عیسیٰ بلوچ

بدر سیماب جب کہتا ہے کہ ہم کویت آ تو گئے تھے مگر کویت آئے کیوں یہ بات ہمیں عیسی بلوچ نے سمجھائی۔ مکمل طور پر بدر سے اتفاق کرتے ہوئے میں سوچنے لگتا ہوں دراصل عیسی بلوچ نے ہمیں ہر بات بلا چون و چرا مان لینے کی بجائے “ کیوں” کہنا سکھایا۔
سماج کیوں ہے؟ سماج کے اندر طبقاتی اونچ نیچ کیوں ہے؟ سماج کے اندر ریاست کیوں کر تشکیل پاتی ہے؟ کیوں ریاست جابرانہ شکل میں ابھرتی ہے اور کیوں اس ریاستی جبر کے سبب میں آپ اور عیسی بلوچ ضرورتوں کا رختِ سفر باندھے دیارِ غیر کے شب و روز کا رزق بنتے ہیں۔ زندگی جو جینے کے لئے تھی اسے مر مر کے گزارنے پر رضامند ہیں۔
میں شاعر ہوں! یہ بات تو میں جانتا تھا مگر میں شاعر کیوں ہوں یہ سوال بھی سب سے پہلے عیسی بلوچ نے مجھے پوچھا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ اس کا جواب جانتے جانتے شاید زندگی گزر جائے لیکن شاعر ہونا جسے میں اعزاز سمجھا کرتا تھا وہ عذاب لگنے لگا کہ یہ کار ایسا کارِ مشکل ہے کہ نہ چھوڑا جائے نہ آسانی سے کیا جائے اس کا ادراک عیسی بلوچ کے توسط سے ہوا۔ شاعری لفظوں کے جوڑ توڑ کا نام نہیں بلکہ شاعر کے مختلف جاں لیوا مراحل سے گزرنے کا نام ہے ان مراحل میں سے اولین مرحلہ فکر کی پختگی اور یکسوئی یا کسی ایک سمت میں یقین کے ساتھ سوچنے کا عمل ہے۔ تخلیق کار کہنا کیا چاہ رہا ہے جب تک اس میں خود پر یقین نہیں ہوگا قاری کے لئے فن پارے کو سمجھناممکن نہیں۔ یہی وہ باتیں تھیں جن کو سمجھاتے سمجھاتے عیسی بلوچ نے کویت میں کم و بیش تیس سال گزار دئیے۔ہر کسی نے کم یا زیادہ ان کی اس ادبی تھیوری سے استفادہ کیا۔ انہوں نے شعر کہنے سے زیادہ شعر کہنے کے سبب کی تفہیم پر زور دیا۔ یہ عموما کہا کرتے ہیں کہ نظریاتی یا فکری شاعری کے لئے دوہری اذیت میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک تو اردو شعری ادب کی اصناف کی ساختیاتی پابندیاں پھر پابند فارمیٹ میں اپنی بات کی ذمہ دارانہ ترسیل کا آزار اوپر سے وہ فکری یا نظریاتی سمت جو راستی کی طرف کھلتی ہے۔ اس عمل میں صلے کی توقع کی بجائے اس کے خمیازے کا بھگتان کہ یہ کارِ مشکل تو ازل سے ریاستی بیانیے کے خلاف رہا ہے۔ ریاستی بیانیے کے خلاف اس لئے کہ ادبی شعور کا سماجی شعور سے لبریز ہونا شاعری کے لئے شرط ہے اور یہ ایسی کڑی شرط ہے جس میں اپنی ذات کو منہا کر کے اجتماعی انسانی امنگوں کی ترجمانی کرنا پڑتی ہے۔ پھر بالادست طبقات یا ریاستی مقتدر اقلیتیں اس اکثریتی بیانیے کو کیسے قبول کر سکتی ہیں۔ یہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ
پوری انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے ہر عہد میں بااثر طبقات کے خلاف نچلے طبقات بر سرِ پیکار رہے ہیں اس مزاحمت کی شکلیں جیسی بھی رہی ہوں لیکن یہ طے ہے کہ استحصال کے ایک مخصوس مقام پر پہنچ کر نچلے طبقات نے اپنے حق کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں آواز ضرور اٹھائی ہے۔ اسی بات کے تناظر میں اگر ہم برصغیر کا مطالعہ کریں تو آریاﺅں سے لے کر انگریزوں تک کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہ مزاحمت صرف جنگ و جدل کی مزاحمت نہ تھی اس عہد کا ادب بھی اپنے ادوار کے مطابق اس مزاحمت کا حصہ رہا ہے لیکن آج جب سماجی سائنس نے نہ صرف اس کشمکش کی تاریخ پر پڑی گرد کو جھاڑا ہے بلکہ آئندہ کے لئے مسائل کے حل بھی دے دیے ہیں۔تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کارِ خیر میں زندگی کا ہر ادارہ بقدرِتوفیق حصہ ڈالے مگر ادبی اور سیاسی سطح پر اس سفر میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ بااثر طبقات خیر اس سوچ کو قبول کیسے کریں کہ یہ انکی بدمعاشیوں کے خاتمے کا عندیہ ہے۔ پسے ہوئے طبقے کے ادیب اس مقصد کے لئے ریاستی بیانیے کو استحصال شدہ طبقے کے خلاف وضع کرنے میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جدیدیت مابعد جدیدیت کے نام پر ادیب کو سماج سے کاٹ کر اپنی ذات کا اسیر کر دیا گیا ہے۔
میں جب شروع شروع میں مارکسزم پڑھ رہا تھا تو مجھے یہ فلسفہ الجبرے سے بھی مشکل لگا لیکن عیسی بلوچ ایسے سمجھاتے کہ ان کی ساتھ بیٹھنے کے بعد میں نے جب بھی کوئی کتاب اٹھائی مجھے ایسے لگا جیسے میں اسے پڑھ چکا ہوں۔ بڑے لوگوں کا ساتھ اسلئے بھی ضروری ہے کہ یہ صدیوں کا سفر دنوں میں کرا دیتے ہیں۔ میں نے عیسی کے ساتھ کویت میں ان کے آخری ایام گزارے ہیں نصف سے زائد عمر اس نظریاتی قبیلے میں گزارنے کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ عیسی بلوچ اب عیسی بلوچ نہیں رہے وہ ایک مکمل مارکسی کریکٹر بن چکے ہیں۔ اندر باہر ایک سی شخصیت۔ مارکسزم کی کوئی الجھی ہوئی گتھی ہو ملکی سیاست، بین الااقوامی سیاست آرٹ، کلچر ، تاریخ حالاتِ حاضرہ ہر موضوع پر بوقتِ ضرورت ان کو بے تکان بولتے دیکھا ہے۔ جدلیاتی مادیت کا اطلاق زندگی کے ہر پہلو پر کرتے ہوئے مارکسزم کی مشکل اصطلاحات کو استعمال کئے بنا بات کو بہت اچھے طریقے سے سمجھاتے ہیں۔ اس فلسفے کی آفاقیت شاید ہی میں کتابوں سے سمجھ نہ پاتا۔ مگر اس کی آفاقیت کے یقین کو میں نے ان سے پایا ہے جدلیاتی اور تاریخی مادیت کو زندگی کے تمام پہلووں پر لاگو کرنا اور ان کو سمجھنا ان مسائل کا تلاشنا جو کیپٹلزم کی چیرہ دستیوں کے سبب زندگی کی ہر جہت کو پامال کر رہے ہیں عیسی بلوچ نے بہت خوش دلی سے سمجھایا۔
میں ان کو کچھ دنوں سے جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کا شکار پاتا ہوں۔ لیکن بات جب ادب اور مارکسزم کی ہو ان کے لہجے کی کھنک اور آنکھوں کی چمک لوٹ آتی ہے۔ ان کی نظریاتی کومٹمنٹ ان کے خون کے ہر قطرے میں شامل ہے۔ عیسی بحثیت مارکسسٹ بالکل مایوس نہیں ہیں وہ عمر کے اس حصے میں بھی پر امید ہیں جیسے اٹھارہ سالہ نوجوان اپنی اولین محبت کے لئے پرامید ہوتا ہے۔
ہم نے راتوں کو جاگ جاگ کر الفاظ پر باتیں کی ہیں معاصر ادب اور شعر پر گھنٹوں سر کھپایا۔ عیسی بلوچ نے کویت کے ہر تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے انکو کڑھتے دیکھا ہے ان دوستوں کے لئے جن کے اندر تخلیقی وفور تو ہے لیکن تخلیقی شعور کی کمی ہے۔ اس شعور کو اجاگر کرنے کے لئے عیسی ہر شاعر دوست سے ملے کسی نے ان کے اس ادبی نظریے کو قبول کیا کسی نے نہیں۔ لیکن ان سب دوستوں نے عیسی بلوچ کی متانت، ان کی باشعور شخصیت، نیک نیتی اور پر خلوص طبیعت کو دل سے مانا ہے۔
مجھے فخر ہے کہ عیسی بلوچ مجھے اپنے دوستوں میں رکھتے ہیں مجھے فخر ہے کہ میں عیسی کے لئے یہاں کھڑا ہوں مجھے فخر ہے کہ اس عظیم فلسفے کو میں نے ان سے سمجھنے کی حتی المقدور کوشش کی۔
پاکستان میں غیر طبقاتی نظام کے قیام کی جدوجہد میں گو ادب ہر اوّل دستہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ہے۔ مگر اک ٹول کی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ اس جدوجہد میں حصہ ڈالنے کی شعوری تحریک میں نے جس شخص سے لی اسے یقین دلاتا ہوں کہ اک دن وہ سورج ضرور طلوع ہو گا جس کی روشنی سب کے لئے سانجھی ہو گی۔ اندھیرے چھٹیں گے انسان زندگی کی حقیقی مسرت سے بہرہ ور ہو گا نفرتیں ختم ہونگی محبت کا دور دورا ہوگا عیسی بلوچ کی شاعری ضرور سرخرو ہوگی۔ ا±س سماج کے قیام اور اس سماج کے انسان کی از سرِ نو تشکیل کی بنیادوں میں عیسی بلوچ کے لفظوں کا حصہ بہت واضع اور خوبصورت الفاظ میں لکھا جائے گا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*