مسافرت

کسی ساحل کنارے دو لکیریں کھینچ لیں ہم تم
تم اک تصویر مٹّی سے بنا لینا
پرانی نظم لکھّوں گا میں لہروں سے

ہواوں کو تم اپنی یاد کی چادر میں بھر لینا
چراغوں کو میں اپنے درد کا مونس بنا کر ساتھ چل دوں گا
یہی بَس چار دن کی عیش و عشرت ہے
یہی اپنی خزاں ہے اور پھولوں کی یہی رت ہے
یہی دوزخ ہے ، جنّت بھی
یہی اپنی مسافت ہے
یہی ہے زندگی اپنی

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*