ رکو! تم اُولف سے کبھی ملے نہیں اور نہ ہی آج سے پہلے اُس کا نام جانتے تھے مگر تمہیں یہ پتہ ہے کہ اُس کا اپارٹمنٹ کون سا ہے؟“ انسپکٹر ریتا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
اُس کی بات سنتے ہی اُس کے ساتھ کھڑا ایک سپاہی تیزی سے میرے داہنی طرف آکریوں چوکناہوکر کھڑا ہوگیا گویا میںاپنی جگہ سے ہلا بھی تو وہ مجھ پر ٹوٹ پڑے گا۔ میں نے ہاتھ سے اُسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا اوربرہمی سے بولا۔” انسپکٹر! تم مجھے اپنی بات مکمل تو کرنے دو۔ آدھی بات سن کے ہی تم مجھ پر چڑھ دوڑی ہو۔تمہارا یہ رویہ ٹھیک نہیں لگا مجھے۔“
میری لہجے کی ناراضگی محسوس کرکے وہ فوراً سنبھل کر بولی۔ ” نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔دراصل ہم پولیس والوں کو ہر بات کی پکڑ کرنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔خیر آگے بتاو¿ ! تم کیا کہہ رہے تھے؟“
” میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ پچھلے دو مہینوں سے میں صبح سات بجے جاگنگ کرنے کے بعد یہاںاس تالاب کے کنارے آکر کچھ دیر بیٹھتا ہوں تو میری نظر سیدھی سامنے والی بالکونی پر جاتی ہے جہاں روزانہ ایک آدمی ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے آتے جاتے لوگوں کو خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہتا تھا۔ شاید یہ اُس کا معمول تھا جسے میں بھی آٹھ ہفتوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ چار دن پہلے ، جمعے کی بات ہے کہ وہ روز کی طرح بالکونی میں کھڑا تھا لیکن اُس دن اُس کی توجہ لوگوں پر نہیں تھی بلکہ وہ کسی سوچ میں گم تھااور بار بار سر کویوں جھٹک رہا تھا جیسے کسی الجھن میں مبتلا ہو۔ اُس کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ اس نے ایک موٹا سا بھورے رنگ کا اونی سوئیٹر پہنا ہوا تھا جبکہ موسم اتنا سرد نہیں تھا ۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور بے ترتیب سے تھے اور شیو بھی بنی ہوئی نہیں لگ رہی تھی ۔ خلاف معمول اس کے ہاتھ میں کافی کا مگ بھی نہیں تھا۔میں نے سوچا کہ شایداُس کی طبیعت خراب ہے۔پھراگلے چار دن تک وہ مجھے دکھائی نہیں دیا تو مجھے تشویش ہونے لگی اور خیال آیا کہ ُاس کے بارے میں معلوم کروں ۔یہ سوچ کر اُس کی اپارٹمنٹ کی عمارت کی طرف بڑھا لیکن صدر دروازے پر کوڈ ہونے کی وجہ سے میں اندرداخل نہیں ہوسکا۔ تب میںنے اُسی عمارت کی نچلی منزل میں رہنے والے اینڈریسن صاحب کی کھڑکی بجا کر ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے فو راً اوپر جاکر اُولف کے گھر کی گھنٹی بجائی مگر جب کئی مرتبہ گھنٹی بجانے اور دروازہ پیٹنے کے بعد بھی کسی نے نہیں کھولا تو انہوں نے بلڈنگ انتظامیہ کو فون کیا۔ انتظامیہ کے ایک آدمی نے آکر جب دروازہ کھولا تو اُولف زخمی حالت میں فرش پربیہوش پڑا تھا۔ اُس کا سر پھٹا ہوا تھا اورخون تیزی سے بہہ رہا تھا۔“
تفصیل بتا کر میں خاموش ہوا ہی تھا کہ مجھے اینڈریسن اپنی طرف آتے دکھائی دیئے۔اُن کے قریب آنے پر میں انسپکٹر ریتا سے بولا۔
” اگر تمہیں میری باتوں پر یقین نہیں تو اینڈریسن صاحب سے پوچھ سکتی ہو ۔ وہ اس واقعے کے گواہ ہیں۔ “
” نہیں! ابھی اس کی ضرورت نہیں۔ تم جاسکتے ہو لیکن ضرورت پڑی تو ہم پوچھ گچھ کے لیے تمہیں کبھی بھی طلب کرسکتے ہیں۔اپنا فون نمبر اور ای میل مجھے اس نمبر پر بھیج دو۔“ انسپکٹر ریتا اپنے فون پر ایک نمبر دکھاتے ہوئے بولی۔
میں نے مطلوبہ معلومات اس کے نمبر پر بھیج کر اس سے اُولف کی موجودہ حالت کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی۔” ویسے تو وہ اب خطرے سے باہر ہے لیکن ابھی مکمل طور پر ہوش نہیں آیا ہے۔ سر کی چوٹ کافی گہری ہے اور خون زیادہ بہہ جانے سے کمزوری بہت ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق ، اگرتھوڑی دیر اور ہوتی اُسے ہسپتال لانے میں تو اُس کی جان بچانا ممکن نہ ہوتا۔“
” اس کے لیے یہ نوجوان کریم شکریئے کا مستحق ہے جس نے اُولف کی خبر گیری کرکے اُس کی زندگی بچائی ورنہ چوٹ تو واقعی بہت گہری تھی۔ سرتو تقریبا کھل چکا تھا۔“ اینڈریسن شفقت سے میرا شانہ تھپتھپا کر بولا۔
” آپ نے ٹھیک کہا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی گہری چوٹ کسی چیز سے ٹکرا کے گرنے سے آنا ممکن نہیں“ ۔ انسپکٹر ریتا مجھے بغور دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ ” بہرحال دیکھتے ہیں کہ اُولف ہوش میں آنے کے بعد کیا بیان دیتا ہے ۔“
اس سے پہلے کہ مجھے انسپکٹر ریتا کی بات پر غصہ آتا میں اُن سے رخصت لے کر گھر کی جانب چل پڑا ۔تیسرے دن انسپکٹر ریتا کا میرے پاس فون آیا اور اُس نے بتایا کہ اُولف کو ہوش آگیا ہے اور اُس نے اپنا بیان بھی دے دیا ہے کہ وہ گھر میں اکیلا اور بیمار تھا۔ اُس کی بیوی آنیکا اپنے والدین سے ملنے اسپین گئی ہوئی تھی۔وہ پانی پینے کے لیے اٹھا تھا کہ تیز بخار کی وجہ سے اُس کا سر چکرایا اور وہ لوہے کے بھاری مجسمے سے ٹکراکے گر گیا۔ اس کے بعد اُس کو کچھ یاد نہیں۔ اُسے جب میرے بارے میں بتایا گیا کہ کس طرح میں نے ناآشنائی کے باوجود اُس کی فکر کی اور مددکی ہے تب سے وہ مجھ سے ملنے کا شدید خواہشمند ہے۔انسپکٹر ریتا نے مجھ سے کہا کہ اگر میں چاہوں تو اُس سے ہسپتال جاکر ملاقاتی اوقات میںمل سکتا ہوں۔
میں اگلے ہی دن شام چار بجے پھولوں کی دکان سے خوبصورت سا گلدستہ لے کر ہسپتال پہنچ گیا ۔ کاونٹر سے اُولف کے کمرے کا نمبر معلوم کر کے اُس طرف بڑھا۔ اُولف کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔وہ بستر پر پٹیوں میں جکڑا ہوا لیٹا تھا۔بستر کے قریب ہی رکھے یک نشستی صوفے پر ایک پینتیس چھتیس سال کی خوش شکل عورت بیٹھی ہوئی فیشن میگزین کی ورق گردانی کررہی تھی ۔ میںنے آگے بڑھ کر گلدستہ پیش کر کے جونہی اپنا نام بتایا تو وہ تیزی سے اٹھی اور قریب آکر بولی۔” اچھا! تو تم ہو کریم۔ اُولف بے صبری سے تمہارا منتظر ہے ۔“
میں نے اُولف کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دیا اور اشارے سے مجھے اپنے قریب بلایا ۔میرے قریب آنے پر اُس نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلکے سے دبایا اور دھیمی آواز میں شکریہ کہا۔ اس کی آنکھوں میں تشّکرکے آنسوجھلملا رہے تھے۔میں نے بھی گرم جوشی سے دونوں ہاتھوں سے اُس کا ہاتھ تھام کر اُس کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں کو یوں تھامے ہوئے تھے کہ جیسی ہماری برسوں کی واقفیت ہو۔اتنے میں آنیکا بستر کی دوسری طرف سے اُولف کے قریب آئی اور میرے ہاتھ سے اُس کا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔” میرا خیال ہے کہ اب مسٹر کریم کو جانا چاہیئے کیونکہ تمہیں ابھی آرام کی شدید ضرورت ہے اُولف ۔ ہم بعد میں انہیں گھر پر بلائیں گے اور ڈھنگ سے ان کا شکریہ ادا کریں گے۔ “
میں نے بھی موقع کی مناسبت سے جانے کی اجازت چاہی اور دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے کمرے سے باہر آگیا۔دو چار قدم ہی چلا تھا کہ پیچھے سے آنیکا کی آواز سنائی دی ۔” مسٹر کریم! ایک منٹ رکو ! مجھے کچھ کہنا ہے۔“
میں نے رک کر اُس کی طرف دیکھا اور سوچا کہ شاید اپنے طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے کہ آخر ِ کار میں نے اس کے شوہر کی جان بچائی ہے۔ وہ میرے قریب آئی اورمجھے سر سے پیر تک دیکھنے کے بعد نفرت بھرے لہجے میں بولی۔” تم ایشیائی لوگ اپنے کام سے کام نہیں رکھ سکتے ۔ ہر ایک کے معاملات میں ٹانگ اڑانا ضروری ہے کیا۔“
اُس کی بات سن کر میرے دماغ میں انسپکٹر ریتا کا جملہ گونجنے لگا۔” اتنی گہری چوٹ کسی چیز سے ٹکرا کے گرنے سے آنا ممکن نہیں۔“

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*