کمیونسٹ جرائد کا تاریخی سفر

(گذشتہ سے پیوستہ)
ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ہفت روزہ عوامی جمہوریت بڑے صفحات کا ہفت روزہ تھا۔ جسے آج کے اخباروں کی طرح فولڈ کیا جاتا تھا۔ کوئی پِن یا باقاعدہ ٹائٹل صفحہ نہیں ہوتا تھا ۔ یہ عموماً 8صفحات پر مشتمل ہوتا تھا، البتہ فاقہ کے موسموں (جو کہ بہت طویل ہوتے تھے )میں چار صفحے بھوکی بکریاں چر جاتی تھیں ، یوں یہ چار صفحوں کا رہ جاتا تھا۔
1972وہ سال ہے جب بنگلہ دیش الگ ہونے کے بعد بقیہ پاکستان کے انقلابیوں نے ”پاکستان سوشلسٹ پارٹی “ کے نام سے اپنی پارٹی بنالی تھی ۔ تب سے یہ ہفت روزہ اس پارٹی کا ترجمان بنا۔ پارٹی اور اخبار دونوں کا روحِ رواں سی آر اسلم تھا۔ یہ ناقابلِ فراموش قہر مان لیڈر، استاد ،آرگنائزر اور صحافی مزید 36برس یعنی اپنی موت (جولائی 2007 )تک اِن سارے محاذوں کو سنبھالتا رہا۔
22جنوری 1972میں ہفت روزہ عوامی جمہوریت نے بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ ہونے پر ہمیشہ کی طرح انگلی اٹھائی ۔بھٹو کی پالیسیوں کو چیلنج کرتے ہوئے اخبار نے مطالبہ کیا کہ زراعت میں ملکیت کی حد 50ایکڑ مقرر کی جائے اور اس سے اوپر کی اراضی مالکان سے مفت لے کر بے زمینوں میں تقسیم کی جائے ۔ مادری زبان میں سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم دی جائے ۔ بنکوں، ، بیمہ کمپنیوں ، بھاری صنعت اور بیرونی تجارت کو نجی ملکیت سے نکال کر قومی ملکیت بنایا جائے ۔
اس شمارے میں ایک تجزیاتی مضمون” اسلامی سوشلزم کی طبقاتی بنیاد “ کے عنوان سے چھپا ہوا ہے ۔ مضمون میں بتا یا گیا کہ اسلامی سوشلزم کا سائنٹفک سوشلزم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اس کے علاوہ اس شمارے میں پارٹی کی سرگرمیوں کی رپورٹس چھپی ہوئی ہیں۔

19سے 26فروری 1972کا شمارہ ایک تو ضخیم ہے ؛(16صفحات) ۔دوسرا اس کا فرنٹ اور بیک ٹائٹل صفحات سرخ رنگ کے کاغذ پر چھپے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے منشور کے مسودہ پر بحث مباحثہ اور ترامیم وغیرہ کے بعد اس کی منظوری تھی۔
19فروری کے ”عوامی جمہوریت“کے گلابی سرورق پہ سید مطّلبی فرید آبادی کی شاعری ہی کو ٹائٹل بنادیا گیا ہے۔ اور اُس کا پہلا شعر ہی زندگی اور زندگانی کی چابی ہے :
نہ کوئی روک سکے گا یہ کاروانِ حیات
مثالِ برق، رواں ہے یہ زندگی کی برات
پچاس برس بعدیہ شعر ہم نے کورونا وبا کے دوران سوشل میڈیا پہ شیئر کی تھی جب تین لاکھ انسان لقمہ ِ اجل بن چکے تھے ، لوگ ڈھائی ماہ سے آئی سولیشن میں گھروں کے اندر بند تھے ۔ ناامیدی ، چڑچڑا پن، بے حوصلگی، بے ثباتی عروج پہ تھی۔ کوئی سرکار نہ تھی سہارا دینے، ریاست نہ تھی تسلی دینے ۔ عوام الناس کو ننگی تقدیر پہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ بلکہ الٹا لاک ڈاﺅن کھول کر انسانوں کو وائرس کے اربوں کھربوں غولوں کے سامنے پھینک دیا گیا ۔
دو ڈھائی ماہ سے روزگار اور مزدوری بند ، تصور کیا جاسکتا ہے کہ روز و شب کس قدراجیرن بن چکے ہوں گے ۔ ایسے میں انسانوں کو ہمت دلانے کا کام سنبھالنا ہوتا ہے ۔ ایسی تقریروں، تحریروں ، فقروں ، اشعار اور مقولوں کی بے چین ضرورت پڑتی ہے ۔ ایسے انسان بے وسائل زندگیوں کے منشور ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان لاکھوں سالوں سے مائیکروب سے لڑتا رہا ہے۔ اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مرتے رہنے کے باوجود انسان زندہ ہے ، زندگی زندہ ہے۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسی وباﺅں میں جن لوگوں نے انسان کی عظمت کے ترانے گائے انہیں فراموش نہ کیا جائے۔ زندگی کے ساتھی انسانوں کو اپنے من کے سکلپچر گاہ میں سجائے رکھنا پاک انسانوں کی روایت ہے ۔
جیسے کہ بتایا گیا کہ 19فروری1972ہی کو پاکستان کے مزدوروں کسانوں کی پارٹی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ اس لیے اخبار نے ”دویاد گار دن“ کے عنوان سے اس پارٹی کے قیام ، پروگرام ومنشور ، قرار دوں اور عہدیداروں کے انتخاب کو بھر پور کوریج دی۔ ”اس اجتماع میں مبصرین کے علاوہ 400مندوبین نے دوروز تک جس انہماک سے پارٹی کے منشور آئین اور پروگرام سے متعلق مباحث میں حصہ لیا۔ ترمیمیں پیش کر کے فیصلے کیے اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ یہ میٹنگ شخصیتوں کے بل پر مجمع لگانے والوں کا تماشہ نہ تھی بلکہ یہ ساٹنٹفک سوشلسٹ نظریات کے مفکروں طالب علموں اور محنت کش عوام، کسانوں مزدوروں اور ان دانشور راہنماﺅں کا اجتماع تھا جو مارکسی سائنس اور عالمی مزدور تحریک کی روشنی میں پاکستان کی صورت حال اور مسائل کا جائزہ لینے ، پاکستان میں تحریک کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے ہزاروں میل کی وسعت سے سمٹ کر ایک اجتماع مرکز کی تخلیق کا تاریخی فریضہ انجام دے رہے تھے“۔(صفحہ نمبر2)
کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں عبدالرحیم مندوخیل شامل تھا (صفحہ15)۔
شمارے اس پارٹی کے کنوینر (پھر، الیکشن کے نتیجے میںصدر) کی طرف سے پیش کردہ اور کانگریس کی طرف سے منظور کردہ رپورٹ بھی شائع کی گئی ہے۔ دراصل کنوینر اس لیے کہ ایک سال قبل فیصلہ ہوا تھا کہ ایک سال کے اندر اندر کنونشن بلا کر پارٹی کے منشور آئین اور سیاسی رپورٹ کی منظوری لی جائے۔
رپورٹ میںکہا گیا کہ محنت کشوں کی تحریک اور جدوجہد کی اصل قوتِ متحرکہ تاریخ کے تقاضوں کے مطابق اور پہلو بہ پہلو اجتماعی ہم آہنگی ہے ۔ شخصیتوں کی اس سے علیحدہ کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے پہلے رکاوٹ شخصیت پرستی کی لعنت ہے ۔ آزادی سے قبل اس خطے میں یہ وبا زندہ اور مردہ پیروں کی پرستش کی صورت میں رہی ہے اور آزادی کے بعد سے آج تک رجعتی طبقات کے ترجمان دانشور اور چالاک سیاستدان اس حربے کو طرح طرح سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی رہی ہے کہ شخصیت پرستی کی لعنتی پرچھائیں ترقی پسندوں پر ڈال کر عملاً انہیں رجعت پسندوں کی گود میں ڈال دیا جائے۔ اس لیے سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے شخصیت پرستی کے خلاف انتباہ وقت کا تقاضا ہے ۔(صفحہ15)
اس رپورٹ میں وہ پس منظر دیا گیا جس کے تحت نیشنل عوامی پارٹی کا بنگال بازو الگ ہوگیا تھا۔ اس لیے مغربی پاکستان کے پارٹی ورکروں نے اپنا لائحہ عمل طے کرتے کرتے پورا سال سوا سال لگا کر بالآخر سوشلسٹ پارٹی قائم کی ۔
اسی رپورٹ میں اُس زمانے کے اہم ترین نظریاتی معاملات پہ بھی مزدوروں کی سیاسی پارٹی کی اپنی پوزیشن تفصیل سے بیان کی گئی۔ اسی طرح ”پارٹی کے ماس فرنٹس “ کی صورت حال اور اُن سے متعلق فکری ابہام دور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 28رکنی مرکزی کمیٹی بنی، اور چھ رکنی سیکریٹریٹ ۔

یوں، یہ رپورٹ سمجھیے ایک تخلیقی دستاویز تھی۔
رپورٹ کی چند سرخیاں یہ تھیں۔: انتشار کی ناکام کوشش ۔ ترقی پسند تحریک اور شخصیات ، پس منظر،ایک سوال ، مارشل لا کی حمایت ؟ ، پاکستان سوشلسٹ پارٹی کیوں؟ ،دانشوروں کی موقع پرستی، ایک نظریاتی سوال ، سامراجیت کی پسپائی ، پاکستان کے المیہ کا جائزہ ۔
اس شمارے کا دوسرا تفصیلی نکتہ ملک میں موجود قوموں کے حقوق کی حمایت پہ فکری مضمون ہے جو کہ تین کالموں پہ مشتمل ہے ۔اسی طرح مارشل لا کی مدلل مخالفت کے لیے بڑے صفحے کے ساڑھے تین کالم مختص کیے گئے ۔
ایک مضمون اس اہم ترین موضوع پہ ہے کہ نیپ اور پیپلز پارٹی بورژوا پارٹیاں ہیں اس لیے ان میں شامل ہونے کے بجائے محنت کشوں کے فلسفے پر مشتمل اُن کے طبقے کی اپنی پارٹی بنائی جائے ۔اس موضوع کی طویل زندگانی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ آج بھی بہت سے ”انقلابی “ اپنی فکری سیاسی پارٹی بنانے کے بجائے انہی بورژوا پارٹیوں کی خشک شدہ پستانوں سے دودھ دوہنے کی کوشش میں اپنی کاوشیں ضائع کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں ”’دانشوروں کی موقع پرستی “کی سرخی دے کر موقع پرست دانشوروں کی ملاوٹی سوشلزم سے خبردار کیا گیا جس کے تحت وہ اپنی گردنوں میں بھٹو اور ولی خان کے سوشلزم کا سرخ پٹہ ڈالے ہوئے تھے۔

سیاسی قرارداد
اسی شمارے میں کنونشن کی منظور کردہ قراردادیں ہیں اور پارٹی کا منشور موجود ہے ، پروگرام اور آئین دیا گیا ہے۔
بلاچون وچرا مغربی پاکستان کے تمام علاقوں کو خود مختاری دے دی جائے مارشل لا اٹھایاجائے اور مرکز اور صوبوں میںذمہ دارحکومتیں قائم کی جائیں۔ جاگیرداری زرعی نظام 50ایکڑ حد ملکیت مقرر کر کے اس طرح ختم کیا جائے کہ 50ایکڑ سے زائد تمام زمین بلامعاوضہ بڑے مالکان سے لے کر غیر مالک کسانوں ہاریوں اور چھوٹے مالک کا شتکاروں میں مفت تقسیم کی جائے ۔ پاکستان کی معاشی زندگی پر مسلط سامراجی سرمایہ اور بھاری صنعتوں ، بنکوں اور بیمہ کمپنیوں کو قومی ملکیت بنایا جائے۔
منظور کردہ آئین کے تحت پہلی سنٹرل کمیٹی کا انتخاب ہوا۔ اس 28رکنی مرکزی کمیٹی میں انہی ممبران میں سے صدر سی آر اسلم کی قیادت میں مرکزی سیکریٹریٹ چنی گئی۔ آئین میں عہدے یہ تھے : پریذیڈنٹ ، وائس پریذیڈنٹ ، جنرل سیکریٹری ، جنرل سیکریٹری کے نیچے چار سیکریٹری (وہی اُن سیکریٹریوں کا انچارج ہوگا ) سیکریٹری لیبر، سیکریٹری زری امور، سیکریٹری تعلیم ، تنظیم و ثقافت اور سیکریٹری مرکزی دفتر ۔چاروں سیکریٹری اپنے اپنے شعبے کے سربراہ ہوں گے۔ بلوچستان سے واحد ممبر سنٹرل کمیٹی جناب عبدالرحیم مندوخیل تھے ۔

یوں جہازی سائز کے اخبارکے پورے 16صفحات پہ مشتمل شمارہ سارے کا سارا پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی کنونشن کا گویا خصوصی شمارہ تھا ۔ فکری الجھاﺅ سے آزاد بہت واضح سوچ بکھیرتا یہ شمارہ دراصل اگلی نصف صدی تک راہنما شمارہ تصور ہونا چاہیے۔ اس میں اس ملک میں انقلابی پارٹی کی تاریخ بیان کی گئی۔ بہت ہنر کاری اور باریک بینی کے ساتھ سماج کا طبقاتی تجزیہ کیا گیا اور انقلابی طبقات کی نشاندہی کی گئی۔

چَنّی گوٹھ کسان کانفرنس

ہفت روزہ عوامی جمہوریت ستر کی دھائی کے اوائل میں پاکستان میں عوامی تحریک کے ابھار کا ترجمان رہا ہے ۔ اِن برسوں میں سی آر اسلم کی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے تحت بہت بڑی ٹریڈ یونین اور کسان تحریک چلی ۔ لاکھوں کو چھوتی ہوئی تعداد کی بڑی کسان کانفرنسیں ہوئیں۔ عوام الناس کی ایک بہت بڑی تعداد اس نئی عوامی تحریک کی طرف متوجہ رہی۔ تین بڑی کسان کانفرنسیں ہوئیں:خانیوال، پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ، اور (23 مارچ 1972)کو چنی گوٹھ کسان کانفرنس۔
چنی گوٹھ بہاولپور کے علاقے میں ہے ۔ یہاں23مارچ1972کو غیر مالک مزارعوں ، چھوٹے مالک کسانوں اور کھیت مزدوروں کے نمائندوں پہ مشتمل کانفرنس منعقد ہوئی۔عوامی جمہوریت نے اس کانفرنس کو خوب کوریج دی۔
اس کانفرنس کا پس منظر بہت دلچسپ تھا۔ بھٹو زرعی اصلاحات کا اعلان کرچکا تھا ۔ میرے آج کے نوجوان قاری لینڈ ریفارم کے لفظ سے زیادہ آشنا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی سیاست میں اس لفظ کا تذکرہ ہی نہیں ہوتا۔
دراصل انگریز جب یہاں حکومت کرتا تھا تو اِس نے اس خطے کو نہری نظام بنا کر دیا۔ اور یوں لاکھوں ایکڑ زرخیز اور اب تک نہ استعمال شدہ طاقتور زمین کاشتکاری کے لیے مہیا ہوگئی۔انگریز نے اِن زمینوں کو اپنے ایجنٹوں کو انعام کے بطور دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ بڑے بڑے سرداروں کو ، زیادہ مریدوں والے پیروں کو ،بااثر مولویوں کو ، اور اپنے جاسوسوں کو۔ یوں ہوتے ہوتے حالت یہ بنی کہ ساری زرعی نہری زمین چند لوگوں کی ہوگئی اور بقیہ ساری آبادی اُن لوگوں کی نوکر چاکر بن گئی۔ اور یہ وطن ایک طرف انگریز کی کالونی بنا۔ اور دوسری طرف جاگیرداری نظام یعنی فیوڈلزم کے حوالے ہوگیا۔ فیوڈل لارڈ ہی وزیر گزیر بنتا گیا، اسی نے تھانہ کچہری اور لوکل باڈیز کے اداروں کو اپنے ہاتھ لیا ۔ اور آئین ساز اداروں کو کنٹرول کرنے لگا۔ یوں عام آدمی کی حالت غلامی سے بھی بدتر ہوگئی۔
بعد میں جب انگریز چلا گیا تو ایک اور قوت بھی اس فیوڈل طبقے میں شامل ہوگئی ۔ اب فوج کے افسروں کو بھی زمین دی جانے لگی۔ یعنی سردار ، پیر، مولوی، انگریز جاسوس گھرانے اور فوج نے مل کر زمین پہ اپنا قبضہ مستحکم کیا اور بدترین جابرانہ قوانین بنائے ۔ یہ نظام اس قدر مضبوط اور طاقتور ہے کہ آج تک جوں کا توں سلامت ہے اور کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
بھٹو جب حاکم بنا تو اُس نے زرعی اصلاحات کے نام پر کچھ اقدامات کا اعلان کیا۔ مگر کسان اور کسانوں کے ترجمان اخبار”عوامی جمہوریت“ نے ان اقدامات کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے کر مسترد کردیا اور کسان جگہ جگہ جلسے جلوس اور اجتماعات کرنے لگے ۔
چنی گوٹھ کسان کانفرنس ان زرعی اصلاحات کو بہت کم سمجھنے اور مکمل اصلاحات کرنے کے مطالبات کی کانفرنس تھی۔ کانفرنس کے شرکا کی نظر میں یہ زرعی اصلاحات دراصل بھٹوکی طرف سے کسانوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو کم کرنے کی سازش تھے، اور اُن کی تحریک کو کند کرنے کی مکارانہ کوشش ۔
ایک اور دلچسپ بات 4مارچ 1972کے شمارے میں موجود ہے ۔ اس میں ایک پورے جہازی صفحے کا مضمون موجود ہے جس کا عنوان ہے : بلوچستان سوشلسٹ پارٹی کا اعلان۔
اس اعلان میں لکھا گیا ہے کہ ”پاکستان سوشلسٹ پارٹی موجودہ حکومت سے ان حالات میں کوئی توقع نہیں رکھتی جب تک کہ وہ فوراً زبان و طرز زندگی کی بنیاد پر قومیتوں کے مساوات کے اصول کو تسلیم نہ کرے ۔ اقتدار عوامی نمائندوںکو منتقل نہ کرے ۔ مکمل طور پر جمہوریت بحال نہ کرے ، مارشل لا کا خاتمہ نہ کرے ۔ حقوق کے طور پر روزگار تعلیم صحت کی ضمانت نہ دے۔ جاگیرداری ختم کر کے 50ایکڑ سے زیادہ تمام زمین بلا معاوضہ لے کر کاشتکاروں، مزارعین اور کم مالک زمین افراد کو بلا معاوضہ نہ دے۔ تمام بڑی صنعتوں، بنکوں،اور بیمہ کمپنیوں کو قومی ملکیت میں نہ لے ۔ او ر سامراجی قرضہ ضبط نہ کرے ۔ ۔ ۔ “
اعلان میں بلوچستان سرکار سے مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان کی معدنی دولت ( کانیں وغیرہ) کو بلامعاوضہ عوامی ملکیت قرار دے ۔ کارخانوں کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قائم کرے ۔ کھاد اور بیج سستے نرخوں پر مہیا کرے۔ ہر ضلع میں بجلی گھر اور ضروری مقامات پر چھوٹے ڈیم بنائے ۔ منتشر آبادی کو مناسب مقامات پر یکجا کر کے بڑے بڑے گاﺅں بنائے ۔ سرکاری طور پر مکانات تعمیر کر کے عوام کو نہایت کم قیمت ، آسان اور لمبی قسطوں پر دے۔ تعلیم پرائمری تک لازمی اور مفت دی جائے ۔۔۔ ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی کا مالیہ مکمل طور پر ختم کرے۔ صوبے کے درجہ ِ چہارم کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھائے۔ درجہ چہارم کے ملازمین سے افسر شاہی کی جبری خدمت قانوناً ممنوع قرار دے۔ بیگار اور عوام پر مختلف قسم کے ٹیکس جو سرداروں کی طرف سے ہیں تمام صوبے میں ختم کیے جائیں۔ اشیائے صرف کے نرخوں میں کمی کے لیے ذرائع پیداوار براہِ راست عوام کی تحویل میں دیے جائیں۔

اسی شمارے میں 19 فروری 1972 کو منعقدہ سوشلسٹ ورکرز کانفرنس کی قرار دادیں بھی شائع ہوئیں ۔ اس میں قرار داد نمبر4بلوچستان کے بارے میں ہے ۔ ڈیڑھ کالم کی اس طویل قرارداد میں سرداری سسٹم اور جرگہ قوانین کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ مزید تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم کرنے اور مویشی بانی کو سائنسی بنانے کی بات کی گئی۔ ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ معدنیات کو قومی ملکیت میں لیا جائے ۔ پبلک سیکٹر میں اون کی صنعتیں قائم کرنے ،ماہی گیری کو جدید صنعت بنانے کا تصور بھی پیش کیا گیا اور مچھلیوں کو ڈبوں میں بند کرنے کے کارخانوں کے قیام پر زور دیا گیا ۔ سوئی گیس سے بلوچستان کے عوام کے استفادے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا اور پورے صوبے میں بجلی گھر لگا نے کی بات کی گئی۔ بلوچستان کی نہری زمین سرداروں ، فوجی افسروں اور دیگر بااثر افراد سے واپس لے کر مستحق بے زمین کسانوں کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
مارچ1972کا شمارہ بھی اسی کانفرنس کی باز گشت پر مبنی ہے ۔ایک مضمون ”سوشلسٹ ورکرز کانفرنس کے چند اہم پہلو“ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں اس کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا۔ اسی طرح کانفرنس کے بعد راہنماﺅں کے مختلف علاقوں کے دوروں کی رپورٹ شامل ہے ۔ لیڈنگ مضمون البتہ بھٹو کی کی گئی زرعی اصلاحات کا پول کھولنے پر مشتمل ہے ۔ ان اصلاحات کو یکسر مسترد کیا گیا۔
اسی شمارے میں ” بلوچستان سوشلسٹ پارٹی کا اعلان“ کے عنوان سے ایک پورا صفحہ شائع ہوا ہے ۔ اس میں بلوچستان کے سیاسی ِسماجی اور معاشی مسائل کی تفصیل موجود ہے ۔ آخر میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی آرگنائزنگ کمیٹی (بلوچستان ) پر عزم طور پر تحریک کو آگے بڑھانے کا ارادہ کرتی ہے “۔
ایک پورے صفحے پہ پھیلی تحریر میں بھٹو کی لیبر پالیسی کو مایوس کن قرار دیا گیا ۔
ساتھ ہی 23 مارچ 1972کو بہاولپور کے علاقہ چنی گوٹھ میں تیسری سالانہ کسان کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان چوکھٹے میں کیا گیا اور پاکستان کے مزدوروں ، اور دانشوروں کو اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں شریک ہو نے کی دعوت دی گئی تاکہ وہ کسانوں کے ساتھ اپنے اتحاد کا عملی ثبوت دیں ۔
29اپریل 1972کا شمارہ یوم مئی کے بارے میں نظریاتی مواد پر مشتمل ہے ۔اس دن کا پس منظر، اور اس کی عالمی اہمیت بیان کی گئی اور پاکستان میں اس دن سے متعلق پروگراموں کا تذکرہ بھرپور طور پر علم و شعور کے نقاط پر مشتمل شمارہ۔ اسی شمارے میں ”سیاست کا رخ“ کے عنوان سے صدر بھٹو کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی پر تنقید کی گئی ۔

29اپریل 1972کے شمارے میں ظاہر ہے کہ اولین مضمون یوم ِ مئی پر ہے ۔ جس میں یومِ مئی کی تاریخ اور مزدوروں کی قربانیوںکا بیان ہے ۔ اور عالمی مزدور تحریک کے لیے اس دن کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے ۔
”سیاست کا رُخ “ نامی اداریے میں سی آر اسلم نے بھٹو کی حکمرانی کے اولین چار ماہ کا تذکرہ کیا۔ بھٹو کے مارشل لا جاری رہنے کی اولین ریڈ یائی تقریر کی مذمت کی گئی ۔ اس ایڈیٹوریل میں بھٹو کے زرعی اصلاحات کے اعلان پہ شدید مایوسی کا اظہار ہے ۔
بلوچستان اور صوبہ سرحد (اب خیبر پشتونخواہ ) میں نیپ جمعیت مخلوط حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ پڑوسی ممالک خصوصاً بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے پہ زور دیا گیا ۔ سیٹو سنٹو دفاعی معاہدوں سے نکل جانے کی عوامی خواہش کا اعادہ کیا گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*