کلچر پالیسی

کلچر معاشرے کے بودوباش کے ”کُل“ کا نام ہے۔ اس میں رہن سہن، لباس و زبان، برتن وباورچی خانہ، آلہ واوزار،رسم ورواج، آداب، عادات واخلاقیات،عقیدے اور قدر یں، افکاروامنگیں اور آدرشیں الغرض معاشرے کی زندگانی کا سب ہی کاروبار شامل ہے۔ اسی طرح فن اورجمالیات کی ساری صورتیں بھی اس کا حصہ ہیں۔مثلاًلٹریچر، ڈرامہ،شاعری، ٹی وی، میوزک، رقص، فائن آرٹس، فوٹوگرافی، کیلی گرافی، ایکرو بیٹکس، بیلے سنگنگ، قصہ گوئی، فوک آرٹس اور ہر نوع کی ہنر مندی۔۔۔ المختصر کلچر ایک معاشرے کی سیاست اور معیشت کا نظریاتی عکاس ہے۔

کلچر سارے جانداروں میں صرف انسان کا خاصہ ہے۔جانوروں کا کوئی کلچر نہیں ہوتا۔انسانی کلچرل ضرورتیں ہی انسانوں اور جانوروں میں فرق کرتی ہیں۔

چنانچہ کلچر محض لباس کا نام نہیں ہے، محض داڑھی مونچھ کی مخصوص ساخت وبرید نہیں ہے۔ کلچر محض تفریح تک بھی محدود نہیں۔ یہ فعل ِ عیاشی کا نام بھی نہیں ہے۔ کلچر سے مراد افزائشِ حسن یا عروج ِ فن بھی نہیں ہے۔

کلچر مکمل طور پرایک دنیاوی چیز ہے۔یہ معاشرے کے اندر کی چیز ہے۔ حتمی طو ر پر انسانی اور زمینی چیز۔ کلچر کسی قوم سے مخصوص ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کا کوئی کلچر نہ ہو، اور نہ ہی کوئی ایسا کلچر ملے گا جس کی کوئی قوم نہ ہو۔ یہ کسی قوم کی تشکیل وتعمیر کا بنیادی جزو ہے۔یہ قوم کی زندگی کا جوہراور اس کا سب سے اہم ذریعہ ِاظہار ہے۔

کلچر کوئی فطری اور پیدائشی صفت نہیں ہے بلکہ یہ ارادی اور تخلیقی عمل ہے۔قومی تہذیبیں قوموں کے ساتھ کسی معین دن پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ یعنی کلچریکایک وجود میں نہیں آتا بلکہ ناشائستگی سے شائستگی، انتشار سے ترتیب، پسماندگی سے ترقی،اور بد سلیقگی سے سلیقہ تک پہنچنے میں آتش ولہو کے دریا عبور ہوئے۔سچ بات ہے کہ کلچر کی کوئی قدر ایسی نہیں، جس کی پیشانی سے خون نہ رِسا ہو۔(2)۔

انجن اور اُس کالایا کلچر خود نہیں اُگے، نہ ہی ہوائی جہاز، ٹریکٹر یا ریل کی اچانک برسات ہوئی تھی۔ یہ چیزیں صرف انسان بناسکتا تھا۔یہ سب اُس کی کار سازی، اس کے ہاتھوں اور دماغ کی پیداوار ہیں۔ اس کے دماغ اور ہاتھوں کی پیداوار۔ لہذا، کلچر جامد اور ساکن نہیں ہوتا۔ یعنی کلچر صرف ہوتا ہی نہیں یہ تواتر اور تسلسل کے ساتھ سنوارا اور تبدیل کیاجاتا ہے۔(1)کلچر انسانی معاشرے تخلیق کرتے ہیں اور حتمی طو رپر انسانی اور استدلالی طریقے سے آگے منتقل ہوتے ہیں، اس لیے یہ فکس نہیں ہوتے اور غیر متغیر نہیں ہوتے۔ کلچر مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے، اس لیے کہ سماج ہمہ وقت نئے صورتحال سے نمٹتا رہتا ہے۔ کلچر انسان کو ایک طرح کی چوکھاٹ میں متعین کرتے ہوئے بناتا ہے، مگر یہ بھی بالکل سچ ہے کہ انسان اسی چوکھاٹ میں اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرتا جاتا ہے۔

قوم کی مائتھالوجی سے لے کراکیسویں صدی تک کے ترقی یافتہ سماج تک کلچر کے پنپنے کے لیے ایک طویل تاریخی عمل سے گزرنا پڑا۔انسان اپنے ماحولیاتی تجربات سے مسلسل سیکھتا ہے اور اپنے ان تجربات کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں شامل کرتا رہتا ہے۔ اس عمل کے دوران گروہ اور قبیلے، لسانی،نسلی،مذہبی یا جغرافیائی اشتراک واختلاط کے نتیجے میں، معتقدات اور تعلقات کے نئے رشتے قبول کر لیتے ہیں۔انسان ایسے طور طریقوں کو جو مخصوص حالات میں اس کی ضرویات کو پورا کرتے ہیں، شعوری طور پر اپنا تا ہے اور آگے منتقل کرتا ہے۔ یہی کلچر کی بنیادہے۔ کلچر معلومات، انسانی چلن اور لین دین کے نمونوں اور ٹکنالوجی کا ایسا ذخیرہ ہے جو تعلیم وتربیت اور،بڑوں کی پیروی یا تقلید سے ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا ہے۔یوں مختلف کلچرز باہمی اتصال وربط سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوکر ارتقا کرتے جاتے ہیں۔

کوئی بدقسمت گھرانہ ہی رہا ہوگا جہاں کابزرگ اپنے گھرانے کی نئی نسل کو اپنا کلچر منتقل نہ کرتا ہو۔دراصل یہی حسین روایت بلوچ کو اپنی زندگی گزارنے کی راہ منتخب کرنے میں سمت بخشتی ہے۔

بلوچ اپنے ہر اکٹھ میں موسیقی کے ساتھ یا پھر بغیر موسیقی کے شاعری سناتے سنتے آرہے ہیں۔ نڑ سُر، بین یادونلی، سریندا اورد مبیرو چہکیں سمجھو بلوچی شاعری وہاں ضرور مہک رہی ہو گی۔

شاعری ہے تو موسیقی ہے، موسیقی ہو تو رقص کیسے نہ ہوگا۔ میرا دعویٰ ہے کہ بلوچوں کا کوئی گاؤں ایسا نہ ہوگا۔ جہاں ڈھول کی آواز سنائی دے اور دور دراز سے ایک آدھ نوجوان پیدل، گھوڑے پر،یا موٹر سائیکل کے ذریعے اپنے تھر کتے پیروں کو شانت کرنے وہاں نہ پہنچے۔

ابھی ماضی قریب تک مویشی بانی کے کلچر میں ”حال حوال“ سننے سنانے کا باقاعدہ ادارہ موجود رہا ہے۔راستے پر سفر کرنے والا مسافر،دوسری طرف سے آنے والے مسافر یا پھر راستے کے قریب موجود خیمے یا چرتے ہوئے ریوڑ وں کے چرواہوں جیسے درجنوں لوگوں سے حال حوال کے تبادلے کا پابند ہوتاتھا۔ اس طرح بارشوں، ٹڈی دل، مال مویشی کی بیماریوں اور اُن کے نرخ وغیرہ کے علاوہ سردار، سرکار، قبائلی جنگوں،حادثوں اور دیگر سماجی سیاسی اور معاشی معاملات کے بارے میں طرفین ہمہ وقت باخبر رہتے تھے۔چنانچہ کلچر عوامی معاشی سماجی سرگرمیوں کے مجموعے ہی کا نام ہے۔

بلوچ کلچر میں بلوچ زندگانی کی نصف یعنی عورت کے لئے عمومی طور پرقابل احترام جذبات نظر آتے ہیں۔

زندگی کے گرد رقصاں ہمارے کلچر کا مزاج ہمارے بارانی اورخشکا بہ وطن کی مطابقت میں ہوتا ہے۔ بارشیں ہوں توہم دنیا کے رنگین ترین تخلیقی لوگ بن جاتے ہیں۔ بارشیں نہ ہوں توہماراپورا لہجہ قحط کے غم کی سیا ہ چادر تان لیتا جاتا ہے۔ ایک کسان اور لائیوسٹاک والے معاشرے کا کلچر!۔

کلچر بذاتِ خود آبادی وخوشحالی کا ذریعہ تو نہیں، مگر اِس کے بغیر کسی قوم کے قومی خزانے میں اگر کوئی دولت ہو بھی تو بہت بے لذت رہتی ہے۔ اس قوم کا زرمبادلہ برکت سے خالی ہوگا، اور فصل کی پیداوار بڑھنے کا ایک اہم ترین جواز ختم ہوجائے گا۔

بلوچ اپنے کلچر کا بالخصوص بھوکا ہے۔اس کا ادب کلچر کا سب سے ہمہ گیر،سب سے نمائندہ، سب سے جامع جزو ہے۔بلوچ کلچر کے مظاہر میں زبان اور بولی سب سے اہم مظہر ہے۔ اس میں نمایاں طور پر کہاوتیں، ضرب الامثال، گیت، قصے، اشلوک اور منا جاتیں، رزمیے اور بز میے شامل ہیں۔۔۔اور دوسرے کلچرز کی طرح بلوچ کلچر میں بھی سب سے ابتدائی،سب سے نمایاں اور فنکارانہ کلچرل اظہار شاعری رہی ہے۔بلوچ کو اپنی زبان اور شاعری سے بے حد محبت ہے۔ ہر قوم کی طرح بلوچ کی بھی ساری شاعری سیاسی اور معاشی رہی ہے۔خواہ یہ شاعری مائتھالوجیکل ہو، فوک ہو، کلاسیکل ہو یا حالیہ زمانوں کی سبی اور گنداواہ کی برادر کشی کی ساری شاعری سیاسی اور معاشی ہے۔ چاکر کے سبی سے نکلنے اور ست گھرا آباد ہونے تک کی ساری شاعری سیاسی اور معاشی ہے۔ جام درک سے لے کر توکلی مست تک،اور پھر رحم علی سے لے کر مبارک قاضی تک ہماری ساری شاعری سیاسی ومعاشی ہے۔اسی شاعری میں بلوچ تاریخ موجود ہے، قدرتی مناظر وواقعات کی توصیفیں، نیچرکی بشر دوستی کا تذکرہ ہے،اور اسی نیچر میں موجود حیات دشمنی سے دشمنی کے جذبات ہیں۔اس میں حسن کے راحت بخش قصے قضیے ہیں۔قبائلی معاملات وطبقاتی حقائق کا اظہار ہے۔ضرب الامثال واستعارات ہیں۔ اور شعور وفکر کے بہتے چشمے ہیں۔ بلوچی شاعری زندگی سے وابستہ ہے۔اور زندگی توایک سنجیدہ مظہر ہے۔اس لیے بلوچ کلچر کبھی ہلکا، بازاری اور ہوائی نہیں رہا ہے۔

ہمارے کلچر نے ہماری قوم کی فطرت اور قومی کردار کو مخصوص عظمت عطا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے قومی مزاج اور قومی نفسیات پر ہمارے کلچر کا انتہائی گہرا اثر رہا ہے۔

البتہ یہ دلچسپ ہے کہ بلوچ کے ہاں شاعر توولی ہوتا ہے، اوراُس کی تکریم ہر حال میں ضروری ہوتی ہے۔ مگر کلچرل زندگانی کے دوسرے شعبوں سے وابستگان کا مقام اتنا بلند نہیں ہوتا۔(ایک بہت ہی منفی رجحان!)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کلچر کا صحیح مقصود قومی دل ودماغ کی تربیت اور شائستگی،قوم ہونے کا بنیادی احساس، اُس کی ”روحِ رواں“ کی بیداری اور آبیاری ہے۔

کلچر کا کمال یہ ہے کہ یہ شاونزم کی طرف جانے نہیں دیتا۔اِس لیے کہ سارے انسانوں اور ساری قوموں کے کلچر ز میں انسانی شرف کی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ ہر قوم میں البتہ،ان کی صورتیں جداہوتی ہیں اور تناسب الگ الگ ہوتا ہے۔لہذا ہر کلچر میں ایسے اجزاموجود ہوتے ہیں جو بین الاقوامی ہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جو قومی ہیں۔

کلچر زخموں کو ٹھیک کرنے کی بہترین دوا ہوسکتا ہے۔یہ امید دلاتا ہے۔ کلچر میں سے ابھرا پیغام بہت جلد پھیلتا ہے۔ کلچر انسانی ترقی اور ارتقا میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ کلچر مستقبل کے Pluralism اور سکون وامن کی راہیں صاف کرتا ہے۔

انسان ہی کی طرح اُس کے کلچر کی بھی تاریخ ہوتی ہے۔اور یہ تاریخ ہمیشہ مستقبل کی طرف سفر کرتی رہی ہے، مستقبل کو جگہ دیتی ہے۔مضبوط کلچر کی موجودگی میں آگے بڑھنا کبھی بھی ہیجانی اور قولنجی نہیں ہوتا۔کلچر کی خصوصیت ہے کہ یہ ہمیشہ ترقی پسند رہتا ہے۔ یہ اپنی بھل صفائی خود کرتا رہتا ہے۔یہ ایک زندہ جاندار کی طرح خود کو بدلتا، ڈھالتا اور فروغ دیتا رہتا ہے۔ یہ کبھی جامد ساکت نہیں رہتا۔ ہردم ارتقاپذیر۔۔۔ اپنی گوڈی اور شاخ تراشی کرتا ہوا۔ خود کو ”بہتر“ کے جذب کرنے کو تیار رکھتا ہوا، اور ناکارہ شدہ کو خود سے الگ کرتا ہوا۔

جب انسان مختلف ادنی اور اعلی طبقوں میں بٹ گئے تو کلچر کا تحفظ، اس کی نگہداشت، اس کی کھرپی گوڈائی نچلے طبقے کے ہاتھ آئی۔ گوکہ سماج میں ہمیشہ بورژوا کا کلچر حاوی رہتا ہے۔ مگر عوام الناس میں کلچرل تخلیق کی روایت مردہ نہیں ہونے پائی۔ نچلے غریب عوام مفلس اور محنت کش تو ہوتے ہیں، گونگے اور بہرے نہیں۔ تسکین و تفریح کی انہیں بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہر دور میں قصے کہانیاں، گیت اور دوہے کہتے اور سنتے رہے۔(3)۔

قدیم کلچر کے متعلق ایک دوباتیں قابلِ ذکر ہیں۔ اول تو اس کلچر پر واقعیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ روحانیت بہت رنگین انداز میں لپٹی ہوتی تھی۔ اس میں عوام کے روز مرہ دکھ درد اور اُن کے بنیادی مسائل کا ذکر اسی روحانیت کی سطحوں کو کھود کربہت گہرائی میں تلاش سے ملتا تھا۔ اُس میں انسانی حسرتیں،آرزوئیں آسمانی وارداتوں کے اندر موجود ہوتی ہیں اس لیے کہ دیو اور راکھشس زمین پہ نہیں رہتے۔ آسمان یا پھر گہرا سمندر اُن کا مسکن ہوتا ہے۔اس لیے عوام کے قدیم کلچر میں دیوی دیوتاؤں کے معر کے اور پہلوانیاں بھجن نماپیرائے میں بیان چلی آئی ہیں۔جنوں، پریوں کے یہ قصے انسانی آدرشوں میں لپٹے ملیں گے۔ اسی طرح قدیم نجات دھندہ سورماؤں کی داستانیں ہوتی ہیں۔ اور امید کی انہی شمعوں سے عوام اپنے حال اور مستقبل کی تاریک رات کو روشن رکھاکرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مائتھالوجیکل کلچر میں خروش اور تنومندی تو ہے مگر فیوڈل زمانے کی باریکی اور صناعی نہیں ہے۔ اس لیے کہ باریکی اور صناعی کے لیے ماضی کے انسان کے پاس نہ وقت تھا اور نہ فراغت تھی۔

سائنس کی زلف جب جب کُھلتی ہے تو روایتوں، رواجوں، بدعتوں کی دنیا اندھیر ہوتی جاتی ہے۔ عمومی طور پر تو اَٹکے اور بھٹکے ذہنوں پہ اس سلسلے کا سب سے بڑا تمانچہ فزکس مارتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ مقدس کام آرکیالوجی نے کیا۔آرکیالوجی کے سائنس دانوں نے بلوچستان کے ایک مقام مہر گڑھ میں ایک پوری سولائزیشن دریافت کرلی۔اب تک دنیا کی دریافت کردہ یہ سب سے قدیم تہذیب ہے۔ یہ چھ ہزار سال تک سلامتی سے مہرگڑھ میں آباد ہونے کے بعد موہن جو دڑو اورہڑپہ مہاجرت کر گئی تھی۔اتنی بڑی دریافت کہ، اس سے انسان کی تاریخ بہت طویل ہوگئی۔

سائنس کی انہی دریافتوں نے بتایا کہ اِس وقت تک دریافت شدہ سب سے قدیم کلچر مہر گڑھ تسلسل کے ساتھ آباد رہا۔ اوراس لیے آج کی ہماری نسل اُسی مہر گڑھ کی اولاد ہے۔چنانچہ ”مہر گڑھ کلچر“کے تسلسل میں معاشی اور اوزاری ارتقا کے ساتھ ساتھ جو فطری تبدیلیاں آنی تھیں وہ ہمارے کلچر میں بھی آتی گئیں۔ مگر چوکھاٹ، زمین، جڑ، اور بنیاد، وہی مہر گڑھ کا رہا۔ آرکیالوجی نے بتایا کہ ہمارے پورے منطقے کی مشترکہ تاریخ 1947سے شروع نہیں ہوتی، نہ ہی انڈس سولائزیشن سے،بلکہ گیارہ ہزار سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ ہم سب اُسی مہرگڑھ سولائزیشن سے ہیں۔ہماری زبانیں، ہماری ثقافتیں اُسی ایک سرچشمے سے پھوٹی ہیں۔

یوں ہمیں بلوچ کلچرکے گیارہ ہزار برس قبل تک کی ہسٹری کامعلوم ہے۔ مہر گڑھ پتھرکازمانہ تھا۔ وہ آبادی جب پیرک منتقل ہوئی توہم کانسی کے دور میں داخل ہوئے، اور پھر پیرک سے موہن جودڑو تک جاتے جاتے مہر گڑھ سولائزیشن لوہے کے دورمیں داخل ہوگئی۔ اُس چھ ہزار سال میں پچھلے پیداواری رشتوں کے کئی کار آمد عناصر تو ساتھ ساتھ رہے مگر بے کار شدہ اشیا، الفاظ، اور فائن آرٹس متروک ہوتے گئے اور نئے تشکیل پاتے رہے۔

مذاق دیکھیے کہ کسی نے ہمیں ابھی حال ہی کے آریاؤں سے باندھ دیا اور کوئی ہمیں زنجیبار سے یہاں گھسیٹ لایا۔یعنی ہم سب باہر سے آئے ہوئے مہاجر بتلائے گئے تھے۔جب ایک بار مہاجر ذہنیت نے سرکاری ذہنیت کا مقام حاصل کیا تو پھر انہوں نے کسی کو مقامی رہنے ہی نہیں دیا۔ گویا ہماری دھرتی نے کبھی انسان جنے ہی نہیں۔ آدم زاد سب باہر سے یہاں انڈیل دیے گئے۔

اب آثارِ قدیمہ کی نئی دریافتیں اعلان کر رہی ہیں کہ کوئی بہت ”بڑی“مائیگریشن باہر سے ہوئی ہی نہیں۔ یعنی ہم میں سے کوئی بھی قوم، مہاجر نہیں ہے۔ سب یہیں کے ہیں۔نہ صرف ہم جنوبی ایشیا کے لوگ اُسی نرم، ریتیلی اور مہر کے گھڑھ کے مالک ہیں بلکہ مہرگڑھ کا مادرسری،پرامن اور تخلیقی معاشرہ ہی قرب وجوار کی ساری تہذیبوں کی ماں ہے۔ ایران کاشہرِ سوختہ، قندہارکا مند یگک،ترکستان کا ٹیپ یحیٰ،عراق کا میسوپو ٹیمیا، سندھ کا موئن جودھڑو، اور پنجاب کا ہڑپہ مہرگڑ ھ کے پوتے پوتیاں ہیں۔ہم ریڑھیوں رکشوں پہ بٹھا کر باہر سے نہیں لائے گئے۔

ثابت ہوا کہ مہر گڑھ کا انسان بولتا تھا۔ گیارہ ہزار سال قبل ہم بولتے تھے۔ وہاں ہم کیا زبان بولتے تھے، ابھی تک ڈی کوڈنہ ہوسکا۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ سارے وسطی اور جنوبی ایشیاء کے انسانوں، اُن کی تہذیبوں اور زبانوں کا منبع یہی مہر گڑھ ہے۔ تماشا یہ تھا کہ مہر گڑھ، کی دریافت سے قبل،ہماری ہر کتاب میں آریا اور دراوڑنامی دوضحا کی اژدھے موجود رہے ہیں جو ہماری زبانوں کے کندھوں پر براجمان ان کے مغزوں کا ناشتہ فرماتے رہے ہیں۔یہ جھوٹ نکلا۔اب اگر کوئی ایسا بولے تو سر جھٹک کر دیکھیے، سفید ریش مہر گڑھ کی زبان اُس پہ طنز یہ نورانی مسکراہٹ مسکراتی ملے گی۔

مہر گڑھ زبان اور ثقافت کے عناصر،ارتقا پذیر عہدی تقاضوں کی تکمیل کی خاطر نئی نئی صورتیں اختیار کرتے چلے گئے۔ اُن میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ اور ان میں ورائٹی بھی پیدا ہوتی گئی۔نتیجہ یہ کہ آج اُس ایک زبان سے تعداد میں بہت زیادہ،اور ذائقے میں بہت میٹھی زبانیں وجود میں آچکی ہیں۔یوں‘آج ہمارا واسطہ کئی زندہ، متحرک اور کمال درجے کی ترقی یافتہ زبانوں اور ثقافتوں سے ہے۔ اس میں اگر ایک طرف مہر گڑھ اور اس کی آبادی کی مختلف اطراف میں پھیلاؤ کی قدامت کا ذائقہ موجود ہے تو دوسری طرف اپنے اپنے موسموں، پیداواری قوتوں کی حالت، اور مادی ترقی کے الفاظ و تراکیب کا حسن جلوہ گر ہے۔

بعد کی ساعتوں میں ہم،حملہ آوروں کی تندوتلخ مزاحمت کرتے رہے۔ مگر ساتھ ساتھ اُن دشمنوں کی زبانوں کلچروں کے ساتھ درآمد برآمد میں بھی لگے رہے۔ حتی کہ انیسویں صدی کے اواخر میں،ہماری لین دین انگلش زبان کے ساتھ ہوتی ہے جو آج تک جاری ہے۔ انگلش زبان نے سائنس اور ٹکنالوجی کے لحاظ سے ”فارغ“فارسی کو تخت سے گرادیا اور اُس کی جگہ خود لے لی۔ انگریزوں نے ریلوے کے ذریعے ہم شتر بان اقوام کا تعلق ایک سے زیادہ زبانوں اور ثقافتوں سے کروادیا۔ ٹیلی گراف اور ڈاکخانہ کے ذریعے ہمیں آپس میں بھی ملا دیا اور دنیا بھر سے بھی ۔اسی طرح اُس کی برتر سائنس اور ٹیکنالوجی نے یہاں کے بے شمار پیشوں کو ختم کردیا، اُن پیشوں سے متعلق الفاظ و استعارات اکھاڑ پھینکے۔ اُس کی نئی ٹکنالوجی نے ہماری زندگیاں اور زندگی کے طرز تبدیل کر ڈالے۔یوں، ہم اس جارح دشمن سے تلخ ترین مزاحمتی لڑائی بھی لڑتے رہے اورکلچرز کا لین دین بھی ہوتا رہا۔

انگریز سے ہماری کشت وخون بھری جنگ ِآزادی جاری تھی کہ دنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگیا۔ 1917 میں روس کے اندر انقلاب ہوا۔ وہاں سے نئے نئے گانے ترانے نعرے اور نئی باتیں آئیں:مثلاًلینن، سوشلزم، بورژوازی، پرولتاری، دنیا بھر کے مزدور ایک ہوجاؤ، اور قومی حق ِخود اختیاری وغیرہ۔ الغرض بہت بڑے فلسفیانہ سوال اپنی مخصوص ٹرمنالوجی کے لشکر کے ساتھ ہماری زبانوں اور ثقافتوں کے وسیع دامن میں آئے اور بالآخر مقامی بنے۔یوں ہر دم نکھرتا سنورتاکلچر حضرتِ انسان کی نہ صرف روز مرہ زندگی کو مربوط کرتا رہا ہے بلکہ اس کی روحانی اور ثقافتی لطافتوں کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا رہا ہے۔

اس درمیان میں اِدھرسے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر نقل مکانیاں بھی ہوتی رہیں، حملہ آوروں اور تاجروں کی آمداوررفت بھی رہی۔ یوں اثرات کا لین دین ہوتا رہا۔اوریہی لین دین توکلچر کا آکسیجن ہوتا ہے۔کلچرل لین دین بند ہو تو صرف ایک سٹیٹ منٹ دی جاسکتی ہے:”وہ آبادی تباہ ہوجاتی ہے“۔

دنیا بھر میں بالعموم، اور ہمارے ملک میں بالخصوص زبان اور کلچر محض لسانیاتی معاملات نہیں رہے۔یہاں ”زبان“ اور ”کلچر“سیاسی معاملہ ہیں۔ 21فروری نامی عالمی دن کی ولادت مشرقی پاکستان میں ہی ہوئی تھی۔ زبان اور کلچر کی بنیاد پر ہی ملک ٹوٹتے بنتے رہے،اور زبان وکلچر ہی کے نام پہ آج بقیہ پاکستان میں حشر برپا ہے۔ ہماری تاریخ دیکھیے تو یہاں ایک طرف اوپر سے زبان اور کلچر کی ون یونٹی کے احکامات آرہے تھے تو دوسری طرف ہیڑو جنٹی اور پلورلزم کا رکھوالا ساہیوال جیل میں ہتھکڑیوں جولانوں کی چھن چھن سے ون یونٹ توڑ دو کے پاک ترانے گارہا تھا۔

پھرتایکی کا ایک دور آیا۔ ارتقاکی ہماری تاریخ ایک تاریک،طویل اور گہرے کھڈ میں گر گئی۔ ہم باقاعدہ ایک پاگل قیادت میں سرد جنگ کا فعال حصہ بنا دیے گئے۔ یوں ہم خود کو دنیا کا سب سے بنیاد پرست،سب سے ملی ٹینٹ،اورسب سے دہشت گرد معاشرہ ثابت کرنے میں،مکھن ونُور سے تراشے اپنے ستر ہزار فرزند مرواگئے۔بانسری اور مویشیوں کی گھنٹیوں سے دن شروع کرنے والا معاشرہ،راکٹ لانچر کو اپنے دانت اور ناخن بنا گیا اور ”اسلام علیکم“کا شریف ترین انسانی لفظ بارودی سرنگوں سے اپنے چیتھڑے اڑوا گیا۔

اُس خارجی وحشت کو آناً فاناً داخلی قالب میسر آگیا۔میتوں کے ماتم کا قالب، فاقہ پوش اندھیری ساعتوں سالوں کا قالب، خونِ آدم سے لتھڑی سڑکوں عمارتوں کا قالب ،سرگباش ہیڑو جینٹی کی ارتھی کا قالب،ڈائی ورسٹی کے مفلڈ ڈرمز کا قالب۔ چنانچہ کوشش کی گئی کہ سکھر سے بکھر تک اور کوئٹہ سے قصور تک بس ایک ہی وردی کے ہیولے ہوں، ایک ہی چہرہ کے شاہ دولے ہوں، ایک ہی سیٹی سے روبوٹ شدہ معاشرہ مارچ پاسٹ کرے اور ایک ہی زبان کی بھنبھناہٹ ہو۔باقی ساری صندل زبانیں اپنی ثقافتی میراث کے ساتھ گُنگ اور ٹُنڈ اور مُنڈ ہوجائیں۔بس تالی بجائی جائے اور ساری ثقافتیں،زبانیں فنا ہو جائیں۔ایک ہی کالی یک رنگی نافذ ہو،حاملہ سیاہ رات سیاہی ہی کو جنتی رہے۔اور ہم سب باتیغ بے تیغ، باوسائل یا بے وسائل لپک لپک کر دنیا میں اِدھر اُدھر جھنڈے گاڑتے چلے جائیں۔ منطق حیران کہ کیا زبان نافذ کرنے والی چیز ہے؟کیا ثقافت‘نافذ کرنے والی چیز ہے؟۔دوستی‘نافذ کرنے والی چیز ہے؟۔ یک جہتی‘نافذ کرنے والی چیز ہے؟۔

لگتا ہے ایک آدھ لیڈر کے بعد ہمارے ملک پہ جِن اور بھوت حکمران رہے ہیں۔” Sub human“لوگ، واقعی ہزار سال تک گھاس کھانے کے دلدادہ لوگ۔ ایسے لوگ جو عوام الناس کی تنظیمی،اور علمی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے انہیں اُن کی قدیمی جڑوں یعنی زبانوں کلچروں سے ہی کاٹ ڈالیں۔چنانچہ یہ ہوا کہ، ہمارے خطے کی سب سے بڑی آبادی والی زبان کا مڈل کلاس اب اپنی عوامی زبان بولتا ہی نہیں۔ اُسے بہت ہنر مندی کے ساتھ اپنی جڑوں سے کاٹ دیا گیا۔ کٹی پتنگ،جسے ملّا کے لاؤڈ سپیکر کی جذباتی پھونک جہاں چاہے دھکیل دے۔

زبا ن و ثقافت ایک قوم کی با ئبل ہو تی ہیں۔ یہ اُس کا نمک، ذائقہ، اوراُس کی شا ن شنا خت ہوتی ہیں، اُس کی مر کزی موٹی جڑ وں میں سے ایک ہوتی ہیں۔ کلچر کسی قوم کے دل کا ساحل ہو تا ہے۔ یہ کسی قوم کی زندگی کا وہ vital organ ہوتا ہے جو قوم کی موت کی صورت میں بھی سب سے آخر میں مرتا ہے۔تصور تو کیجیے کہ80سال تک ہمارے سماج کا بااثر degeneratedحلقہ موسیقی، ڈانس اور پرفارمنگ آرٹ کے خلاف نفرت پیدا کرتا رہا۔ مگر وہ اِن کوششوں میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا۔ اس لیے ناکام ہوا کہ ہمارے کلچر کا غذی نہیں ہیں، مصنوعی نہیں ہیں اور ریاستی نہیں ہیں۔ ہمارے زندہ کلچرز، اپنی زمین میں پیوست،اور عوامی ہیں۔ ہمارے کلچرز اور زبانوں نے تبدل پذیر رجحانات سے نمٹا ہے۔تاریخ کے پورے دور انیے میں وہ ڈیمو گرافکس، ٹکنالوجی، گلوبلائزیشن اور اس کے ویلیو سسٹم سے کامیابی کے ساتھ معاملات کرتے آرہے ہیں۔

چنانچہ ہمارا کلچر اس قدر مضبوط و تو اناہے کہ اسے کسی طرح بھی احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے کسی ”نفا ذ تحر یک“ اور کسی ”تفہیم تحر یک“ کی ضرورت نہیں ہے۔نہ اسے ”مقتدرہ“ بننے بنانے کی محتاجی ہے۔

دنیا کا ہرکلچر انسانوں میں رابطے کا ذریعہ ہے۔ نہ کسی کی لاف زنی سے کوئی کلچر مقدس گائے بن جاتا ہے اور نہ کسی کے کہنے سے کوئی کلچر دریا برد ہوسکتا ہے۔

یوں آج اکیسویں صدی کے پوسٹ ٹکنالوجی عہد میں دنیا بھر کے کلچر ز باہم بہت ہی قریب آگئے۔ مگر اس کے باوجود ہر کلچراپنی قومی خصوصیات کے فریم کے اندر سلامت وموجود ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم

حالیہ برسوں میں ایک اور بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اب کلچر، تعلیم، صحت، زراعت، صنعت اور دیگر بے شمار شعبے وفاق کے پاس نہیں بلکہ صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔باقاعدہ آئین میں ترمیم کر کے ایسا ہوا ہے۔ پاکستان کے اندر آئینی طور پر کلچر کا محکمہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ لہذا صوبے ہی اپنے عوام کی کلچرل سرگرمیوں اور اس کے مستقبل کو فطری اور مثبت سمت میں رواں رکھنے کی پالیسی بنانے کے ذمے دار ہیں۔ بلوچستان کی حکومت ابھی تک ایسا نہ کرسکی۔ نہ ہی حکومت سے باہر سیاسی پارٹیاں، ثقافتی یاادبی ادارے اس طرف توجہ دے سکے ہیں۔

اور اس بات کو آٹھ دس سال ہوگئے ہیں۔مگر بلوچستان کی صوبائی حکومت کے پاس اپنی کلچرل پالیسی نہیں ہے۔ جی ہاں،اُس چیز کے بارے میں حکومت ِبلوچستان کے پاس کوئی پالیسی نہیں جو زندگانی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔

اوریہی حال ہماری سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔

یہ محض غفلت نہیں ہے۔ یہ تباہ کن لاپرواہی ہے۔ ہم سب لوگ جائز طور پر اپنی محرومیوں پس ماندگیوں کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیتے رہے ہیں۔ اس لیے کہ سارے محکمے اُسی کے پاس تھے۔ گوکہ اب ظاہری نہیں تو خفیہ طور پر وفاق ہی صوبوں کو چلا رہا ہے مگر کم از کم بظاہر، اور آئینی طور پر اب پیراڈائم بدل چکا ہے۔ دانشوروں کو اب اپنی صوبائی حکومت کے سامنے صف آرا ہونا پڑ رہا ہے۔مگر جب آپ اکیسویں صدی میں ایک صوبے کے اندر رہتے ہیں تو وہ صوبہ اپنے شہریوں کے لیے ”کلچرل پالیسی“بناتا ہے۔ یہ کلچرل پالیسی اُس صوبے کے شہریوں کے کلچر کو محفوظ رکھنے، اُس کے ارتقا کے امکانات کو وسعت دینے اور اُس میں انسانی، حیاتیاتی اور ماحولیاتی بقا کے اجزا شامل ہوتے رہنے کی خصوصیات کو سہولتیں دینے کے لیے راہنمائی مہیا کرتی ہے۔ آج دنیا کی کوئی حکومت ایسی نہیں جس کی کوئی کلچرل پالیسی نہ ہو۔

یہ ساری لڑائی ادیب دانشور کی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ صوبائی حکومت کلچرل اعتبار سے خود بہت زیادہ پسماندہ ہے۔ یہاں کی،حکومتیں شاید مکمل طور پر عوام کا انتخاب بھی نہیں ہیں، یہ بھی درست ہے کہ نظام ایسا ہے کہ حکومتیں عوامی بجٹ چاٹتی رہیں، خود سیاست کو کارِ گناہ ثابت کرتی رہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاستی ڈھانچہ ایسا ہے کہ سارے اہلکار کرم خوردہ ذہن والے ہیں، رشوت زدہ جیبوں کے مالک ہیں۔

اس لیے بلوچستان کے معاشرے کو اکیسویں صدی میں کلچر کے ہر شعبے سے متعلق بہت بحث شدہ متفقہ پایسی کی ضرورت ہے۔ہمیں انسان دوست اور زندگی کو بقا بخشنے کی کلچرل پالیسی تشکیل دینی ہوگی۔ ہم اپنے دانشوروں،کلچرل تنظیموں،اداروں سے اس طرف پہل کاری کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ کلچرل پالیسی کی تشکیل ایک سنجیدہ اور وسیع البنیاد کاوش کا تقاضا کرتی ہے۔ اِسے ایک فرد، ایک ڈائریکٹر،یا چند بابوؤں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

کچھ معروضات ہم پیش کرتے ہیں:

۔ 1۔ اگر ہم نے جدید علوم اور ٹکنالوجی کو اپنے کلچر میں نہیں سمویا تو اس کو تاہی کی سزا پورے مستقبل کو ملے گی۔ عقل وشعور کا تقاضا ہے کہ ہمیں اس ضمن میں تغافل کے بجائے توجہ،اور تساہل کے بجائے مستعدی سے کام لینا چاہیے۔

جوبات صحیح نہیں ہے اور جس پر ہمیں برہم ہونا چاہیے وہ یہ مفروضہ ہے کہ ہمارے لیے اس صورتحال پر قناعت کرنے کے علاوہ چارہ نہیں۔ یا یہ کہ ہمارے ذہن، ہمارے علوم، ہماری زبانیں، ہماری معاشرت میں ترقی اور اصلاح کی گنجائش ہی نہیں۔لہذازبان اور کلچر کی ترقی کے لیے آج ماڈرن ٹولز کے استعمال کی ترغیب دینا لازمی فریضہ ہے۔

۔ 2۔ ہر شعبے سے متعلق ڈاکو منٹیشن کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ہمیں دستیاب ہرا شاعتی ونشریاتی اوزار سے اپنے کلچر اور اس کی diversity کی اہمیت اجاگر کرنے کی پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں کرافٹس، زبانوں،اورکلچرل جگہوں کی ہمہ وقت حفاظت وآرائش پہ مبنی پالیسی بنانی ہوگی۔ صوبائی حکومت پہ زور دینا ہوگا کہ آرٹ اور ایجوکیشن ہی، ہمیں انسانی حدود میں رکھتے ہیں۔یہ ایجوکیشن مادری زبانوں میں ہو اور سائنسی ہو۔صوبائی حاکموں کو قائل کرنا ہوگا کہ صوبے میں آرٹ گیلریوں کا قیام ضروری ہے۔اور یہ بھی کہ ہمارے بچوں کو آرٹس کی تاریخ پڑھانا انہیں انسان بنانے کے مترادف ہوگا۔

3۔ بلوچستان میں بے شمار آرکیالوجیکل سائٹس ہیں۔اُن کا تحفظ اہم ترین اور فوری فریضہ ہے۔ خزانہ کی تلاش تو پرانا قصہ ہوچکا۔اب تو یہ ہورہا ہے کہ آرکیالوجسٹ جس ملائمت سے، اورسالوں تک اپنے پلکوں سے، زمین کو محض کھجانے کی حد تک کھودتے رہتے ہیں، ہمارے کاشتکار اُسی بے بہا اور ثقافتی تاریخی خزانوں سے بھری زمین پہ بلڈوزر چلا چلا کر، وہاں کی مٹی پالک او رمولی کے کھیتوں کی کھاد کے بطور لے جارہے ہیں۔ ہمیں آرکیالوجی کے مقامات کی حفاظت اور پروموشن کی پالیسی بنانی ہوگی۔اِن سائٹس پہ توریسرچ سنٹر، اورآڈیووژوئل سہولتوں سے مسجع ٹیچنگ اور گائیڈ نگ کی سہولتیں میسر ہوں۔سمجھناہوگا کہ مہرگڑھ کی حفاظت صرف اپنے صوبے اور خطے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ اسے کل جہان کی مشترکہ کلچرل میراث کے بطور سنبھالنا ہوگا۔

۔ 4۔ اسی طرح مائتھالوجی کے عظیم ترین مراکز ہمارے ہاں موجود ہیں۔ عملی طور پر،ہر ڈویژن میں ایک ہنگلاج موجود ہے۔اب تک تو عام آدمی مائتھالوجی کے اِن سرچشمہ مقامات کی حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔مگر اکیسویں صدی میں یہ کام ایک منظم ریاست کا ہوتا ہے۔حکومتوں کا ہوتا ہے۔اب حکومت کو مجبور کیا جائے کہ مائتھالوجیکل مقامات کی حفاظت اور وہاں سیاحوں سائنس دانوں اور محققوں کو تمام ضروری سہولتیں مہیا ہوں۔

۔ 5۔ جنگلی حیات دنیاوی فوائد کے علاوہ حسن و دلکشی کا ایسا سامان ہیں کہ جنہیں شکاریوں کی بندوقوں کی خوراک نہیں بنایاجاسکتا۔ غزل اور غزال سب ادب سے اٹھ جائے گا، اگر آپ کے بچے آہو اور فاختہ، کنجشک اور شاہین سے ناواقف رہیں گے۔

۔ 6۔ ساحلی اور سیاحتی مناظر اس قدر دیدہ زیب ہیں کہ پوری دنیا کے سیاحوں کا رخ یہاں موڑا جاسکتا ہے۔دنیا میں پرنسس آف ہوپ ایک ہی ہے اور اُس کے مالک ہم ہیں۔

۔ 7۔ عورتیں کلچر کاایک خزانہ رہی ہیں اور کئی روایتوں، نغموں،اور کرافٹ میکنگ کی محافظ رہی ہیں۔محنت کش عورت کی پاک تخلیقی انگلیوں کی برکت سے کشیدہ کاری اور قالین بافی میں ہم دنیا کی سربراہی کرنے والا علاقہ ہیں، ہمیں اپنی یہ حیثیت بالکل کھودینی نہیں چاہیے۔ہماری صوبائی حکومت کو اِن عورتوں کو سہولتیں دینی ہوں گی۔ اُن کے حالات کارِ بہتر بنانے ہوں گے۔اور اُن کے پراڈکٹس کی مارکٹنگ کرنی ہوگی۔

۔ 8۔ ہمارے آرٹسٹوں، دستکاروں، محنت کشوں اور اکیڈمیشنوں کواعلیٰ ترین سہولتیں فراہم ہوں۔ ان کے پاس اکیڈمیاں ہوں۔ اُن کی تخلیقات کی تشہیرو ترسیل کے مواقع ہوں اور انہیں بڑے پیمانے پہ باہم ملنے اور مباحث و تبادلہ ِ خیالات وتجربات کی سہولتیں میسر ہوں۔ اُن کے نام کی شاہراہیں،عمارتیں،میوزیم اور لائبریریاں ہوں۔ اُن کے نام پہ ڈاک ٹکٹیں ہوں۔

۔ 9۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک اور کام ہمیں حکومت سے کرانا ہوگا۔ وہ یہ کہ بلاشبہ وہ اپنے صوبے میں اکثریتی زبان اور کلچر کو سرکاری قرار دیں مگر وہاں بسنے والے دوسرے گروہوں اور قوموں کی ثقافت اور زبان کی ترقی کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ ہمیں اپنے اپنے صوبے میں یہ بات زور دے کر کرنی ہوگی کہ تنوع اختلاف نہیں ہوتا۔ہمیں نظر انداز شدہ اور اقلیتی کمیونٹیوں کے کلچر کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ہمیں endangeredکلچروں، کلچرل سائٹس، گرافٹس اور زبانوں کی حفاظت کرنی ہے۔ہمیں اپنے ہاں کے pluralisticچہرے کو فروغ دینا ہوگا۔

کسی بھی معاشرے میں یک جہتی کاایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ وہاں فراواں معاشی مواقع کے بعد وہاں موجود تمام ثقافتوں اور زبانوں کو ترقی کی بے پایاں سہولتیں حاصل ہوں۔ ایک زبان اور کلچر کو کبھی یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ دوسری زبان اور کلچرکو کہنی مار ے اور اُسے اپنی ترقی کے جہداں قدموں کی گردمیں دفن کرنے کی کوشش کرے۔ زبانوں اور کلچروں کے بیچ جمہوری تعلقات کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔کلچرز نہ تو فرمائشوں کے ذریعے دوسرے کلچرز سے تعلقات بناتے ہیں اور نہ رکاوٹوں پابندیوں کے ذریعے دوستیاں بنانے سے رک سکتے ہیں۔ ایک کلچر اپنے اڑوس پڑ وس کے کلچرز کابہتر ین دوست ہوتا ہے، برابر والا، شان، اور،وقار والا دوست۔

آپ کلچر لی فوت اُس وقت ہوں گے جب فیض بلوچ آپ کے البم میں نہ رہے گا۔ جس دن سچو بگٹی کے سریندا کو آرکسٹر ا میں شامل نہ ہونے دیا جائے گا وہی دن آپ کے پورے کلچر کی وفات کا دن ہوگا۔بیرونی ثقافت آپ کو تب نگل لے گی جب آپ ” لئے لٹری“ اور کاکڑی غاڑ گانا بند کریں گے،اُس دن کلچر ل بربادی آنی یقینی ہوجائے گی جب یہاں کی فضاؤں سے ”دانہ پہ دانہ“کا رقص بھرا گانا غائب ہوگا۔ یہ بھی ہے کہ جس دن آپ کے کلچرل آسمان پہ عورتوں کی فعال اور تخلیقی موجودگی ختم یا کم ہوگی سمجھو آپ کی موت واقع ہوچکی ہوگی۔ اور جس روز آپ نے اپنے نوجوانوں کو کلچر کے تحفظ، منتقلی اور ترقی کا سٹیک ہولڈر سمجھنا بند کردیا وہی دن آپ کے ثقافتی غلامی کے مسودے پر دستخط کرنے کا دن ہوگا۔ مختصر یہ کہ جس دن بلوچستان کو حاصل سب سے بڑی نعمت یعنی اس کی diversityخطرے میں ڈال دی گئی،سمجھو اس کی خوبصورتی کی سا لمیت خطرے میں پڑ گئی۔

زور زبردستی سے انسانی تسلیم شدہ اصولوں کو تا ابد ختم نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب گواہ ہیں کہ جب بھی یہاں کی مادری قومی زبانوں کی تر قی کی بات چلی تو، پی ایچ ڈی لیول کے ہزاروں شاونسٹ لوگوں نے اُسے”اپنی زبان کے جناز ے کو دھوم سے نکلنے“پر محمول کیا۔انہوں نے ایک فرضی جنازے کے خوف سے کتنے اصلی جنا زے نکلوادیے۔چنانچہ مشرقی پاکستان جنازوں کی بارات میں، الگ ہوگیا۔ بقیہ پاکستان آج تک غیر فطری جنازوں کے اندر کوئی کمی نہیں پیدا کر سکا۔وحشت کی دراز رسی ختم ہونے کو نہیں آتی۔مگر، ہم نے دیکھا کہ غُل مچانے سے لوگوں نے اپنی پالن ہار ثقافتوں کو طلاق نہیں دی۔ اپنی بقا کے لئے ہماری زبانیں اور کلچرز محسوس اور غیر محسوس دونوں طریقوں سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ایک ایک انچ کی پیش قدمی،کئی کئی سر کھاتی گئی۔یاد رکھیے،ایک غیر جمہوری قدم دس مزید غیر جمہوری اقدامات کا سامان کرتا ہے۔

۔ 10۔ ہمیں وژوئل آرٹس، فولکلور،میوزک، پرفارمنگ آرٹس، اور روایتی کلچر کو ترقی دینے کی پالیسی ڈرافٹ کرنی ہوگی۔

۔ 11۔ نوجوانوں میں کلچرل اصولوں اور ترجیحات کو مقبول بنانااُس کلچرل پالیسی میں اہم مقام رکھے۔

۔ 12۔ ہمیں اپنی عام روز مرہ گفتگو میں اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔آج جو شخص بھی یہاں کے لیے صرف، ”ایک“قومی زبان، یا ”ایک“قومی ثقافت کا لفظ استعمال کرتا ہے وہ دراصل یہاں کی خوبصورت ہیٹروجنیٹی کو ملیامیٹ کررہا ہوتا ہے۔ پھر ایک اور لفظ تو انتہائی تذلیل کرنے والا اور درندہ لفظ ہے: ”علاقائی زبان، علاقائی ثقافت“۔ اِس گھٹیا لفظ کا استعمال،ایک گھناؤنا جرم ہے جو یہاں زبانوں کی بہت بے عزتی ہے۔ہمیں تحریری طورپرمصنوعی طریقے سے مقبول کردہ اس اصطلاح کو مسترد کرتے رہنا ہوگا۔

۔ 13۔ ایک اور غلط تصور کے مٹا دینے کی کوششیں بھی ضرورکرنی ہوں گی۔ ہم آپسی تعلق بنانے میں ہمیشہ انتہا پسند ہیں۔ دشمنی میں ہمارا قہر بے پایاں ہوتا ہے، اور دوستی میں ہمارا مہر نا قابل برداشت ہوتا ہے۔ ہم یا تو آپس میں تلواروں کی نوک سے بات کرتے ہیں یا پھر ”تو من شدی اورمن توشدم“کی انتہا والاپیار کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔کلچر اورزبانوں کے آپسی لین دین کا مطلب اُن کا انضمام ہر گز نہیں ہے۔سرائیکی زبان بلو چی نہیں بن سکتی اورپشتو کو سندھی نہیں بننا چاہیے۔

ہمارے کلچرز اور ہماری زبانوں کو تو اُن اچھے پڑوسیوں کی طرح ہونا چاہیے کہ جس گھر میں اچھا پکے درمیانی دیوار کے اوپر سے پڑوسنوں کے مقدس ہاتھوں کا لین دین جاری رہے۔

۔ 14۔ ایک اور حوالے سے بھی یہاں دوا نتہائیں رہی ہیں۔ ہم یا تو اپنی زبان و ثقافت کو خالص رکھنے کی تحریک چلارہے ہوتے ہیں یا پھر دوسری انتہا پر،پینڈ و اور پسماندہ سمجھ کر اُسے بالکل ترک کردینے کی خواہش کرتے رہتے ہیں۔ یہ خالصی بے خالصی کا دعوی تو انتہائی نامعقول دعوی ہے۔ کوئی بھی زبان اور ثقافت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ محض اپنے رہنے والوں کے اٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ ہے اور اس نے آس پاس سے کوئی اثر نہ لیا۔ زبان و ثقافت کا قدیم‘ ہمہ وقت جدید ہوتا جا تا ہے۔ ناتواں عناصر نوزائیدہ کو جگہ دیتے دیتے خود فوت ہوتے جاتے ہیں۔یہی تو وہ خاصیت ہے جو کسی کلچر کو مرنے نہیں دیتی۔خود عوام کو دیکھیے، وہ تو اِن چکروں میں نہیں پڑتے۔ دانشور کے برعکس عوام آزادانہ طور پر ثقافتی لسانی لین دین کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ،ترقی کے مظاہر کو رد کرکے خالصی کے نام پہ ماضی کے احیا کا نعرہ لگا نا انسان د شمنی ہے۔ہمیں اِس معاملے میں ہمہ وقت چوکس رہنا ہوگا۔

اسی طرح اپنی ثقافت اوراپنی زبان کو یکسر مسترد کرکے،دوسرے کے تلوے چاٹنا بدترین غلامی ہے۔ ویسے بھی ثقافتوں کے اندر، دوسرے لسانی ثقافتی مظاہر کو خوش آمدیدکہنے کی بڑی گنجائش ہوتی ہے۔کلچر کے اندر ترقی کرتے رہنے کی شدید امنگ موجود رہتی ہے۔

۔ 15۔ یہ بات درست ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی،وحشی کیپٹلزم کے ذریعے ہم تک آرہی ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیاں گردنیں دبوچ دبوچ کرسماجوں کواپنے قالب میں ڈھا لتی جاتی ہیں۔ کارپوریٹ دنیاابھی بہت کچھ کرے گی۔ ٹکنالوجی ابھی بہت کرتب دکھائے گی۔ بس، کلچر وہی زندہ رہے گا جوچوکھاٹ تو اپنی رکھے گا مگر سائنس و ٹکنالوجی کو اپنی روح میں جذب کرنے کے لیے کھڑ کیاں روشن دان ہمہ وقت کھلے رکھے گا۔پہلے بھی ایسا تھا، مگر آج تو بالکل ایسا ہے کہ ٹکنالوجی اب نواب،سردار اور چودھری کی فرمائش پہ آمدو رفت نہیں کرتی۔ نہ ہی یہ دانشور کی مرضی سے اپنا ڈوز کم یا زیادہ کرنے کی محتاج ہے۔ ہماری زبانوں ثقافتوں کو خود میں اتنی جان اور صلاحیت پیدا کرنی ہوگی کہ وہ ضروری اور غیر ضروری کی تمیز کرکے، ضروری کا استقبال کریں اور نقصان ِدہ کو چھانٹ کر رد کرنے کی تدابیر کریں۔

مگر جو مزیدار بات ہے وہ یہ ہے کہ نیا دورجوبھی اچھی چیز یں لارہا ہے اُن میں زبان وثقافت کے بارے میں ہر طرح کے شاونزم کی شکست کا اعلان شامل ہے۔پدرم سلطان بود والا فقرہ آؤٹ آف کورس ہوچکا ہے۔اکیسویں صدی اُن سب لوگوں کے لیے شکست کا پیغام لارہی ہے جنہوں نے برتری و روحانیت و خالصیت کے شیش محل بنانے چاہے تھے، اور وہ اُسی شیش محل سے بلوچستان کی سنگین گردن کو دبوچے جارہے تھے۔ ہم ان کی مزید شکستیں دیکھیں گے۔ہمیں توسیع پسندوں، شاونسٹوں اور کلچر کو منجمد رکھنے والوں کی اِس شکست کو خوش آمدید کہتے رہنا چاہیے۔

۔ 16۔ ہماراسماج سخت خطرات میں گھراہوا ہے۔ ایسے بدبخت سکراتی خطرات جو نہ ٹل رہے ہیں اور نہ ہی مر رہے ہیں۔ اور یہ خطرات نہ تو حادثاتی ہیں، اورنہ ہی عارضی ہیں۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ پندرھویں صدی سے لے کر آج تک،ہمارے سماج کو مسلسل پند رہ ماہ بھی چین کے نصیب نہیں ہوئے۔ فطری خطرات کے خلاف تو ساری انسانیت لڑ رہی ہے ہم بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مگر ہمارا سماج تو اضافی جھمیلوں کا شکار بھی ہے۔ ہمارا سمندر،اُس کی معدنی دولت اور جغرافیائی لوکیشن دورو نزدیک کے چیلوں کرگسوں کو کھینچ کھینچ کر ہم پہ حملہ کراتی ہیں۔اورسرد جنگ اصل میں تو یہاں، ہمارے خطے میں لڑی گئی۔ فیوڈل کی، حیاسے مبرا زبان جو مرضی اصطلاحات گھڑلے مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم حتمی طور پرآج کپٹلزم کے ساتھ نتھی ہیں۔ اور اسی سرمایہ داری نظام کے تضادات کا شکار ہیں۔ہماراپورا سماج ہمہ وقت بھو نچال زدگی میں ہے۔اور اس بھونچا ل کا سب سے بڑا نشانہ ہماری زبا ن اور ثقافت ہوتے ہیں۔ ہر نئی ایجاد الفاظ کا پورا بریگیڈ ہماری زبانوں کی تھالی میں لاپٹختی ہے۔ ہر نئی ٹکنالوجی ہمارا لباس اور وضع قطع تو کیا ہماری جسمانی ساخت تک میں تبدیلیاں لاگو کرتی جاتی ہے۔

تو پھر کیا کیا جائے؟۔ دنیا کی قدیم تر ین تہذیب کو قر بان کر دیا جائے؟۔اپنے وسیع ذخیر ہ الفاظ سے دستبردارہوا جائے؟۔صد یوں کے مشاہدات وتجربات سے سینچے گئے محاوروں اور ضر ب لامثال سے لا دعوی ہوا جائے؟۔مظبوط کلچر ل بنیادوں پہ کھڑی کسی ایک ثقافت اور زبان کا اس لئے بلیدان دیاجائے کہ اُسے امروزکا انفراسٹر کچرمیسر نہیں؟۔نہیں۔ پریشان نہ ہونے کی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا میں عوام نہیں،حکومتیں پسماندہ ہیں۔ اسی لیے عوام کے کلچر کو کوئی خطرہ نہیں،حکومتی پسماندہ کلچرخطرے میں ہے۔ خطرہ ہے جاگیرداری طُرہ کلچر کو، خطرہ ہے سردار کے باڈی گارڈوں بھرے پجارو کلچر کو، عورتوں کوکاروکاری کے بہانے قتل کرنے اورغلام رکھنے والے پدرسری کو۔ عوامی کلچر تو جشن منائے کہ اُسے ترقی کے بے شمار متبادل میسر ہوئے ہیں۔ اب محض ٹرسٹ کے اخبارات اور سرکاری ریڈیو کی اجارہ داری نہیں ہے۔اب انفارمیشن ٹکنالوجی کے عطا کردہ بے شمار ذرائع موجود ہیں جہاں ہماری عوامی ثقافتیں اپنی بقا اور ترقی کے مواقع دیکھ سکتی ہیں۔آٹو موبائل، سپیس ٹکنالوجی ، الیکٹرانکس، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے ہماری دنیا بدل کے رکھ دی۔ایسی سائنسی دنیا میں،ثقافتوں کی معدومیت کا مفروضہ اب باقی نہ رہے گا۔

جس طرح آج کی ہماری زبا نیں اور ثقافتیں وہ نہیں جو پندرھویں صدی میں ہوا کرتی تھی،اسی طرح یہ وہ بھی نہیں رہیں گی جو آج اکیسویں صدی میں ہیں۔کلچر پالیسی میں لکھنا ہوگا کہ:کلچر پراسیس کے دوران دوسرے گروہوں لسانی،نسلی،فکری یا جغرافیائی اشتراک ولین دین کرتے رہتے ہیں۔یہ ثقافتوں کے اندر کی ایک زندگی بخش، اِن بلٹ خصوصیت ہے۔ بدبخت ہے جو اسے اس زبردست خصوصیت سے محروم کرنے کی کوشش کرے۔

۔ 17۔ ایک اور اہم موضوع کے بارے میں بھی بات ہونی چاہیے۔وہ یہ کہ دنیا کے ارتقا، اس میں موجود فکری اختلاط اور سماجی معا شی سیاسی انقلابات میں متر جمین اور کلچر ل سفیروں نے ایک اہم کرداراداکیا۔غور کیجئے تراجم نہ ہوتے تو کوانٹم تھیوری کا کیا بنتا؟،بگ بینک اور بلیک ہولز کے بارے میں معلومات کہا ں سے میسر ہوتیں؟۔جنیٹکس صحرا ؤ ں سمندروں میں پیا س سے نہ مر جاتا؟۔ انسان ایک ٹکنالو جیکل جاندار ہے۔اور سائنس اُس کی سب سے بڑی مصروفیت ہے۔ سائنس کا کلچر اور مزاج اجتماعیت والے ہیں، تعاونی ہیں،اور ابلاغی ہیں۔ ترجمہ ہر سائنسی سماجی تحقیق اور اس کے نتائج کو مقامیاتا ہے۔ کسی بھی نعرے اور بہانے سے فلسفہ، سیا ست اور سا ئنسی تحقیقات کے نتا ئج کو خارجی رکھنا انسانیت کے خلاف جر م ہوتا ہے۔ یا د رکھیے سائنس قو می نہیں ہو تی، اب تو ٹکنا لوجی بھی قو می نہیں رہی۔سارے علم اور علمی مظاہر سا رے انسا نو ں کی میراث ہیں۔ بلو چی تھیر یم میرا ہے،مگر یہ عالمی بھی ہے،، مہر گڑ ھ کے آثا رہمارے ہیں مگر اُن سے اخد شدہ نتا ئج اور سا ئنسی علم ہمارے ہی نہیں بین الاقوامی بھی ہیں۔دنیا کا جدید ترین شہر شنگھائی چینیوں کا ہے مگر وہاں نت نئے تجربے اور اسباق کُل لولاک کی ملکیت ہیں۔

چنانچہ ایکسچینج ٹرانسفیوژن محض علاج نہیں ہے، یہ ہماری نئی دنیا کی فزیالوجی کا حصہ بن چکا ہے۔ زبان وثقافت کو نئے نئے عناصر سے مالا مال ہوتے رہنا چاہیے۔ زبان وثقافت میں وسعت کو کبھی بریک نہیں لگتی۔کلچرل ایکسچینچ ہمیں اورہماری زبانوں کو کمزور نہیں بناتا بلکہ انہیں سائنس، آرٹ اور کلچر کی ترجمانی کے لیے قوی بناتا ہے۔انھیں لپکنے جھپٹنے کے لیے لچکدار بناتا ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ ثقافتی درامدات کبھی بھی محض فوٹو سٹیٹ نہیں ہوتیں۔ یہ آپ کی تخلیقیت کو ورزش کر اکر، تنو مند بنا کر ایک اور وارئٹی پیدا کراتی ہیں۔اُ س کی زند گی کو طو یل بنا تی ہیں۔

حوالہ جات

۔1۔ فیض،احمد فیض۔میزان 2012۔اردو اکیڈمی سندھ۔ کراچی۔ صفحہ 155

۔2۔ احمد سلیم۔ نثرِ ساحر۔2006۔ دانیال۔ صفحہ 100

۔3۔ فیض،احمد فیض۔میزان 2012۔اردو اکیڈمی سندھ۔ کراچی۔ صفحہ 38

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*