لیاری کی محنت کش اور باشعور عورتیں

ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں لیاری کی محنت کش عورتوں کے بڑے چرچے تھے۔ اس دور میں شیرشاہ سائٹ ایریا جانے والی بسوں میں ادھیڑ عمر کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ چاکیواڑہ اور دیگر بس سٹاپ سے صبح سویرے سوار ہوجاتی تھیں اور ان کی منزل صنعتی علاقوں میں قائم ٹیکسٹائل ملز۔ وول و کاٹن چننے کی فیکٹریاں اور بڑے بڑے وئیر ہاو¿سز ہوتے تھے۔ شام کو وہ تھکی ہاری اپنے گھر لوٹتی تھیں۔ ان عورتوں میں زیادہ تر بیوہ۔ گھر کی ضروریات پوری کرنے میں شوہروں کی کمک کرنے والیاں یا وہ مجبور مائیں ہوتی تھیں جو اپنے بچوں کو پالتی تھیں جن کے باپ غیرذمہ دار یا نشے کی دھت میں ایک بوجھ بن جاتے تھے۔
ان جفاکش بلوچ عورتوں کے علاوہ کچھ عورتیں اپنے گھروں میں سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھیں جن میں وہ ہنرمند بھی شامل ہوتی تھیں جو بلوچی دوچ (لباس) کا کام ماہرانہ طریقے سے انجام دیتی تھیں۔ اس زمانے میں ہوٹلز میں کھانے کا رجحان کچھ زیادہ مہنگا پڑتا تھا۔ تقریباً ہر گلی میں دوچار عورتیں ایسی ضرور ہوتی تھیں جن کو آج کی زبان میں "بزنس وومن” کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل بہت ہی کم جھونپڑی نما "ہوٹل” میں دال، سبزی اور فش کباب سستے داموں میں بیچتی تھیں اور ہر ایک کے پاس خریداروں کا رش رہتا تھا۔ ایسی محنتی عورتوں کا شمار "امیر خواتین” میں ہوتا تھا۔
اس دور میں ادیب۔ شاعر اور سماجی رہنما میر ایوب کے نام پر ایک ہی سرکاری گرلز سکول تھا جہاں مڈل (ساتویں جماعت) تک لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ یہاں سے پاس شدہ لڑکیوں کو اسی سکول یا بعد میں تعمیر ہونے والے دوسرے سکولوں میں ٹیچرز کی ملازمت دی جاتی تھی۔ ان میں زیادہ تر لڑکیاں شادی کے بعد یہ ملازمت چھوڑ دیتی تھیں جبکہ کچھ شادی کے بعد بھی خاندان کا سہارا بنتی تھیں۔

اس زمانے میں ہمارے محلہ (شاہ بیگ لین) میں ملا جنت سکول بھی تھا جہاں دینی اور دنیاوی (پرائمری) تعلیم دی جاتی تھی۔ اس سکول کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں لڑکیوں اور لڑکوں کی الگ کلاسیں نہیں بلکہ ‘کو-ایجوکیشن’ کا رواج تھا۔ ملا جنت ایک عالمہ اور نیک خاتون تھیں۔ انہوں نے بغدادی کے ایک خاندان کی لڑکی کو بچپن سے گود لے کر خود اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہ لڑکی اسی کی دہائی میں جنرل ضیا ءالحق کے خلاف بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی مزاحمتی تحریک میں لیاری کی دیگر خواتین کے ساتھ پیش پیش رہی اور حتماً بعد میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کی ممبر بھی منتخب ہوگئی۔
لیاری کی کئی خواتین ساز و آواز کے پروفیشن سے بھی وابستہ رہی ہیں۔ اس وقت نسبتاً لوگوں کی معاشی حیثیت کچھ بہتر تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شادیوں میں بھرپور خوشیوں کا اظہار کیا جاتا تھا اور رسومات سات دن تک جاری رہتے تھے جبکہ رات کو خواتین کی ساز و آواز و رقص کی محفلیں سجتی تھیں جن میں اس وقت کے مشہور بلوچی زبان کے نغمے گائے جاتے تھے۔ ان فنکار خواتین کو جو معاوضہ دیا جاتا تھا وہ ان کے خاندانوں کی کفالت میں خرچ ہوتے تھے۔
اسی طرح ادب کے حوالے سے بانل دشتیاری کا ممتاز مقام ہے کہ وہ اس علاقے میں بلوچی زبان کی پہلی شاعرہ تھیں۔ آج بلوچی اور اردو زبانوں میں کتابوں اور شاعری کے حوالے سے زاہدہ رئیسی راجی بہت بڑا نام ہے۔ اردو زبان میں "خواب گھروندہ” اور بلوچی زبان میں”بے کسہ ئَ مناں واب نئیت” اور "پادئَ چیرئَ زمین” ان کی اہم تخلیقات ہیں۔
حانی بلوچ ایک نڈر اور جرات مند لڑکی ہے۔ جب ان کے والد اور لیاری کی ادبی شخصیت واحد کامریڈ اچانک "غائب” ہوئے تو انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر زبردست تحریک چلائی تھی۔ وہ بہت ہی "پڑھاکو” قسم کی ہیں جن کی پسندیدہ کتابوں میں میکسم گورکی کی "ماں” کے علاوہ "عورت اور فنون لطیفہ”۔ "مارکس اور آج کی دنیا”۔ "Broken Republic” اور”Science and the Quiet Art” جیسی کتابیں شامل ہیں۔ گھر میں حانی بلوچ نے اپنی الگ لائبریری بنائی ہے جس میں 100 سے زیادہ کتابیں ہیں۔ وہ بلوچی زبان کی ایک کتاب "زندئ آدینک” کی مصنفہ بھی ہیں جس کا موضوع مًردوں کا گھریلو عورتوں پر جبر و تشدد۔ عورت کی خاموشی اور اپنے حقوق سے آگاہی کا نہ ہونا ہے۔
حانی بلوچ کی دو بہنیں ماہین (ایجوکیشن و سوشل ورک) اور مائیکان (اسپورٹس) بھی متحرک ہیں۔ اس ضمن میں پروین ناز کا نام لینا بھی ضروری ہے جو نہ صرف لیاری میں نوجوانوں (میل و فیمیل) کے علمی، ادبی اور ثقافتی مرکز "مہر گھر” کی سربراہ ہیں بلکہ عوامی اور انسانی حقوق کی تحریکوں میں بھی پیش پیش رہتی ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسر اصیلہ عبداللہ تعلیمی اور سماجی کاموں کے حوالے سے ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔
جاتے جاتے ہم انگریزی صحافت کی دنیا میں دو بلوچ لڑکیوں کا ذکر کرینگے۔ ایک تو حنا گل رند ہیں جو معروف مفکر ودانشور لالا لعل بخش رند کی بھتیجی ہیں جو کافی عرصہ روزنامہ News” "Theمیں رہ چکی ہیں۔ آجکل اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔
لیاری میں ایک فیملی حاجی پشوک بلوچ (ہوٹل والے) کی بھی ہے۔ ان کی اہلیہ پختون تھیں۔ حاجی صاحب خود تو لکھے پڑھے نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ غلام حسین بلوچ انجئنیر تھے جو بعد میں بلوچستان گورنمنٹ کی منسٹری آف ورکس میں سیکریٹری کے عہدہ پر پہنچے۔ ایک اور بیٹا محمد علی بلوچ تھے جو اسلام آباد میں کسی منسٹری میں اعلیٰ عہدہ پر تھے (یا ہیں)۔ بہت ہی معتبر صحافی سحر بلوچ محمد علی صاحب کی بیٹی ہیں جو پہلے "The News”۔ پھر "DAWN” اور آجکل "BBC” کی اسلام آباد میں نمائندہ ہیں۔
یہ لیاری کی ان خواتین کے تذکرے ہیں جن سے ہم ذاتی طور پر واقف ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کئی اور بھی ہیں جو یہاں علمی۔ ادبی۔ سماجی۔ثقافتی اور اسپورٹس کے شعبوں میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*