خواتین پر گھریلو تشدد

خواتین پر بڑھتا گھریلو تشدد اب معمول بن گیا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن کی 2020 کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ جاننا اہم ہے کہ خواتین گھریلو تشدد کا شکار کیوں ہو رہی ہیں اور ان کو اس تشدد سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے اس تشدد کے پیچھے موجود عوامل کو ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔
کچھ معاشروں میں مرد کی مردانگی کی تعریف اس سے کی جاتی ہے کہ وہ کتنا کسی عورت کو دبا کر رکھ سکتا ہے۔ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تم کیسے مرد ہو تم سے ایک عورت کو قابو نہیں کیا جا سکتا، جیسے عورت کوئی بے لگام گھوڑا ہو یا پھر ایسی گاڑی جس کے بریک فیل ہوں۔ عورت کو دو ٹکڑے روٹی کے بدلے ساری زندگی اپنے حکم کا غلام بنائے رکھنے کا رواج آج بھی بدستور کئی ایک علاقوں میں قائم و دائم ہے۔ شمالی علاقہ جات میں اب تک خواتین کو تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات نہیں دی جاتی ہیں، کچھ عرصہ قبل میرا وہاں جانا ہوا تو یہ میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ لوگ خواتین کی تعلیم کے کتنے مخالف ہیں، نہ صرف یہ بلکہ طرح طرح کی پابندیوں میں ان کو جکڑا ہوا ہے، اس کو مذہبی طور اور معاشرتی طور پر اتنا جائز بنا دیا گیا ہے کہ اب خود وہاں کی عورت اس کو جائز اور صحیح سمجھنے لگی ہے۔ یہ بلکل ویسے ہی ہے جیسے قدیم ہندو مذہب میں عورت معاشرتی طور پر بیوہ کے روپ میں زندہ رہنے کے بجائے ستی ہو کر خاوند کی چتا کے ساتھ جل جانے کو ترجیح دیتی تھی مجازی خدا جیسے اصطلاحات کا استعمال کر کے خواتین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر ہم عورتوں پر مردوں کی حقِ مالکیت یا اس دعوے کو تاریخی مادیت میں دیکھیں تو فریڈرک اینگلز اپنی کتاب خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست میں لکھتا ہے کہ جب ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا تب عورتوں کو بھی اس کا حصہ بنا دیا گیا۔ وہ لکھتا ہے کہ پہلے پہل عورت کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھی بلکہ وہ مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی تھی اور جیسے مرد کثیر الزوجیتی کی زندگی گزارتے تھے عورت بھی کسی ایک کی بیوی نہیں ہوتی تھی، ہر ایک نے اپنی طاقت کے حساب سے عورتوں پر ذاتی ملکیت کا دعویٰ کیا۔معاشرتی رسوم کا مطالعہ کرنے والے دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا اسی وقت میں ہوا، اور پھر یہیں سے عورتوں کو بقیہ سامان کی طرح لوٹ مار کے اندر لوٹا جاتا پھر باندیاں بنا دیا جاتا تھا۔ اسی طرز سے امراءکی کئی کئی باندیاں تھیں۔ یہ جاننا اہم ہے کہ باندی اور بیوی میں رتبے کے لحاظ سے بہت فرق رکھا جاتا تھا، حالانکہ بیوی بھی عورت ہے اور باندی بھی عورت، تاہم بیوی چونکہ امراءکی اولادوں کی ماں ہوتی تھی لہذا وہ اسے عزت دیتے تھے اور باندیاں چونکہ صرف کام کاج اور باعثِ تسکین تھیں تو ان کا اتنا رتبہ نہیں تھا۔
پاکستان کے پوش علاقوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہمیں نظر آتی ہیں، اور تقریباً ہر طرح سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جو خوش آئند ہے،اب اس کے حل کی جانب آتے ہیں ۔چونکہ گھریلو تشدد اب بھی موجود ہے اور اس کے حل کے لیے خواتین کا معاشی طور پر خودمختار ہونا بہت ہی ضروری ہے، وہ خواتین جو معاشی اعتبار سے خاوند پر انحصار کرتی ہیں ان میں سے اکثر کو ساری زندگی کھانے کے طعنے ملتے رہتے ہیں، اگر وہ معاشی طور پر خودمختار ہوں اور مرد کی برابری میں آمدنی کی حامل ہوں تو وہ اپنا مضبوط ردعمل دے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا، ریاست عوام کو بنیادی سہولیات دینے میں ناکام ۔ہے وہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ میں کتنا کامیاب ہو سکتی ہے؟ ریاست ان علاقوں میں جہاں انتہا پسند عورتوں کو زندہ جیلوں میں بند رکھتے ہیں ، کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ان لوگوں سے ریاست کے مفادات جڑے ہوئے ہیں، لہذا ریاست سے حقوق مانگنا یا ان کی امید رکھنا ہی مضحکہ خیز ہے۔ عورتوں کی خودمختاری ہی ان کو گھریلو تشدد اور ذہنی ٹارچر سے بچا سکتی ہے۔ اس کے لیے کالجز اور یونیورسٹیز طلباءکو مل کر اپنے اور اپنی سوسائٹی میں موجود خواتین کی آواز بننا ہو گا۔ نہ صرف آواز بلکہ معاشی طور پر خودمختار بننے اور آگے بڑھنے کے لیے ایک راہ بھی متعین کرنا ہو گی جس پر چل کر خواتین معاشی خودمختاری کو حاصل کر سکیں۔ تنگ نظر انتہا پسندوں کو یہ باور کروانا ضروری ہے کہ عورت نہ تو باندی ہے نہ ہی کسی کی ذاتی ملکیت میں موجود ایک چیز بلکہ وہ زندہ تابندہ انسان ہے جس میں جذبات بھی ہیں اور صلاحیت بھی کہ وہ خود آگے بڑھ سکتی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*